والقليل من الصدقة: ومثل الذين ينفقون اموالهم ابتغاء مرضات الله وتثبيتا من انفسهم إلى قوله من كل الثمرات سورة البقرة آية 266.وَالْقَلِيلِ مِنَ الصَّدَقَةِ: وَمَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَتَثْبِيتًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ إِلَى قَوْلِهِ مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ سورة البقرة آية 266.
اور (قرآن مجید میں ہے) «ومثل الذين ينفقون أموالهم» ان لوگوں کی مثال جو اپنا مال خرچ کرتے ہیں، (سے) فرمان باری «من كل الثمرات» تک۔
(موقوف) حدثنا عبيد الله بن سعيد، حدثنا ابو النعمان الحكم هو ابن عبد الله البصري، حدثنا شعبة، عن سليمان، عن ابي وائل، عن ابي مسعود رضي الله عنه , قال:" لما نزلت آية الصدقة كنا نحامل، فجاء رجل فتصدق بشيء كثير، فقالوا: مرائي، وجاء رجل فتصدق بصاع، فقالوا: إن الله لغني عن صاع هذا , فنزلت: الذين يلمزون المطوعين من المؤمنين في الصدقات والذين لا يجدون إلا جهدهم سورة التوبة آية 79".(موقوف) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ الْحَكَمُ هُوَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ:" لَمَّا نَزَلَتْ آيَةُ الصَّدَقَةِ كُنَّا نُحَامِلُ، فَجَاءَ رَجُلٌ فَتَصَدَّقَ بِشَيْءٍ كَثِيرٍ، فَقَالُوا: مُرَائِي، وَجَاءَ رَجُلٌ فَتَصَدَّقَ بِصَاعٍ، فَقَالُوا: إِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ عَنْ صَاعِ هَذَا , فَنَزَلَتِ: الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلا جُهْدَهُمْ سورة التوبة آية 79".
ہم سے ابوقدامہ عبیداللہ بن سعید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابوالنعمان حکم بن عبداللہ بصریٰ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے شعبہ بن حجاج نے بیان کیا ‘ ان سے سلیمان اعمش نے ‘ ان سے ابووائل نے اور ان سے ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب آیت صدقہ نازل ہوئی تو ہم بوجھ ڈھونے کا کام کیا کرتے تھے (تاکہ اس طرح جو مزدوری ملے اسے صدقہ کر دیا جائے) اسی زمانہ میں ایک شخص (عبدالرحمٰن بن عوف) آیا اور اس نے صدقہ کے طور پر کافی چیزیں پیش کیں۔ اس پر لوگوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ یہ آدمی ریاکار ہے۔ پھر ایک اور شخص (ابوعقیل نامی) آیا اور اس نے صرف ایک صاع کا صدقہ کیا۔ اس کے بارے میں لوگوں نے یہ کہہ دیا کہ اللہ تعالیٰ کو ایک صاع صدقہ کی کیا حاجت ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی «الذين يلمزون المطوعين من المؤمنين في الصدقات والذين لا يجدون إلا جهدهم»”وہ لوگ جو ان مومنوں پر عیب لگاتے ہیں جو صدقہ زیادہ دیتے ہیں اور ان پر بھی جو محنت سے کما کر لاتے ہیں۔ (اور کم صدقہ کرتے ہیں)“ آخر تک۔
Narrated Abu Mas`ud: When the verses of charity were revealed, we used to work as porters. A man came and distributed objects of charity in abundance. And they (the people) said, "He is showing off." And another man came and gave a Sa (a small measure of food grains); they said, "Allah is not in need of this small amount of charity." And then the Divine Inspiration came: "Those who criticize such of the believers who give in charity voluntarily and those who could not find to give in charity except what is available to them." (9.79).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 24, Number 496
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1415
حدیث حاشیہ: یہ طعنہ مارنے والے کم بخت منافقین تھے‘ ان کو کسی طرح چین نہ تھا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے اپنا آدھا مال آٹھ ہزار درہم صدقہ کردئیے تو ان کو ریاکار کہنے لگے۔ ابوعقیل ؓ بچارے غریب آدمی نے محنت مزدوری سے کمائی کرکے ایک صاع کھجور اللہ کی راہ میں دی تو اس پر ٹھٹھا مارنے لگے کہ اللہ کو اس کی احتیاج نہ تھی۔ ارے مردود! اللہ کو تو کسی چیز کی احتیاج نہیں۔ آٹھ ہزار کیا آٹھ کروڑ بھی ہوں تو اس کے آگے بے حقیقت ہیں۔ وہ دل کی نیت کو دیکھتا ہے۔ ایک صاع کھجور بھی بہت ہے۔ ایک کھجور بھی کوئی خلوص کے ساتھ حلال مال سے دے تو وہ اللہ کے نزدیک مقبول ہے۔ انجیل شریف میں ہے کہ ایک بڑھیا نے خیرات میں ایک دمڑی دی۔ لوگ اس پر ہنسے۔ حضرت عیسیٰ ؑ نے فرمایا کہ اس بڑھیا کی خیرات تم سے بڑھ کرہے۔ (وحیدی
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1415
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1415
حدیث حاشیہ: (1) یہ طعنہ زنی اور مذاق کرنے والے کم بخت منافق لوگ تھے۔ انہیں کسی طرح بھی چین نہیں آتا تھا۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ نے آٹھ ہزار درہم صدقہ کیا تو انہیں ریاکار کہنے لگے اور ابو عقیل ؓ نے محنت مزدوری کر کے ایک صاع کھجور بطور صدقہ دی تو ان سے مذاق کرنے لگے کہ اللہ تعالیٰ کو اس کی کیا ضرورت ہے! انہیں معلوم نہیں کہ اللہ کے ہاں مقدار نہیں بلکہ معیار کی قدروقیمت ہے۔ وہاں تو دل کا اخلاص دیکھا جاتا ہے، اس کی موجودگی میں ایک صاع کھجور بھی بہت ہے۔ (2) حدیث میں آیت صدقہ سے مراد درج ذیل ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ ۗ وَاللَّـهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿١٠٣﴾ )(التوبة103: 9) ”(اے نبی!) آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے اور ان کے اموال کو پاک کیجیے، اور ان کا بھی تزکیہ کیجئے، پھر ان کے لیے دعا کیجیے۔ بےشک آپ کی دعا ان کے لیے باعث تسکین ہے۔ اور اللہ خوب سننے والا، خوب جاننے والا ہے۔ “(فتح الباري: 358/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1415