(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله , قال: حدثنا سفيان، عن عمرو , قال: سمعت ابا الشعثاء جابرا , قال: سمعت ابن عباس رضي الله عنهما , قال:" صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ثمانيا جميعا وسبعا جميعا , قلت: يا ابا الشعثاء اظنه اخر الظهر وعجل العصر وعجل العشاء واخر المغرب، قال: وانا اظنه".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو , قَالَ: سَمِعْتُ أبَا الشَّعْثَاءِ جَابِرًا , قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا , قَالَ:" صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَمَانِيًا جَمِيعًا وَسَبْعًا جَمِيعًا , قُلْتُ: يَا أَبَا الشَّعْثَاءِ أَظُنُّهُ أَخَّرَ الظُّهْرَ وَعَجَّلَ الْعَصْرَ وَعَجَّلَ الْعِشَاءَ وَأَخَّرَ الْمَغْرِبَ، قَالَ: وَأَنَا أَظُنُّهُ".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے عمرو بن دینار سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابوالشعثاء جابر بن عبداللہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آٹھ رکعت ایک ساتھ (ظہر اور عصر) اور سات رکعت ایک ساتھ (مغرب اور عشاء ملا کر) پڑھیں۔ (بیچ میں سنت وغیرہ کچھ نہیں) ابوالشعثاء سے میں نے کہا میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر آخر وقت میں اور عصر اول وقت میں پڑھی ہو گی۔ اسی طرح مغرب آخر وقت میں پڑھی ہو گی اور عشاء اول وقت میں۔ ابوالشعثاء نے کہا کہ میرا بھی یہی خیال ہے۔
Narrated `Amr: I heard Abu Ash-sha'tha' Jabir saying, "I heard Ibn `Abbas saying, 'I offered with Allah's Apostle eight rak`at (of Zuhr and `Asr prayers) together and seven rak`at (the Maghrib and the `Isha' prayers) together.' " I said, "O Abu Ash-shatha! I think he must have prayed the Zuhr late and the `Asr early; the `Isha early and the Maghrib late." Abu Ash-sha'tha' said, "I also think so." (See Hadith No. 518 Vol. 1).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 21, Number 270
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1174
حدیث حاشیہ: یہ عمرو بن دینار کا خیال ہے ورنہ یہ حدیث صاف ہے کہ دو نمازوں کا جمع کرنا جائز ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہ یہ واقعہ مدینہ منورہ کا ہے نہ وہاں کوئی خوف تھا نہ بندش تھی۔ اوپر گزر چکا ہے کہ اہلحدیث کے نزدیک یہ جائز ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے یہ نکالا کہ سنتوں کا ترک کرناجائز ہے اور سنت بھی یہی ہے کہ جمع کرے تو سنتیں نہ پڑھے۔ (مولانا وحید الزماں مرحوم)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1174
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1174
حدیث حاشیہ: حدیث میں بحالت اقامت نمازوں کو جمع کرنے کی صورت بیان کی گئی ہے۔ کسی معقول سبب کی بنا پر بحالت اقامت بھی دو نمازوں کو جمع کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ خوف، بارش، آندھی، بیماری یا اور کوئی ہنگامی ضرورت۔ بلاوجہ نمازوں کو جمع کرنا درست نہیں۔ پھر سنن اور نوافل کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے، لیکن مقیم ہونے کی صورت میں جمع کرتے وقت پہلی نماز کے بعد والی سنتیں چھوڑ دینی چاہئیں، مثلاً: اگر ظہر و عصر کو جمع کیا ہے تو ظہر کی آخری سنتیں اور اگر مغرب و عشاء کو جمع کیا ہے تو مغرب کی سنتیں نہ پڑھی جائیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے ایک دفعہ بصرہ میں ظہر اور عصر کو جمع کیا اور ان کے درمیان کچھ نہ پڑھا، پھر انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مدینہ منورہ میں ظہر اور عصر کی آٹھ رکعات اکٹھی پڑھی تھیں اور آپ نے درمیان میں کچھ نہیں پڑھا تھا۔ (سنن النسائي، المواقیت، حدیث: 591) اس حدیث کے پیش نظر بحالت اقامت دو نمازوں کو جمع کرتے وقت پہلی نماز کے بعد والی سنتیں چھوڑ دینے میں چنداں حرج نہیں۔ صحیح بخاری کی مذکورہ روایت اسی صورت پر محمول ہے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1174
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 543
´کبھی ظہر کی نماز عصر کے وقت تک تاخیر کرنا` «. . . عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، " أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى بِالْمَدِينَةِ سَبْعًا وَثَمَانِيًا الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ "، فَقَالَ أَيُّوبُ: لَعَلَّهُ فِي لَيْلَةٍ مَطِيرَةٍ، قَالَ: عَسَى . . .» ”. . . ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں رہ کر سات رکعات (ایک ساتھ) اور آٹھ رکعات (ایک ساتھ) پڑھیں۔ ظہر اور عصر (کی آٹھ رکعات) اور مغرب اور عشاء (کی سات رکعات) ایوب سختیانی نے جابر بن زید سے پوچھا شاید برسات کا موسم رہا ہو۔ جابر بن زید نے جواب دیا کہ غالباً ایسا ہی ہو گا . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ/بَابُ تَأْخِيرِ الظُّهْرِ إِلَى الْعَصْرِ:: 543]
� تشریح: ترمذی نے سعید بن جبیر عن ابن عباس سے اس حدیث پر یہ باب منعقد کیا ہے «باب ماجاءفي الجمع بن الصلوٰتين» یعنی ”دو نمازوں کے جمع کرنے کا بیان۔“ اس روایت میں یہ وضاحت ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر اور عصر کو اور مغرب اور عشاء کو جمع فرمایا، ایسے حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ کوئی خوف لاحق تھا نہ بارش تھی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے بتلایاکہ «اراد ان لاتحرج امته» تاکہ آپ کی امت مشقت میں نہ ڈالی جائے۔
حضرت مولاناعبدالرحمن مبارک پوری مرحوم فرماتے ہیں: «قال الحافظ فى الفتح وقد ذهب جماعة من الائمة الي اخذ بظاهر هذالحديث فجوزوا الجمع فى الحضر مطلقالكن بشرط ان لايتخذ ذلك عادة وممن قال به ابن سيرين وربيعة واشهب وابن المنذر والقفال الكبير وحكاه الخطابي عن جماعة من اهل الحديث انتهيٰ۔ وذهب الجمهور الي ان الجمع بغيرعذر لايجوز۔»[تحفة الاحوذي، ج 1، ص: 166] یعنی حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں کہا ہے کہ ائمہ کی ایک جماعت نے اس حدیث کے ظاہر ہی پر فتویٰ دیا ہے۔ اور حضر میں بھی مطلقاً انھوں نے جائز کہا ہے کہ دو نمازوں کو جمع کر لیا جائے اس شرط کے ساتھ کہ اسے عادت نہ بنا لیا جائے۔ ابن سیرین، ربیعہ، اشہب، ابن منذر، قفال کبیر کا یہی فتویٰ ہے۔ اور خطابی نے اہل حدیث کی ایک جماعت سے یہی مسلک نقل کیا ہے۔ مگر جمہور کہتے ہیں کہ بغیر عذر جمع کرنا جائز نہیں ہے۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ اتنے اماموں کا اختلاف ہونے پر یہ نہیں کہا جا سکتاکہ جمع کرنا بالاجماع ناجائز ہے۔ امام احمد بن حنبل اور اسحاق بن راہویہ نے مریض اورمسافر کے لیے ظہر اور عصر، اور مغرب اور عشاء میں جمع کرنا مطلقاً جائز قرار دیا ہے۔ دلائل کی رو سے یہی مذہب قوی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 543
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 604
´دوران اقامت (حضر میں) جمع بین الصلاتین کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے (ظہر و عصر کی) آٹھ رکعتیں، اور (مغرب و عشاء کی) سات رکعتیں ملا کر پڑھیں۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 604]
604 ۔ اردو حاشیہ: اس مفہوم کی روایت پیچھے گزر چکی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے حدیث: 590۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 604
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1214
´دو نمازوں کو جمع کرنے کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے میں ہمارے ساتھ ظہر و عصر ملا کر آٹھ رکعتیں اور مغرب و عشاء ملا کر سات رکعتیں پڑھیں۔ سلیمان اور مسدد کی روایت میں «بنا» یعنی ہمارے ساتھ کا لفظ نہیں ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے صالح مولیٰ توامہ نے ابن عباس سے روایت کیا ہے، اس میں «بغير مطر»”بغیر بارش“ کے الفاظ ہیں۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة السفر /حدیث: 1214]
1214۔ اردو حاشیہ: غرض اس سے یہی تھی۔ جو سنن ابی داود حدیث [1211] میں بیان ہوئی ہے کہ امت کو مشقت نہ ہو صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین اور جمہور امت نے اس کو عادت بنا لینے کی اجازت نہیں دی، صرف نہایت ہی ضرورت کے وقت اجازت دی ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1214
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1634
جابر بن زید ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ آٹھ رکعات (ظہر و عصر) اکٹھی پڑھیں اور سات رکعات (مغرب و عشاء) اکٹھی پڑھیں، عمرو کہتے ہیں میں نے ابو شعثاء (جابر بن زید) سے پوچھا کہ میرا خیال ہے آپ ﷺ نے ظہر میں تاخیر کی اور عصر جلدی پڑھی، مغرب کو مؤخر کیا اور عشاء میں تعجیل (جلدی کی، انہوں نے کہا، میرا خیال بھی یہی ہے۔) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یہی باب باندھا ہے۔ (أَخَّرَ الظُّھْرَ وَ عَجَّلَ الْعَصْرَ)۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1634]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: ائمہ ثلاثہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو جمع تاخیر پر محمول کیا ہے کہ آپﷺ نے پہلی نماز کو دوسری نماز کے آغاز تک مؤخر کر کے دونوں کو دوسری نماز کے وقت میں پڑھا۔ اور احناف نے اس کو جمع صوری پرمحمول کیا ہے کہ دونوں نمازوں کو اپنے اپنے وقت میں پڑھا ہے۔ ہاں پہلی نماز اپنے آخری وقت میں اور دوسری اپنے ابتدائی وقت میں پڑھی گئی ہے۔ اسی طرح دونوں کو جمع کیا ہے لیکن پڑھا اپنے اپنے وقت میں ہے۔ ظاہر بات ہے کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے جمع کرنے کی جو علت اور سبب بیان کی ہے یہ صورت اس کے منافی ہے کیونکہ بالکل آخری اور ابتدائی وقت کوملحوظ رکھنا آسان کام نہیں ہے اورجمع تاخیر کی مذکورہ بالا روایات کے بھی یہ تاویل منافی ہے۔ جبکہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما اس جمع کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ اور عادت قرار دے رہے ہیں جیسا کہ آگے روایت میں آ رہا ہے گویا اس طرح سفر اورحضر کی نمازوں میں جمع کی صورت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے نزدیک ایک ہی ہے۔ اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےحضرمیں یہ کام صرف ایک دفعہ ہی کیا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1634
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:543
543. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے مدینہ منورہ میں ظہر اور عصر کی آٹھ رکعتیں اور مغرب و عشاء کی سات رکعتیں (ایک ساتھ) پڑھیں۔ ایوب سختیانی نے کہا: شاید بارانی شب میں ایسا کیا ہو؟ جابر بن زید راوی نے کہا: شاید۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:543]
حدیث حاشیہ: (1) راوئ حدیث ابو شعثاء جابر بن زید ؓ کا یہ کہنا کہ بارش کی بنا پر رسول اللہ ﷺ نے ایسا کیا ہو، محل نظر ہے، کیونکہ انھیں خود بھی اس پر یقین نہیں، پھر وہ اس توجیہ پر قائم بھی نہیں رہے، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ میں نے کہا: اے ابو شعثاء! میرا خیال ہے کہ آپ نے ظہر کو مؤخر کیا اور عصر کو مقدم، اسی طرح مغرب کو مؤخر کیا ہوگا اور عشاء کو مقدم۔ ابو شعثاء نے جواب دیا: میرا بھی یہی خیال ہے۔ (صحیح البخاري، التطوع، حدیث: 1174) ایک رویت میں صراحت ہے کہ دشمن کے خوف اور بارش کے بغیر رسول اللہ ﷺ نے ان نمازوں کو جمع فرمایا۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1633(705) نیز بارش کی وجہ سے جمع تقدیم ہوسکتی ہے، جمع تاخیر نہیں، جبکہ اس حدیث میں جمع تاخیر کا ذکر ہے۔ معلوم ہوا کہ بارش کی وجہ سے دو نمازوں کو جمع نہیں کیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ بادلوں کی وجہ سے بھی ایسا نہیں ہوسکتا، کیونکہ ظہر اور عصر میں تو یہ احتمال ہوسکتا ہے، لیکن مغرب اور عشاء میں یہ ممکن نہیں، نیز بیماری کی وجہ سے بھی ایسا نہیں ہوسکتا، کیونکہ اگر بیماری کی وجہ سے ایسا ہوتا تو رسول اللہ ﷺ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ باجماعت ایسا نہ کرتے، اس لیے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم تو بیمار نہیں تھے۔ (2) دو نمازوں کو جمع کرنے کے کئی اسباب ہیں، مثلا: بارش، سفر، خوف، بیماری یا کوئی اہم مصروفیت۔ پھر انھیں جمع کرنے کی دوصورتیں ہیں: ٭جمع حقیقی: ایک نماز کو دوسری نماز کے وقت اس طرح ادا کرنا کہ پہلی نماز کا وقت گزر چکا ہو یا دوسری نماز کا ابھی وقت نہ ہوا ہو، پھر اس کی دوصورتیں ممکن ہیں۔ ٭ جمع تقدیم، یعنی ظہر کے ساتھ عصر اور مغرب کے ساتھ عشاء کی نماز ادا کرنا۔ ٭ جمع تاخیر: یعنی عصر کے ساتھ ظہر اور عشاء کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھنا۔ ٭ جمع صوری: پہلی نماز کو مؤخر کر کے آخری وقت میں اور دوسری نماز کو جلدی کرکے اول وقت میں پڑھ لینا۔ اس طرح بظاہر دونوں نمازیں جمع ہو جائیں گی، لیکن انھیں اپنے اپنے اوقات میں ہی ادا کیا جائے گا۔ (3) رسول اللہ ﷺ سے دوران سفر میں جمع تقدیم اور جمع تاخیر دونوں طرح پڑھنا ثابت ہے۔ جیسا کہ حضرت معاذ بن جبل ؓ سے روایت ہے کہ غزوۂ تبوک کے موقع پر رسول اللہ ﷺ اگر سورج ڈھلنے کے بعد سفر شروع کرتے تو ظہر اور عصر کو اس وقت پڑھ لیتے۔ اور اگر سورج ڈھلنے سے پہلے سفر شروع کرتے تو ظہر کو مؤخر کرکے عصر کے ساتھ پڑھتے۔ اسی طرح اگر سورج غروب ہونے کے بعد سفر شروع کرتے تو مغرب اور عشاء اسی وقت پڑھ لیتے اور اگر سورج غروب ہونے سے پہلے سفر شروع کرتے تو مغرب کو مؤخر کرکے عشاء کے ساتھ پڑھتے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 1220) نیز حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ دوران سفر میں جب سورض ڈھل جاتا تو پڑاؤ کرتے، پھر ظہر اور عصر کو اکٹھا ادا کرنے کے بعد کوچ فرماتے۔ (السنن الکبرٰی للبیهقي: 162/3) حضرت ابن عباس ؓ سے بھی جمع تقدیم مروی ہے، فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ جب دوران سفر میں ہوا کرتے تو اگر اپنی منزل میں سورج ڈھل جاتا توظہر اور عصر کو جمع کرکے سفر پر روانہ ہوتے اور اگر زوال آفتاب سے پہلے روانہ ہوتے تو ظہر کو مؤخر کرکے عصر کے ساتھ پڑھ لیتے، مغرب اورعشاء میں بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ (مسند أحمد: 367/1) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ دوران سفر میں نمازوں کو جمع کرنے کی دوصورتیں جائز ہیں۔ حالات وظروف کے پیش نظر جمع تقدیم اور جمع تاخیر دونوں طرح نماز ادا کرنا جائز ہے اور اس میں کوئی قباحت نہیں۔ (4) سفر کے علاوہ حضر میں بھی دونمازوں کو جمع کیا جاسکتا ہے، بشرطیکہ کسی اہم ضرورت کے پیش نظر کبھی کبھار ایسا ہواور اسے عادت نہ بنایا جائے۔ جیسا کہ مذکورہ حدیث سے پتا چلتا ہے۔ ایک رویت میں ہے کہ راوئ حدیث نے حضرت ابن عباس ؓ سے دریافت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسا کیوں کیا؟تو ابن عباس ؓ نے جواب دیا کہ ایسا امت کی سہولت کے پیش نظر کیا گیا تاکہ یہ امت کسی تنگی ا ور مشقت میں مبتلا نہ ہو۔ (مسند أحمد: 223/1) اس رفع حرج کی وضاحت درج ذیل حدیث سے بھی ہوتی ہے، حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے بصرے میں ظہر اور عصر کی نماز اکٹھی پڑھائی۔ درمیان میں کوئی وقفہ نہ تھا، اسی طرح مغرب اور عشاء کسی وقفے کے بغیر ادا کی اور آپ نے ایسا کسی مصروفیت کی وجہ سے کیا تھا۔ اس کے بعد حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے مدینہ منورہ میں ظہر اور عصر کی آٹھ رکعات کسی قسم کے وقفے کے بغیر ادا کی تھیں۔ (سنن النسائي، المواقیت، حدیث: 591) اس مصروفیت کی وضاحت بھی ایک روایت میں بیان ہوئی ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے ایک مرتبہ (بصرے میں) عصر کے بعد خطبہ دینا شروع کیا یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا اور ستارے چمکنے لگے۔ ایک آدمی دوران خطبہ میں نماز، نماز کی رٹ لگانے لگا۔ آپ نے فرمایا: مجھے سنت نہ سکھاؤ۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ظہر و عصر اور مغرب و عشاء ملا کرپڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ راوئ حدیث حضرت عبداللہ بن شفیق کہتے ہیں کہ مجھے اس سلسلے میں شبہ پیدا ہوا تو میں حضرت ابو ہریرہ ؓ کے پاس آیااور آپ سے اس کے متعلق دریافت کیا، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے اس بات کی تصدیق فرمائی۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1636(705) اس سے معلوم ہوا کہ شدید نا گزیر قسم کے حالات کے پیش نظر حالت اقامت میں بھی دونمازیں جمع کرکے پڑھی جاسکتی ہیں، تاہم سخت ضرورت کے بغیر ایسا کرنا جائز نہیں۔ ہمارے ہاں عام طور پر کاروباری حضرات کا معمول ہے کہ وہ سستی یا کاروباری مصروفیات کی وجہ سے دونمازیں جمع کرلیتے ہیں، یہ صحیح نہیں۔ بلکہ بعض روایات کے مطابق ایسا کرنا سخت گناہ ہے۔ ناگزیر حالات کے سوا ہر نماز کو اس کے وقت ہی پر پڑھنا ضروری ہے۔ والله أعلم۔ درج بالا وضاحت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حدیث میں دونمازوں کو جمع کرنا جمع حقیقی ہے، جمع صوری نہیں، جیسا کہ بعض اکابر وقت کا دعویٰ ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس رخصت کی وجہ رفع حرج بتائی ہے جبکہ جمع صوری میں واضح طور پر انسان تنگی اور مشکل میں پھنس جاتا ہے۔ عام آدمی کوتو نماز کے ابتدائی اور آخری وقت کا علم ہی نہیں ہوتا، جبکہ جمع صوری کی شکل میں ان اوقات کو تلاش کرکے اس انداز سے ادا کرنا ہے کہ پہلی نماز کا وقت ختم ہوتے ہی دوسری نماز کا وقت شروع ہوجائے، ایسا کرنا مشکل ہی نہیں، بلکہ محال ہے۔ بظاہر ایک روایت اس موقف کے خلاف معلوم ہوتی ہے: حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے مزدلفہ کے علاوہ کبھی بھی رسول اللہ ﷺ کو نماز بے وقت پڑھتے نہیں دیکھا، چنانچہ آپ نے مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کو اکٹھا پڑھا تھا اور اگلے دن صبح کی نماز کو (عمومی) وقت سے پہلے اداکیاتھا۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1682) اس حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے اپنا مشاہدہ بیان کیا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ ان کا مشاہدہ جملہ حقائق کے مطابق ہو۔ اس سے پہلے رسول اللہ ﷺ نےمیدان عرفات میں عصر کی نماز بھی اس کے وقت سے پہلے ظہر کے وقت ادا کی تھی جسے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ بیان نہیں کرتے۔ الغرض شدید ضرورت اور ناگزیر عذر کے علاوہ رسول اللہ ﷺ نے کبھی دو نمازوں کو جمع نہیں فرمایا، اس لیے تمام احادیث اپنے اپنے مقام پر درست اور صحیح ہیں، ان میں کوئی تعارض یا اختلاف نہیں۔ والله أعلم۔ اس موقع پر شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے عجیب موقف اختیار کیا ہے جو مبنی بر حقیقت نہیں۔ لکھتے ہیں: اس حدیث میں ''صلى بالمدينة'' کے الفاظ راوی کا وہم ہے، کیونکہ یہ واقعہ مدینہ کا نہیں بلکہ تبوک کاہے۔ راوی نے کہا کہ نمازوں کو جمع کرنے کا واقعہ سفر کے علاوہ پیش آیا، یعنی سیر کا نہیں، بلکہ دوران سفر میں بحالت اقامت کا ہے۔ دوسرے راوی نے اسے حضر کا واقعہ سمجھ لیا، اس کے بعد بعض راویوں نے اس کی تعبیر مدینہ سے کردی، لیکن اس موقف پر اعتراض ہوسکتا ہے کہ اس سے توثقہ راویوں پر سے اعتماد اٹھ جائے گا۔ (شرح تراجم بخاري، ملخصا) لیکن شاہ صاحب کا یہ موقف بالبداہت غلط ہے، کیونکہ اگر یہ واقعہ سفر کا ہو تو نماز قصر پڑھی جاتی، یعنی چار رکعت ظہر اور عصر کی اور پانچ مغرب اور عشاء کی جبکہ حدیث میں ہے کہ ”رسول اللہ ﷺ نے آٹھ رکعات ظہر اور عصر کی اور سات رکعات مغرب اور عشاء کی ادا فرمائیں۔ “ لہٰذا یہ واقعہ تبوک کا نہیں بلکہ مدینہ طیبہ کا ہے اور بیان کرنے میں کسی راوی کو وہم نہیں ہوا۔ والله أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 543
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:562
562. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے (مغرب اور عشاء کی) سات رکعات ایک ساتھ اور (ظہر و عصر کی) آٹھ رکعات ایک ساتھ پڑھیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:562]
حدیث حاشیہ: (1) رسول اللہ ﷺ نماز مغرب عموماً اول وقت ہی پڑھتے تھے۔ بلاوجہ اتنی تاخیر کرنا کہ ستاروں کا جال آسمان پر پھیل جائے، ناپسندیدہ اور مکروہ فعل ہے۔ امام بخاری ؒ کا حدیث ابن عباس ؓ سے مقصود یہ ہے کہ اگرچہ نماز مغرب کا اول وقت سورج غروب ہوتے ہی شروع ہوجاتا ہے، تاہم اگرکسی دینی مصروفیت کی وجہ سے مغرب میں کچھ تاخیر ہوجائے تو اس کی گنجائش ہے۔ جیسا کہ ابن عباس ؓ کی ایک تفصیلی روایت میں ہے۔ حضرت عبداللہ بن شفیق فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے عصر کے بعد وعظ کہنا شروع کیا یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا اور آسمان پر ستارے نکل آئے۔ آپ نے اپنے وعظ کو جاری رکھا۔ حاضرین میں سے کسی نے کہا: الصلاة، الصلاة، نماز، نماز، یعنی اس کا وقت جارہا ہے، اسے ادا کرلیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے اسے ڈانٹا اور فرمایا کہ ایسے مواقع پر تاخیر کی جاسکتی ہے۔ جیساکہ رسول اللہ ﷺ نے ایک موقع پر ظہر وعصر کی آٹھ رکعت اور مغرب وعشاء کی سات رکعات ایک ساتھ پڑھی تھیں۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1636(705)(2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مغرب کا وقت غروب آفتاب سے وقت عشاء تک ممتد رہتا ہے۔ اور اس کا آخری وقت عشاء کے اول وقت سے متصل ہے اوردرمیان میں کوئی فاصلہ نہیں ہے۔ جیسا کہ بعض نے درمیان میں وقت مشترک نکالنے کی کوشش کی ہے۔ والله أعلم.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 562