عبدالرحمن بن مسعود کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا سہل بن ابی حثمہ ہماری مجلس میں تشریف لائے اور یہ حدیث بیان کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم پھل کاٹا کر و تو کچھ کاٹ لیا کر و اور کچھ چھوڑ دیا کر و تقریبا ایک تہائی چھوڑ دیا کر و اگر ایسا نہ کر و تو ایک چوتھائی چھوڑ دیا کر و۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لجهالة عبدالرحمن بن مسعود
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، قال: ذكره عبد الملك بن نوفل بن مساحق قال سفيان: وجده بدري , عن رجل من مزينة يقال له: ابن عصام , عن ابيه وكان من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم , قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم , إذا بعث السرية يقول:" إذا رايتم مسجدا او سمعتم مناديا , فلا تقتلوا احدا" , قال ابن عصام، عن ابيه بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في سرية.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ: ذَكَرَهُ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ نَوْفَلِ بْنِ مُسَاحِقَ قَالَ سُفْيَانُ: وَجَدُّهُ بدري , عَنْ رَجُلٍ مِنْ مُزَيْنَةَ يُقَالُ لَهُ: ابْنُ عِصَامٍ , عَنْ أَبِيهِ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , إِذَا بَعَثَ السَّرِيَّةَ يَقُولُ:" إِذَا رَأَيْتُمْ مَسْجِدًا أَوْ سَمِعْتُمْ مُنَادِيًا , فَلَا تَقْتُلُوا أَحَدًا" , قَالَ ابْنُ عِصَامٍ، عَنْ أَبِيهِ بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَرِيَّةٍ.
سیدنا عصام سے مروی ہے کہ جب کبھی لشکر کے کسی دستے کو روانہ فرماتے تو اسے یہ تلقین کرتے کہ اگر تم اس علاقے میں کوئی مسجد دیکھو یا کسی مؤذن کی آواز سنو تو وہاں کسی کو قتل نہ کرنا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة ابن عصام المزني، وعبدالملك بن نوفل
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا يزيد بن عبد ربه ، حدثنا بقية بن الوليد ، قال: حدثني الزبيدي ، عن الزهري , عن السائب بن يزيد , انه لم يكن يقص على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم , ولا ابي بكر، وكان اول من قص تميم الداري، استاذن عمر بن الخطاب ان يقص على الناس قائما، فاذن له عمر".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ رَبِّهِ ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ ، قَالَ: حَدَّثَنِي الزُّبَيْدِيُّ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ , عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ , أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ يُقَصُّ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَلَا أَبِي بَكْرٍ، وَكَانَ أَوَّلَ مَنْ قَصَّ تَمِيمٌ الدَّارِيُّ، اسْتَأْذَنَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَنْ يَقُصَّ عَلَى النَّاسِ قَائِمًا، فَأَذِنَ لَهُ عُمَرُ".
سیدنا سائب بن یزید سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا صدیق اکبر کے دور باسعادت میں وعظ گوئی کا رواج نہ تھا سب سے پہلے وعظ گوئی کرنے والے سیدنا تمیم داری تھے انہوں نے سیدنا عمر سے لوگوں میں کھڑے ہو کر وعظ گوئی کی اجازت مانگی اور سیدنا عمر نے انہیں اجازت دیدی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، بقية لم يصرح بالسماع فى كل طبقات الرواة
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب , حدثني ابي ، عن ابن إسحاق ، قال: حدثني محمد بن مسلم بن عبيد الله الزهري ، عن السائب بن يزيد ابن اخت نمر، قال:" لم يكن لرسول الله صلى الله عليه وسلم إلا مؤذن واحد في الصلوات كلها في الجمعة وغيرها، يؤذن ويقيم , قال: كان بلال يؤذن إذا جلس رسول الله صلى الله عليه وسلم على المنبر يوم الجمعة، ويقيم إذا نزل، ولابي بكر , وعمر رضي الله عنهما حتى كان عثمان.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ , حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ الزُّهْرِيُّ ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ ابْنِ أُخْتِ نَمِرٍ، قَالَ:" لَمْ يَكُنْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا مُؤَذِّنٌ وَاحِدٌ فِي الصَّلَوَاتِ كُلِّهَا فِي الْجُمُعَةِ وَغَيْرِهَا، يُؤَذِّنُ وَيُقِيمُ , قَالَ: كَانَ بِلَالٌ يُؤَذِّنُ إِذَا جَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَيُقِيمُ إِذَا نَزَلَ، وَلِأَبِي بَكْرٍ , وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا حَتَّى كَانَ عُثْمَانُ.
سیدنا سائب بن یزید سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں صرف ایک مؤذن تھا جو تمام نمازوں اور جمعہ وغیرہ میں اذان بھی دیتا تھا اور اقامت بھی وہی کہتا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن جب منبر پر رونق افروز ہو جاتے تو سیدنا بلال اذان دیتے تھے اور جب آپ منبر سے نیچے اترتے تو وہی اقامت کہتے تھے سیدنا صدیق اکبر اور سیدنا عمر کے زمانے تک ایسا ہوتا رہا یہاں تک کہ سیدنا عثمان کا دور آگیا۔
سیدنا سائب بن یزید سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری امت اس وقت تک فطرت پر قائم رہے گی جب تک وہ مغرب کی نماز ستارے نکلنے سے پہلے پڑھتی رہے گی۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة عبدالله بن الأسود
(حديث مرفوع) حدثنا مكي بن إبراهيم ، حدثنا الجعيد ، عن يزيد بن خصيفة , عن السائب بن يزيد , قال:" كنا نؤتى بالشارب في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم , وفي إمرة ابي بكر وصدرا من إمرة عمر، فنقوم إليه، فنضربه بايدينا ونعالنا وارديتنا، حتى كان صدرا من إمرة عمر فجلد فيها اربعين، حتى إذا عتوا فيها وفسقوا، جلد ثمانين.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا الْجُعَيْدُ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُصَيْفَةَ , عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ , قَالَ:" كُنَّا نُؤْتَى بِالشَّارِبِ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَفِي إِمْرَةِ أَبِي بَكْرٍ وَصَدْرًا مِنْ إِمْرَةِ عُمَرَ، فَنَقُومُ إِلَيْهِ، فَنَضْرِبُهُ بِأَيْدِينَا وَنِعَالِنَا وَأَرْدِيَتِنَا، حَتَّى كَانَ صَدْرًا مِنْ إِمْرَةِ عُمَرَ فَجَلَدَ فِيهَا أَرْبَعِينَ، حَتَّى إِذَا عَتَوْا فِيهَا وَفَسَقُوا، جَلَدَ ثَمَانِينَ.
سیدنا سائب بن یزید سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں اور سیدنا صدیق اکبر کے دور میں اور سیدنا عمر کے ابتدائی دور میں جب کوئی شرابی لایا جاتا تھا تو ہم لوگ کھڑے ہو کر اسے اپنے ہاتھوں جوتیوں اور چادروں سے مارتے تھے بعد میں سیدنا عمر نے شرابی کو چالیس کوڑے مارنے کا حکم دیا اور لوگ جب اس میں سرکشی اور فسق وفجور کرنے لگے تو انہوں نے اس کی سزا اسی کوڑے مقرر کر دی۔
(حديث مرفوع) حدثنا مكي ، حدثنا الجعيد ، عن يزيد بن خصيفة , عن السائب بن يزيد ، ان امراة جاءت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" يا عائشة، اتعرفين هذه؟" قالت: لا , يا نبي الله , فقال:" هذه قينة بني فلان، تحبين ان تغنيك؟" قالت: نعم , قال: فاعطاها طبقا، فغنتها، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" قد نفخ الشيطان في منخريها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مَكِّيٌّ ، حَدَّثَنَا الْجُعَيْدُ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُصَيْفَةَ , عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ ، أَنَّ امْرَأَةً جَاءَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" يَا عَائِشَةُ، أَتَعْرِفِينَ هَذِهِ؟" قَالَتْ: لَا , يَا نَبِيَّ اللَّهِ , فَقَالَ:" هَذِهِ قَيْنَةُ بَنِي فُلَانٍ، تُحِبِّينَ أَنْ تُغَنِّيَكِ؟" قَالَتْ: نَعَمْ , قَالَ: فَأَعْطَاهَا طَبَقًا، فَغَنَّتْهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قَدْ نَفَخَ الشَّيْطَانُ فِي مَنْخِرَيْهَا".
سیدنا سائب بن یزید سے مروی ہے کہ ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہ پوچھا کہ عائشہ تم جانتی ہواسے انہوں نے کہا اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نہیں فرمایا: یہ فلاں قبیلے کی گلوکارہ ہے تم اس کا گاناسننا چاہتی ہوانہوں نے کہا جی ہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک تھالی دیدی اور وہ گانے لگی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے نتھنوں میں شیطان پھونکیں مار رہا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، عن الزهري ، عن السائب بن يزيد , قال:" خرجت مع الصبيان إلى ثنية الوداع نتلقى رسول الله صلى الله عليه وسلم من غزوة تبوك" , وقال سفيان مرة: اذكر مقدم النبي صلى الله عليه وسلم لما قدم النبي صلى الله عليه وسلم من تبوك.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ , قَالَ:" خَرَجْتُ مَعَ الصِّبْيَانِ إِلَى ثَنِيَّةِ الْوَدَاعِ نَتَلَقَّى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَزْوَةِ تَبُوكَ" , وَقَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً: أَذْكُرُ مَقْدِمَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ تَبُوكَ.
سیدنا سائب بن یزید سے مروی ہے کہ دوسرے بچوں کے ساتھ مل کر ثنیتہ الوداع کی طرف نکلا ہم لوگ غزوہ تبوک سے واپسی پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کرنے کے لئے گئے تھے اور ایک روایت میں ہے کہ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا غزوہ تبوک سے واپس تشریف لانا یاد ہے۔