(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن عبيد الله , قال: حدثني نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما , قال:" كان النبي صلى الله عليه وسلم ياتي مسجد قباء راكبا وماشيا"، زاد ابن نمير، حدثنا عبيد الله، عن نافع فيصلي فيه ركعتين.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ , قَالَ: حَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا , قَالَ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْتِي مَسْجِدَ قُبَاءً رَاكِبًا وَمَاشِيًا"، زَادَ ابْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ فَيُصَلِّي فِيهِ رَكْعَتَيْنِ.
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، اور ان سے عبیداللہ عمری نے بیان کیا کہ مجھ سے نافع نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کیاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قباء آتے کبھی پیدل اور کبھی سواری پر۔ ابن نمیر نے اس میں یہ زیادتی کی ہے کہ ہم سے عبیداللہ بن عمیر نے بیان کیا اور ان سے نافع نے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں دو رکعت نماز پڑھتے تھے۔
Narrated Ibn `Umar: The Prophet used to go to the Mosque of Quba (sometimes) walking and sometimes riding. Added Nafi` (in another narration), "He then would offer two rak`at (in the Mosque of Quba)."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 21, Number 285
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1194
حدیث حاشیہ: آج کل تو سواریوں کی اس قدر بہتات ہوگئی ہے کہ ہر ساعت سواری موجود ہے۔ اس لیے آنحضرت ﷺ نے ہر دو عمل کر کے دکھلائے۔ پھر بھی پیدل جانے میں زیادہ ثواب یقینی ہے۔ مسجد قباء میں حاضری مسجد نبوی ہی کی زیارت کا ایک حصہ سمجھنا چاہیے۔ لہٰذا اسے حدیث لا تشد الرحال کے تحت نہیں لایا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم بالصواب۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1194
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1194
حدیث حاشیہ: احادیث میں مسجد قباء آنے اور اس میں نماز پڑھنے کی فضیلت بھی بیان ہوئی ہے، چنانچہ حضرت سہل بن حنیف ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص اپنے گھر سے نکلے اور مسجد قباء جا کر نماز پڑھے تو اسے عمرہ ادا کرنے کے برابر ثواب ملتا ہے۔ “(سنن النسائي، المساجد، حدیث: 700) ایک روایت میں ہے کہ جو شخص گھر سے وضو کر کے مسجد قباء آئے اور اس میں نماز ادا کرے تو اسے عمرہ ادا کرنے کا ثواب ملتا ہے۔ (سنن ابن ماجة، إقامةالصلوات، حدیث: 1412) عمر بن شبہ نے تاریخ مدینہ منورہ میں صحیح سند سے روایت کیا ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے فرمایا: مسجد قباء میں نماز پڑھنا مجھے بیت المقدس دو دفعہ جانے سے زیادہ محبوب ہے۔ اگر لوگ مسجد قباء کی فضیلت پر مطلع ہو جائیں تو دور دراز سے چل کر وہاں پہنچیں۔ (فتح الباري: 90/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1194
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 191
´مسجد قبا میں نماز پڑھنے کا ثواب` «. . . 279- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يأتي قباء ماشيا وراكبا. . . .» ”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیدل چل کر اور سوار ہو کر (دونوں حالتوں میں) قبا کو جایا کرتے تھے . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 191]
تخریج الحدیث: [وأخرجه مسلم 518/1399، من حديث مالك به، ورواه البخاري 7326، من حديث عبدالله بن دينار به] تفقہ: ➊ پیدل یا سوار ہو کر مسجد قبا جانا اور دو رکعتیں پڑھنا سنت ہے۔ ➋ ایک حدیث میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ہفتے کے دن قبا جاتے تھے اور ابن عمر (رضی اللہ عنہما) بھی اسی طرح کرتے تھے۔ [صحيح مسلم: 521/1399، دارالسلام: 3396] ➌ گھر سے وضو کر کے / مسجد قبا میں نماز پڑھنا عمرے کے (ثواب کے) برابر ہے۔ دیکھئے [سنن الترمذي 324 وسنده حسن وقال الترمذي: حسن غريب، وسنن ابن ماجه 1412]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 279
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 699
´مسجد قباء اور اس میں نماز کی فضیلت کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد قباء (کبھی) سوار ہو کر اور (کبھی) پیدل جاتے تھے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 699]
699 ۔ اردو حاشیہ: آپ کے تشریف لے جانے کا مقصد اپنی ابتدائی مسجد کی عزت افزائی اور وہاں کے مسلمانوں سے ملاقات تھا کیونکہ یہ مسجد بہت دور تھی۔ ان لوگوں کا آپ کے پاس آنا مشکل تھا، بجائے اس کے کہ وہ سب آتے، آپ کا وہاں تشریف لے جانا آسان تھا۔ اس طرح وہاں کے لوگوں سے ملاقات بھی ہو جایا کرتی تھی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 699
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2040
´مدینہ کے حرم ہونے کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد قباء پیدل اور سوار (دونوں طرح سے) آتے تھے ابن نمیر کی روایت میں ”اور دو رکعت پڑھتے تھے“(کا اضافہ ہے)۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 2040]
فوائد ومسائل: مدینہ منورہ کی مشروع ومسنون زیارات میں سے اہم ترین زیارت مسجد قباء کی ہے بلکہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی تو یہ ہے۔ کہ یہاں نماز پڑھنے کا ثواب عمرے کا سا ثواب ہے۔ (سنن ابن ماجة، إقامة الصلاة، حدیث: 1411)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2040
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3391
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، قباء سوار اور پیدل تشریف لاتے تھے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3391]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند دن قباء میں قیام فرمایا تھا، اور یہاں مسجد کی تعمیر شروع کی تھی، اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں اپنے ساتھیوں کے ساتھ نماز پڑھتے تھے، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے اس مسجد کی بنیاد رکھی تھی، اس لیے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس مسجد کو ﴿أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَى﴾ کا نام دیا تھا۔ لیکن مسجد نبوی کی تعمیر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنفس نفیس حصہ لیا تھا اور وہیں ہمیشہ نمازیں ادا فرماتے تھے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ﴿أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَى﴾ فرمایا، اورآغاز تعمیر کے اعتبار سے مسجد قباء اولین مسجد ہے اس لیے جمہور اس کو بھی اس کا مصداق قرار دیتے ہیں۔ مسجد قباء مدینہ منورہ کے بالائی علاقہ میں دو تین میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ جس میں عمروبن عوف کا خاندان مقیم تھا، اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے انھیں کے ہاں آ کر ٹھہرے تھے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ہفتہ، وہاں مسجد میں تشریف لے جاتے، تاکہ ان لوگوں کے حالات سے آ گاہ ہو سکیں، اور جو لوگ جمعہ پڑھنے مسجد نبوی میں کسی عذر کی بنا پر نہیں آ سکے تھے، ان سے مل لیں، اور بقول علامہ عینی، جمعہ کے دن چونکہ جمعہ کے وقت، مسجد قباء میں نماز نہیں ہوتی تھی، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری اور نماز سے اس کا بھی تدارک ہو جاتا، اور اس طرح یہود کی بھی مخالفت ہو جاتی تھی، جو ہفتہ کے دن میں کام کے لیے نہیں نکلتے تھے۔ اور اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان اپنے طور پر کسی نیک کام کے لیے دن مقرر کر سکتا ہے، لیکن اس کو دین وشریعت قرار دے کر دوسروں کو اس کی تلقین وتبلیغ نہیں کر سکتا، اور نہ ہی اس میں تقدیم وتاخیر کوجرم وگناہ قرار دے سکتا ہے اپنی سہولت وآسانی کے لیے اس میں تبدیلی کر سکتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3391
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1193
1193. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ ہر ہفتے کے دن مسجد قباء پیدل اور سوار ہو کر تشریف لے جاتے تھے۔ اور (راوی حدیث کہتے ہیں:) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ بھی اس طرح کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1193]
حدیث حاشیہ: معلوم ہوا کہ مسجد قباء کی ان دو رکعتوں کا عظیم ثواب ہے۔ اللہ ہر مسلمان کو نصیب فرمائے۔ آمین۔ یہی وہ تاریخی مسجد ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں ان لفظوں میں کیا گیا ہے ﴿لَمَسجِد اُسِّسَ عَلَی التَّقوٰی مِن اَوَّلِ یَومٍ اَحَقُّ اَن تَقُومَ فِیہِ فِیہِ رِجَال یُّحِبُّونَ اَن یَّتَطَھَّرُوا وَاللّٰہُ یُحِبُّ المُطَّھَّرِینَ﴾(التوبة: 108) یعنی یقیناً اس مسجد کی بنیاد اول دن سے تقوی پر رکھی گئی ہے۔ اس میں تیرا نماز کے لیے کھڑا ہونا انسب ہے۔ کیونکہ اس میں ایسے نیک دل لوگ ہیں جو پاکیزگی چاہتے ہیں۔ اور اللہ تعالی پاکی چاہنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1193
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7326
7326. سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ قباء بستی میں پیدل اور سوار تشریف لاتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7326]
حدیث حاشیہ: قباء مدینہ کے قریب وہ بستی جس میں آپ نے بوقت ہجرت نزول اجلال فرمایا اس کی مسجد بھی ایک تاریخی جگہ ہے جس کا ذکر قرآن میں مذکور ہوا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7326
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1193
1193. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ ہر ہفتے کے دن مسجد قباء پیدل اور سوار ہو کر تشریف لے جاتے تھے۔ اور (راوی حدیث کہتے ہیں:) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ بھی اس طرح کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1193]
حدیث حاشیہ: امام بخاری ؒ نے اس عنوان اور پیش کردہ حدیث سے ثابت کیا ہے کہ مسجد قباء ان مساجد سے ہے جن کی طرف پیدل اور سوار ہو کر جانے میں چنداں حرج نہیں اور ایسا کرنا رخت سفر باندھنے سے متعلق حکم امتناعی میں داخل نہیں۔ جب مسجد نبوی کی تعمیر ہوئی تو اہل قباء اور باشندگان عوالی نماز جمعہ ادا کرنے کے لیے مسجد نبوی میں آئے تھے، اس بنا پر جمعہ کے دن مسجد قباء نمازیوں سے خالی رہتی تھی۔ اس کی تلافی کے لیے رسول اللہ ﷺ ہفتے کے دن مسجد قباء تشریف لے جاتے تھے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ جمعے کے دن مشاغل کا ہجوم ہوتا تھا اور ہفتے کے روز فرصت کے لمحات میسر آنے پر آپ مسجد قباء کا رخ فرماتے تاکہ اہل قباء کی خبر گیری کی جائے اور جمعہ کے لیے مدینہ منورہ نہ جا سکنے والوں کا حال دریافت کیا جائے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اپنے طور پر بعض اعمال صالح کی ادائیگی کے لیے کسی دن کو متعین کیا جا سکتا ہے اور پھر اس پر مداومت کرنا بھی جائز ہے۔ (فتح الباري: 90/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1193
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7326
7326. سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ قباء بستی میں پیدل اور سوار تشریف لاتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7326]
حدیث حاشیہ: قباء، مدینہ طیبہ کے نزدیک وہ بستی ہے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بوقت ہجرت کچھ دن ٹھہرے تھے۔ اس بستی کی مسجد بھی ایک تاریخی جگہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بذاتِ خود کبھی پیدل اور کبھی سوار ہوکر وہاں تشریف لے جاتے۔ یہ قدرومنزلت مدینہ طیبہ کے مقامات کے علاوہ کسی اور جگہ کو نصیب نہیں ہوئی۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7326