قال عبد الله بن احمد: حدثنا شيبان بن ابي شيبة ابو محمد ، قال: حدثنا جرير يعني ابن حازم عن ابي إسحاق الهمداني ، قال: قدم على النبي صلى الله عليه وسلم ذو الجوشن ، واهدى له فرسا، وهو يومئذ مشرك، فابى رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يقبله، ثم قال:" إن شئت بعتنيه او هل لك ان تبيعنيه بالمتخيرة من دروع بدر"، ثم قال له صلى الله عليه وسلم:" هل لك ان تكون اول من يدخل في هذا الامر؟"، فقال: لا، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم:" ما يمنعك من ذلك؟"، قال: رايت قومك قد كذبوك واخرجوك وقاتلوك، فانظر ما تصنع، فإن ظهرت عليهم، آمنت بك واتبعتك، وإن ظهروا عليك، لم اتبعك، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا ذا الجوشن ، لعلك إن بقيت" وذكر الحديث نحوا منه.قَالَ عبد الله بن أحمد: حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ أَبُو مُحَمَّدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ يَعْنِي ابْنَ حَازِمٍ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ الْهَمْدَانِيِّ ، قَالَ: قَدِمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذُو الْجَوْشَنِ ، وَأَهْدَى لَهُ فَرَسًا، وَهُوَ يَوْمَئِذٍ مُشْرِكٌ، فَأَبَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَقْبَلَهُ، ثُمَّ قَال:" إِنْ شِئْتَ بِعْتَنِيهِ أَوْ هَلْ لَكَ أَنْ تَبِيعَنِيهِ بِالْمُتَخَيَّرَةِ مِنْ دُرُوعِ بَدْرٍ"، ثُمَّ قَالَ لَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَلْ لَكَ أَنْ تَكُونَ أَوَّلَ مَنْ يَدْخُلُ فِي هَذَا الْأَمْر؟"، فَقَالَ: لَا، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا يَمْنَعُكَ مِنْ ذَلِكَ؟"، قَالَ: رَأَيْتُ قَوْمَكَ قَدْ كَذَّبُوكَ وَأَخْرَجُوكَ وَقَاتَلُوكَ، فَأنْظُرْ مَا تَصْنَعُ، فَإِنْ ظَهَرْتَ عَلَيْهِمْ، آمَنْتُ بِكَ وَاتَّبَعْتُكَ، وَإِنْ ظَهَرُوا عَلَيْكَ، لَمْ أَتَّبِعْكَ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا ذَا الْجَوْشَنِ ، لَعَلَّكَ إِنْ بَقِيتَ" وَذَكَرَ الْحَدِيثَ نَحْوًا مِنْهُ.
سیدنا ام عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شیبہ کو بلایا اور خانہ کعبہ کا دروازہ کھولا، بیت اللہ میں داخل ہوئے، جب آپ فارغ ہو کر چلے گئے تو شیبہ بھی واپس چلے گئے، اس اثناء میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک قاصد شیبہ کو بلانے کے لئے دوبارہ آگیا، وہ دوبارہ حاضر ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے بیت اللہ میں ایک سینگ دیکھا ہے، تم اسے وہاں سے غائب کر دو اور ایک روایت میں یہ بھی اضافہ ہے کہ بیت اللہ میں کوئی ایسی چیز نہیں ہو نی چاہیے جو نمازیوں کو غافل کر دے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح بإسناد الرواية التالية، والصواب ماجاء فيها أن الذى دعاه النبى هوعثمان بن طلحة، لا شيبة. وهذا إسناد ضعيف لضعف محمد بن عبدالرحمن، ولجهالة حال عبدالله بن مسافح
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، قال: حدثني منصور ، عن خاله مسافع ، عن صفية بنت شيبة ام منصور ، قالت: اخبرتني امراة من بني سليم ولدت عامة اهل دارنا: ارسل رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى عثمان بن طلحة، وقال مرة: إنها سالت عثمان بن طلحة لم دعاك النبي صلى الله عليه وسلم؟، قال:" إني كنت رايت قرني الكبش حين دخلت البيت، فنسيت ان آمرك ان تخمرهما، فخمرهما، فإنه لا ينبغي ان يكون في البيت شيء يشغل المصلي"، قال سفيان: لم تزل قرنا الكبش في البيت حتى احترق البيت فاحترقا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَنْصُورٌ ، عَنْ خَالِهِ مُسَافِعٍ ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ أُمِّ مَنْصُورٍ ، قَالَتْ: أَخْبَرَتْنِي امْرَأَةٌ مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ وَلَدَتْ عَامَّةَ أَهْلِ دَارِنَا: أَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى عُثْمَانَ بْنِ طَلْحَةَ، وَقَالَ مَرَّةً: إِنَّهَا سَأَلَتْ عُثْمَانَ بْنَ طَلْحَةَ لِمَ دَعَاكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، قَالَ:" إِنِّي كُنْتُ رَأَيْتُ قَرْنَيْ الْكَبْشِ حِينَ دَخَلْتُ الْبَيْتَ، فَنَسِيتُ أَنْ آمُرَكَ أَنْ تُخَمِّرَهُمَا، فَخَمِّرْهُمَا، فَإِنَّهُ لَا يَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ فِي الْبَيْتِ شَيْءٌ يَشْغَلُ الْمُصَلِّيَ"، قَالَ سُفْيَانُ: لَمْ تَزَلْ قَرْنَا الْكَبْشِ فِي الْبَيْتِ حَتَّى احْتَرَقَ الْبَيْتُ فَاحْتَرَقَا.
بنوسلیم کی ایک خاتون جس نے بنوشیبہ کے اکثر بچوں کی پیدائش کے وقت دائی کا کام کیا تھا، سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان بن طلحہ کو قاصد کے ذریعے بلایا، یا یہ کہ خود انہوں نے عثمان سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں کیوں بلایا تھا؟ انہوں نے جواب دیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں جب بیت اللہ میں داخل ہوا تھا تو میں نے مینڈھے کے دو سینگ وہاں دیکھے تھے، میں تمہیں یہ کہنا بھول گیا تھا کہ انہیں ڈھانپ دو، لہذا اب جا کر انہیں ڈھانپ دینا کیونکہ بیت اللہ میں کسی ایسی چیز کا ہو نا مناسب نہیں ہے جو نماز کو غافل کر دے، راوی کہتے ہیں کہ وہ دونوں سینگ خانہ کعبہ میں ہی رہے اور جب بیت اللہ کو آگ لگی تو وہ بھی جل گئے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن سعيد ، عن عبيد الله ، قال: حدثني نافع ، عن صفية ، عن بعض ازواج النبي صلى الله عليه وسلم، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" من اتى عرافا فصدقه بما يقول، لم تقبل له صلاة اربعين يوما".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، قَالَ: حَدَّثَنِي نَافِعٌ ، عَنْ صَفِيَّةَ ، عَنْ بَعْضِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَنْ أَتَى عَرَّافًا فَصَدَّقَهُ بِمَا يَقُولُ، لَمْ تُقْبَلْ لَهُ صَلَاةٌ أَرْبَعِينَ يَوْمًا".
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک زوجہ مطہرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص کسی کاہن (نجومی) کے پاس جائے اور اس کی باتوں کی تصدیق کر ے تو اس کی چالیس دن تک نماز قبول نہ ہو گی۔
ایک خاتون صحابیہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں تشریف لائے تو میں بائیں ہاتھ سے کھانا کھا رہی تھی، میں ایک تنگدست عورت تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ہاتھ پر مارا جس سے لقمہ گرگیا اور فرمایا: جب اللہ نے تمہارا داہنا ہاتھ بنایا تو بائیں ہاتھ سے مت کھاؤ، چنانچہ میں نے دائیں ہاتھ سے کھانا شروع کر دیا اور اس کے بعد کبھی بھی بائیں ہاتھ سے نہیں کھایا۔
حكم دارالسلام: عبدالله بن محمد، هكذا وقع عر منسوب، ولم نعرفه. والأمر بالأكل باليمين ثابت
بنوخزاعہ کے ایک صحابی سیدنا محرش رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جعرانہ سے رات کے وقت (عمرہ کی نیت سے) نکلے (رات ہی کو مکہ مکر مہ پہنچے) عمرہ کیا (اور رات ہی کو وہاں سے نکلے) اور جعرانہ لوٹ آئے، صبح ہوئی تو ایسا لگتا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رات یہیں گزاری ہے، میں نے اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت مبارک کو دیکھا، وہ چاندی میں ڈھلی ہوئی محسوس ہو تی تھی۔
ابوجبیرہ اپنے چچاؤں سے نقل کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو ہم میں کوئی شخص ایسا نہیں تھا جس کے ایک یا دو لقب نہ ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی آدمی کو اس کے لقب سے پکار کر بلاتے تو ہم عرض کرتے یا رسول اللہ!! یہ اس نام کو ناپسند کرتا ہے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی، ایک دوسرے کو مختلف القاب سے طعنہ مت دیا کر و '۔
حكم دارالسلام: رجاله ثقات، والحديث صحيح إن صحت صحبة أبى جبيرة، وإلا فمرسل
معاذ بن عبداللہ اپنی سند سے نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔۔۔۔۔۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔