صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: نماز کے کام کے بارے میں
The Book of Dealing With Actions In As-Salat (The Prayer)
7. بَابُ إِذَا دَعَتِ الأُمُّ وَلَدَهَا فِي الصَّلاَةِ:
7. باب: اگر کوئی نماز پڑھ رہا ہو اور اس کی ماں اس کو بلائے تو کیا کرے؟
(7) Chapter. If a mother calls her son while he is offering As-Salat (prayer).
حدیث نمبر: 1206
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) وقال الليث: حدثني جعفر، عن عبد الرحمن بن هرمز , قال: قال ابو هريرة رضي الله عنه، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: نادت امراة ابنها وهو في صومعة , قالت: يا جريج، قال: اللهم امي وصلاتي، قالت: يا جريج، قال: اللهم امي وصلاتي، قالت: يا جريج، قال: اللهم امي وصلاتي، قالت: اللهم لا يموت جريج حتى ينظر في وجوه المياميس، وكانت تاوي إلى صومعته راعية ترعى الغنم فولدت، فقيل لها: ممن هذا الولد؟ قالت: من جريج، نزل من صومعته، قال جريج: اين هذه التي تزعم ان ولدها لي؟ قال: يا بابوس من ابوك؟ قال: راعي الغنم(مرفوع) وَقَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِي جَعْفَرٌ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هُرْمُزَ , قَالَ: قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نَادَتِ امْرَأَةٌ ابْنَهَا وَهُوَ فِي صَوْمَعَةٍ , قَالَتْ: يَا جُرَيْجُ، قَالَ: اللَّهُمَّ أُمِّي وَصَلَاتِي، قَالَتْ: يَا جُرَيْجُ، قَالَ: اللَّهُمَّ أُمِّي وَصَلَاتِي، قَالَتْ: يَا جُرَيْجُ، قَالَ: اللَّهُمَّ أُمِّي وَصَلَاتِي، قَالَتْ: اللَّهُمَّ لَا يَمُوتُ جُرَيْجٌ حَتَّى يَنْظُرَ فِي وُجُوهِ الْمَيَامِيسِ، وَكَانَتْ تَأْوِي إِلَى صَوْمَعَتِهِ رَاعِيَةٌ تَرْعَى الْغَنَمَ فَوَلَدَتْ، فَقِيلَ لَهَا: مِمَّنْ هَذَا الْوَلَدُ؟ قَالَتْ: مِنْ جُرَيْجٍ، نَزَلَ مِنْ صَوْمَعَتِهِ، قَالَ جُرَيْجٌ: أَيْنَ هَذِهِ الَّتِي تَزْعُمُ أَنَّ وَلَدَهَا لِي؟ قَالَ: يَا بَابُوسُ مَنْ أَبُوكَ؟ قَالَ: رَاعِي الْغَنَمِ
اور لیث بن سعد نے کہا کہ مجھ سے جعفر بن ربیعہ نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن ہرمز اعرج نے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، (بنی اسرائیل کی) ایک عورت نے اپنے بیٹے کو پکارا، اس وقت وہ عبادت خانے میں تھا۔ ماں نے پکارا کہ اے جریج! جریج (پس و پیش میں پڑ گیا اور دل میں) کہنے لگا کہ اے اللہ! میں اب ماں کو دیکھوں یا نماز کو۔ پھر ماں نے پکارا: اے جریج! (وہ اب بھی اس پس و پیش میں تھا) کہ اے اللہ! میری ماں اور میری نماز! ماں نے پھر پکارا: اے جریج! (وہ اب بھی یہی) سوچے جا رہا تھا۔ اے اللہ! میری ماں اور میری نماز! (آخر) ماں نے تنگ ہو کر بددعا کی اے اللہ! جریج کو موت نہ آئے جب تک وہ فاحشہ عورت کا چہرہ نہ دیکھ لے۔ جریج کی عبادت گاہ کے قریب ایک چرانے والی آیا کرتی تھی جو بکریاں چراتی تھی۔ اتفاق سے اس کے بچہ پیدا ہوا۔ لوگوں نے پوچھا کہ یہ کس کا بچہ ہے؟ اس نے کہا کہ جریج کا ہے۔ وہ ایک مرتبہ اپنی عبادت گاہ سے نکل کر میرے پاس رہا تھا۔ جریج نے پوچھا کہ وہ عورت کون ہے؟ جس نے مجھ پر تہمت لگائی ہے کہ اس کا بچہ مجھ سے ہے۔ (عورت بچے کو لے کر آئی تو) انہوں نے بچے سے پوچھا کہ بچے! تمہارا باپ کون؟ بچہ بول پڑا کہ ایک بکری چرانے والا گڈریا میرا باپ ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle said, "A woman called her son while he was in his hermitage and said, 'O Juraij' He said, 'O Allah, my mother (is calling me) and (I am offering) my prayer (what shall I do)?' She again said, 'O Juraij!' He said again, 'O Allah ! My mother (is calling me) and (I am offering) my prayer (what shall I do)?' She again said, 'O Juraij' He again said, 'O Allah! My mother (is calling me) and (I am offering) my prayer. (What shall I do?)' She said, 'O Allah! Do not let Juraij die till he sees the faces of prostitutes.' A shepherdess used to come by his hermitage for grazing her sheep and she gave birth to a child. She was asked whose child that was, and she replied that it was from Juraij and that he had come out from his hermitage. Juraij said, 'Where is that woman who claims that her child is from me?' (When she was brought to him along with the child), Juraij asked the child, 'O Babus, who is your father?' The child replied, 'The shepherd.' " (See Hadith No 662. Vol 3).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 22, Number 297


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1206 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1206  
حدیث حاشیہ:
ماں کی اطاعت فرض ہے اور باپ سے زیادہ ماں کا حق ہے۔
اس مسئلہ میں اختلاف ہے بعضوں نے کہا جواب نہ دے، اگر دے گا تو نماز فاسد ہو جائے گی۔
بعضوں نے کہا جواب دے اور نماز فاسد نہ ہوگی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا کہ جب تو نماز میں ہو اور تیری ماں تجھ کو بلائے تو جواب دے اور اگر باپ بلائے تو جواب نہ دے۔
امام بخاری رحمہ اللہ جریج کی حدیث اس باب میں لائے کہ ماں کا جواب نہ دینے سے وہ (تنگی میں)
مبتلا ہوئے۔
بعضوں نے کہا جریج کی شریعت میں نماز میں بات کرنا مباح تھا تو ان کو جواب دینا لازم تھا۔
انہوں نے نہ دیا تو ماں کی بددعا ان کو لگ گئی۔
ایک روایت میں ہے کہ اگر جریج کو معلوم ہوتا تو جواب دیتا کہ ماں کا جواب دینا بھی اپنے رب کی عبادت ہے۔
بابوس ہر شیرخوار بچے کو کہتے ہیں یا اس بچے کا نام ہوگا۔
اللہ نے اس کو بولنے کی طاقت دی۔
اس نے اپنا باپ بتلایا۔
جریج اس طرح اس الزام سے بری ہوئے۔
معلوم ہوا کہ ماں کو ہر حال میں خوش رکھنا اولاد کے لیے ضروری ہے ورنہ ان کی بد دعا اولاد کی زندگی کو تباہ کر سکتی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1206   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1206  
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے اس عنوان اور حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ جب کئی متعارض امور جمع ہو جائیں تو اہم اور ضروری امر کو اختیار کرنا چاہیے۔
حضرت جریج کو چاہیے تھا کہ وہ نماز کو مختصر یا ختم کر کے اپنی والدہ کی آواز پر لبیک کہتے۔
انہوں نے اس امر میں کوتاہی کی تو ان کی والدہ کی بددعا مؤثر ثابت ہوئی۔
نماز تو بعد میں بھی ادا ہو سکتی تھی، لیکن ماں کی مامتا کو اولین ترجیح دینا ضروری تھا۔
چونکہ ان پر جو الزام لگا وہ بھی انتہائی سنگین تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے اس کی براءت کا سبب پیدا فرمایا۔
جب نومولود بچے نے ان کے پاک دامن ہونے کی شہادت دی تو معلوم ہوا کہ وہ حق و صداقت کے پیکر تھے۔
(2)
امام بخاری ؒ نے اس عنوان اور حدیث سے قطعاً یہ استدلال نہیں کیا کہ دوران نماز میں گفتگو کرنا مباح ہے جبکہ خود امام بخاری اس کے ممنوع ہونے پر ایک عنوان قائم کر چکے ہیں۔
(صحیح البخاري، العمل في الصلاة، باب: 2)
رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت ہے کہ اگر آپ کسی انسان کو آواز دیں جبکہ وہ نماز پڑھ رہا ہو تو اس پر لازم ہے کہ نماز توڑ کر آپ کی آواز پر لبیک کہے جیسا کہ حدیث میں ہے۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4847)
اس مقام پر دو مسئلے ہیں جن میں اختلاف ہے۔
امام بخاری ؒ نے اس اختلاف کی وجہ سے دو ٹوک فیصلہ نہیں کیا۔
پہلا مسئلہ یہ ہے کہ ایسے حالات میں ماں کی پکار پر لبیک کہنا ضروری ہے یا نہیں؟ دوسرا مسئلہ اگر لبیک کہنا ضروری ہے تو اس سے نماز باطل ہو گی یا نہیں؟ (فتح الباري: 102/3)
اس حدیث کے متعلق دیگر مباحث ہم صحیح البخاری، کتاب أحاديث الأنبياء، حدیث: 3436 کے تحت ذکر کریں گے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1206   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.