ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، وہ عطاء بن ابی میمونہ سے نقل کرتے ہیں، انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قضاء حاجت کے لیے نکلتے، میں اور ایک لڑکا دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے جاتے تھے اور ہمارے ساتھ پانی کا ایک برتن ہوتا تھا۔
Hum se Sulaiman bin Harb ne bayan kiya, unhon ne kaha hum se Sho’bah ne bayan kiya, woh Ata bin Abi Maimunah se naql karte hain, unhon ne Anas Radhiallahu Anhu se suna, woh kehte hain ke jab Nabi Kareem Sallallahu Alaihi Wasallam qazaa-e-haajat ke liye nikalte, main aur ek ladka dono Aap Sallallahu Alaihi Wasallam ke peeche jaate the aur hamaare saath paani ka ek bartan hota tha.
Narrated Anas: Whenever Allah's Apostle went to answer the call of nature, I along with another boy from us used to go behind him with a tumbler full of water.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 4, Number 153
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 151
� تشریح: یہ اشارہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جوتیاں، تکیہ اور وضو کا پانی لیے رہتے تھے، اسی مناسبت سے آپ کا یہ خطاب پڑ گیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 151
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:151
حدیث حاشیہ: 1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ استنجا کے سلسلے میں دوسرے سے مدد لینا جائز ہے، مثلاً: پانی کی ضرورت ہو تو خدمت گزار سے طلب کیا جا سکتا ہے۔ ایسا کرنا نہ تو مخدوم کے لیے استکبار ہے اور نہ خادم ہی کے لیے عار ہے۔ چھوٹوں کا بڑوں کی خدمت کرنا یا بڑوں کا چھوٹوں سے خدمت لینا دونو ں باتیں جائز ہیں۔ اس سلسلے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک قول پیش کیا ہے جس کی وضاحت کچھ یوں ہے: حضرت علقمہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں جب سرزمین شام گیا تو مسجد میں دو رکعت نماز ادا کی اور اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی: اے اللہ! مجھے کسی نیک آدمی کی صحبت عطا فرما، چنانچہ مجھے سامنے سے ایک بزرگ آتے ہوئے نظر آئے، جب وہ میرے قریب ہوئے تو میں نے اپنے دل میں کہا شاید میری دعا قبول ہوگئی ہے۔ انھوں نے پوچھا: تم کہاں سے آئے ہو؟ میں نے عرض کیا: کوفے کا رہنے والا ہوں۔ انھوں نے فرمایا: کیا تمہارے ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نعلین مبارک، آب طہارت اور تکیہ وغیرہ اٹھانے والے نہیں ہیں؟ (صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم، حدیث: 3761) یعنی جب تمہارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرنے والے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے حضرات موجود ہیں تو تمھیں یہ تمنا کیوں پیدا ہوئی کہ مجھے کسی اچھے آدمی کی صحبت میسر آئے۔ 2۔ حدیث میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ جس لڑکے کا ذکر ہے، حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں، یہ ضروری نہیں کہ چھوٹی عمر والے ہی پر لفظ "غلام" کا اطلاق ہوتا ہو، بلکہ مجازی طور پر بڑے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ایک مرتبہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فرمایا تھا کہ تو ایک عقلمند "غلام" ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ لفظ استعمال کیا تھا۔ (صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث: 3207) بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طہارت کے لیے پانی وغیرہ کا اہتمام حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورحضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی کیا کرتے تھے۔ ممکن ہے کہ روایت میں "غلام" سے مراد ان حضرات میں سے کوئی ہو۔ (فتح الباري: 331/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 151
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 79
´ اپنے سے کم عمر یا کم مرتبے والے شخص سے خدمت لینا` «. . . كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يدخل الخلاء، فاحمل انا وغلام نحوي إداوة من ماء، وعنزة فيستنجي بالماء . . .» ”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لئے بیت الخلاء میں داخل ہوتے تو میں اور ایک اور میرا ہم عمر لڑکا پانی کا ایک برتن اور ایک چھوٹا سا نیزہ لے کر ہمراہ جاتے۔ اس پانی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم استنجاء فرمایا کرتے . . .“[بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 79]
� لغوی تشریح: «إِدَاوَةً»”ہمزہ“ کے کسرہ کے ساتھ ہے۔ چمڑے کا چھوٹا سا برتن جس میں پانی ڈالا جاتا ہے۔ «مِنْ مَّاءٍ» پانی سے بھرا ہوا۔ «وَعَنَزَةً» یہ «إداوة» پر عطف کی وجہ سے منصوب ہے اور اس کے ”عین“ اور ”نون“ دونوں پر فتحہ ہے، یعنی ایسی لمبی لاٹھی جس کے نیچے لوہے کا پھل لگا ہوتا ہے یا چھوٹا تیر بھی اس کے معنی کیے گئے ہیں۔
فوائد و مسائل: اس حدیث سے کئی مسائل نکلتے ہیں، مثلاً: ➊ اپنے سے کم عمر یا کم مرتبے والے شخص سے خدمت لینا۔ ➋ پانی کے ساتھ استنجاء کرنا۔ ➌ پانی سے استنجاء کا افضل ہونا۔ ➍ صرف ڈھیلوں پر بھی اکتفا کیا جا سکتا ہے، اور ڈھیلے استعمال کرنے کے بعد پانی بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 79
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:150
150. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ جب قضائے حاجت کے لیے نکلتے تو میں اور ایک اور لڑکا اپنے ساتھ پانی کا ایک برتن لے کر آتے، (راوی حدیث ہشام کہتے ہیں) یعنی رسول اللہ ﷺ اس سے استنجا کرتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:150]
حدیث حاشیہ: 1۔ پانی سے استنجا کرنے کے متعلق کچھ اختلاف ہوا ہے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ وہ پانی سے استنجا نہیں کرتے تھے کیونکہ اس سے ہاتھ میں بدبو باقی رہ جاتی ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے متلق بھی روایت میں ہے کہ وہ پانی سے استنجا نہیں کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم ایسا نہیں کرتے تھے۔ بعض حضرات نے پانی سے استنجا اس لیے درست نہیں خیال کیا کہ یہ پانی مشروبات سے ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کر کے اس موقف کی تردید فرمائی ہے۔ (فتح الباري: 329/1) 2۔ بعض لوگوں نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ پر اعتراض کیا ہے کہ عنوان کا ثبوت حدیث سے نہیں ملتا کیونکہ حدیث کے جس حصے سے عنوان کا تعلق ہے، وہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان نہیں بلکہ وہ نیچے کے راوی ابوالولید ہشام کی وضاحت ہے۔ لیکن یہ اعتراض بے بنیاد ہے کیونکہ روایات میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے اس بات کی صراحت ہے کہ یہ پانی استنجا کرنے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ (صحیح البخاري، الوضو، حدیث: 152) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے علاوہ بھی روایت کا حوالہ دیا ہے۔ (فتح الباري: 330/1) 3۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس عنوان سے یہ بھی ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ پانی کی بجائے مٹی کے ڈھیلے بھی بطور استنجا استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن پانی کا استعمال بہتر ہے کیونکہ مٹی کے ڈھیلوں سے عین نجاست تودور ہوجاتی ہے لیکن اس کے اثرات باقی رہتے ہیں جبکہ پانی کے استعمال سے نجاست اوراس کے اثرات و نشانات بھی زائل ہوجاتے ہیں۔ پانی اورڈھیلوں کا جمع کرنا تو بالاتفاق افضل ہے۔ واللہ أعلم و علمه أتم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 150
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:500
500. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ جب رفع حاجت کے لیے نکلتے تو میں اور ایک لڑکا آپ کے پیچھے چلتے۔ ہمارے پاس نوک دار لکڑی یا ڈنڈا یا چھوٹا نیزہ ہوتا اور ہم پانی کی چھاگل بھی ہمراہ لے جاتے۔ جب آپ اپنی حاجت سے فارغ ہو جاتے تو ہم آپ کو چھاگل دے دیتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:500]
حدیث حاشیہ: پہلی روایت تو عنوان کے مطابق ہے کہ رسول اللہ ﷺ چھوٹے نیزے کو سامنے کر کے اس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے تھے لیکن دوسری روایت میں عصا اورعنزہ کوساتھ لے جانے کا تو ذکر ہے لیکن اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا ذکر نہیں ہے، مگر چونکہ ان چیزوں کوساتھ لے جانے کا ایک اہم فائدہ ان کا سترے کے طور پر استعمال بھی رہا ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے صرف اتنی مناسبت سے اپنا عنوان ثابت کردیا، نیز روایت میں کلمہ أو شک کے لیے نہیں بلکہ تنویع کے لیے ہے۔ گویا راوی یہ کہنا چاہتا ہے کہ ان تینوں چیزوں میں سے کوئی ایک چیز ساتھ ہوتی تھی، جس سے دیگرفوائد کے ساتھ ساتھ سترے کا کام بھی لیا جاتا تھا۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 500