(مرفوع) حدثنا إبراهيم بن المنذر، حدثنا ابو ضمرة، حدثنا موسى بن عقبة، عن نافع، قال:" اراد ابن عمر رضي الله عنهما الحج عام حجة الحرورية في عهد ابن الزبير رضي الله عنهما، فقيل له: إن الناس كائن بينهم قتال ونخاف ان يصدوك، فقال: لقد كان لكم في رسول الله اسوة حسنة سورة الاحزاب آية 21، إذا اصنع كما صنع، اشهدكم اني اوجبت عمرة حتى إذا كان بظاهر البيداء، قال: ما شان الحج والعمرة إلا واحد، اشهدكم اني قد جمعت حجة مع عمرة، واهدى هديا مقلدا اشتراه حتى قدم فطاف بالبيت وبالصفا، ولم يزد على ذلك ولم يحلل من شيء حرم منه حتى يوم النحر، فحلق ونحر وراى ان قد قضى طوافه الحج والعمرة بطوافه الاول , ثم قال: كذلك صنع النبي صلى الله عليه وسلم".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا أَبُو ضَمْرَةَ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ:" أَرَادَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا الْحَجَّ عَامَ حَجَّةِ الْحَرُورِيَّةِ فِي عَهْدِ ابْنِ الزُّبَيْر رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّ النَّاسَ كَائِنٌ بَيْنَهُمْ قِتَالٌ وَنَخَافُ أَنْ يَصُدُّوكَ، فَقَالَ: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ سورة الأحزاب آية 21، إِذًا أَصْنَعَ كَمَا صَنَعَ، أُشْهِدُكُمْ أَنِّي أَوْجَبْتُ عُمْرَةً حَتَّى إِذَا كَانَ بِظَاهِرِ الْبَيْدَاءِ، قَالَ: مَا شَأْنُ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ إِلَّا وَاحِدٌ، أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ جَمَعْتُ حَجَّةً مَعَ عُمْرَةٍ، وَأَهْدَى هَدْيًا مُقَلَّدًا اشْتَرَاهُ حَتَّى قَدِمَ فَطَافَ بالبيت وَبِالصَّفَا، وَلَمْ يَزِدْ عَلَى ذَلِكَ وَلَمْ يَحْلِلْ مِنْ شَيْءٍ حَرُمَ مِنْهُ حَتَّى يَوْمِ النَّحْرِ، فَحَلَقَ وَنَحَرَ وَرَأَى أَنْ قَدْ قَضَى طَوَافَهُ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ بِطَوَافِهِ الْأَوَّلِ , ثُمَّ قَالَ: كَذَلِكَ صَنَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوضمرہ نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ابن زبیر رضی اللہ عنہما کے عہد خلافت میں حجۃ الحروریہ کے سال حج کا ارادہ کیا تو ان سے کہا گیا کہ لوگوں میں باہم قتل و خون ہونے والا ہے اور ہم کو خطرہ اس کا ہے کہ آپ کو (مفسد لوگ حج سے) روک دیں، آپ نے جواب میں یہ آیت سنائی کہ ”تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔“ اس وقت میں بھی وہی کام کروں گا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا۔ میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے اوپر عمرہ واجب کر لیا ہے، پھر جب آپ بیداء کے بالائی حصہ تک پہنچے تو فرمایا کہ حج اور عمرہ تو ایک ہی ہے میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ عمرہ کے ساتھ میں نے حج کو بھی جمع کر لیا ہے، پھر آپ نے ایک ہدی بھی ساتھ لے لی جسے ہار پہنایا گیا تھا۔ آپ نے اسے خرید لیا یہاں تک کہ آپ مکہ آئے تو بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کی، اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کیا جو چیزیں (احرام کی وجہ سے ان پر) حرام تھیں ان میں سے کسی سے قربانی کے دن تک وہ حلال نہیں ہوئے، پھر سر منڈوایا اور قربانی کی وجہ یہ سمجھتے تھے کہ اپنا پہلا طواف کر کے انہوں نے حج اور عمرہ دونوں کا طواف پورا کر لیا ہے پھر آپ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی طرح کیا تھا۔
Narrated Nafi`: Ibn `Umar intended to perform Hajj in the year of the Hajj of Al-Harawriya during the rule of Ibn Az- Zubair. Some people said to him, "It is very likely that there will be a fight among the people, and we are afraid that they might prevent you (from performing Hajj)." He replied, "Verily, in Allah's Apostle there is a good example for you (to follow). In this case I would do the same as he had done. I make you witness that I have intended to perform `Umra." When he reached Al-Baida', he said, "The conditions for both Hajj and `Umra are the same. I make you witness that I have intended to perform Hajj along with `Umra." After that he took a garlanded Hadi (to Mecca) which he bought (on the way). When he reached (Mecca), he performed Tawaf of the Ka`ba and of Safa (and Marwa) and did not do more than that. He did not make legal for himself the things which were illegal for a Muhrim till it was the Day of Nahr (sacrifice), when he had his head shaved and slaughtered (the sacrifice) and considered sufficient his first Tawaf (between Safa and Marwa), as a (Sa`i) for his Hajj and `Umra both. He then said, "The Prophet used to do like that."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 26, Number 766
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1708
حدیث حاشیہ: اس روایت میں حجۃ الحروریہ سے مراد امت کے طاغی حجاج کی حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کے خلاف فوج کشی ہے۔ یہ73ھ کا واقعہ ہے، حجاج خود خارجی نہیں تھا لیکن خارجیوں کی طرح اس نے بھی دعوائے اسلام کے باوجود حرم اور اسلام دونوں کی حرمت پر تاخت کی تھی۔ اس لیے راوی نے اس کے اس حملہ کو بھی خارجیوں کے حملہ کے ساتھ مشابہت دی اور اس کو بھی ایک طرح سے خارجیوں کا حملہ تصور کیا کہ اس نے امام حق یعنی حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کے خلاف چڑھائی کی۔ حجۃ الحروریہ کہنے سے ہجو اور خوارج کے سے عمل کی طرف اشارہ مقصود ہے۔ خارجیوں نے 64ھ میں حج کیا تھا، احتمال ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے ان ہر دو سالوں میں حج کیا ہو۔ باب اور حدیث میں مطابقت یوں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر نے راستہ میں قربانی کا جانور خرید لیا اور عمرہ کے ساتھ حج کو بھی جمع فرما لیا اور فرمایا کہ اگر مجھ کو حج سے روک دیا گیا تو آنحضرت ﷺ کو بھی مشرکوں نے حدیبیہ کے سال حج سے روک دیا تھا اور آپ ﷺ نے اسی جگہ احرام کھول کر جانوروں کو قربان کرا دیا تھا، میں بھی ویسا ہی کرلوں گا، مگر حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے ساتھ ایسا نہیں ہوا بلکہ آپ نے بروقت جملہ ارکان حج کو ادا فرمایا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1708
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1708
حدیث حاشیہ: (1) یہ عنوان معمولی سے لفظی اختلاف کے ساتھ پہلے گزر چکا ہے۔ (باب: 105) ۔ اس میں صرف قربانی کو قلادہ ڈالنے کا اضافہ ہے، یعنی ضروری نہیں کہ قربانی کے جانور کو گھر سے قلادہ ڈال کر لایا جائے بلکہ راستے سے خرید کر بھی اس سنت پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ (2) اس روایت میں حج حروریہ کا ذکر ہے۔ حروراء کوفہ کے قریب ایک بستی کا نام ہے جہاں خوارج کا پہلا اجتماع ہوا تھا اسی مناسبت سے انہیں حروریہ کہا گیا۔ خوارج کا حج 64 ہجری میں ہوا تھا اور جس سال حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ سے حجاج بن یوسف نے جنگ کا ارادہ کیا وہ 73 ہجری کا واقعہ ہے۔ ممکن ہے کہ راوی نے حجاج اور اس کے اتباع پر خوارج کا اطلاق کیا ہو کیونکہ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کی حکومت برحق تھی اور حجاج نے اس کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور ان کی اطاعت سے خارج ہو گیا تھا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ عبداللہ بن عمر ؓ کے ساتھ متعدد مرتبہ یہ واقعہ پیش آیا ہو۔ (3) واضح رہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کو کسی قسم کے خدشات سے واسطہ نہ پڑا بلکہ انہوں نے بروقت جملہ ارکان حج ادا فرمائے۔ (فتح الباري: 695/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1708