وقوله: الذين ينفقون اموالهم بالليل والنهار سرا وعلانية إلى قوله ولا هم يحزنون سورة البقرة آية 274.وَقَوْلِهِ: الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَعَلانِيَةً إِلَى قَوْلِهِ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ سورة البقرة آية 274.
اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ البقرہ میں) فرمایا «الذين ينفقون أموالهم بالليل والنهار سرا وعلانية»”جو لوگ اپنے مال خرچ کرتے ہیں رات میں اور دن میں پوشیدہ طور پر اور ظاہر ‘ ان سب کا ان کے رب کے پاس ثواب ملے گا ‘ انہیں کوئی ڈر نہیں ہو گا اور نہ انہیں کسی قسم کا غم ہو گا۔“
وقال ابو هريرة رضي الله عنه: عن النبي صلى الله عليه وسلم ورجل تصدق بصدقة فاخفاها حتى لا تعلم شماله ما صنعت يمينه وقوله: إن تبدوا الصدقات فنعما هي وإن تخفوها وتؤتوها الفقراء فهو خير لكم سورة البقرة آية 271.وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ فَأَخْفَاهَا حَتَّى لَا تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا صَنَعَتْ يَمِينُهُ وَقَوْلِهِ: إِنْ تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا هِيَ وَإِنْ تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ سورة البقرة آية 271.
اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا کہ”ایک شخص نے صدقہ کیا اور اسے اس طرح چھپایا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو خبر نہیں ہوئی کہ داہنے ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے“ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”اگر تم صدقہ کو ظاہر کر دو تو یہ بھی اچھا ہے اور اگر پوشیدہ طور پر دو اور دو فقراء کو تو یہ بھی تمہارے لیے بہتر ہے اور تمہارے گناہ مٹا دے گا اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح خبردار ہے۔“
(مرفوع) حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، حدثنا ابو الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال:" قال رجل: لاتصدقن بصدقة، فخرج بصدقته فوضعها في يد سارق، فاصبحوا يتحدثون تصدق على سارق، فقال: اللهم لك الحمد لاتصدقن بصدقة، فخرج بصدقته فوضعها في يدي زانية، فاصبحوا يتحدثون تصدق الليلة على زانية، فقال: اللهم لك الحمد على زانية لاتصدقن بصدقة، فخرج بصدقته فوضعها في يدي غني، فاصبحوا يتحدثون تصدق على غني، فقال: اللهم لك الحمد على سارق، وعلى زانية، وعلى غني، فاتي فقيل له: اما صدقتك على سارق فلعله ان يستعف عن سرقته، واما الزانية فلعلها ان تستعف عن زناها، واما الغني فلعله يعتبر فينفق مما اعطاه الله".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" قَالَ رَجُلٌ: لَأَتَصَدَّقَنَّ بِصَدَقَةٍ، فَخَرَجَ بِصَدَقَتِهِ فَوَضَعَهَا فِي يَدِ سَارِقٍ، فَأَصْبَحُوا يَتَحَدَّثُونَ تُصُدِّقَ عَلَى سَارِقٍ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ لَأَتَصَدَّقَنَّ بِصَدَقَةٍ، فَخَرَجَ بِصَدَقَتِهِ فَوَضَعَهَا فِي يَدَيْ زَانِيَةٍ، فَأَصْبَحُوا يَتَحَدَّثُونَ تُصُدِّقَ اللَّيْلَةَ عَلَى زَانِيَةٍ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ عَلَى زَانِيَةٍ لَأَتَصَدَّقَنَّ بِصَدَقَةٍ، فَخَرَجَ بِصَدَقَتِهِ فَوَضَعَهَا فِي يَدَيْ غَنِيٍّ، فَأَصْبَحُوا يَتَحَدَّثُونَ تُصُدِّقَ عَلَى غَنِيٍّ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ عَلَى سَارِقٍ، وَعَلَى زَانِيَةٍ، وَعَلَى غَنِيٍّ، فَأُتِيَ فَقِيلَ لَهُ: أَمَّا صَدَقَتُكَ عَلَى سَارِقٍ فَلَعَلَّهُ أَنْ يَسْتَعِفَّ عَنْ سَرِقَتِهِ، وَأَمَّا الزَّانِيَةُ فَلَعَلَّهَا أَنْ تَسْتَعِفَّ عَنْ زِنَاهَا، وَأَمَّا الْغَنِيُّ فَلَعَلَّهُ يَعْتَبِرُ فَيُنْفِقُ مِمَّا أَعْطَاهُ اللَّهُ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی ‘ کہا کہ ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا ‘ ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص نے (بنی اسرائیل میں سے) کہا کہ مجھے ضرور صدقہ (آج رات) دینا ہے۔ چنانچہ وہ اپنا صدقہ لے کر نکلا اور (ناواقفی سے) ایک چور کے ہاتھ میں رکھ دیا۔ صبح ہوئی تو لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ آج رات کسی نے چور کو صدقہ دے دیا۔ اس شخص نے کہا کہ اے اللہ! تمام تعریف تیرے ہی لیے ہے۔ (آج رات) میں پھر ضرور صدقہ کروں گا۔ چنانچہ وہ دوبارہ صدقہ لے کر نکلا اور اس مرتبہ ایک فاحشہ کے ہاتھ میں دے آیا۔ جب صبح ہوئی تو پھر لوگوں میں چرچا ہوا کہ آج رات کسی نے فاحشہ عورت کو صدقہ دے دیا۔ اس شخص نے کہا اے اللہ! تمام تعریف تیرے ہی لیے ہے ‘ میں زانیہ کو اپنا صدقہ دے آیا۔ اچھا آج رات پھر ضرور صدقہ نکالوں گا۔ چنانچہ اپنا صدقہ لیے ہوئے وہ پھر نکلا اور اس مرتبہ ایک مالدار کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ صبح ہوئی تو لوگوں کی زبان پر ذکر تھا کہ ایک مالدار کو کسی نے صدقہ دے دیا ہے۔ اس شخص نے کہا کہ اے اللہ! حمد تیرے ہی لیے ہے۔ میں اپنا صدقہ (لاعلمی سے) چور ‘ فاحشہ اور مالدار کو دے آیا۔ (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) بتایا گیا کہ جہاں تک چور کے ہاتھ میں صدقہ چلے جانے کا سوال ہے۔ تو اس میں اس کا امکان ہے کہ وہ چوری سے رک جائے۔ اسی طرح فاحشہ کو صدقہ کا مال مل جانے پر اس کا امکان ہے کہ وہ زنا سے رک جائے اور مالدار کے ہاتھ میں پڑ جانے کا یہ فائدہ ہے کہ اسے عبرت ہو اور پھر جو اللہ عزوجل نے اسے دیا ہے ‘ وہ خرچ کرے۔
Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle (p.b.u.h) said, "A man said that he would give something in charity. He went out with his object of charity and unknowingly gave it to a thief. Next morning the people said that he had given his object of charity to a thief. (On hearing that) he said, "O Allah! All the praises are for you. I will give alms again." And so he again went out with his alms and (unknowingly) gave it to an adulteress. Next morning the people said that he had given his alms to an adulteress last night. The man said, "O Allah! All the praises are for you. (I gave my alms) to an adulteress. I will give alms again." So he went out with his alms again and (unknowingly) gave it to a rich person. (The people) next morning said that he had given his alms to a wealthy person. He said, "O Allah! All the praises are for you. (I had given alms) to a thief, to an adulteress and to a wealthy man." Then someone came and said to him, "The alms which you gave to the thief, might make him abstain from stealing, and that given to the adulteress might make her abstain from illegal sexual intercourse (adultery), and that given to the wealthy man might make him take a lesson from it and spend his wealth which Allah has given him, in Allah's cause."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 24, Number 502
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1421
حدیث حاشیہ: اس حدیث میں بنی اسرائیل کے ایک سخی کا ذکر ہے جو صدقہ خیرات تقسیم کرنے کی نیت سے رات کو نکلا مگر اس نے لاعلمی میں پہلی رات میں اپنا صدقہ ایک چور کے ہاتھ پر رکھ دیا اور دوسری رات میں ایک فاحشہ عورت کو دے دیا اور تیسری شب میں ایک مالدار کو دیدیا‘ جو مستحق نہ تھا۔ یہ سب کچھ لاعلمی میں ہوا۔ بعد میں جب یہ واقعات اس کو معلوم ہوئے تو اس نے اپنی لا علمی کا اقرار کرتے ہوئے اللہ کی حمد بیان کی گویا یہ کہا: اللهم لك الحمد أي لا لي أن صدقتي وقعت بید من لا یستحقها فلك الحمد حیث کان ذلك بإرادتك أي لا بإرادتي فإن إرادة اللہ کلها جمیلة۔ یعنی یا اللہ! حمد تیرے لیے ہی ہے نہ کہ میرے لیے۔ میرا صدقہ غیر مستحق کے ہاتھ میں پہنچ گیا پس حمد تیرے ہی لیے ہے۔ اس لیے کہ یہ تیرے ہی ارادے سے ہوا نہ کہ میرے ارادے سے اور اللہ پاک جو بھی چاہے اور وہ جو ارادہ کرے وہ سب بہتر ہی ہے۔ امام بخاری کا مقصد باب یہ ہے کہ ان حالات میں اگرچہ وہ صدقہ غیر مستحق کو مل گیا مگر عنداللہ وہ قبول ہوگیا۔ حدیث سے بھی یہی ظاہر ہوا کہ ناواقفی سے اگر غیر مستحق کو صدقہ دے دیا جائے تو اسے اللہ بھی قبول کرلیتا ہے اور دینے والے کو ثواب مل جاتا ہے۔ لفظ صدقہ میں نفلی صدقہ اور فرضی صدقہ یعنی زکوٰۃ ہر دو داخل ہیں۔ اسرائیلی سخی کو خواب میں بتلایا گیا یا ہاتف غیب نے خبردی یا اس زمانہ کے پیغمبر نے اس سے کہا کہ جن غیر مستحقین کو تونے غلطی سے صدقہ دے دیا‘ شاید وہ اس صدقہ سے عبرت حاصل کرکے اپنی غلطیوں سے باز آجائیں۔ چور چوری سے اور زانیہ زنا سے رک جائے اور مالدار کو خود اسی طرح خرچ کرنے کی رغبت ہو۔ ان صورتوں میں تیرا صدقہ تیرے لیے بہت کچھ موجب اجر وثواب ہوسکتا ہے۔ ھذا ھو المراد۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1421
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1421
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ صدقہ اہل خیر میں سے محتاج لوگوں کے لیے مختص تھا، اسی لیے تو لوگوں نے تعجب کیا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر صدقہ کرنے والا مخلص ہو اور اس کی نیت بھی اچھی تھی تو اس کا صدقہ اللہ کے ہاں قبول ہے اگرچہ وہ اپنے محل میں نہ پہنچ سکے۔ حدیث میں اس بات کی وضاحت نہیں کہ وہ صدقہ فرض تھا یا نفل، وہ کافی ہو گا یا نہیں۔ غالبا امام بخاری ؒ نے بھی عنوان میں اسی وجہ سے فیصلہ کن انداز اختیار نہیں کیا بلکہ استفہام کے طور پر اسے بیان کیا ہے۔ ہمارے نزدیک حدیث میں لفظ صدقہ فرض اور نفل دونوں کو شامل ہے۔ ایسے حالات میں اگرچہ وہ صدقہ غیر مستحق کو ملا ہے، تاہم عنداللہ وہ قبول ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ناواقفی میں کسی غیر مستحق کو صدقہ دے دیا جائے تو اسے اللہ قبول کر لیتا ہے اور دینے والے کو اس سے ثواب ملتا ہے بلکہ ایسے حالات میں کچھ زیادہ ہی اجروثواب کا باعث ہے۔ صدقہ کرنے والے کو دوبارہ صدقہ دینے کی چنداں ضرورت نہیں۔ (2) اس حدیث سے اخلاص اور پوشیدہ طور پر صدقہ دینے کی اہمیت و فضیلت واضح ہوتی ہے۔ صدقہ دینے والے نے اللہ تعالیٰ کی تعریف کی، یعنی زانیہ اور چور پر صدقہ کرنے میں میری کوئی تعریف نہیں، کیونکہ ان پر صدقہ کرنا تیری ہی مشیت اور ارادے سے تھا، اگرچہ میرا ارادہ نہ تھا، تاہم جو کچھ ہوا تیری مشیت سے ہوا اور تیرا ہر ارادہ اچھا ہوتا ہے، اس لیے تعریف کا سزاوار بھی تو ہی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1421