(حديث موقوف) حدثنا حدثنا يونس ، حدثنا شيبان ، عن قتادة ، وحسين في تفسير شيبان، عن قتادة ، قال: وحدثنا انس بن مالك ، ان ابا طلحة ، قال:" غشينا النعاس ونحن في مصافنا يوم بدر". قال ابو طلحة:" وكنت فيمن غشيه النعاس يومئذ، فجعل سيفي يسقط من يدي وآخذه، ويسقط وآخذه".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يُونُسُ ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ ، عن قتادة ، وَحُسَيْنٌ فِي تَفْسِيرِ شَيْبَانَ، عَنْ قَتَادَةَ ، قَالَ: وَحَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، أَنَّ أَبَا طَلْحَةَ ، قَالَ:" غَشِيَنَا النُّعَاسُ وَنَحْنُ فِي مَصَافِّنَا يَوْمَ بَدْرٍ". قَالَ أَبُو طَلْحَةَ:" وَكُنْتُ فِيمَنْ غَشِيَهُ النُّعَاسُ يَوْمَئِذٍ، فَجَعَلَ سَيْفِي يَسْقُطُ مِنْ يَدِي وَآخُذُهُ، وَيَسْقُطُ وَآخُذُهُ".
سیدنا ابوطلحہ سے مروی ہے کہ غزوہ بدر کے دن جب ہم لوگ صفوں میں کھڑے ہوئے تو ہم پر اونگھ طاری ہو نے لگی ان لوگوں میں میں بھی شامل تھا اور اسی بناء پر میرے ہاتھ سے بار بار تلوار گرتی تھی اور میں اسے اٹھا لیتا تھا۔
(حديث مرفوع) حدثنا روح ، قال: حدثنا سعيد بن ابي عروبة ، عن قتادة ، عن انس بن مالك ، عن ابي طلحة ، قال: لما صبح رسول الله صلى الله عليه وسلم خيبر، وقد اخذوا مساحيهم، وغدوا إلى حروثهم وارضيهم، فلما راوا النبي صلى الله عليه وسلم معه الجيش نكصوا مدبرين، فقال نبي الله صلى الله عليه وسلم:" الله اكبر الله اكبر إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنْ أَبِي طَلْحَةَ ، قَالَ: لَمَّا صَبَّحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْبَرَ، وَقَدْ أَخَذُوا مَسَاحِيَهُمْ، وَغَدَوْا إِلَى حُرُوثِهِمْ وَأَرْضِيهِمْ، فَلَمَّا رَأَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَهُ الْجَيْشُ نَكَصُوا مُدْبِرِينَ، فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِينَ".
سیدنا ابوطلحہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مقام خیبر میں صبح کی اس وقت تک اہل خبیر اپنے کام کاج کے لئے اپنے کھیتوں اور زمینوں میں جاچکے تھے جب انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اور ان کے ساتھ ایک لشکر کو دیکھا تو وہ پشت پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ اللہ اکبر کہہ کر فرمایا: جب ہم کسی قوم کے صحن میں اترتے ہیں تو ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح بہت بری ہو تی ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا روح ، حدثنا سعيد ، عن قتادة ، قال: ذكر لنا انس بن مالك ، عن ابي طلحة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم امر يوم بدر باربعة وعشرين رجلا من صناديد قريش، فقذفوا في طوي من اطواء بدر خبيث مخبث، وكان إذا ظهر على قوم اقام بالعرصة ثلاث ليال، فلما كان ببدر اليوم الثالث امر براحلته، فشد عليها رحلها، ثم مشى واتبعه اصحابه، فقال: ما نراه إلا ينطلق ليقضي حاجته، حتى قام على شفة الركي، فجعل يناديهم باسمائهم واسماء آبائهم:" يا فلان بن فلان ويا فلان بن فلان، ايسركم انكم اطعتم الله ورسوله، فإنا قد وجدنا ما وعدنا ربنا حقا، فهل وجدتم ما وعد ربكم حقا" فقال عمر: يا رسول الله، ما تكلم من اجساد لا ارواح لها، فقال:" والذي نفس محمد بيده ما انتم باسمع لما اقول منهم"، قال قتادة: احياهم الله حتى اسمعهم قوله توبيخا، وتصغيرا، وتقمئة، وحسرة، وندامة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، قَالَ: ذَكَرَ لَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، عَنْ أَبِي طَلْحَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ يَوْمَ بَدْرٍ بِأَرْبَعَةٍ وَعِشْرِينَ رَجُلًا مِنْ صَنَادِيدِ قُرَيْشٍ، فَقُذِفُوا فِي طَوِيٍّ مِنْ أَطْوَاءِ بَدْرٍ خَبِيثٍ مُخْبِثٍ، وَكَانَ إِذَا ظَهَرَ عَلَى قَوْمٍ أَقَامَ بِالْعَرْصَةِ ثَلَاثَ لَيَالٍ، فَلَمَّا كَانَ بِبَدْرٍ الْيَوْمَ الثَّالِثَ أَمَرَ بِرَاحِلَتِهِ، فَشُدَّ عَلَيْهَا رَحْلُهَا، ثُمَّ مَشَى وَاتَّبَعَهُ أَصْحَابُهُ، فَقَالَ: مَا نُرَاهُ إِلَّا يَنْطَلِقُ لِيَقْضِيَ حَاجَتَهُ، حَتَّى قَامَ عَلَى شَفَةِ الرَّكِيِّ، فَجَعَلَ يُنَادِيهِمْ بِأَسْمَائِهِمْ وَأَسْمَاءِ آبَائِهِمْ:" يَا فُلَانُ بْنَ فُلَانٍ وَيَا فُلَانُ بْنَ فُلَانٍ، أَيَسُرُّكُمْ أَنَّكُمْ أَطَعْتُمْ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، فَإِنَّا قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا، فَهَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا" فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا تُكَلِّمُ مِنْ أَجْسَادٍ لَا أَرْوَاحَ لَهَا، فَقَالَ:" وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْهُمْ"، قَالَ قَتَادَةُ: أَحْيَاهُمْ اللَّهُ حَتَّى أَسْمَعَهُمْ قَوْلَهُ تَوْبِيخًا، وَتَصْغِيرًا، وَتَقْمِئَةً، وَحَسْرَةً، وَنَدَامَةً.
سیدنا ابوطلحہ سے مروی ہے کہ غزوہ بدر کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ تو چوبیس سردران قریش کو بدر کے ایک گندے اور بدبودار کنویں میں پھینک دیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ عادت مبارک تھی جب کسی قوم پر غلبہ حاصل کرتے تو وہاں تین دن ٹھہرنے کو پسند فرماتے چنانچہ غزوہ بدر کے تیسرے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف چلے اور ہم بھی ساتھ چلے ہمارا خیال تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لئے جا رہے ہیں لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کنویں کی منڈیر پر جا کر کھڑے ہوئے اور ان کے نام لے کر انہیں آوازیں دینے لگے کیا تم نے اپنے رب کے وعدے کو سچا پایا ہے کیونکہ میں نے تو اپنے رب کے وعدے کو سچا پایا ہے سیدنا عمر کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! کیا آپ ایسے جسموں سے بات کر رہے ہو جن میں روح سرے سے نہیں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے جو میں ان سے کہہ رہا ہوں وہ تم اسے زیادہ انہیں سن رہے ہیں۔
وحدثنا حسين ، عن شيبان ولم يسنده، عن ابي طلحة، قال: وتقمئة.وحَدَّثَنَا حُسَيْنٌ ، عَنْ شَيْبَانَ وَلَمْ يُسْنِدْهُ، عَنْ أَبِي طَلْحَةَ، قَالَ: وَتَقْمِئَةً.
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه ، شيبان عن أبى طلحة منقطع
(حديث قدسي) حدثنا حدثنا عفان ، قال: حدثنا حماد بن سلمة ، قال: اخبرنا ثابت قال: قدم علينا سليمان مولى للحسن بن علي زمن الحجاج، فحدثنا، عن عبد الله بن ابي طلحة ، عن ابيه ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم جاء ذات يوم والبشر يرى في وجهه، فقلنا: إنا لنرى البشر في وجهك؟، فقال:" إنه اتاني ملك، فقال: يا محمد إن ربك يقول: اما يرضيك ان لا يصلي عليك احد من امتك إلا صليت عليه عشرا، ولا يسلم عليك إلا سلمت عليه عشرا؟".(حديث قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ قَالَ: قَدِمَ عَلَيْنَا سُلَيْمَانُ مَوْلًى لِلْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ زَمَنَ الْحَجَّاجِ، فَحَدَّثَنَا، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَ ذَاتَ يَوْمٍ وَالْبِشْرُ يُرَى فِي وَجْهِهِ، فَقُلْنَا: إِنَّا لَنَرَى الْبِشْرَ فِي وَجْهِكَ؟، فَقَالَ:" إِنَّهُ أَتَانِي مَلَكٌ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ إِنَّ رَبَّكَ يَقُولُ: أَمَا يُرْضِيكَ أَنْ لَا يُصَلِّيَ عَلَيْكَ أَحَدٌ مِنْ أُمَّتِكَ إِلَّا صَلَّيْتُ عَلَيْهِ عَشْرًا، وَلَا يُسَلِّمُ عَلَيْكَ إِلَّا سَلَّمْتُ عَلَيْهِ عَشْرًا؟".
سیدنا ابوطلحہ سے مروی ہے کہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا صبح کے وقت انتہائی خوشگوار موڈ تھا اور بشاشت کے آثار چہرہ مبارک پر نظر آرہے تھے صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آج تو صبح کے وقت آپ کاموڈ بہت خوشگوار ہے جس کے آثار چہرہ مبارک سے نظر آرہے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں آج میرے پاس اپنے پروردگار کی طرف سے ایک آنے والا آیا اور کہنے لگا کہ کیا آپ اس بات پر راضی نہیں ہیں کہ آپ کی امت میں سے جو شخص آپ پر ایک مرتبہ درود پڑھے گا میں اس پر دس مرتبہ رحمت نازل کر وں گا اور جو آپ پر ایک مرتبہ سلام پڑھے گا میں اس پر دس مرتبہ سلامتی بھیجوں گا۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، سليمان مجهول
(حديث قدسي) حدثنا حدثنا ابو كامل ، حدثنا حماد يعني ابن سلمة، عن ثابت ، عن سليمان مولى الحسن بن علي، عن عبد الله بن ابي طلحة ، عن ابيه ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم جاء ذات يوم والسرور يرى في وجهه، فقالوا يا رسول الله، إنا لنرى السرور في وجهك، فقال:" إنه اتاني ملك، فقال يا محمد، اما يرضيك ان ربك عز وجل يقول: إنه لا يصلي عليك احد من امتك إلا صليت عليه عشرا، ولا يسلم عليك احد من امتك إلا سلمت عليه عشرا؟"، قال:" بلى".(حديث قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ مَوْلَى الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَ ذَاتَ يَوْمٍ وَالسُّرُورُ يُرَى فِي وَجْهِهِ، فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا لَنَرَى السُّرُورَ فِي وَجْهِكَ، فَقَالَ:" إِنَّهُ أَتَانِي مَلَكٌ، فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ، أَمَا يُرْضِيكَ أَنَّ رَبَّكَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ: إِنَّهُ لَا يُصَلِّي عَلَيْكَ أَحَدٌ مِنْ أُمَّتِكَ إِلَّا صَلَّيْتُ عَلَيْهِ عَشْرًا، وَلَا يُسَلِّمُ عَلَيْكَ أَحَدٌ مِنْ أُمَّتِكَ إِلَّا سَلَّمْتُ عَلَيْهِ عَشْرًا؟"، قَالَ:" بَلَى".
سیدنا ابوطلحہ سے مروی ہے کہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا صبح کے وقت انتہائی خوشگوار موڈ تھا اور بشاشت کے آثار چہرہ مبارک پر نظر آرہے تھے صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آج تو صبح کے وقت آپ کاموڈ بہت خوشگوار ہے جس کے آثار چہرہ مبارک سے نظر آ رہے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں آج میرے پاس اپنے پروردگار کی طرف سے ایک آنے والا آیا اور کہنے لگا کہ کیا آپ اس بات پر راضی نہیں ہیں کہ آپ کی امت میں سے جو شخص آپ پر ایک مرتبہ درود پڑھے گا میں اس پر دس مرتبہ رحمت نازل کر وں گا اور جو آپ پر ایک مرتبہ سلام پڑھے گا میں اس پردس مرتبہ سلامتی بھیجوں گا۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، سليمان مجهول
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں سیدنا ابی بن کعب اور سیدنا ابوطلحہ بیٹھے ہوئے تھے ہم نے روٹی اور گوشت کھالیا پھر میں نے وضو کے لئے پانی منگوایا تو وہ دونوں حضرات کہنے لگے کہ وضو کیوں کر رہے ہو میں نے کہا اس کھانے کی وجہ سے جو ابھی ہم نے کھایا ہے وہ کہنے لگے کہ کیا تم حلال چیزوں سے وضو کر و گے اس ذات نے اس سے وضو نہیں کیا جو تم سے بہتر تھی۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الصمد ، حدثنا حرب بن ثابت ، كان يسكن بني سليم، قال: حدثنا إسحاق بن عبد الله بن ابي طلحة ، عن ابيه ، عن جده ، قال: قرا رجل عند عمر، فغير عليه، فقال: قرات على رسول الله صلى الله عليه وسلم فلم يغير علي، قال: فاجتمعنا عند النبي صلى الله عليه وسلم، قال: فقرا الرجل على النبي صلى الله عليه وسلم، فقال له:" قد احسنت"، قال: فكان عمر وجد من ذلك، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" يا عمر، إن القرآن كله صواب ما لم يجعل عذاب مغفرة او مغفرة عذابا"، وقال عبد الصمد مرة اخرى: ابو ثابت من كتابه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا حَرْبُ بْنُ ثَابِتٍ ، كَانَ يَسْكُنُ بَنِي سُلَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: قَرَأَ رَجُلٌ عِنْدَ عُمَرَ، فَغَيَّرَ عَلَيْهِ، فَقَالَ: قَرَأْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُغَيِّرْ عَلَيَّ، قَالَ: فَاجْتَمَعْنَا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَقَرَأَ الرَّجُلُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ:" قَدْ أَحْسَنْتَ"، قَالَ: فَكَأَنَّ عُمَرَ وَجَدَ مِنْ ذَلِكَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا عُمَرُ، إِنَّ الْقُرْآنَ كُلَّهُ صَوَابٌ مَا لَمْ يُجْعَلْ عَذَابٌ مَغْفِرَةً أَوْ مَغْفِرَةٌ عَذَابًا"، وَقَالَ عَبْدُ الصَّمَدِ مَرَّةً أُخْرَى: أَبُو ثَابِتٍ مِنْ كِتَابِهِ.
سیدنا ابوطلحہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کوئی شخص سیدنا عمر کے سامنے قرآن کر یم کی تلاوت کر رہا تھا اس دوران سیدنا عمر نے اسے لقمہ دیا وہ آدمی کہنے لگا کہ میں نے اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پڑھا تھا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں کوئی تبدیلی نہیں فرمائی چنانچہ وہ دونوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اکٹھے ہوئے اور اس آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کر یم پڑھ کر سنایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تحسین فرمائی سیدنا عمر نے غالباً اس بات کو محسوس کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمر سارا قرآن درست ہے جب تک انسان مغفرت کو عذاب یا عذاب کو مغفرت میں تبدیل نہ کر دے۔