(مرفوع) حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا عثمان بن عمر , قال: اخبرني ابن ابي ذئب، عن سعيد المقبري , قال: قال ابو هريرة رضي الله عنه: يقول الناس اكثر ابو هريرة، فلقيت رجلا , فقلت:" بما قرا رسول الله صلى الله عليه وسلم البارحة في العتمة؟ فقال: لا ادري، فقلت: لم تشهدها؟ قال: بلى، قلت: لكن انا ادري، قرا سورة كذا وكذا".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ , قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ , قَالَ: قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: يَقُولُ النَّاسُ أَكْثَرَ أَبُو هُرَيْرَةَ، فَلَقِيتُ رَجُلًا , فَقُلْتُ:" بِمَا قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْبَارِحَةَ فِي الْعَتَمَةِ؟ فَقَالَ: لَا أَدْرِي، فَقُلْتُ: لَمْ تَشْهَدْهَا؟ قَالَ: بَلَى، قُلْتُ: لَكِنْ أَنَا أَدْرِي، قَرَأَ سُورَةَ كَذَا وَكَذَا".
ہم سے محمد بن مثنی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عثمان بن عمر نے کہا کہ مجھے ابن ابی ذئب نے خبر دی، انہیں سعید مقبری نے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا لوگ کہتے ہیں کہ ابوہریرہ بہت زیادہ حدیثیں بیان کرتا ہے (اور حال یہ ہے کہ) میں ایک شخص سے ایک مرتبہ ملا اور اس سے میں نے (بطور امتحان) دریافت کیا کہ گزشتہ رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء میں کون کون سی سورتیں پڑھی تھیں؟ اس نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم۔ میں نے پوچھا کہ تم نماز میں شریک تھے؟ کہا کہ ہاں شریک تھا۔ میں نے کہا لیکن مجھے تو یاد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں فلاں سورتیں پڑھی تھیں۔
Narrated Abu Huraira: People say that I narrate too many narrations of the Prophet; once I met a man (during the lifetime of the Prophet) and asked him, "Which Sura did Allah's Apostle s recite yesterday in the `Isha' prayer?" He said, "I do not know." I said, "Did you not attend the prayer?" He said, "Yes, (I did)." I said, "I know. He recited such and such Sura."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 22, Number 314
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1223
حدیث حاشیہ: اس روایت میں ابوہریرہ ؓ نے اس کی وجہ بتائی ہے کہ میں احادیث دوسرے بہت سے صحابہ کے مقابلے میں زیادہ کیوں بیان کرتا ہوں۔ ان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ میں آپ ﷺ کی باتوں کو اور دوسرے اعمال کو یاد رکھنے کی کوشش دوسروں کے مقابلے میں زیادہ کرتا تھا۔ ایک روایت میں آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ میں ہر وقت آنحضور ﷺ کےساتھ رہتا تھا، میرے اہل وعیال نہیں تھے، کھانے کمانے کی فکر نہیں تھی صفہ میں رہنے والے غریب صحابہ کے ساتھ مسجد نبوی میں دن گزرتا تھا اور آنحضورﷺ کا ساتھ نہیں چھوڑتا تھا۔ اس لیے میں نے احادیث آپ سے زیادہ سنیں اور چونکہ محفوظ بھی رکھیں اس لیے انہیں بیان کرتا ہوں۔ یہ حدیث کتاب العلم میں پہلے بھی آچکی ہے۔ وہیں اس کی بحث کا موقع بھی تھا۔ ان احادیث کو امام بخاری ؒ نے ایک خاص عنوان کے تحت اس لیے جمع کیا ہے کہ وہ بتانا چاہتے ہیں کہ نماز پڑھتے ہوئے کسی چیز کا خیال آنے یا کچھ سوچنے سے نماز نہیں ٹوٹتی۔ خیالات اورتفکرات ایسی چیزیں ہیں جن سے بچنا ممکن نہیں ہوتا۔ لیکن حالات اور خیالات کی نوعیت کے فرق کا یہاں بھی لحاظ ضرور ہوگا۔ اگر امور آخرت کے متعلق خیالات نماز میں آئیں تو وہ دنیاوی امور کے بنسبت نماز کی خوبیوں پر کم اثر انداز ہونگے۔ (تفہیم البخاری) باب اور حدیث میں مطابقت یہ ہے کہ وہ صحابی نماز اور خطرات میں مستغرق رہتا تھا۔ پھر بھی وہ اعادہ صلوۃ کے ساتھ مامور نہیں ہوا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1223
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1223
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ وہ شخص دوران نماز دنیاوی سوچ بچار میں مصروف رہا، اس بنا پر وہ رسول اللہ ﷺ کی قراءت کو ضبط نہ کر سکا۔ ایسا کرنے سے خشوع خضوع میں کمی تو آ جاتی ہے لیکن نماز کا بطلان نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس حضرت ابو ہریرہ ؓ دوران نماز میں رسول اللہ ﷺ کی قراءت کے متعلق غوروفکر کرتے رہے، اس لیے انہوں نے ان سورتوں کو یاد رکھا جو رسول اللہ ﷺ نے گزشتہ شب نماز میں پڑھی تھیں۔ (فتح الباري: 119/3) بہرحال دوران نماز تفکرات آنے سے نماز میں کوئی خلل نہیں آتا۔ (2) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت ابو ہریرہ ؓ کو دوسروں سے زیادہ ضبط و اتقان تھا۔ (3) حضرت ابو ہریرہ ؓ پر اعتراض رسول اللہ ﷺ کی زندگی کے بعد ہوا۔ اس اعتراض کا جواب انہوں نے اپنے ایک قصے سے استدلال کرتے ہوئے دیا جو رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں پیش آیا تھا، یعنی مجھے رسول اللہ ﷺ کے اقوال و افعال کی فکر رہتی تھی، میں ان میں غوروخوض کرتا جبکہ باقی لوگ اپنی کھیتی باڑی اور کاروبار میں مصروف رہتے۔ (4) بہرحال امام بخاری ؒ بتانا چاہتے ہیں کہ نماز پڑھتے ہوئے کسی چیز کا خیال آنے یا کچھ سوچ بچار کرنے سے نماز باطل نہیں ہوتی، کیونکہ خیالات و تفکرات ایسی چیز ہیں جن پر کنٹرول نہیں کیا جا سکتا، لیکن خیالات کی نوعیت کا فرق ضرور ملحوظ خاطر رکھنا ہو گا۔ دوران نماز اگر امور آخرت کے متعلق خیالات آئیں تو وہ دنیاوی امور کی نسبت نماز کی خوبیوں پر کم اثر انداز ہوں گے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1223