(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف، حدثنا الليث، حدثنا سعيد، عن ابيه، انه سمع ابا سعيد الخدري رضي الله عنه , قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم , يقول:" إذا وضعت الجنازة فاحتملها الرجال على اعناقهم، فإن كانت صالحة قالت: قدموني، وإن كانت غير صالحة قالت لاهلها: يا ويلها اين يذهبون بها , يسمع صوتها كل شيء، إلا الإنسان ولو سمع الإنسان لصعق".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" إِذَا وُضِعَتِ الْجِنَازَةُ فَاحْتَمَلَهَا الرِّجَالُ عَلَى أَعْنَاقِهِمْ، فَإِنْ كَانَتْ صَالِحَةً قَالَتْ: قَدِّمُونِي، وَإِنْ كَانَتْ غَيْرَ صَالِحَةٍ قَالَتْ لِأَهْلِهَا: يَا وَيْلَهَا أَيْنَ يَذْهَبُونَ بِهَا , يَسْمَعُ صَوْتَهَا كُلُّ شَيْءٍ، إِلَّا الْإِنْسَانَ وَلَوْ سَمِعَ الْإِنْسَانُ لَصَعِقَ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے سعید مقبری نے بیان کیا۔ ان سے ان کے والد (کیسان) نے اور انہوں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ آپ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ جب میت چارپائی پر رکھی جاتی ہے اور لوگ اسے کاندھوں پر اٹھاتے ہیں اس وقت اگر وہ مرنے والا نیک ہوتا ہے تو کہتا ہے کہ مجھے جلد آگے بڑھائے چلو۔ لیکن اگر نیک نہیں ہوتا تو کہتا ہے کہ ہائے بربادی! مجھے کہاں لیے جا رہے ہو۔ اس کی یہ آواز انسان کے سوا ہر اللہ کہ مخلوق سنتی ہے۔ کہیں اگر انسان سن پائے تو بیہوش ہو جائے۔
Narrated Abu Sa`id Al-Khudri: The Prophet said, "When a funeral is ready and the men carry the deceased on their necks (shoulders), if it was pious then it will say, 'Present me quickly', and if it was not pious, then it will say, 'Woe to it (me), where are they taking it (me)?' And its voice is heard by everything except mankind and if he heard it he would fall unconscious."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 23, Number 402
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1316
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری ؒ نے مذکورہ حدیث پر ایک اور عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: (كلام الميت علی الجنازة) ”میت کا چارپائی پر کلام کرنا“ یہ تکرار نہیں، کیونکہ اس حدیث سے جنازے کو جلدی لے کر چلنا ثابت کیا گیا ہے۔ گویا یہ پہلے عنوان کا تکملہ اور تتمہ ہے اور یہ باب فی باب کی قبیل سے ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جنازہ اٹھاتے ہی اس کی پیشی شروع ہو جاتی ہے۔ (2) واضح رہے کہ جنازہ اٹھاتے وقت اللہ تعالیٰ میت کو برزخی زبان عطا کر دیتا ہے۔ اگر وہ جنتی ہے تو اس جنت کے شوق میں کہتا ہے کہ مجھے جلدی جلدی لے چلو تاکہ میں اپنی مراد کو حاصل کروں اور اگر دوزخی ہے تو گھبرا کر کہتا ہے کہ مجھے کہاں لے جا رہے ہو؟ اس وقت اللہ تعالیٰ ایسے طریقے سے بولنے کی طاقت دیتا ہے کہ اس کی آواز کو جنوں اور انسانوں کے علاوہ تمام مخلوق سنتی ہے۔ (3) اس حدیث سے بعض حضرات نے سماع موتیٰ کا مسئلہ کشید کیا ہے جو بالکل بے بنیاد ہے۔ اس کی وضاحت ہم حدیث: 3976 میں کریں گے۔ (4)(إذا وضعت الجنازة) کے دو مفہوم ہیں: ایک یہ کہ جب میت کو تیار کر کے چارپائی پر رکھ دیا جاتا ہے، دوسرا یہ کہ جب میت کو گردنوں پر اٹھا لیا جاتا ہے۔ پہلا مفہوم زیادہ واضح ہے اور اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”نیک آدمی کو جب چارپائی پر رکھا جاتا ہے تو کہتا ہے کہ مجھے جلد لے چلو، مجھے جلد لے چلو۔ “(سنن النسائي، الجنائز، حدیث: 1909)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1316