(مرفوع) حدثنا عبد الله بن محمد، حدثنا ابو عاصم النبيل، اخبرنا سعدان بن بشر، حدثنا ابو مجاهد، حدثنا محل بن خليفة الطائي، قال:سمعت عدي بن حاتم رضي الله عنه , يقول:" كنت عند رسول الله صلى الله عليه وسلم فجاءه رجلان احدهما يشكو العيلة والآخر يشكو قطع السبيل، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اما قطع السبيل فإنه لا ياتي عليك إلا قليل حتى تخرج العير إلى مكة بغير خفير، واما العيلة فإن الساعة لا تقوم حتى يطوف احدكم بصدقته لا يجد من يقبلها منه، ثم ليقفن احدكم بين يدي الله ليس بينه وبينه حجاب ولا ترجمان يترجم له، ثم ليقولن له الم اوتك مالا فليقولن بلى، ثم ليقولن الم ارسل إليك رسولا فليقولن بلى، فينظر عن يمينه فلا يرى إلا النار، ثم ينظر عن شماله فلا يرى إلا النار، فليتقين احدكم النار ولو بشق تمرة، فإن لم يجد فبكلمة طيبة".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ النَّبِيلُ، أَخْبَرَنَا سَعْدَانُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُجَاهِدٍ، حَدَّثَنَا مُحِلُّ بْنُ خَلِيفَةَ الطَّائِيُّ، قَالَ:سَمِعْتُ عَدِيَّ بْنَ حَاتِمٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , يَقُولُ:" كُنْتُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَهُ رَجُلَانِ أَحَدُهُمَا يَشْكُو الْعَيْلَةَ وَالْآخَرُ يَشْكُو قَطْعَ السَّبِيلِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمَّا قَطْعُ السَّبِيلِ فَإِنَّهُ لَا يَأْتِي عَلَيْكَ إِلَّا قَلِيلٌ حَتَّى تَخْرُجَ الْعِيرُ إِلَى مَكَّةَ بِغَيْرِ خَفِيرٍ، وَأَمَّا الْعَيْلَةُ فَإِنَّ السَّاعَةَ لَا تَقُومُ حَتَّى يَطُوفَ أَحَدُكُمْ بِصَدَقَتِهِ لَا يَجِدُ مَنْ يَقْبَلُهَا مِنْهُ، ثُمَّ لَيَقِفَنَّ أَحَدُكُمْ بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ حِجَابٌ وَلَا تَرْجُمَانٌ يُتَرْجِمُ لَهُ، ثُمَّ لَيَقُولَنَّ لَهُ أَلَمْ أُوتِكَ مَالًا فَلَيَقُولَنَّ بَلَى، ثُمَّ لَيَقُولَنَّ أَلَمْ أُرْسِلْ إِلَيْكَ رَسُولًا فَلَيَقُولَنَّ بَلَى، فَيَنْظُرُ عَنْ يَمِينِهِ فَلَا يَرَى إِلَّا النَّارَ، ثُمَّ يَنْظُرُ عَنْ شِمَالِهِ فَلَا يَرَى إِلَّا النَّارَ، فَلْيَتَّقِيَنَّ أَحَدُكُمُ النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ، فَإِنْ لَمْ يَجِدْ فَبِكَلِمَةٍ طَيِّبَةٍ".
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے ابوعاصم نبیل نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں سعدان بن بشیر نے خبر دی ‘ کہا کہ ہم سے ابومجاہد سعد طائی نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے محل بن خلیفہ طائی نے بیان کیا ‘ کہا کہ میں نے عدی بن حاتم طائی رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ انہوں نے کہا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھا کہ دو شخص آئے ‘ ایک فقر و فاقہ کی شکایت لیے ہوئے تھا اور دوسرے کو راستوں کے غیر محفوظ ہونے کی شکایت تھی۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جہاں تک راستوں کے غیر محفوظ ہونے کا تعلق ہے تو بہت جلد ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ جب ایک قافلہ مکہ سے کسی محافظ کے بغیر نکلے گا۔ (اور اسے راستے میں کوئی خطرہ نہ ہو گا) اور رہا فقر و فاقہ تو قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک (مال و دولت کی کثرت کی وجہ سے یہ حال نہ ہو جائے کہ) ایک شخص اپنا صدقہ لے کر تلاش کرے لیکن کوئی اسے لینے والا نہ ملے۔ پھر اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی پردہ نہ ہو گا اور نہ ترجمانی کے لیے کوئی ترجمان ہو گا۔ پھر اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا کہ کیا میں نے تجھے دنیا میں مال نہیں دیا تھا؟ وہ کہے گا کہ ہاں دیا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ کیا میں نے تیرے پاس پیغمبر نہیں بھیجا تھا؟ وہ کہے گا کہ ہاں بھیجا تھا۔ پھر وہ شخص اپنے دائیں طرف دیکھے گا تو آگ کے سوا اور کچھ نظر نہیں آئے گا پھر بائیں طرف دیکھے گا اور ادھر بھی آگ ہی آگ ہو گی۔ پس تمہیں جہنم سے ڈرنا چاہیے خواہ ایک کھجور کے ٹکڑے ہی (کا صدقہ کر کے اس سے اپنا بچاؤ کر سکو) اگر یہ بھی میسر نہ آ سکے تو اچھی بات ہی منہ سے نکالے۔
Narrated `Adi bin Hatim: While I was sitting with Allah's Apostle (p.b.u.h) two person came to him; one of them complained about his poverty and the other complained about the prevalence of robberies. Allah's Apostle said, "As regards stealing and robberies, there will shortly come a time when a caravan will go to Mecca (from Medina) without any guard. And regarding poverty, The Hour (Day of Judgment) will not be established till one of you wanders about with his object of charity and will not find anybody to accept it And (no doubt) each one of you will stand in front of Allah and there will be neither a curtain nor an interpreter between him and Allah, and Allah will ask him, 'Did not I give you wealth?' He will reply in the affirmative. Allah will further ask, 'Didn't send a messenger to you?' And again that person will reply in the affirmative Then he will look to his right and he will see nothing but Hell-fire, and then he will look to his left and will see nothing but Hell-fire. And so, any (each one) of you should save himself from the fire even by giving half of a date-fruit (in charity). And if you do not find a hall datefruit, then (you can do it through saying) a good pleasant word (to your brethren). (See Hadith No. 793 Vol. 4).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 24, Number 494
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1413
حدیث حاشیہ: یہ بھی ایک بڑا صدقہ ہے یعنی اگرخیرات نہ دے تو اس کو نرمی سے ہی جواب دے کہ اس وقت میں مجبور ہوں‘ معاف کرو‘ گھر کنا جھگڑنا منع ہے۔ ترجمان وہ ہے جو ترجمہ کرکے بندے کا کلام اللہ سے عرض کرے اور اللہ کا ارشاد بندے کو سنائے بلکہ خود اللہ پاک کلام فرمائے گا۔ اس حدیث سے ان لوگوں کا رد ہوا جو کہتے ہیں کہ اللہ کے کلام میں آواز اور حروف نہیں‘ اگر آواز اور حروف نہ ہوں تو بندہ سنے گا کیسے اور سمجھے گا کیسے؟ (وحیدی) اس حدیث میں یہ پیش گوئی بھی ہے کہ ایک دن عرب میں امن وامان عام ہوگا‘ چور ڈاکو عام طورپر ختم ہوجائیں گے‘ یہاں تک کہ قافلے مکہ شریف سے (خفیر) کے بغیر نکلا کریں گے۔ خفیر اس شخص کو کہا جاتا تھا جو عرب میں ہر ہر قبیلہ سے قافلہ کے ساتھ سفر کرکے اپنے قبیلہ کی سرحد امن وعافیت کے ساتھ پار کرا دیتا تھا وہ راستہ بھی بتلاتا اور لوٹ مار کرنے والوں سے بھی بچاتا تھا۔ آج اس چودھویں صدی میں حکومت عربیہ سعودیہ نے حرمین شریف کو امن کا اس قدر گہوارہ بنا دیا ہے کہ مجال نہیں کوئی کسی پر دست اندازی کرسکے۔ اللہ پاک اس حکومت کو قائم دائم رکھے اور حاسدین ومعاندین کے اوپر اس کو ہمیشہ غلبہ عطا فرمائے۔ (آمین)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1413
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1413
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث میں بیان ہوا ہے کہ آدمی اپنا صدقہ لے کر نکلے گا، لیکن اسے کوئی قبول کرنے والا نہیں ملے گا، ایسے حالات قربِ قیامت کے وقت پیش آئیں گے، کیونکہ مذکورہ حدیث کی ایک روایت سے ایسا اشارہ ملتا ہے کہ مال و دولت کی فراوانی حضرت عدی بن حاتم کی زندگی میں نہیں ہوئی، آپ نے فرمایا کہ اگر تمہاری زندگی ہوئی تو تم رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کی تصدیق خود ملاحظہ کرو گے۔ (صحیح البخاري، المناقب، حدیث: 3595) کیونکہ ان کی وفات حضرت معاویہ ؓ کے دور حکومت میں ہوئی جو کہ فتوحات کا دور تھا۔ محدث ابن التین فرماتے ہیں کہ یہ دور حضرت عیسیٰ ؑ کے نزول کے بعد ہو گا جبکہ روئے زمین پر کوئی کافر نہیں ہو گا اور زمین کی برکات کا یہ عالم ہو گا کہ ایک انار سے پورا کنبہ سیر ہو جائے گا۔ (فتح الباری: 356/3)(2) امام بیہقی ؒ نے اسے حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے دور خلافت پر محمول کیا ہے جن کا دور صرف تیس ماہ کا تھا اور اس دور میں لوگ اس قدر مال دار ہو گئے تھے کہ کوئی صدقہ لینے والا نہیں ملتا تھا۔ (دلائل النبوة للبیھقي، با ب ما جاء في إخبارہ صلی اللہ علیه وسلم بالشرالذي یکون بعدالخیر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 493/6) لیکن قرب قیامت کا قول زیادہ راجح معلوم ہوتا ہے، کیونکہ حضرت عدی بن حاتم نے فرمایا تھا کہ اگر تمہاری زندگی طویل ہوئی تو تم اسے دیکھ لو گے، اس سے قریب قیامت کے راجح ہونے کا اشارہ ملتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1413