(حديث قدسي) حدثنا حدثنا حسن بن موسى ، قال: حدثنا حماد بن سلمة ، عن الازرق بن قيس ، عن يحيى بن يعمر ، عن رجل من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اول ما يحاسب به العبد صلاته، فإن كان اتمها كتبت له تامة، وإن لم يكن اتمها، قال الله عز وجل: انظروا هل تجدون لعبدي من تطوع، فتكملوا بها فريضته؟ ثم الزكاة كذلك، ثم تؤخذ الاعمال على حسب ذلك".(حديث قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنِ الْأَزْرَقِ بْنِ قَيْسٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَوَّلُ مَا يُحَاسَبُ بِهِ الْعَبْدُ صَلَاتُهُ، فَإِنْ كَانَ أَتَمَّهَا كُتِبَتْ لَهُ تَامَّةً، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ أَتَمَّهَا، قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: انْظُرُوا هَلْ تَجِدُونَ لِعَبْدِي مِنْ تَطَوُّعٍ، فَتُكْمِلُوا بِهَا فَرِيضَتَهُ؟ ثُمَّ الزَّكَاةُ كَذَلِكَ، ثُمَّ تُؤْخَذُ الْأَعْمَالُ عَلَى حَسَبِ ذَلِكَ".
ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سب سے پہلے جس چیز کا بندے سے حساب لیا جائے گا وہ اس کی نماز ہو گی، اگر اس نے اسے مکل اداء کیا ہو گا تو وہ مکمل لکھ دی جائیں گی، ورنہ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ دیکھو! میرے بندے کے پاس کچھ نوافل ملتے ہیں؟ کہ ان کے ذریعے فرائض کی تکمیل کر سکو، اسی طرح زکوٰۃ کے معاملے میں بھی ہو گا اور دیگر اعمال کا حساب بھی اسی طرح ہو گا۔
(حديث مرفوع) حدثنا اسود بن عامر ، قال: حدثنا شريك ، عن ابي إسحاق ، عن المهلب بن ابي صفرة ، عن رجل من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" ما اراهم الليلة إلا سيبيتونكم، فإن فعلوا فشعاركم حم لا ينصرون".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنِ الْمُهَلَّبِ بْنِ أَبِي صُفْرَةَ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَا أُرَاهُمْ اللَّيْلَةَ إِلَّا سَيُبَيِّتُونَكُمْ، فَإِنْ فَعَلُوا فَشِعَارُكُمْ حم لَا يُنْصَرُونَ".
ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے لگتا ہے کہ آج رات دشمن شب خون مارے گا، اگر ایسا ہو تو تمہارا شعار حم لا ینصرون کے الفاظ ہوں گے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو النضر ، قال: حدثنا الحكم بن فضيل ، عن خالد الحذاء ، عن ابي تميمة ، عن رجل من قومه، انه اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم، او قال: شهدت رسول الله صلى الله عليه وسلم، واتاه رجل، فقال: انت رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ او قال: انت محمد؟، فقال:" نعم"، قال: فإلام تدعو؟، قال:" ادعو إلى الله عز وجل وحده، من إذا كان بك ضر، فدعوته كشفه عنك، ومن إذا اصابك عام سنة فدعوته انبت لك، ومن إذا كنت في ارض قفر، فاضللت، فدعوته، رد عليك"، قال: فاسلم الرجل، ثم قال: اوصني يا رسول الله، قال له:" لا تسبن شيئا"، او قال:" احدا" شك الحكم، قال: فما سببت بعيرا، ولا شاة منذ اوصاني رسول الله صلى الله عليه وسلم" ولا تزهد في المعروف ولو منبسط وجهك إلى اخيك وانت تكلمه، وافرغ من دلوك في إناء المستسقي، واتزر إلى نصف الساق، فإن ابيت، فإلى الكعبين، وإياك وإسبال الإزار، فإنها من المخيلة، والله تبارك وتعالى لا يحب المخيلة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ فُضَيْلٍ ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ ، عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ قَوْمِهِ، أَنَّهُ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ قَالَ: شَهِدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَتَاهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ أَوْ قَالَ: أَنْتَ مُحَمَّدٌ؟، فَقَالَ:" نَعَمْ"، قَالَ: فَإِلَامَ تَدْعُو؟، قَالَ:" أَدْعُو إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَحْدَهُ، مَنْ إِذَا كَانَ بِكَ ضُرٌّ، فَدَعَوْتَهُ كَشَفَهُ عَنْكَ، وَمَنْ إِذَا أَصَابَكَ عَامُ سَنَةٍ فَدَعَوْتَهُ أَنْبَتَ لَكَ، وَمَنْ إِذَا كُنْتَ فِي أَرْضٍ قَفْرٍ، فَأَضْلَلْتَ، فَدَعَوْتَهُ، رَدَّ عَلَيْكَ"، قَالَ: فَأَسْلَمَ الرَّجُلُ، ثُمَّ قَالَ: أَوْصِنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ لَهُ:" لَا تَسُبَّنَّ شَيْئًا"، أَوْ قَالَ:" أَحَدًا" شَكَّ الْحَكَمُ، قَالَ: فَمَا سَبَبْتُ بَعِيرًا، وَلَا شَاةً مُنْذُ أَوْصَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" وَلَا تَزْهَدْ فِي الْمَعْرُوفِ وَلَوْ مُنْبَسِطٌ وَجْهُكَ إِلَى أَخِيكَ وَأَنْتَ تُكَلِّمُهُ، وَأَفْرِغْ مِنْ دَلْوِكَ فِي إِنَاءِ الْمُسْتَسْقِي، وَاتَّزِرْ إِلَى نِصْفِ السَّاقِ، فَإِنْ أَبَيْتَ، فَإِلَى الْكَعْبَيْنِ، وَإِيَّاكَ وَإِسْبَالَ الْإِزَارِ، فَإِنَّهَا مِنَ الْمَخِيلَةِ، وَاللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَا يُحِبُّ الْمَخِيلَةَ".
ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک آدمی آیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے کہنے لگا کیا آپ ہی اللہ کے پیغمبر ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! اس نے پوچھا کہ آپ کن چیزوں کی دعوت دیتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اس اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں جو یکتا ہے، یہ بتاؤ کہ وہ کون سی ہستی ہے کہ جب تم پر کوئی مصیبت آتی ہے اور تم اسے پکارتے ہو تو وہ تمہاری مصیبت دور کر دیتی ہے؟ وہ کون ہے کہ جب تم قحط سالی میں مبتلا ہوتے ہواور اس سے دعاء کرتے ہو تو وہ پیداوار ظاہر کر دیتا ہے؟ وہ کون ہے کہ جب تم کسی بیابان اور جنگل میں راستہ بھول جاؤ اور اس سے دعاء کر و تو وہ تمہیں واپس پہنچا دیتا ہے۔ یہ سن کر وہ شخص مسلمان ہو گیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ!! مجھے کوئی وصیت کیجئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی چیز کو گالی نہ دینا، وہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد سے میں کبھی کسی اونٹ یا بکری تک کو گالی نہیں دی جب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وصیت فرمائی اور نیکی سے بےرغبتی ظاہر نہ کرنا، اگرچہ وہ بات کرتے ہوئے اپنے بھائی سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملنا ہی ہو، پانی مانگنے والے کے برتن میں اپنے ڈول سے پانی ڈال دینا اور تہبند نصف پنڈلی تک باندھنا، اگر یہ نہیں کر سکتے تو ٹخنوں تک باندھ لینا، لیکن تہبند کو لٹکنے سے بچانا کیونکہ یہ تکبر ہے اور اللہ کو تکبر پسند نہیں ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، الحكم بن فصيل مختلف فيه، لكنه توبع
(حديث مرفوع) حدثنا الاسود بن عامر ، قال: حدثنا شريك ، عن مهاجر الصائغ ، عن رجل لم يسمه من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، انه سمع رجلا يعني النبي صلى الله عليه وسلم، يقرا: قل يايها الكافرون، قال:" اما هذا، فقد برئ من الشرك"، وسمع آخر، يقرا: قل هو الله احد، فقال:" اما هذا فقد غفر له".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ مُهَاجِرٍ الصَّائِغِ ، عَنْ رَجُلٍ لَمْ يُسَمِّهِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ سَمِعَ رَجُلًا يَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقْرَأُ: قُلْ يَأَيُّهَا الْكَافِرُونَ، قَالَ:" أَمَّا هَذَا، فَقَدْ بَرِئَ مِنَ الشِّرْكِ"، وَسَمِعَ آخَرَ، يَقْرَأُ: قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ، فَقَالَ:" أَمَّا هَذَا فَقَدْ غُفِرَ لَهُ".
ایک شیخ سے جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پایا ہے، مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو سورت کافرون کی تلاوت کرتے ہوئے سنا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تو شریک سے بری ہو گیا، پھر دوسرے آدمی کو دیکھا وہ سورت اخلاص کی تلاوت کر رہا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی برکت سے اس کی بخشش ہو گئی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، شريك سيئ الحفظ، لكنه توبع
(حديث مرفوع) حدثنا حسن بن موسى ، قال: حدثنا زهير ، عن ابي الزبير ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن بعض اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، قال: كوى رسول الله صلى الله عليه وسلم سعدا، او اسعد بن زرارة في حلقه من الذبحة، وقال:" لا ادع في نفسي حرجا من سعد، او اسعد بن زرارة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى ، قَالَ: حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: كَوَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَعْدًا، أَوْ أَسْعَدَ بْنَ زُرَارَةَ فِي حَلْقِهِ مِنَ الذُّبْحَةِ، وَقَالَ:" لَا أَدَعُ فِي نَفْسِي حَرَجًا مِنْ سَعْدٍ، أَوْ أَسْعَدَ بْنِ زُرَارَةَ".
ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا سعد یا اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کو کسی زخم کی وجہ سے داغا اور فرمایا: میں ان کے لئے جس چیز میں صحت اور تندرستی محسوس کر وں گا، اس تدبیر کو ضرور اختیار کر وں گا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ابو الزبير مدلس، وقد عنعن. وفي بعض طرقه لم يذكر واسطة عن ابيه فهو منقطع، وقد اختلف فى متنه
چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب کسی باندی کو آزادی کا پروانہ مل جائے تو اسے اختیار مل جاتا ہے، بشرطیکہ اس نے اس کے ساتھ ہمبستری نہ کی ہو، کہ اگر چاہے تو اپنے شوہر سے جدائی اختیار کر لے اور اگر وہ اس سے ہمبستری کر چکا ہو تو پھر اسے یہ اختیار نہیں رہتا اور جدائی نہیں ہو سکتی۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن لهيعة، وقد اختلف عليه فيه
چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب کسی باندی کو آزادی کا پروانہ مل جائے تو اسے اختیار مل جاتا ہے، بشرطیکہ اس نے اس کے ساتھ ہمبستری نہ کی ہو کہ اگر چاہے تو اپنے شوہر سے جدائی اختیار کر لے اور اگر وہ اس سے ہمبستری کر چکا ہو تو پھر اسے یہ اختیار نہیں رہتا اور وہ اس سے جدا نہیں ہو سکتی۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، سماع الحسن بن موسي من ابن لهيعة بعد احتراق كتبه ، وقد توبع
(حديث قدسي) حدثنا ابو عامر ، حدثنا زهير بن محمد ، عن يزيد بن يزيد يعني ابن جابر ، عن خالد بن اللجلاج ، عن عبد الرحمن بن عائش ، عن بعض اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج عليهم ذات غداة، وهو طيب النفس، مسفر الوجه او مشرق الوجه، فقلنا: يا رسول الله، إنا نراك طيب النفس، مسفر الوجه او مشرق الوجه، فقال:" وما يمنعني واتاني ربي عز وجل الليلة في احسن صورة، فقال: يا محمد، قلت: لبيك ربي وسعديك، قال: فيم يختصم الملا الاعلى؟، قلت: لا ادري اي رب، قال: ذلك مرتين او ثلاثا، قال: فوضع كفيه بين كتفي، فوجدت بردها بين ثديي حتى تجلى لي ما في السماوات وما في الارض، ثم تلا هذه الآية: وكذلك نري إبراهيم ملكوت السموات والارض وليكون من الموقنين سورة الانعام آية 75، ثم قال: يا محمد فيم يختصم الملا الاعلى؟، قال: قلت: في الكفارات، قال: وما الكفارات؟، قلت: المشي على الاقدام إلى الجماعات، والجلوس في المسجد خلاف الصلوات، وإبلاغ الوضوء في المكاره، قال: من فعل ذلك عاش بخير، ومات بخير، وكان من خطيئته كيوم ولدته امه، ومن الدرجات طيب الكلام، وبذل السلام، وإطعام الطعام، والصلاة بالليل والناس نيام، قال: يا محمد، إذا صليت فقل:" اللهم إني اسالك الطيبات، وترك المنكرات، وحب المساكين، وان تتوب علي، وإذا اردت فتنة في الناس فتوفني غير مفتون".(حديث قدسي) حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ يَزِيدَ يَعْنِي ابْنَ جَابِرٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ اللَّجْلَاجِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَائِشٍ ، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ عَلَيْهِمْ ذَاتَ غَدَاةٍ، وَهُوَ طَيِّبُ النَّفْسِ، مُسْفِرُ الْوَجْهِ أَوْ مُشْرِقُ الْوَجْهِ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا نَرَاكَ طَيِّبَ النَّفْسِ، مُسْفِرَ الْوَجْهِ أَوْ مُشْرِقَ الْوَجْهِ، فَقَالَ:" وَمَا يَمْنَعُنِي وَأَتَانِي رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ اللَّيْلَةَ فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، قُلْتُ: لَبَّيْكَ رَبِّي وَسَعْدَيْكَ، قَالَ: فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى؟، قُلْتُ: لَا أَدْرِي أَيْ رَبِّ، قَالَ: ذَلِكَ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، قَالَ: فَوَضَعَ كَفَّيْهِ بَيْنَ كَتِفَيَّ، فَوَجَدْتُ بَرْدَهَا بَيْنَ ثَدْيَيَّ حَتَّى تَجَلَّى لِي مَا فِي السَّماَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ، ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ: وَكَذَلِكَ نُرِي إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ سورة الأنعام آية 75، ثُمَّ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى؟، قَالَ: قُلْتُ: فِي الْكَفَّارَاتِ، قَالَ: وَمَا الْكَفَّارَاتُ؟، قُلْتُ: الْمَشْيُ عَلَى الْأَقْدَامِ إِلَى الْجَمَاعَاتِ، وَالْجُلُوسُ فِي الْمَسْجِدِ خِلَافَ الصَّلَوَاتِ، وَإِبْلَاغُ الْوُضُوءِ فِي الْمَكَارِهِ، قَالَ: مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ عَاشَ بِخَيْرٍ، وَمَاتَ بِخَيْرٍ، وَكَانَ مِنْ خَطِيئَتِهِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ، وَمِنْ الدَّرَجَاتِ طِيبُ الْكَلَامِ، وَبَذْلُ السَّلَامِ، وَإِطْعَامُ الطَّعَامِ، وَالصَّلَاةُ بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ، قَالَ: يَا مُحَمَّدُ، إِذَا صَلَّيْتَ فَقُلْ:" اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الطَّيِّبَاتِ، وَتَرْكَ الْمُنْكَرَاتِ، وَحُبَّ الْمَسَاكِينِ، وَأَنْ تَتُوبَ عَلَيَّ، وَإِذَا أَرَدْتَ فِتْنَةً فِي النَّاسِ فَتَوَفَّنِي غَيْرَ مَفْتُونٍ".
ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صبح کے وقت تشریف لائے تو بڑا خوشگوار موڈ تھا اور چہرے پر بشاشت کھیل رہی تھی، ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کیفیت کا تذکر ہ کیا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا کیوں نہ ہو؟ جبکہ آج رات میرے پاس میرا رب انتہائی حسین صورت میں آیا اور فرمایا: اے محمد، میں نے عرض کیا: لبیک ربی وسعدیک، فرمایا: ملا اعلی کے فرشتے کس وجہ سے جھگڑ رہے ہیں؟ میں نے عرض کیا: پروردگار! میں نہیں جانتا (دو تین مرتبہ یہ سوال جواب ہوا) پھر پروردگار نے اپنی ہتھیلیاں میرے کندھوں کے درمیان رکھ دیں جن کی ٹھنڈک میں نے اپنے سینے اور چھاتی میں محسوس کی، حتی کہ میرے سامنے آسمان و زمین کی ساری چیزیں نمایاں ہو گئیں، پھر آپ نے وکذلک نری ابراہیم والی آیت تلاوت فرمائی، اس کے بعد اللہ نے پھر پوچھا کہ اے محمد، ملا اعلی کے فرشتے کس چیز کے بارے جھگڑ رہے ہیں؟ میں نے عرض کیا: کفارات کے بارے میں، فرمایا: کفارات سے کیا مراد ہے، میں نے عرض کیا: جمعہ کے لئے اپنے پاؤں سے چل کر جانا، نماز کے بعد بھی مسجد میں بیٹھے رہنا، مشقت کے باوجود وضو مکمل کرنا، ارشاد ہوا کہ جو شخص یہ کام کر لے وہ خیر کی زندگی گزارے گا اور خیر کی موت مرے گا اور وہ اپنے گناہوں سے اس طرح پاک صاف ہو جائے گا جیسے اپنی پیدائش کے دن تھا اور جو چیزیں بلند درجات کا سبب بنتی ہیں، وہ بہترین کلام، سلام کی اشاعت، کھانا کھلانا اور رات کو جب لوگ سو رہے ہوں نماز پڑھنا ہے، پھر فرمایا: اے محمد! جب نماز پڑھا کر و تو یہ دعاء کر لیا کر و، کہ اے اللہ! میں تجھ سے پاکیزہ چیزوں کا سوال کرتا ہوں، منکرات سے بچنے کا، مسکینوں سے محبت کرنے کا اور یہ کہ تو میری طرف خصوصی توجہ فرما اور جب لوگوں میں کسی آزمائش کا ارادہ کر ے تو مجھے فتنے میں مبتلا ہو نے سے پہلے موت عطا فرما دے۔
ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کے متعلق یہ حکم دیا کہ اسے مکہ اور مدینہ کے درمیان رجم کر دیا جائے، جب اسے پتھر لگے تو وہ بھاگنے لگا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ تم نے اسے چھوڑ کیوں نہ دیا۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره غير أن قوله: بين مكة والمدينة، فيه نظر. وهذا إسناد ضعيف لجهالة حال عبدالعزيز، فقد انفرد بالرواية عنه سماك، وقد اختلف على سماك باسمه
ایک صحابی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: یا رسول اللہ!! آپ کو کب نبی صلی اللہ علیہ وسلم بنایا گیا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس وقت جب کہ سیدنا آدم ابھی روح اور جسم ہی کے درمیان تھے۔