صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: نماز میں قصر کرنے کا بیان
The Book of Abridged Or Shortened Prayers (At-Taqsir)
2. بَابُ الصَّلاَةِ بِمِنًى:
2. باب: منیٰ میں نماز قصر کرنے کا بیان۔
(2) Chapter. As-Salat (the prayers) at Mina (during Hajj).
حدیث نمبر: 1084
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا قتيبة، قال: حدثنا عبد الواحد، عن الاعمش، قال: حدثنا إبراهيم، قال: سمعت عبد الرحمن بن يزيد، يقول:" صلى بنا عثمان بن عفان رضي الله عنه بمنى اربع ركعات، فقيل ذلك لعبد الله بن مسعود رضي الله عنه فاسترجع، ثم قال: صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بمنى ركعتين، وصليت مع ابي بكر الصديق رضي الله عنه بمنى ركعتين، وصليت مع عمر بن الخطاب رضي الله عنه بمنى ركعتين، فليت حظي من اربع ركعات ركعتان متقبلتان".(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، عَنْ الْأَعْمَشِ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ يَزِيدَ، يَقُولُ:" صَلَّى بِنَا عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِمِنًى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، فَقِيلَ ذَلِكَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَاسْتَرْجَعَ، ثُمَّ قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِنًى رَكْعَتَيْنِ، وَصَلَّيْتُ مَعَ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِمِنًى رَكْعَتَيْنِ، وَصَلَّيْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِمِنًى رَكْعَتَيْنِ، فَلَيْتَ حَظِّي مِنْ أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ رَكْعَتَانِ مُتَقَبَّلَتَانِ".
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابراہیم نخعی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے عبدالرحمٰن بن یزید سے سنا، وہ کہتے تھے کہ ہمیں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے منیٰ میں چار رکعت نماز پڑھائی تھی لیکن جب اس کا ذکر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ «انا لله و انا اليه راجعون» ۔ پھر کہنے لگے میں نے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منی ٰ میں دو رکعت نماز پڑھی ہے اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی میں نے دو رکعت ہی پڑھی ہیں اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی دو رکعت ہی پڑھی تھی کاش میرے حصہ میں ان چار رکعتوں کے بجائے دو مقبول رکعتیں ہوتیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Abdur Rahman bin Yazid: We offered a four rak`at prayer at Mina behind Ibn `Affan . `Abdullah bin Mas`ud was informed about it. He said sadly, "Truly to Allah we belong and truly to Him we shall return." And added, "I prayed two rak`at with Allah's Apostle at Mina and similarly with Abu Bakr and with `Umar (during their caliphates)." He further said, "May I be lucky enough to have two of the four rak`at accepted (by Allah)."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 20, Number 190


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري1084عبد الله بن مسعودصليت مع رسول الله بمنى ركعتين وصليت مع أبي بكر الصديق بمنى ركعتين وصليت مع عمر بن الخطاب بمنى ركعتين
   صحيح البخاري1657عبد الله بن مسعودصليت مع النبي ركعتين ومع أبي بكر ركعتين ومع عمر ركعتين ثم تفرقت بكم الطرق فيا ليت حظي من أربع ركعتان متقبلتان
   صحيح مسلم1596عبد الله بن مسعودصليت مع رسول الله بمنى ركعتين وصليت مع أبي بكر الصديق بمنى ركعتين وصليت مع عمر بن الخطاب بمنى ركعتين فليت حظي من أربع ركعات ركعتان متقبلتان
   سنن النسائى الصغرى1440عبد الله بن مسعودصليت مع رسول الله في السفر ركعتين ومع أبي بكر ركعتين ومع عمر ركعتين ما
   سنن النسائى الصغرى1449عبد الله بن مسعودصليت بمنى مع رسول الله ركعتين
   سنن النسائى الصغرى1450عبد الله بن مسعودصليت مع رسول الله ركعتين

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1084 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1084  
حدیث حاشیہ:
حضور اکرم ﷺ اور ابو بکر اور عمر ؓ کی منیٰ میں نماز کا ذکر اس وجہ سے کیا کہ آپ حضرات حج کے ارادہ سے جاتے اور حج کے ارکان ادا کرتے ہوئے منیٰ میں بھی قیام کیا ہوتا۔
یہاں سفر کی حالت میں ہوتے تھے اس لیے قصر کرتے تھے۔
حضور اکرم ﷺ ابو بکر اور عمر ؓ کا ہمیشہ یہی معمول تھا کہ منیٰ میں قصر کرتے تھے۔
عثمان ؓ نے بھی ابتدائی دور خلافت میں قصر کیا، لیکن بعد میں جب پوری چار رکعتیں آپ نے پڑھیں تو ابن مسعود ؓ نے اس پر سخت ناگواری کا اظہار فرمایا۔
دوسری روایتوں میں ہے کہ حضرت عثمان ؓ نے بھی پوری چار رکعت پڑھنے کا عذر بیان کیا تھا جس کا ذکر آگے آ رہا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1084   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1084  
حدیث حاشیہ:
(1)
روایت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے نزدیک دوران سفر میں قصر کرنا واجب ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو صرف إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پڑھنے پر اکتفا نہ کرتے۔
دیگر روایات کے پیش نظر جب ان سے دریافت کیا گیا کہ آپ نے ان کے ہمراہ چار رکعات کیوں پڑھی ہیں؟ تو جواب دیا کہ ایسے موقع پر اختلاف کرنا شروفساد کا پیش خیمہ ہے۔
اگر دوران سفر میں نماز کو پورا پڑھنا بدعت ہوتا تو بدعت سے اختلاف کرنا تو باعث برکت ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے نزدیک دوران سفر قصر کرنا فرض نہیں، البتہ جذبۂ اتباع سنت کے پیش نظر انہوں نے اپنی سخت ناگواری کا اظہار ضرور فرمایا۔
(فتح الباري: 729/2) (2)
حضرت عثمان ؓ نے حج کے موقع پر منیٰ میں قیام کے دوران چار رکعت پڑھائی تھیں۔
محدثین کرام نے اس کی متعدد توجیہات بیان کی ہیں جن کی وضاحت ہم آئندہ کریں گے۔
اس سلسلے میں ہمارا موقف یہ ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی ہوئی اس رخصت سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کی رخصت کو قبول کیا جائے۔
اس بنا پر ہمارے نزدیک یہی افضل ہے کہ دوران سفر میں نماز قصر پڑھی جائے، لیکن اگر کوئی رخصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نماز پوری ادا کرتا ہے تو یہ جائز ہے، ایسا کرنا بدعت کے زمرے میں نہیں آتا۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1084   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1596  
عبد الرحمٰن بن یزید بیان کرتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمیں منیٰ میں چار رکعات پڑھائیں تو اس کا تذکرہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس کیا گیا تو انہوں نے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْهِ رَاجِعُوْنَ پڑھا۔ پھر بتایا میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ منیٰ میں دو رکعت نماز پڑھی اور میں نے ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ منیٰ میں دو رکعت نماز پڑھی اور میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ منیٰ میں دو رکعت نماز پڑھی۔ کاش چار رکعات میں... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1596]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما منیٰ میں نماز قصر پڑھتے تھے۔
اس لیے عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہی چاہتے تھے کہ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی منیٰ میں دورکعت نماز ہی پڑھیں۔
لیکن اس رائے اور فکر کے باجود وہ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مخالفت کر کے انتشار اور افتراق پیدا کرنے سے پرہیز کرتے تھے اور ان کی اقتدا میں پوری نماز پڑھتے تھے اور اکیلے نماز قصر پڑھتے تھے جس سے معلوم ہوتا ہے انتشار اور افتراق ایک ناپسندیدہ حرکت ہے۔
اس سے بچنے کی خاطر ایک ایسی بات قبول کی جا سکتی ہے جو مرجوح ہو نیز آپﷺ کے قول اور فعل کی موجودگی میں کسی بڑے سے بڑے انسان کا قول وفعل بھی حجت نہیں ہے اگرچہ اس پر بے جا تنقید وتبصرہ نہیں کیا جائے گا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1596   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1657  
1657. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں منیٰ میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ دو رکعتیں پڑھیں، حضرت ابو بکر ؓ کے ساتھ دو ہی رکعتیں ادا کیں، پھر حضرت عمرفاروق ؓ کے ساتھ بھی دو رکعتیں پڑھیں۔ پھر تمہارے طریقے مختلف ہوگئے۔ کاش!چار رکعات کے بجائے مجھے ایسی دو رکعتیں ہی نصیب ہوجائیں جنھیں اللہ کے ہاں شرف پذیرائی حاصل ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1657]
حدیث حاشیہ:
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے بطور اظہار ناراضگی فرمایا کہ کاش میری دو رکعات ہی اللہ کے ہاں قبول ہو جائیں۔
ظاہر ہے کہ اس قسم کے فروعی اور اجتہادی اختلاف کی بنا پر کسی کو بھی مورد طعن نہیں بنایا جاسکتا۔
حضرت عثمان ؓ کے سامنے کچھ مصالح ہوں گے جن کی بنا پر انہوں نے ایسا کیا ورنہ شروع خلافت میں وہ بھی قصر ہی کیا کرتے تھے۔
قصر کرنا بہرحال اولی ہے کہ یہ رسول کریم ﷺ کی سنت ہے، آپ کی سنت ہر حال میں مقدم ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے ارشاد کے:
فَيَا لَيْتَ حَظِّي مِنْ أَرْبَعٍ رَكْعَتَانِ مُتَقَبَّلَتَانِ کے متعلق حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
والذي يظهر أنه قال ذلك على سبيل التفويض إلى الله لعدم اطلاعه على الغيب وهل يقبل الله صلاته أم لا فتمنى أن يقبل منه من الأربع التي يصليها ركعتان ولو لم يقبل الزائد وهو يشعر بأن المسافر عنده مخير بين القصر والإتمام والركعتان لا بد منهما ومع ذلك فكان يخاف أن لا يقبل منه شيء فحاصله أنه قال إنما أتم متابعة لعثمان وليت الله قبل مني ركعتين من الأربع۔
یعنی حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے جو فرمایا یہ آپ نے اپنا عمل اللہ کو سونپا اس لیے کہ آپ کو غیب پر اطلاع نہ تھی کہ اللہ پاک آپ کی نماز قبول کرتا ہے یا نہیں، اس لیے تمنا فرمائی کہ کاش اللہ میری چار کعات میں سے دو رکعات کو قبول فرمالے اگرچہ وہ زائد رکعات کوقبول نہ فرمائے اور یہ اس لیے بھی کہ مسافر کو نماز پوری کرنے اورقصر کرنے کا آپ کے نزدیک اختیار تھا۔
اور دورکعات کے بغیر تو گزارہ نہیں ہے۔
اس کے باوجود وہ ڈرتے تھے کہ شاید کچھ بھی قبول نہ ہو، پس حاصل بحث یہ ہے کہ آپ نے حضرت عثمان ؓ کی متابعت میں نماز کو پورا فرمایا اور یہ کہا کہ کاش اللہ پاک ان چار رکعات میں سے میری دو رکعات ہی کو قبول فرما لے۔
اللہ والوں کی یہی شان ہے کہ وہ کچھ بھی نیکی کریں، کتنے ہی تقوی شعار ہوں مگر پھر بھی ان کو یہی خطرہ لاحق رہتا ہے کہ ان کی نیکیاں دربار الٰہی میں قبول ہوتی ہیں یا رد ہو جاتی ہیں۔
ایسے اللہ والے آج کل عنقاءہیں جب کہ اکثریت ریاکاروں بظاہر تقویٰ شعاروں و بباطن دنیا داروں کی رہ گئی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1657   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1657  
1657. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں منیٰ میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ دو رکعتیں پڑھیں، حضرت ابو بکر ؓ کے ساتھ دو ہی رکعتیں ادا کیں، پھر حضرت عمرفاروق ؓ کے ساتھ بھی دو رکعتیں پڑھیں۔ پھر تمہارے طریقے مختلف ہوگئے۔ کاش!چار رکعات کے بجائے مجھے ایسی دو رکعتیں ہی نصیب ہوجائیں جنھیں اللہ کے ہاں شرف پذیرائی حاصل ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1657]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ہے کہ جب حضرت عثمان ؓ نے منیٰ میں نماز پوری پڑھنا شروع کی تو کسی نے حضرت ابن مسعود ؓ کے پاس اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے إنا لله وإنا إليه راجعون پڑھا اور مذکورہ وضاحت فرمائی۔
(صحیح البخاري، التقصیر، حدیث: 1084)
ایک روایت میں ہے کہ سائل نے ان سے کہا:
آپ ان کی اقتدا میں چار کیوں ادا کرتے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ فتنے اور اختلاف سے بچنے کی خاطر ایسا کرتا ہوں، مبادا میری وجہ سے کوئی فساد پیدا ہو جائے۔
اس کے باوجود آپ ڈرتے تھے کہ خلافِ سنت ہونے کی وجہ سے شاید یہ عمل کبھی اللہ کے ہاں قبول نہ ہو۔
کاش! ان چار رکعات میں سے میری دو ہی قبول ہو جائیں۔
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں:
آپ نے اپنا عمل اللہ کے حوالے فرمایا کیونکہ آپ کو غیب پر اطلاع نہ تھی، اس لیے تمنا فرمائی کہ کاش! اللہ تعالیٰ میری ان چار رکعات میں سے دو ہی کو قبول کرے، زائد دو رکعات قبول نہ کرے۔
(فتح الباري: 643/3) (2)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ فروعی اختلاف کی وجہ سے امام کی متابعت اور اقتدا ترک کر دینا دانشمندی نہیں، چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے کہا گیا کہ آپ حضرت عثمان ؓ کی حرف گیری کرتے ہیں اور ان کے پیچھے چار رکعات پڑھتے ہیں؟ اس کا جواب انہوں نے یہ دیا کہ میرے نزدیک ایسے مسائل میں اختلاف کی وجہ سے پیچھے رہنا شر کا دروازہ کھولنے کے مترادف ہے۔
(سنن أبي داود، المناسك، حدیث: 1960)
امام ابوداود ؒ نے حضرت عثمان ؓ کے متعلق چند وجوہات ذکر کی ہیں جن کی بنا پر وہ منیٰ میں حج کے دوران نماز پوری پڑھتے تھے۔
(سنن أبي داود، المناسك، حدیث: 1964،1963،1961)
ہم ان وجوہات کی تفصیل اور ان کے جوابات کتاب تقصیر الصلاة میں بیان کر آئے ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1657   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.