(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب بن إبراهيم ، حدثنا ابي ، حدثنا محمد بن إسحاق ، عن ابان بن صالح ، عن الفضل بن معقل بن سنان ، عن عبد الله بن نيار الاسلمي ، عن عمرو بن شاس الاسلمي ، قال: وكان من اصحاب الحديبية، قال: خرجت مع علي إلى اليمن، فجفاني في سفري ذلك حتى وجدت في نفسي عليه، فلما قدمت، اظهرت شكايته في المسجد، حتى بلغ ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم، فدخلت المسجد ذات غدوة ورسول الله صلى الله عليه وسلم في ناس من اصحابه، فلما رآني ابدني عينيه يقول: حدد إلي النظر حتى إذا جلست قال:" يا عمرو، والله لقد آذيتني"، قلت: اعوذ بالله ان اوذيك يا رسول الله! قال:" بلى من آذى عليا، فقد آذاني".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ ، عَنِ الْفَضْلِ بْنِ مَعْقِلِ بْنِ سِنَانٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نِيَارٍ الْأَسْلَمِيِّ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شَأْسٍ الْأَسْلَمِيِ ، قَالَ: وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ الْحُدَيْبِيَةِ، قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ عَلِيٍّ إِلَى الْيَمَنِ، فَجَفَانِي فِي سَفَرِي ذَلِكَ حَتَّى وَجَدْتُ فِي نَفْسِي عَلَيْهِ، فَلَمَّا قَدِمْتُ، أَظْهَرْتُ شَكَايَتَهُ فِي الْمَسْجِدِ، حَتَّى بَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَخَلْتُ الْمَسْجِدَ ذَاتَ غُدْوَةٍ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَاسٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَلَمَّا رَآنِي أَبَدَّنِي عَيْنَيْهِ يَقُولُ: حَدَّدَ إِلَيَّ النَّظَرَ حَتَّى إِذَا جَلَسْتُ قَالَ:" يَا عَمْرُو، وَاللَّهِ لَقَدْ آذَيْتَنِي"، قُلْتُ: أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أُوذِيَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَالَ:" بَلَى مَنْ آذَى عَلِيًّا، فَقَدْ آذَانِي".
سیدنا عمر بن شاس جو اصحاب حدیبیہ میں سے ہیں کہتے ہیں کہ میں سیدنا علی کے ساتھ یمن سے روانہ ہوا دوران سفر سے ان سے میری کچھ حق تلفی ہو گئی جس کی بناء پر میرے دل میں ان کے معلق بوجھ پیدا ہو گیا یہی وجہ ہے کہ مدینہ پہنچ کر میں نے مسجد میں یہ شکایت لوگوں کے سامنے ظاہر کی ہوتے ہوتے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک بھی جاپہنچی اگلے دن جب میں مسجد میں داخل ہوا تو دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چند صحابہ کے ساتھ بیٹھتے ہوئے ہیں مجھے دیکھ کر آپ نے تیز نظروں سے گھورا اور جب میں بیٹھ گیا تو آپ نے فرمایا: عمرو واللہ تم نے مجھے اذیت پہنچائی ہے میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اللہ کی پناہ میں آتاہوں کہ آپ کو اذیت پہنچاؤں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیوں نہیں جس نے علی کو اذیت پہنچائی اس نے مجھے اذیت پہنچائی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف ، الفضل بن معقل بن سنان ليس بمشهور، وعبدالله بن نيار لم يصيح سماعه من عمرو بن شاس، ومحمد بن اسحاق مدلس وقد عنعنة
(حديث مرفوع) حدثنا ابو النضر ، قال: حدثنا المرجى بن رجاء اليشكري ، قال: حدثني سلم بن عبد الرحمن ، قال: سمعت سوادة بن الربيع ، قال: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فسالته فامر لي بذود، ثم قال لي:" إذا رجعت إلى بيتك، فمرهم فليحسنوا غذاء رباعهم، ومرهم فليقلموا اظفارهم، ولا يعبطوا بها ضروع مواشيهم إذا حلبوا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُرَجَّى بْنُ رَجَاءٍ الْيَشْكُرِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَلْمُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ: سَمِعْتُ سَوَادَةَ بْنَ الرَّبِيعِ ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلْتُهُ فَأَمَرَ لِي بِذَوْدٍ، ثُمَّ قَالَ لِي:" إِذَا رَجَعْتَ إِلَى بَيْتِكَ، فَمُرْهُمْ فَلْيُحْسِنُوا غِذَاءَ رِبَاعِهِمْ، وَمُرْهُمْ فَلْيُقَلِّمُوا أَظْفَارَهُمْ، وَلَا يَعْبِطُوا بِهَا ضُرُوعَ مَوَاشِيهِمْ إِذَا حَلَبُوا".
سیدنا سوادہ بن ربیع سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کچھ تعاون کی درخواست کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک اونٹ دینے کا حکم دیا پھر مجھ سے فرمایا کہ جب تم لوٹ کر اپنے گھرجاؤ تو اپنے اہل خانہ کو حکم دینا کہ زمین کا عمدہ بیج رکھا کر یں اور ناخن کاٹا کر یں اور دودھ دوہتے وقت اپنے جانوروں کے تھن اپنے ناخنوں سے خون آلود نہ کیا کر یں۔
سیدنا ہند بن اسماء سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنی قوم کی طرف جس کا تعلق بنواسلم سے تھا بھیجا اور فرمایا: اپنی قوم کو حکم دو کہ آج عاشورہ کے دن کا روزہ رکھیں اگر تم ان میں کوئی ایسا شخص پاؤ جس نے دن کے پہلے حصے میں کچھ کھاپی لیا ہو تو اسے چاہیے کہ بقیہ دن کھائے پیے بغیر گزار دے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، لعله سقط عن أبيه بعد قوله: عن هند بن أسماء ويكون أسماء هوالذي بعثه رسول الله ﷺ
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، قال: حدثنا وهيب ، حدثنا عبد الرحمن بن حرملة ، عن يحيى بن هند بن حارثة وكان هند من اصحاب الحديبية واخوه الذي بعثه رسول الله صلى الله عليه وسلم يامر قومه بصيام عاشوراء وهو اسماء بن حارثة فحدثني يحيى بن هند، عن اسماء بن حارثة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم بعثه، فقال:" مر قومك بصيام هذا اليوم"، قال: ارايت إن وجدتهم قد طعموا؟ قال:" فليتموا آخر يومهم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ حَرْمَلَةَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ هِنْدِ بْنِ حَارِثَةَ وَكَانَ هِنْدٌ مِنْ أَصْحَابِ الْحُدَيْبِيَةِ وَأَخُوهُ الَّذِي بَعَثَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُ قَوْمَهُ بِصِيَامِ عَاشُورَاءَ وَهُوَ أَسْمَاءُ بْنُ حَارِثَةَ فَحَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ هِنْدٍ، عَنْ أَسْمَاءَ بْنِ حَارِثَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَهُ، فَقَالَ:" مُرْ قَوْمَكَ بِصِيَامِ هَذَا الْيَوْمِ"، قَالَ: أَرَأَيْتَ إِنْ وَجَدْتُهُمْ قَدْ طَعِمُوا؟ قَالَ:" فَلْيُتِمُّوا آخِرَ يَوْمِهِمْ".
سیدنا ہند بن اسماء سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنی قوم کی طرف جس کا تعلق بنواسلم سے تھا بھیجا اور فرمایا: اپنی قوم کو حکم دو کہ آج عاشورہ کے دن کا روزہ رکھیں اگر تم ان میں کوئی ایسا شخص پاؤ جس نے دن کے پہلے حصے میں کچھ کھا پی لیا ہو تو اسے چاہیے کہ بقیہ دن کھائے پیے بغیر گزار دے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة يحيي بن هند بن حارثة
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن سعيد ، عن هشام يعني ابن عروة , قال: اخبرني ابي ، عن الاحنف بن قيس ، عن عم له يقال له: جارية بن قدامة ، ان رجلا قال له: يا رسول الله، قل لي قولا، واقلل علي لعلي اعقله , قال:" لا تغضب" , فاعاد عليه مرارا، كل ذلك يقول:" لا تغضب". قال يحيى: قال هشام: قلت: يا رسول الله. وهم يقولون: لم يدرك النبي صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ هِشَامٍ يَعْنِي ابْنَ عُرْوَةَ , قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي ، عَنِ الْأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ ، عَنْ عَمٍّ لَهُ يُقَالُ لَهُ: جَارِيَةُ بْنُ قُدَامَةَ ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قُلْ لِي قَوْلًا، وَأَقْلِلْ عَلَيَّ لَعَلِّي أَعْقِلُهُ , قَالَ:" لَا تَغْضَبْ" , فَأَعَادَ عَلَيْهِ مِرَارًا، كُلُّ ذَلِكَ يَقُولُ:" لَا تَغْضَبْ". قَالَ يَحْيَى: قَالَ هِشَامٌ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ. وَهُمْ يَقُولُونَ: لَمْ يُدْرِكْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سیدنا جاریہ بن قدامہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے کوئی مختصر نصیحت فرمادیجیے شاید میری عقل میں آ جائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: غصہ نہ کیا کر و اس نے کئی مرتبہ اپنی درخواست دہرائی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر مرتبہ یہی جواب دیا کہ غصہ نہ کیا کر و۔
(حديث مرفوع) حدثنا عصام بن خالد ، حدثنا عيسى بن يونس بن ابي إسحاق الهمداني ، عن ابيه ، عن جده ، عن ذي الجوشن ، قال: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم بعد ان فرغ من اهل بدر بابن فرس لي، فقلت: يا محمد، إني قد جئتك بابن القرحاء لتتخذه، قال:" لا حاجة لي فيه، ولكن إن شئت ان اقيضك به المختارة من دروع بدر، فعلت؟" , فقلت: ما كنت لاقيضك اليوم بعدة، قال:" فلا حاجة لي فيه"، ثم قال:" يا ذا الجوشن، الا تسلم فتكون من اول هذا الامر؟" , قلت: لا، قال:" لم؟" , قلت: إني رايت قومك قد ولعوا بك! قال:" فكيف بلغك عن مصارعهم ببدر؟" , قال: قلت: بلغني , قال: قلت: إن تغلب على مكة وتقطنها، قال:" لعلك إن عشت ان ترى ذلك"، قال: ثم قال:" يا بلال، خذ حقيبة الرجل، فزوده من العجوة"، فلما ان ادبرت قال:" اما إنه من خير بني عامر" , قال: فوالله إني لباهلي بالغور إذ اقبل راكب، فقلت: من اين؟ قال: من مكة، فقلت: ما فعل الناس؟ قال: قد غلب عليها محمد صلى الله عليه وسلم، قال: قلت: هبلتني امي، فوالله لو اسلم يومئذ ثم اساله الحيرة، لاقطعنيها.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عِصَامُ بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ الْهَمْدَانِيُّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، عَنْ ذِي الْجَوْشَنِ ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ أَنْ فَرَغَ مِنْ أَهْلِ بَدْرٍ بِابْنِ فَرَسٍ لِي، فَقُلْتُ: يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي قَدْ جِئْتُكَ بِابْنِ الْقَرْحَاءِ لِتَتَّخِذَهُ، قَالَ:" لَا حَاجَةَ لِي فِيهِ، وَلَكِنْ إِنْ شِئْتَ أَنْ أَقِيضَكَ بِهِ الْمُخْتَارَةَ مِنْ دُرُوعِ بَدْرٍ، فَعَلْتُ؟" , فَقُلْتُ: مَا كُنْتُ لِأَقِيضَكَ الْيَوْمَ بِعُدَّةٍ، قَالَ:" فَلَا حَاجَةَ لِي فِيهِ"، ثُمَّ قَالَ:" يَا ذَا الْجَوْشَنِ، أَلَا تُسْلِمُ فَتَكُونَ مِنْ أَوَّلِ هَذَا الْأَمْرِ؟" , قُلْتُ: لَا، قَالَ:" لِمَ؟" , قُلْتُ: إِنِّي رَأَيْتُ قَوْمَكَ قَدْ وَلِعُوا بِكَ! قَالَ:" فَكَيْفَ بَلَغَكَ عَنْ مَصَارِعِهِمْ بِبَدْرٍ؟" , قَالَ: قُلْتُ: بَلَغَنِي , قَالَ: قُلْتُ: إِنْ تَغْلِبْ عَلَى مَكَّةَ وَتَقْطُنْهَا، قَالَ:" لَعَلَّكَ إِنْ عِشْتَ أَنْ تَرَى ذَلِكَ"، قَالَ: ثُمَّ قَالَ:" يَا بِلَالُ، خُذْ حَقِيبَةَ الرَّجُلِ، فَزَوِّدْهُ مِنَ الْعَجْوَةِ"، فَلَمَّا أَنْ أَدْبَرْتُ قَالَ:" أَمَا إِنَّهُ مِنْ خَيْرِ بَنِي عَامِرٍ" , قَالَ: فَوَاللَّهِ إِنِّي لَبِأَهْلِي بِالْغَوْرِ إِذْ أَقْبَلَ رَاكِبٌ، فَقُلْتُ: مِنْ أَيْنَ؟ قَالَ: مِنْ مَكَّةَ، فَقُلْتُ: مَا فَعَلَ النَّاسُ؟ قَالَ: قَدْ غَلَبَ عَلَيْهَا مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قُلْتُ: هَبِلَتْنِي أُمِّي، فَوَاللَّهِ لَوْ أُسْلِمُ يَوْمَئِذٍ ثُمَّ أَسْأَلُهُ الْحِيرَةَ، لَأَقْطَعَنِيهَا.
سیدنا ذی الجوشن کہتے ہیں کہ قبول اسلام سے قبل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوا جب آپ اہل بدر سے فراغت پاچکے تھے میں اپنے ساتھ اپنے گھوڑے کا بچہ لے کر آیا تھا میں نے آ کر کہا اے محمد میں آپ کے پاس اپنے گھوڑے کا بچہ لے کر آیا ہوں تاکہ آپ اسے خرید لیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فی الحال مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے البتہ اگر تم چاہو تو میں اس کے بدلے میں تمہیں بدری زرہیں دے سکتا ہوں میں نے کہا آج تو میں کسی غلام کے بدلے میں بھی یہ گھوڑا نہیں دوں گا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر مجھے بھی اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ پھر فرمایا: اے ذی الجوشن تم مسلمان کیوں نہیں ہو جاتے کہ اس دین کے ابتدائی لوگوں میں تم بھی شامل ہو جاؤ میں نے عرض کیا: نہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیوں میں نے عرض کیا: میں نے دیکھا ہے کہ آپ کی قوم نے آپ کا حق مارا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تمہیں اہل بدر کے مقتولین کے حوالے سے کچھ معلوم نہیں ہے میں نے عرض کیا: مجھے معلوم ہے کیا آپ مکہ مکر مہ پر غالب آ کر اسے جھکا سکیں گے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم زندہ رہے تو وہ دن ضرور دیکھوگے۔ پھر سیدنا بلال سے فرمایا کہ ان کا تھیلا لے کر عجوہ کھجوروں سے بھردو تاکہ زادراہ رہے جب میں پشت پھیر کر واپس جانے لگا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ بنوعامر میں سب سے بہتر ہے میں ابھی اپنے اہل خانہ کے ساتھ غوز میں ہی تھا کہ ایک سوار آیا میں نے پوچھا کہ کہاں جارہے ہواس نے کہا مکہ مکر مہ سے آرہاہوں میں نے پوچھا کہ لوگوں کے کیا حالات ہیں اس نے بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان پر غالب آ گئے ہیں میں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا اگر میں اسی دن مسلمان ہو جاتا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حیرہ نامی شہر بھی مانگتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہ مجھے دیدیتے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، أبو إسحاق السبيعي لم يسمع من ذي الجوشن
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا ابان العطار ، حدثنا قتادة ، عن شهر بن حوشب ، عن ابي عبيد انه طبخ لرسول الله صلى الله عليه وسلم قدرا فيه لحم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ناولني ذراعها" , فناولته فقال:" ناولني ذراعها" , فناولته فقال:" ناولني ذراعها" , فقال: يا نبي الله، كم للشاة من ذراع؟ قال:" والذي نفسي بيده، لو سكت لاعطتك ذراعا ما دعوت به".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا أَبَانُ الْعَطَّارُ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ أَنَّهُ طَبَخَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِدْرًا فِيهِ لَحْمٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَاوِلْنِي ذِرَاعَهَا" , فَنَاوَلْتُهُ فَقَالَ:" نَاوِلْنِي ذِرَاعَهَا" , فَنَاوَلْتُهُ فَقَالَ:" نَاوِلْنِي ذِرَاعَهَا" , فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، كَمْ لِلشَّاةِ مِنْ ذِرَاعٍ؟ قَالَ:" وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَوْ سَكَتَّ لَأَعْطَتْكَ ذِرَاعًا مَا دَعَوْتَ بِهِ".
سیدنا ابوعبید سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک ہنڈیا میں گوشت پکایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے اس کی دستی نکال کر دو چنانچہ میں نے نکال کر دی تھوڑی دیر بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری تیسری طلب فرمائی میں نے وہ بھی دیدی تھوڑی دیر بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر طلب فرمائی میں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک بکری کی کتنی دستیاں ہو تی ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے اگر تم خاموش رہتے تو اس ہنڈیا سے اس وقت تک دستیاں نکلتی رہتیں جب تک تم اسے نکالتے رہتے۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لضعف شهر بن حوشب