(مرفوع) حدثنا ابو الوليد، قال: حدثنا شعبة، عن جامع بن شداد، عن عامر بن عبد الله بن الزبير، عن ابيه، قال: قلت للزبير: إني لا اسمعك تحدث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم كما يحدث فلان وفلان، قال: اما إني لم افارقه ولكن سمعته، يقول:" من كذب علي فليتبوا مقعده من النار".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قُلْتُ لِلزُّبَيْرِ: إِنِّي لَا أَسْمَعُكَ تُحَدِّثُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا يُحَدِّثُ فُلَانٌ وَفُلَانٌ، قَالَ: أَمَا إِنِّي لَمْ أُفَارِقْهُ وَلَكِنْ سَمِعْتُهُ، يَقُولُ:" مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ".
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے، ان سے جامع بن شداد نے، وہ عامر بن عبداللہ بن زبیر سے اور وہ اپنے باپ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا میں نے اپنے باپ یعنی زبیر سے عرض کیا کہ میں نے کبھی آپ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث نہیں سنیں۔ جیسا کہ فلاں، فلاں بیان کرتے ہیں، کہا میں کبھی آپ سے الگ تھلگ نہیں رہا لیکن میں نے آپ کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص مجھ پر جھوٹ باندھے گا وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔
Hum se Abul Waleed ne bayan kiya, unhon ne kaha hum se Sho’bah ne, un se Jami’ bin Shaddad ne, woh Amir bin Abdullah bin Zubair se aur woh apne baap Abdullah bin Zubair Radhiallahu Anhuma se riwayat karte hain. Unhon ne kaha main ne apne baap yani Zubair se arz kiya ke main ne kabhi aap se Rasoolullah Sallallahu Alaihi Wasallam ki Ahadees nahi sunein. Jaisa ke falaan, falaan bayan karte hain, kaha main kabhi Aap se alag-thalag nahi raha lekin main ne Aap ko yeh bhi farmaate huwe suna hai ke jo shakhs mujh par jhoot baandhega woh apna thikaana jahannam mein bana le.
Narrated `Abdullah bin Az-Zubair: I said to my father, 'I do not hear from you any narration (Hadith) of Allah s Apostle as I hear (his narration) from so and so?" Az-Zubair replied. l was always with him (the Prophet) and I heard him saying "Whoever tells a lie against me (intentionally) then (surely) let him occupy, his seat in Hellfire.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 3, Number 107
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 107
� تشریح: اسی لیے میں حدیث رسول بیان نہیں کرتا کہ مبادا کہیں غلط بیانی نہ ہو جائے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 107
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:107
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جواب کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے الگ نہیں ہوا کا مطلب یہ نہیں کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بالکل الگ نہیں ہوئے الگ تو یقیناً ہوئے ہیں جیسا کہ حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے تھے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مدینے کی طرف ہجرت فرمائی اس وقت بھی آپ ساتھ نہیں تھے۔ مطلب یہ ہے کہ اکثر اوقات میں آپ کے ساتھ رہا ہوں جب صحبت طویل ہے تو سماع بھی زیادہ ہے اور زیادہ سماع کا تقاضا ہے کہ میں کثرت سے آپ کی احادیث بیان کروں لیکن ڈرتا ہوں کہ کہیں غلطی سے کوئی ایسی بات آپ کی طرف منسوب نہ کر بیٹھوں جو آپ کی فرمودہ نہ ہو۔ (فتح الباري: 265/1) 2۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بایں الفاظ جواب دیا: اے میرے لخت جگر! تجھے معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میرے ساتھ قرابت داری بھی زیادہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی میری والدہ ہیں آپ کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا میری پھوپھی ہیں تیری والدہ (حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا) میری بیوی ہے اور ان (اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کی بہن حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ ہیں لیکن کثرت روایات سے مذکورہ احتیاط ہی روک رہی ہے۔ (فتح الباري: 265/1) 3۔ اس روایت میں”دیدہ دانستہ “ کی شرط بھی نہیں لیکن بے احتیاطی بہر حال درست نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر بلا ارادہ بھی غلط نسبت ہوگئی تو خطرے سے خالی نہیں۔ ایسے حالات میں احتیاط سے کام نہ لینا ایک اختیاری چیز سے غیراختیاری چیز کو پیدا ہونے کی گنجائش دینا ہے۔ اس بنا پر حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نہ کثرت سے بیان کرتا ہوں اور نہ میں خطرہ مول لیتا ہوں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 107
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3651
´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنے کی سخت وعید کا بیان۔` عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے زبیر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور صحابہ کی طرح حدیثیں کیوں نہیں بیان کرتے؟ تو انہوں نے کہا: اللہ کی قسم مجھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک طرح کی قربت و منزلت حاصل تھی لیکن میں نے آپ کو بیان فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھا اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔“[سنن ابي داود/كتاب العلم /حدیث: 3651]
فوائد ومسائل: فائدہ: کئی صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین اسی اندیشے کے تحت بہت کم احادیث بیان کرتے تھے۔ کہ کہیں کوئی کمی بیشی نہ ہوجائے۔ اور رسول اللہﷺ پر جھوٹ باندھنے کے مرتکب ہو جایئں۔ اس کے ساتھ جنھوں نے اپنے حفظ اور یادداشت پراعتماد کیا انہوں نے نقل شریعت کا بہت بڑا فریضہ انجام دیا۔ اگر کہیں کوئی خطا ہوئی بھی ہے۔ تو اس کا ازالہ ہوگیا ہے۔ اور ان سے یہ خطا معاف ہے کہ عمدا ً نہیں ہوئی۔ اس میں قصہ گوواعظین کےلئے تنبیہ ہے۔ کہ جو زیب داستان کے طور پر ضعیف وموضوع روایات بیان کرنے سے گریز نہیں کرتے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3651