صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
The Book of Al-Janaiz (Funerals)
حدیث نمبر: 1386
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا جرير بن حازم، حدثنا ابو رجاء، عن سمرة بن جندب , قال:" كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا صلى صلاة اقبل علينا بوجهه , فقال: من راى منكم الليلة رؤيا؟ , قال: فإن راى احد قصها، فيقول: ما شاء الله، فسالنا يوما , فقال: , هل راى احد منكم رؤيا؟ , قلنا: لا، قال: لكني رايت الليلة رجلين اتياني، فاخذا بيدي فاخرجاني إلى الارض المقدسة، فإذا رجل جالس ورجل قائم بيده كلوب من حديد، قال بعض اصحابنا: عن موسى، إنه يدخل ذلك الكلوب في شدقه حتى يبلغ قفاه، ثم يفعل بشدقه الآخر مثل ذلك، ويلتئم شدقه هذا فيعود فيصنع مثله، قلت: ما هذا؟ , قالا: انطلق، فانطلقنا حتى اتينا على رجل مضطجع على قفاه ورجل قائم على راسه بفهر او صخرة فيشدخ به راسه، فإذا ضربه تدهده الحجر فانطلق إليه لياخذه، فلا يرجع إلى هذا حتى يلتئم راسه، وعاد راسه كما هو , فعاد إليه فضربه، قلت: من هذا؟ , قالا: انطلق، فانطلقنا إلى ثقب مثل التنور اعلاه ضيق , واسفله واسع يتوقد تحته نارا، فإذا اقترب ارتفعوا حتى كاد ان يخرجوا، فإذا خمدت رجعوا فيها وفيها رجال ونساء عراة، فقلت: من هذا؟ , قالا: انطلق، فانطلقنا حتى اتينا على نهر من دم فيه رجل قائم على وسط النهر، قال يزيد: ووهب بن جرير، عن جرير بن حازم، وعلى شط النهر رجل بين يديه حجارة، فاقبل الرجل الذي في النهر فإذا اراد ان يخرج رمى الرجل بحجر في فيه فرده حيث كان، فجعل كلما جاء ليخرج رمى في فيه بحجر فيرجع كما كان، فقلت: ما هذا؟ قالا: انطلق، فانطلقنا حتى انتهينا إلى روضة خضراء فيها شجرة عظيمة وفي اصلها شيخ وصبيان، وإذا رجل قريب من الشجرة بين يديه نار يوقدها، فصعدا بي في الشجرة وادخلاني دارا لم ار قط احسن منها فيها رجال شيوخ , وشباب , ونساء , وصبيان، ثم اخرجاني منها فصعدا بي الشجرة فادخلاني دارا هي احسن وافضل فيها شيوخ وشباب، قلت: طوفتماني الليلة فاخبراني عما رايت، قالا: نعم، اما الذي رايته يشق شدقه فكذاب يحدث بالكذبة فتحمل عنه حتى تبلغ الآفاق فيصنع به إلى يوم القيامة، والذي رايته يشدخ راسه فرجل علمه الله القرآن فنام عنه بالليل ولم يعمل فيه بالنهار يفعل به إلى يوم القيامة، والذي رايته في الثقب فهم الزناة، والذي رايته في النهر آكلوا الربا والشيخ في اصل الشجرة إبراهيم عليه السلام والصبيان حوله فاولاد الناس والذي يوقد النار مالك خازن النار، والدار الاولى التي دخلت دار عامة المؤمنين، واما هذه الدار فدار الشهداء وانا جبريل وهذا ميكائيل فارفع راسك فرفعت راسي فإذا فوقي مثل السحاب، قالا: ذاك منزلك، قلت: دعاني ادخل منزلي، قالا: إنه بقي لك عمر لم تستكمله فلو استكملت اتيت منزلك".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، حَدَّثَنَا أَبُو رَجَاءٍ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ , قَالَ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى صَلَاةً أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ , فَقَالَ: مَنْ رَأَى مِنْكُمُ اللَّيْلَةَ رُؤْيَا؟ , قَالَ: فَإِنْ رَأَى أَحَدٌ قَصَّهَا، فَيَقُولُ: مَا شَاءَ اللَّهُ، فَسَأَلَنَا يَوْمًا , فَقَالَ: , هَلْ رَأَى أَحَدٌ مِنْكُمْ رُؤْيَا؟ , قُلْنَا: لَا، قَالَ: لَكِنِّي رَأَيْتُ اللَّيْلَةَ رَجُلَيْنِ أَتَيَانِي، فَأَخَذَا بِيَدِي فَأَخْرَجَانِي إِلَى الْأَرْضِ الْمُقَدَّسَةِ، فَإِذَا رَجُلٌ جَالِسٌ وَرَجُلٌ قَائِمٌ بِيَدِهِ كَلُّوبٌ مِنْ حَدِيدٍ، قَالَ بَعْضُ أَصْحَابِنَا: عَنْ مُوسَى، إِنَّهُ يُدْخِلُ ذَلِكَ الْكَلُّوبَ فِي شِدْقِهِ حَتَّى يَبْلُغَ قَفَاهُ، ثُمَّ يَفْعَلُ بِشِدْقِهِ الْآخَرِ مِثْلَ ذَلِكَ، وَيَلْتَئِمُ شِدْقُهُ هَذَا فَيَعُودُ فَيَصْنَعُ مِثْلَهُ، قُلْتُ: مَا هَذَا؟ , قَالَا: انْطَلِقْ، فَانْطَلَقْنَا حَتَّى أَتَيْنَا عَلَى رَجُلٍ مُضْطَجِعٍ عَلَى قَفَاهُ وَرَجُلٌ قَائِمٌ عَلَى رَأْسِهِ بِفِهْرٍ أَوْ صَخْرَةٍ فَيَشْدَخُ بِهِ رَأْسَهُ، فَإِذَا ضَرَبَهُ تَدَهْدَهَ الْحَجَرُ فَانْطَلَقَ إِلَيْهِ لِيَأْخُذَهُ، فَلَا يَرْجِعُ إِلَى هَذَا حَتَّى يَلْتَئِمَ رَأْسُهُ، وَعَادَ رَأْسُهُ كَمَا هُوَ , فَعَادَ إِلَيْهِ فَضَرَبَهُ، قُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ , قَالَا: انْطَلِقْ، فَانْطَلَقْنَا إِلَى ثَقْبٍ مِثْلِ التَّنُّورِ أَعْلَاهُ ضَيِّقٌ , وَأَسْفَلُهُ وَاسِعٌ يَتَوَقَّدُ تَحْتَهُ نَارًا، فَإِذَا اقْتَرَبَ ارْتَفَعُوا حَتَّى كَادَ أَنْ يَخْرُجُوا، فَإِذَا خَمَدَتْ رَجَعُوا فِيهَا وَفِيهَا رِجَالٌ وَنِسَاءٌ عُرَاةٌ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ , قَالَا: انْطَلِقْ، فَانْطَلَقْنَا حَتَّى أَتَيْنَا عَلَى نَهَرٍ مِنْ دَمٍ فِيهِ رَجُلٌ قَائِمٌ عَلَى وَسَطِ النَّهَرِ، قَالَ يَزِيدُ: وَوَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ، وَعَلَى شَطِّ النَّهَرِ رَجُلٌ بَيْنَ يَدَيْهِ حِجَارَةٌ، فَأَقْبَلَ الرَّجُلُ الَّذِي فِي النَّهَرِ فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَخْرُجَ رَمَى الرَّجُلُ بِحَجَرٍ فِي فِيهِ فَرَدَّهُ حَيْثُ كَانَ، فَجَعَلَ كُلَّمَا جَاءَ لِيَخْرُجَ رَمَى فِي فِيهِ بِحَجَرٍ فَيَرْجِعُ كَمَا كَانَ، فَقُلْتُ: مَا هَذَا؟ قَالَا: انْطَلِقْ، فَانْطَلَقْنَا حَتَّى انْتَهَيْنَا إِلَى رَوْضَةٍ خَضْرَاءَ فِيهَا شَجَرَةٌ عَظِيمَةٌ وَفِي أَصْلِهَا شَيْخٌ وَصِبْيَانٌ، وَإِذَا رَجُلٌ قَرِيبٌ مِنَ الشَّجَرَةِ بَيْنَ يَدَيْهِ نَارٌ يُوقِدُهَا، فَصَعِدَا بِي فِي الشَّجَرَةِ وَأَدْخَلَانِي دَارًا لَمْ أَرَ قَطُّ أَحْسَنَ مِنْهَا فِيهَا رِجَالٌ شُيُوخٌ , وَشَبَابٌ , وَنِسَاءٌ , وَصِبْيَانٌ، ثُمَّ أَخْرَجَانِي مِنْهَا فَصَعِدَا بِي الشَّجَرَةَ فَأَدْخَلَانِي دَارًا هِيَ أَحْسَنُ وَأَفْضَلُ فِيهَا شُيُوخٌ وَشَبَابٌ، قُلْتُ: طَوَّفْتُمَانِي اللَّيْلَةَ فَأَخْبِرَانِي عَمَّا رَأَيْتُ، قَالَا: نَعَمْ، أَمَّا الَّذِي رَأَيْتَهُ يُشَقُّ شِدْقُهُ فَكَذَّابٌ يُحَدِّثُ بِالْكَذْبَةِ فَتُحْمَلُ عَنْهُ حَتَّى تَبْلُغَ الْآفَاقَ فَيُصْنَعُ بِهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَالَّذِي رَأَيْتَهُ يُشْدَخُ رَأْسُهُ فَرَجُلٌ عَلَّمَهُ اللَّهُ الْقُرْآنَ فَنَامَ عَنْهُ بِاللَّيْلِ وَلَمْ يَعْمَلْ فِيهِ بِالنَّهَارِ يُفْعَلُ بِهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَالَّذِي رَأَيْتَهُ فِي الثَّقْبِ فَهُمُ الزُّنَاةُ، وَالَّذِي رَأَيْتَهُ فِي النَّهَرِ آكِلُوا الرِّبَا وَالشَّيْخُ فِي أَصْلِ الشَّجَرَةِ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَام وَالصِّبْيَانُ حَوْلَهُ فَأَوْلَادُ النَّاسِ وَالَّذِي يُوقِدُ النَّارَ مَالِكٌ خَازِنُ النَّارِ، وَالدَّارُ الْأُولَى الَّتِي دَخَلْتَ دَارُ عَامَّةِ الْمُؤْمِنِينَ، وَأَمَّا هَذِهِ الدَّارُ فَدَارُ الشُّهَدَاءِ وَأَنَا جِبْرِيلُ وَهَذَا مِيكَائِيلُ فَارْفَعْ رَأْسَكَ فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَإِذَا فَوْقِي مِثْلُ السَّحَابِ، قَالَا: ذَاكَ مَنْزِلُكَ، قُلْتُ: دَعَانِي أَدْخُلْ مَنْزِلِي، قَالَا: إِنَّهُ بَقِيَ لَكَ عُمُرٌ لَمْ تَسْتَكْمِلْهُ فَلَوِ اسْتَكْمَلْتَ أَتَيْتَ مَنْزِلَكَ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے ابورجاء عمران بن تمیم نے بیان کیا اور ان سے سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز (فجر) پڑھنے کے بعد (عموماً) ہماری طرف منہ کر کے بیٹھ جاتے اور پوچھتے کہ آج رات کسی نے کوئی خواب دیکھا ہو تو بیان کرو۔ راوی نے کہا کہ اگر کسی نے کوئی خواب دیکھا ہوتا تو اسے وہ بیان کر دیتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تعبیر اللہ کو جو منظور ہوتی بیان فرماتے۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معمول کے مطابق ہم سے دریافت فرمایا کیا آج رات کسی نے تم میں کوئی خواب دیکھا ہے؟ ہم نے عرض کی کہ کسی نے نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن میں نے آج رات ایک خواب دیکھا ہے کہ دو آدمی میرے پاس آئے۔ انہوں نے میرے ہاتھ تھام لیے اور وہ مجھے ارض مقدس کی طرف لے گئے۔ (اور وہاں سے عالم بالا کی مجھ کو سیر کرائی) وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص تو بیٹھا ہوا ہے اور ایک شخص کھڑا ہے اور اس کے ہاتھ میں (امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ) ہمارے بعض اصحاب نے (غالباً عباس بن فضیل اسقاطی نے موسیٰ بن اسماعیل سے یوں روایت کیا ہے) لوہے کا آنکس تھا جسے وہ بیٹھنے والے کے جبڑے میں ڈال کر اس کے سر کے پیچھے تک چیر دیتا پھر دوسرے جبڑے کے ساتھ بھی اسی طرح کرتا تھا۔ اس دوران میں اس کا پہلا جبڑا صحیح اور اپنی اصلی حالت پر آ جاتا اور پھر پہلے کی طرح وہ اسے دوبارہ چیرتا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ میرے ساتھ کے دونوں آدمیوں نے کہا کہ آگے چلیں۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے تو ایک ایسے شخص کے پاس آئے جو سر کے بل لیٹا ہوا تھا اور دوسرا شخص ایک بڑا سا پتھر لیے اس کے سر پر کھڑا تھا۔ اس پتھر سے وہ لیٹے ہوئے شخص کے سر کو کچل دیتا تھا۔ جب وہ اس کے سر پر پتھر مارتا تو سر پر لگ کر وہ پتھر دور چلا جاتا اور وہ اسے جا کر اٹھا لاتا۔ ابھی پتھر لے کر واپس بھی نہیں آتا تھا کہ سر دوبارہ درست ہو جاتا۔ بالکل ویسا ہی جیسا پہلے تھا۔ واپس آ کر وہ پھر اسے مارتا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ ان دونوں نے جواب دیا کہ ابھی اور آگے چلیں۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے تو ایک تنور جیسے گڑھے کی طرف چلے۔ جس کے اوپر کا حصہ تو تنگ تھا لیکن نیچے سے خوب فراخ۔ نیچے آگ بھڑک رہی تھی۔ جب آگ کے شعلے بھڑک کر اوپر کو اٹھتے تو اس میں جلنے والے لوگ بھی اوپر اٹھ آتے اور ایسا معلوم ہوتا کہ اب وہ باہر نکل جائیں گے لیکن جب شعلے دب جاتے تو وہ لوگ بھی نیچے چلے جاتے۔ اس تنور میں ننگے مرد اور عورتیں تھیں۔ میں نے اس موقع پر بھی پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ لیکن اس مرتبہ بھی جواب یہی ملا کہا کہ ابھی اور آگے چلیں ‘ ہم آگے چلے۔ اب ہم خون کی ایک نہر کے اوپر تھے نہر کے اندر ایک شخص کھڑا تھا اور اس کے بیچ میں (یزید بن ہارون اور وہب بن جریر نے جریر بن حازم کے واسطہ سے «وسطه النهر» کے بجائے «شط النهر» نہر کے کنارے کے الفاظ نقل کئے ہیں) ایک شخص تھا۔ جس کے سامنے پتھر رکھا ہوا تھا۔ نہر کا آدمی جب باہر نکلنا چاہتا تو پتھر والا شخص اس کے منہ پر اتنی زور سے پتھر مارتا کہ وہ اپنی پہلی جگہ پر چلا جاتا اور اسی طرح جب بھی وہ نکلنے کی کوشش کرتا وہ شخص اس کے منہ پر پتھر اتنی ہی زور سے پھر مارتا کہ وہ اپنی اصلی جگہ پر نہر میں چلا جاتا۔ میں نے پوچھا یہ کیا ہو رہا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ابھی اور آگے چلیں۔ چنانچہ ہم اور آگے بڑھے اور ایک ہرے بھرے باغ میں آئے۔ جس میں ایک بہت بڑا درخت تھا اس درخت کی جڑ میں ایک بڑی عمر والے بزرگ بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے ساتھ کچھ بچے بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ درخت سے قریب ہی ایک شخص اپنے آگے آگ سلگا رہا تھا۔ وہ میرے دونوں ساتھی مجھے لے کر اس درخت پر چڑھے۔ اس طرح وہ مجھے ایک ایسے گھر میں لے گئے کہ اس سے زیادہ حسین و خوبصورت اور بابرکت گھر میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس گھر میں بوڑھے، جوان ‘ عورتیں اور بچے (سب ہی قسم کے لوگ) تھے۔ میرے ساتھی مجھے اس گھر سے نکال کر پھر ایک اور درخت پر چڑھا کر مجھے ایک اور دوسرے گھر میں لے گئے جو نہایت خوبصورت اور بہتر تھا۔ اس میں بھی بہت سے بوڑھے اور جوان تھے۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا تم لوگوں نے مجھے رات بھر خوب سیر کرائی۔ کیا جو کچھ میں نے دیکھا اس کی تفصیل بھی کچھ بتلاؤ گے؟ انہوں نے کہا ہاں وہ جو آپ نے دیکھا تھا اس آدمی کا جبڑا لوہے کے آنکس سے پھاڑا جا رہا تھا تو وہ جھوٹا آدمی تھا جو جھوٹی باتیں بیان کیا کرتا تھا۔ اس سے وہ جھوٹی باتیں دوسرے لوگ سنتے۔ اس طرح ایک جھوٹی بات دور دور تک پھیل جایا کرتی تھی۔ اسے قیامت تک یہی عذاب ہوتا رہے گا۔ جس شخص کو آپ نے دیکھا کہ اس کا سر کچلا جا رہا تھا تو وہ ایک ایسا انسان تھا جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کا علم دیا تھا لیکن وہ رات کو پڑا سوتا رہتا اور دن میں اس پر عمل نہیں کرتا تھا۔ اسے بھی یہ عذاب قیامت تک ہوتا رہے گا اور جنہیں آپ نے تنور میں دیکھا تو وہ زنا کار تھے۔ اور جس کو آپ نے نہر میں دیکھا وہ سود خوار تھا اور وہ بزرگ جو درخت کی جڑ میں بیٹھے ہوئے تھے وہ ابراہیم علیہ السلام تھے اور ان کے اردگرد والے بچے ‘ لوگوں کی نابالغ اولاد تھی اور جو شخص آگ جلا رہا تھا وہ دوزخ کا داروغہ تھا اور وہ گھر جس میں آپ پہلے داخل ہوئے جنت میں عام مومنوں کا گھر تھا اور یہ گھر جس میں آپ اب کھڑے ہیں ‘ یہ شہداء کا گھر ہے اور میں جبرائیل ہوں اور یہ میرے ساتھ میکائیکل ہیں۔ اچھا اب اپنا سر اٹھاؤ میں نے جو سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرے اوپر بادل کی طرح کوئی چیز ہے۔ میرے ساتھیوں نے کہا کہ یہ آپ کا مکان ہے۔ اس پر میں نے کہا کہ پھر مجھے اپنے مکان میں جانے دو۔ انہوں نے کہا کہ ابھی آپ کی عمر باقی ہے جو آپ نے پوری نہیں کی اگر آپ وہ پوری کر لیتے تو اپنے مکان میں آ جاتے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Samura bin Jundab: Whenever the Prophet finished the (morning) prayer, he would face us and ask, "Who amongst you had a dream last night?" So if anyone had seen a dream he would narrate it. The Prophet would say: "Ma sha'a-llah" (An Arabic maxim meaning literally, 'What Allah wished,' and it indicates a good omen.) One day, he asked us whether anyone of us had seen a dream. We replied in the negative. The Prophet said, "But I had seen (a dream) last night that two men came to me, caught hold of my hands, and took me to the Sacred Land (Jerusalem). There, I saw a person sitting and another standing with an iron hook in his hand pushing it inside the mouth of the former till it reached the jawbone, and then tore off one side of his cheek, and then did the same with the other side; in the meantime the first side of his cheek became normal again and then he repeated the same operation again. I said, 'What is this?' They told me to proceed on and we went on till we came to a man Lying flat on his back, and another man standing at his head carrying a stone or a piece of rock, and crushing the head of the Lying man, with that stone. Whenever he struck him, the stone rolled away. The man went to pick it up and by the time he returned to him, the crushed head had returned to its normal state and the man came back and struck him again (and so on). I said, 'Who is this?' They told me to proceed on; so we proceeded on and passed by a hole like an oven; with a narrow top and wide bottom, and the fire was kindling underneath that hole. Whenever the fire-flame went up, the people were lifted up to such an extent that they about to get out of it, and whenever the fire got quieter, the people went down into it, and there were naked men and women in it. I said, 'Who is this?' They told me to proceed on. So we proceeded on till we reached a river of blood and a man was in it, and another man was standing at its bank with stones in front of him, facing the man standing in the river. Whenever the man in the river wanted to come out, the other one threw a stone in his mouth and caused him to retreat to his original position; and so whenever he wanted to come out the other would throw a stone in his mouth, and he would retreat to his original position. I asked, 'What is this?' They told me to proceed on and we did so till we reached a well-flourished green garden having a huge tree and near its root was sitting an old man with some children. (I saw) Another man near the tree with fire in front of him and he was kindling it up. Then they (i.e. my two companions) made me climb up the tree and made me enter a house, better than which I have ever seen. In it were some old men and young men, women and children. Then they took me out of this house and made me climb up the tree and made me enter another house that was better and superior (to the first) containing old and young people. I said to them (i.e. my two companions), 'You have made me ramble all the night. Tell me all about that I have seen.' They said, 'Yes. As for the one whose cheek you saw being torn away, he was a liar and he used to tell lies, and the people would report those lies on his authority till they spread all over the world. So, he will be punished like that till the Day of Resurrection. The one whose head you saw being crushed is the one whom Allah had given the knowledge of Qur'an (i.e. knowing it by heart) but he used to sleep at night (i.e. he did not recite it then) and did not use to act upon it (i.e. upon its orders etc.) by day; and so this punishment will go on till the Day of Resurrection. And those you saw in the hole (like oven) were adulterers (those men and women who commit illegal sexual intercourse). And those you saw in the river of blood were those dealing in Riba (usury). And the old man who was sitting at the base of the tree was Abraham and the little children around him were the offspring of the people. And the one who was kindling the fire was Malik, the gatekeeper of the Hell-fire. And the first house in which you have gone was the house of the common believers, and the second house was of the martyrs. I am Gabriel and this is Michael. Raise your head.' I raised my head and saw a thing like a cloud over me. They said, 'That is your place.' I said, 'Let me enter my place.' They said, 'You still have some life which you have not yet completed, and when you complete (that remaining portion of your life) you will then enter your place.' "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 23, Number 468


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري4674سمرة بن جندبأتاني الليلة آتيان فابتعثاني فانتهينا إلى مدينة مبنية بلبن ذهب ولبن فضة فتلقانا رجال شطر من خلقهم كأحسن ما أنت راء وشطر كأقبح ما أنت راء قالا لهم اذهبوا فقعوا في ذلك النهر فوقعوا فيه ثم رجعوا إلينا قد ذهب ذلك السوء عنهم فصاروا في أحسن صورة قالا لي هذه جنة
   صحيح البخاري3236سمرة بن جندبرأيت الليلة رجلين أتياني قالا الذي يوقد النار مالك خازن النار وأنا جبريل وهذا ميكائيل
   صحيح البخاري2791سمرة بن جندبرأيت الليلة رجلين أتياني فصعدا بي الشجرة فأدخلاني دارا هي أحسن وأفضل لم أر قط أحسن منها قالا أما هذه الدار فدار الشهداء
   صحيح البخاري3354سمرة بن جندبأتاني الليلة آتيان فأتينا على رجل طويل لا أكاد أرى رأسه طولا وإنه إبراهيم
   صحيح البخاري7047سمرة بن جندبأتاني الليلة آتيان وإنهما ابتعثاني وإنهما قالا لي انطلق وإني انطلقت معهما وإنا أتينا على رجل مضطجع وإذا آخر قائم عليه بصخرة وإذا هو يهوي بالصخرة لرأسه فيثلغ رأسه فيتهدهد الحجر ههنا فيتبع الحجر فيأخذه فلا يرجع إليه حتى يصح رأسه كما كان ثم يعود عليه فيفعل ب
   صحيح البخاري6096سمرة بن جندبرأيت الليلة رجلين أتياني قالا الذي رأيته يشق شدقه فكذاب يكذب بالكذبة تحمل عنه حتى تبلغ الآفاق فيصنع به إلى يوم القيامة
   صحيح البخاري2085سمرة بن جندبرأيت الليلة رجلين أتياني فأخرجاني إلى أرض مقدسة فانطلقنا حتى أتينا على نهر من دم فيه رجل قائم وعلى وسط النهر رجل بين يديه حجارة فأقبل الرجل الذي في النهر فإذا أراد الرجل أن يخرج رمى الرجل بحجر في فيه فرده حيث كان فجعل كلما جاء ليخرج رمى في فيه بحجر فيرجع
   صحيح البخاري1386سمرة بن جندبرأيت الليلة رجلين أتياني فأخذا بيدي فأخرجاني إلى الأرض المقدسة فإذا رجل جالس ورجل قائم بيده كلوب من حديد يدخل ذلك الكلوب في شدقه حتى يبلغ قفاه ثم يفعل بشدقه الآخر مثل ذلك ويلتئم شدقه هذا فيعود فيصنع مثله قلت ما هذا قالا انطلق فانطلقنا حتى أتينا على رجل مض
   صحيح البخاري1143سمرة بن جندبأما الذي يثلغ رأسه بالحجر فإنه يأخذ القرآن فيرفضه وينام عن الصلاة المكتوبة

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1386 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1386  
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث پر باب بلا عنوان ہے، گویا عنوان سابق کا تکملہ اور تتمہ ہے۔
(2)
اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ لوگ مشرک ہوں یا مومن ان کی نابالغ اولاد جنت میں ہو گی، کیونکہ اس حدیث میں فرشتوں نے وضاحت کی ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کے ارد گرد بیٹھے ہوئے بچے لوگوں کی نابالغ اولاد ہے۔
لوگوں کی اولاد کا لفظ عام ہے جو مشرکین کی اولاد کو بھی شامل ہے۔
اس میں کسی کی تخصیص نہیں۔
امام بخاری ؒ نے اس روایت کو كتاب التعبير میں بایں الفاظ بیان کیا ہے:
وہ بچے جو آپ نے حضرت ابراہیم ؑ کے گرد دیکھے تھے، وہ تھے جنہیں فطرت پر موت آئی تھی۔
صحابہ میں سے کسی نے کہا اللہ کے رسول! مشرکین کی اولاد بھی، آپ نے فرمایا:
مشرکین کی اولاد بھی ان میں شامل ہے۔
(صحیح البخاري، التعبیر، حدیث: 7047)
اس روایت میں صراحت ہے کہ مشرکین کی وہ اولاد جو بلوغ سے پہلے مر گئی، ان کی موت فطرت پر تھی اور رسول اللہ ﷺ نے انہیں جنت میں دیکھا تھا۔
اس سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ مشرکین کے بچے بھی مسلمانوں کے بچوں کی طرح جنت میں ہوں گے۔
حافظ ابن حجر ؒ نے اس موقف کی تائید میں چند ایک روایات بھی پیش کی ہیں۔
حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
میں نے اپنے رب سے سوال کیا کہ اولاد آدم میں سے جو بے خبر ہیں انہیں عذاب میں مبتلا نہ کرنا۔
اللہ تعالیٰ نے میری اس دعا کو قبول کر لیا ہے۔
(مسند أبي یعلیٰ: 397/3، رقم: 4087، طبع دارالکتب العلمیة، بیروت)
روایت میں وضاحت ہے کہ بےخبر سے مراد معصوم بچے ہیں۔
خنساء بنت معاویہ اپنی پھوپھی سے بیان کرتی ہیں، انہوں نے کہا، میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ جنت میں کون ہوں گے؟ تو آپ نے فرمایا:
انبیاء، شہداء اور نومولود بچے جنت میں ہوں گے۔
(سنن أبي داود، الجھاد، حدیث: 2521)
ان دونوں احادیث کی اسناد حسن ہیں۔
(فتح الباري: 312/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1386   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1143  
1143. حضرت سمرہ بن جندب ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے ایک خواب بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جس شخص کا سر پتھر سے کچلا جا رہا تھا وہ، وہ ہے جو قرآن پڑھتا تھا اور اسے یاد نہ رکھتا تھا، نیز وہ فرض نماز کے وقت سویا رہتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1143]
حدیث حاشیہ:
یعنی عشاءکی نماز نہ پڑھتا نہ فجر کے لیے اٹھتا حالانکہ اس نے قرآن پڑھا تھا مگر اس پر عمل نہیں کیا بلکہ اس کو بھلا بیٹھا۔
آج دوزخ میں اس کو یہ سزا مل رہی ہے۔
یہ حدیث تفصیل کے ساتھ آگے آئے گی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1143   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4674  
4674. حضرت سمرہ بن جندب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے ہم سے فرمایا: آج رات میرے پاس دو آنے والے آئے اور مجھے اٹھا کر ایک ایسے شہر کی طرف لے گئے جو سونے اور چاندی کی اینٹوں سے بنایا گیا تھا۔ وہاں ہمیں ایسے لوگ ملے جن کا آدھا بدن انتہائی خوبصورت کہ تو نے ایسا حسن کبھی نہ دیکھا ہو گا اور آدھا بدن نہایت بدصورت جو تو نے کبھی نہ دیکھا ہو گا۔ ان دونوں نے ان سے کہا: جاؤ اور اس نہر میں غوطہ لگاؤ۔ وہ نہر میں گھس گئے۔ پھر جب وہ ہمارے پاس آئے تو ان کی بدصورتی جاتی رہی اور وہ انتہائی خوبصورت ہو گئے۔ پھر ان دونوں نے مجھ سے کہا: یہ "جنت عدن" ہے اور آپ کا مکان یہیں ہے اور جن لوگوں کو ابھی آپ نے دیکھا تھا کہ ان کا آدھا جسم انتہائی خوبصورت تھا اور آدھا نہایت بدصورت تو یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اچھے برے ملے جلے عمل کیے تھے۔ اللہ تعالٰی نے ان سے درگزر فرمایا اور انہیں معاف۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4674]
حدیث حاشیہ:
حکم کے لحاظ سے آیت شریفہ قیامت تک ہر اس مسلمان کو شامل ہے جس کے اعمال نیک و بد ایسے ہیں۔
ایسے لوگوں کو اللہ پاک اپنے فضل سے بخش دے گا۔
اس کے وعدہ (إِنَّ رَحْمَتِي سَبَقَتْ غَضَبِي)
کا تقا ضا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4674   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6096  
6096. حضرت سمرہ بن جندب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: میرے پاس (گزشتہ رات خواب میں) دو آدمی آئے۔ انہوں نے کہا: جسے آپ نے دیکھا کہ اس کے جبڑے چیرے جا رہے تھے، وہ بہت جھوٹ بکنے والاتھا۔ اس کی جھوٹی باتیں اس حد تک نقل کی جاتیں کہ پوری دنیا میں پھیل جاتی تھیں۔ قیامت تک اس کو یہی سزا ملتی رہے گی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6096]
حدیث حاشیہ:
جھوٹے مسئلہ بنانے والے، بدعات محدثات کو رواج دینے والے، جھوٹی روایات بیان کرنے والے نام نہاد علماء وخطباء سب اس وعید شدید کے مصداق ہو سکتے ہیں۔
إلا من عصمه اللہ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6096   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7047  
7047. حضرت سمرہ بن جندب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ بکثرت صحابہ کرام سے فرمایا کرتے تھے۔ کیا تم میں سے کسی نے کوئی خواب دیکھا ہے؟ جس نے خواب دیکھا ہوتا وہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے آپ کو بیان کرتا۔ آپ ﷺ نے ایک صبح فرمایا: آج رات میرے پاس دو آنے والے آئے،انہوں نے مجھے اٹھایا اور مجھ سے کہا:(ہمارے ساتھ) چلو۔ میں ان کے ساتھ چل دیا، چنانچہ ہم ایک آدمی کے پاس آئے جو لیٹا ہوا تھا اور دوسرا آدمی اس کے پاس ایک پتھر لیے کھڑا تھا۔ اچانک وہ اس کے سر پر پتھر مارتا تو اس کا سر توڑ دیتا اور پتھر لڑھک کر دور چلا جاتا۔ وہ پتھر کے پیچھے جاتا اور اسے اٹھا لاتا۔ اس کےواپس آنے سے پہلے پہلے دوسرے کا سر صحیح ہو جاتا جیسا کہ پہلے تھا۔ کھڑا ہوا شخص پھر اسی طرح مارتا ور وہی صورت پیش آتی جو پہلے آےی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں نے ان دونوں سے کہا: سبحان اللہ! کیا ماجرا ہے؟ یہ دونوں شخص کون ہیں؟۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7047]
حدیث حاشیہ:
نبیوں کے خواب بھی وحی کا حکم رکھتے ہیں۔
اس عظیم خواب کے اندر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت سے دوزخیوں کے عذاب کے نظارے دکھلائے گئے۔
پہلا شخص قرآن شریف پڑھا ہوا حافظ ‘ قاری مولوی تھا جو نماز کی ادائیگی میں مستعد نہیں تھا۔
دوسرا شخص جھوٹی باتیں پھیلانے والا ‘ افاہیں اڑانے والا ‘ جھوٹی احادیث بیان کرنے والا تھا۔
تیسرے زنا کار مرد اور عورتیں تھیں جو ایک تنور کی شکل میں دوزخ ک عذاب میں گرفتار تھے۔
خون اور پےپ کی نہر میں غوطہ لگانے والا ‘ سود بیاج کھانے والا انسان تھا۔
بد صورت انسان دوزخ کی آگ کو بھڑ کانے والا دوزخ کا داروغہ تھا۔
عظیم طویل بزرگ ترین انسان حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے جن کے ارد گرد معصوم بچے بچیاں تھیں جو بچپن ہی میں دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں وہ سب حضرت سیدنا خلیل اللہ علیہ السلام کے زیر سایہ جنت میں کھیلتے پلتے ہیں۔
یہ ساری حدیث بڑے ہی غور سے مطالعہ کے قابل ہے۔
اللہ پاک ہر مسلمان کو اس سے عبرت حاصل کرنے کی تو فیق بخشے۔
مشرکین اور کفار کے معصوم بچوں کے بارے میں اختلاف ہے مگر بہتر ہے کہ اس بارے میں سکوت اختیار کر کے معاملہ اللہ کے حوالہ کر دیا جائے ایسے جزوی اختلاف کو بھول جانا آج وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔
اس حدیث پر پارہ نمبر28کا اختتام ہو جاتا ہے۔
سارا پارہ ہم مضامین پر مشتمل ہے جن کی پوری تفاصیل کے لئے دفاتر در کار ہیں جن میں سیاسی ‘ اخلاقی ‘ سماجی ‘ مذہبی ‘ فقہی بہت سے مضامین شامل ہیں۔
مطالعہ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی اونچے پایہ کے لائق ترین انسانیت کی پاکیزہ مجلس ہے جس میں انسانیت کے اہم مسائل کا تذکرہ مختلف عنوانات سے ہر وقت ہوتا رہتا ہے۔
آخر میں خوابوں کی تعبیرات کے مسائل ہیں جو انسان کی روحانی زندگی سے بہت زیادہ تعلقات رکھتے ہیں۔
انسانی تاریخ میں کتنے انسانوں کے ایسے حالات ملتے ہیں کہ محض خواب کی بنا پر ان کی دنیا عظیم ترین حالات میں تبدیل ہو گئی اور یہ چیز کچھ اہل اسلام ہی سے متعلق نہیں ہے بلکہ اغیار میں بھی خوابوں کی دنیا مسلم ہے یہاں جو تعبیرات بیان کی گئی وہ سب حقائق ہیں جن کی صحت میں ایک ذرہ برابر بھی شک وشبہ کی کسی مومن مرد وعورت کے لئے گنجائش نہیں ہے۔
یا اللہ:
آج ا س پارہ اٹھائیس کی تسوید سے فراغت حاصل کررہا ہوں اس میں جہاں بھی قلم لغزش کھا گئی ہو اورکوئی لفظ کوئی جملہ کوئی مسئلہ تیری اور تیرے حبیب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کے خلاف قلم پر آگیا ہو نہایت عاجزی وانکساری سے تیرے دربار عالیہ میں اس کی معافی کے لیے درخواست پیش کرتا ہوں۔
ایک نہایت عاجز کمزور مریض گنہگار تیرا حقیر ترین بندہ ہوں جس سے قدم قدم لغزشوں کا امکان ہے۔
اس لیے میرے پروردگار تو اس غلطی کو معاف فرمادے اور تیرے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات عالیہ کے اس عظیم پاکیزہ ذخیرے کی اس خدمت کو قبول فرما کر قبول عام عطا کردے اور اسے نہ صرف میرے لیے بلکہ میرے جملہ معزز شائقین اور کاتبین کے لیے ماں باپ اور اہل وعیال کے لیے اور میرے سارے معزز معاونین کرام کے لیے اسے ذخیرہ آخرت اور صدقہ جاریہ کے طور پر قبول فرما کر اسے تمام شائقین کرام کے لئے ذریعہ سعادت دارین بنائیو۔
آمین ثم آمین یا رب العالمین! صل وسلم علی حبیبک سید المرسلین علیٰ آلہ واصحابہ اجمعین برحمتک یا ارحم الراحمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7047   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2085  
2085. حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "میں نے آج رات خواب میں دو مرد دیکھے جو میرے پاس آئے اور مجھے بیت المقدس کی طرف لے گئے ہم چلتے رہے حتیٰ کہ خون کی نہر پر آئے جس میں ایک آدمی کھڑا تھا اور نہر کے درمیان میں ایک آدمی تھا جس کے آگے پتھر رکھے ہوئے تھے جب دوسرا آدمی نہر سے نکلنے کا ارادہ کرتا تو وہ اس کے منہ پر پتھر مار کر اسے وہیں واپس کردیتا جہاں وہ تھا میں نے کہا: یہ کیا معاملہ ہے؟تو ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ جس شخص کوآپ نے خونی نہر میں دیکھا ہے وہ سود خور ہے۔ " [صحيح بخاري، حديث نمبر:2085]
حدیث حاشیہ:
یہ طویل حدیث پارہ نمبر5 میں بھی گزر چکی ہے۔
اس میں سود خور کا عذاب دکھلایا گیا ہے کہ دنیا میں اس نے لوگوں کا خون چوس چوس کر دولت جمع کرلی، اسی خون کی وہ نہر ہے جس میں وہ غوطہ کھلایا جارہا ہے۔
بعض روایات میں وسط النہر کی جگہ شط النہر کا لفظ ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2085   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2791  
2791. حضرت سمرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: میں نے آج رات دو آدمیوں کودیکھا جو میرے پاس آئے اور مجھے ایک درخت پر لے گئے۔ پھر انہوں نے مجھے ایسے مکان میں داخل کیاجو بہت ہی خوبصورت تھا۔ میں نے اس عمدہ اور خوبصورت مکان آج تک نہیں دیکھا۔ انھوں نے مجھے کہاکہ یہ مکان اللہ کی راہ میں شہید ہونے والوں کا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2791]
حدیث حاشیہ:
مفصل طور پر یہ حدیث کتاب الجنائز میں گزر چکی ہے۔
دو شخصوں سے مراد حضرت جبرائیل و میکائیل ؑ ہیں جو پہلے آپ کو بیت المقدس لے گئے تھے‘ بعد میں آسمانوں کی سیر کرائی اور جنت و دوزخ کے بہت سے مناظر آپ ﷺ کو دکھلائے۔
جسمانی معراج کا واقعہ الگ ہے جو بالکل حق اور حقیقت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2791   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3236  
3236. حضرت سمرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: میں نے آج رات دو آدمی دیکھے جو میرے پاس آئے۔ انھوں نے (مجھ سے) کہا: جو شخص آگ روشن کر رہا تھا وہ مالک، جہنم کا داروغہ تھا۔ میں جبرئیل ہوں اور یہ حضرت میکائیل ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3236]
حدیث حاشیہ:
یہ ایک طویل حدیث کا ٹکڑا ہے جو پارہ نمبرچھ میں گزرچکی ہے۔
یہاں اس سے فرشتوں کا وجود ثابت کرنا مقصود ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3236   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1143  
1143. حضرت سمرہ بن جندب ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے ایک خواب بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جس شخص کا سر پتھر سے کچلا جا رہا تھا وہ، وہ ہے جو قرآن پڑھتا تھا اور اسے یاد نہ رکھتا تھا، نیز وہ فرض نماز کے وقت سویا رہتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1143]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس روایت کو امام بخاری ؒ نے تفصیل سے کتاب الجنائز میں بیان کیا ہے۔
(صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1385)
اس میں یہ الفاظ ہیں کہ خواب میں جس کا سر کچلا جا رہا تھا وہ، وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کی نعمت دی لیکن اس نے رات کے وقت اسے نہ پڑھا اور دن کے وقت اس پر عمل نہ کیا۔
(2)
اس روایت سے بعض حضرات نے نماز تہجد کے واجب ہونے پر دلیل لی ہے۔
امام بخاری ؒ نے مذکورہ روایت سے ثابت کیا ہے کہ اس سے مراد فرض نماز ہے، نماز تہجد کا وجوب اس سے ثابت نہیں ہوتا۔
(فتح الباري: 32/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1143   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2085  
2085. حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "میں نے آج رات خواب میں دو مرد دیکھے جو میرے پاس آئے اور مجھے بیت المقدس کی طرف لے گئے ہم چلتے رہے حتیٰ کہ خون کی نہر پر آئے جس میں ایک آدمی کھڑا تھا اور نہر کے درمیان میں ایک آدمی تھا جس کے آگے پتھر رکھے ہوئے تھے جب دوسرا آدمی نہر سے نکلنے کا ارادہ کرتا تو وہ اس کے منہ پر پتھر مار کر اسے وہیں واپس کردیتا جہاں وہ تھا میں نے کہا: یہ کیا معاملہ ہے؟تو ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ جس شخص کوآپ نے خونی نہر میں دیکھا ہے وہ سود خور ہے۔ " [صحيح بخاري، حديث نمبر:2085]
حدیث حاشیہ:
(1)
صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے:
جس شخص کے آگے پتھ پڑے تھے وہ نہر کے درمیان میں نہیں بلکہ نہر کے کنارے پر کھڑا تھا،سیاق وسباق کے اعتبار سے یہی بات صحیح ہے۔
یہ ایک طویل حدیث ہے جو كتاب التعبير میں بیان ہوگی۔
(صحیح البخاری،التعبیر،حدیث: 7047) (2)
اس حدیث میں قیامت کے دن سود خور کو ملنے والے عذاب کی ایک جھلک دکھائی گئی ہے کہ دنیا میں اس نے لوگوں کا خون چوس چوس کر دولت جمع کی،قیامت کے دن وہی خون ایک نہر کی صورت اختیار کرے گا جس میں اسے غوطے دیے جائیں گے۔
(3)
اس حدیث میں اگرچہ سود لکھنے اور اس پر گواہی دینے کا ذکر نہیں ہے،تاہم یہ لوگ سود خور کے معاون ہیں،اس لیے حکم کے اعتبار سے انھیں سود خور کے ساتھ ہی ملایا گیا ہے۔
(فتح الباری: 4/397)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2085   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2791  
2791. حضرت سمرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: میں نے آج رات دو آدمیوں کودیکھا جو میرے پاس آئے اور مجھے ایک درخت پر لے گئے۔ پھر انہوں نے مجھے ایسے مکان میں داخل کیاجو بہت ہی خوبصورت تھا۔ میں نے اس عمدہ اور خوبصورت مکان آج تک نہیں دیکھا۔ انھوں نے مجھے کہاکہ یہ مکان اللہ کی راہ میں شہید ہونے والوں کا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2791]
حدیث حاشیہ:
مفصل حدیث پہلے گزرچکی ہے۔
(صحیح البخاري، الجنائز، حدیث 1386)
اس حدیث میں ہے کہ آنے والے دو آدمی حضرت جبرئیل ؑ اور حضرت میکائیل ؑ تھے اور یہ مناظر آپ نے خواب میں دیکھے۔
جسمانی معراج کا واقعہ اس کے علاوہ ہے جو عالم بیداری میں ہوا۔
امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے (أَوْسَطُ الْجَنَّةِ)
کی تفسیر بیان کی ہے کہ اس سے مراد جنت کا درمیانی درجہ نہیں بلکہ اعلیٰ درجہ ہے۔
(فتح الباري: 17/6)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2791   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3236  
3236. حضرت سمرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: میں نے آج رات دو آدمی دیکھے جو میرے پاس آئے۔ انھوں نے (مجھ سے) کہا: جو شخص آگ روشن کر رہا تھا وہ مالک، جہنم کا داروغہ تھا۔ میں جبرئیل ہوں اور یہ حضرت میکائیل ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3236]
حدیث حاشیہ:

مذکورہ حدیث ایک طویل حدیث کا آخری حصہ ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے بحالت خواب مختلف جرائم پیشہ لوگوں کو سنگین سزاؤں سے دوچار ہوتے دیکھا۔
اس خواب میں آپ نے ایک آدمی کو آگ روشن کرتے دیکھا۔
اس حدیث میں اس آدمی کے متعلق نشاندہی کی گئی کہ وہ جہنم کا نگران (مالک)
فرشتہ ہے۔
اس خواب کا آغاز اس طرح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
میرے پاس دوآدمی آئے۔
وہ میراہاتھ پکڑ کر مجھے ارض مقدس لے گئے۔
اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ وہ دوآدمی حضرت جبرئیل ؑ اور حضرت میکائیل ؑ تھے۔
اس طویل حدیث کو امام بخاری ؒ نے کتاب الجنائز (حدیث: 1386)
میں بیان کیاہے۔

اس مقام پر یہ بتانا مقصود ہے کہ فرشتے اپنا وجود رکھتے ہیں اور وہ اللہ کی مخلوق ہیں جنھیں مختلف صورتیں اختیار کرلینے کی سہولت ہے۔
اسے ان لوگوں کی تردیدہوتی ہے۔
جوفرشتوں کو "عقول مجردہ" سے تعبیرکرتے ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3236   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3354  
3354. حضرت سمرہ بن جندب ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: آج رات میرے پاس دو آدمی آئے (اور مجھے اپنے ساتھ لے گئے۔) پھر ہم ایک آدمی کے پاس آئےجس کا قد بہت لمبا تھا۔ میں اس کے دراز قد ہونے کی وجہ سے اس کا سر نہیں دیکھ سکتا تھا وہ حضرت ابراہیم ؑ تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3354]
حدیث حاشیہ:

مذکورہ حدیث ایک طویل حدیث کا حصہ ہے جسے امام بخاری ؒ نے کتاب التعبیر (حدیث: 7047)
میں بیان کیا ہے۔
اس میں ہے کہ اس طویل القامت آدمی کے اردگرد بہت سے بچےتھے۔
ان کے متعلق بتایا گیا کہ یہ وہ بچے ہیں جو فطرت اسلام پر فوت ہوئے ہیں۔
اس حدیث میں حضرت ابراہیم ؑ کےطویل القامت ہونے سے مراد ان کا عالی مرتبہ ہونا ہے۔

امام بخاری ؒ نے ان کی فضیلت کے سلسلے میں یہ حدیث بیان کی ہے۔

اگلی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ شکل وصورت اوراخلاق و سیرت میں حضرت ابراہیم ؑ سے ملتے جلتے تھے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3354   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4674  
4674. حضرت سمرہ بن جندب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے ہم سے فرمایا: آج رات میرے پاس دو آنے والے آئے اور مجھے اٹھا کر ایک ایسے شہر کی طرف لے گئے جو سونے اور چاندی کی اینٹوں سے بنایا گیا تھا۔ وہاں ہمیں ایسے لوگ ملے جن کا آدھا بدن انتہائی خوبصورت کہ تو نے ایسا حسن کبھی نہ دیکھا ہو گا اور آدھا بدن نہایت بدصورت جو تو نے کبھی نہ دیکھا ہو گا۔ ان دونوں نے ان سے کہا: جاؤ اور اس نہر میں غوطہ لگاؤ۔ وہ نہر میں گھس گئے۔ پھر جب وہ ہمارے پاس آئے تو ان کی بدصورتی جاتی رہی اور وہ انتہائی خوبصورت ہو گئے۔ پھر ان دونوں نے مجھ سے کہا: یہ "جنت عدن" ہے اور آپ کا مکان یہیں ہے اور جن لوگوں کو ابھی آپ نے دیکھا تھا کہ ان کا آدھا جسم انتہائی خوبصورت تھا اور آدھا نہایت بدصورت تو یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اچھے برے ملے جلے عمل کیے تھے۔ اللہ تعالٰی نے ان سے درگزر فرمایا اور انہیں معاف۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4674]
حدیث حاشیہ:

شان نزول کے اعتبار سے مذکورہ آیت خاص لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی لیکن حکم کے اعتبار سے یہ ہر اس مسلمان کو شامل ہے جس کے اعمال نیک اور بد دونوں قسم کے ہیں۔
ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ معاف کردے گا اور انھیں پروانہ مغفرت عطا فرمائے گا کیونکہ اس ذات کریم کا وعدہ ہے:
اور میری رحمت تمام اشیاء پرمحیط ہے۔
(فتح الباري: 432/8)
وہ قیامت کے دن ایسے لوگوں کو معاف کردے گا جن کے اعمال بُرے اچھے ملے جلے ہوں گے۔

دوسری روایت میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو جو دوشخص ملے وہ اللہ کے فرشتے حضرت جبرئیل ؑ اور حضرت میکائیل ؑ تھے۔
(الأعراف: 156/7)
یہ روایت پہلے مفصل طور پر گزر چکی ہے۔
(صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث: 3236)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4674   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6096  
6096. حضرت سمرہ بن جندب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: میرے پاس (گزشتہ رات خواب میں) دو آدمی آئے۔ انہوں نے کہا: جسے آپ نے دیکھا کہ اس کے جبڑے چیرے جا رہے تھے، وہ بہت جھوٹ بکنے والاتھا۔ اس کی جھوٹی باتیں اس حد تک نقل کی جاتیں کہ پوری دنیا میں پھیل جاتی تھیں۔ قیامت تک اس کو یہی سزا ملتی رہے گی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6096]
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ حدیث ایک لمبے خواب کا حصہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھایا گیا تھا، جس میں قیامت کا دن مجرموں کو دی جانے والی سزاؤں کا نقشہ پیش کیا گیا تھا۔
کذاب انسان کو ملنے والی سزا اس طرح تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا جبکہ دوسرا آدمی کھڑا تھا اور اس کے ہاتھ میں لوہے کی کنڈی تھی جسے وہ بیٹھنے والے کے جبڑے میں داخل کرتا پھر اسے چیرتا ہوا اس کی گدی تک لے جاتا، اس طرح اس کے دوسرے جبڑے سے کرتا پھر پہلا جبڑا صحیح ہو جاتا، قیامت تک اس کے ساتھ یہ سلوک کیا جاتا رہے گا۔
(صحیح البخاري،الجنائز، حدیث: 1386) (2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس شخص کو منہ میں عذاب دیا جائے گا کیونکہ اس کے جرم کا محل اس کا منہ تھا، وہ اس کے ذریعے سے جھوٹ بولا کرتا تھا۔
پہلی حدیث میں جھوٹے انسان کے انجام کو بیان کیا گیا تھا اور اس حدیث میں اس انجام کی تفصیل ذکر کی گئی ہے۔
(فتح الباري: 625/10)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6096   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7047  
7047. حضرت سمرہ بن جندب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ بکثرت صحابہ کرام سے فرمایا کرتے تھے۔ کیا تم میں سے کسی نے کوئی خواب دیکھا ہے؟ جس نے خواب دیکھا ہوتا وہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے آپ کو بیان کرتا۔ آپ ﷺ نے ایک صبح فرمایا: آج رات میرے پاس دو آنے والے آئے،انہوں نے مجھے اٹھایا اور مجھ سے کہا:(ہمارے ساتھ) چلو۔ میں ان کے ساتھ چل دیا، چنانچہ ہم ایک آدمی کے پاس آئے جو لیٹا ہوا تھا اور دوسرا آدمی اس کے پاس ایک پتھر لیے کھڑا تھا۔ اچانک وہ اس کے سر پر پتھر مارتا تو اس کا سر توڑ دیتا اور پتھر لڑھک کر دور چلا جاتا۔ وہ پتھر کے پیچھے جاتا اور اسے اٹھا لاتا۔ اس کےواپس آنے سے پہلے پہلے دوسرے کا سر صحیح ہو جاتا جیسا کہ پہلے تھا۔ کھڑا ہوا شخص پھر اسی طرح مارتا ور وہی صورت پیش آتی جو پہلے آےی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں نے ان دونوں سے کہا: سبحان اللہ! کیا ماجرا ہے؟ یہ دونوں شخص کون ہیں؟۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7047]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ خواب بہت سے عجیب وغریب حقائق پر مشتمل ہے اور انبیاء علیہ السلام کے خواب وحی ہوتے ہیں۔
اس میں چار قسم کے جرائم پیشہ لوگوں کو دی جانے والی سنگین اور ہولناک سزائیں بیان ہوئی ہیں جن میں ہمارے لیے بہت سا عبرت کا سامان ہے۔
ان جرم پیشہ لوگوں کی تفصیل حسب ذیل ہے:
۔
پہلا شخص قرآن کریم کا عالم اور قاری جو نماز کی ادائیگی میں سنجیدہ نہیں تھا بلکہ غفلت وسستی اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے سوتے ہوئے ضائع کردیتا تھا۔
۔
دوسرا شخص جھوٹی باتیں پھیلانے والا،افواہیں اڑانے والا اور جھوٹی احادیث بیان کرنے والا تھا۔
۔
تیسرے زناکار عورتیں اور زنا کار مرد تھے جو ایک تنور میں جہنم کی سزا بھگت رہے تھے۔
۔
خون اور پیپ کی نہر میں غوطے لگانے والا اور منہ پر زناٹے پتھر کھانے والا سودخورتھا۔
یہ حدیث بڑے ہی غور سے مطالعے کے قابل ہے۔
اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اس سے عبرت حاصل کرنے کی توفیق دے۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ خوابوں کی تعبیر طلوع آفتاب کے بعد کرنی چاہیے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان حضرات کی تردید کے لیے یہ حدیث پیش کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ آپ جب نماز فجر پڑھ لیتے تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے خواب سنتے یا خود کوئی خواب بیان کرتے کیونکہ اس وقت خواب کانقشہ ذہن میں تازہ ہوتا ہے۔
اور تعبیر کرنے والا بھی خالی ذہن ہوتا ہے،پھر اگرخواب دیکھنے والے کو خبردار کرنا ہوتو یہ مناسب ہے کہ وہ آئندہ تمام اوقات میں محتاط رہے۔

اس مناسبت سے ہم ائمہ مساجد اور خطباء حضرات کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ علم تعبیر سے واقفیت حاصل کریں اور اگر وہ فن تعبیر سے واقف ہیں تو صبح کی نماز کے بعد لوگوں کے خواب سنیں اور ان کی مناسب تعبیر کریں۔
علم تعبیر لوگوں کو نیکی کی طرف بلانے اور بُرائی سے روکنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے بشرط یہ کہ ہم لوگ خواب کی تعبیر کے تمام آداب وقواعد سے واقف ہوں۔
بہرحال اس مسنون عمل کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔w
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7047   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.