نافع کہتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر پہلے تو ہر قسم کے سانپوں کو مارنے کا حکم دیتے تھے کسی کو نہیں چھوڑتے تھے حتی کہ سیدنا ابولبابہ نے یہ حدیث بیان کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گھروں میں رہنے والوں سانپوں کو مارنے سے منع فرمایا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو عامر عبد الملك بن عمرو ، قال: حدثنا زهير يعني ابن محمد , عن عبد الله بن محمد بن عقيل ، عن عبد الرحمن بن يزيد الانصاري , عن ابي لبابة البدري ابن عبد المنذر , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" سيد الايام يوم الجمعة واعظمها عنده، واعظم عند الله عز وجل من يوم الفطر ويوم الاضحى، وفيه خمس خلال: خلق الله فيه آدم، واهبط الله فيه آدم إلى الارض، وفيه توفى الله آدم، وفيه ساعة لا يسال العبد فيها شيئا إلا آتاه الله تبارك وتعالى إياه ما لم يسال حراما، وفيه تقوم الساعة، ما من ملك مقرب، ولا سماء ولا ارض، ولا رياح ولا جبال، ولا بحر إلا هن يشفقن من يوم الجمعة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو ، قَالَ: حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ الْأَنْصَارِيِّ , عَنْ أَبِي لُبَابَةَ الْبَدْرِيِّ ابْنِ عَبْدِ الْمُنْذِرِ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" سَيِّدُ الْأَيَّامِ يَوْمُ الْجُمُعَةِ وَأَعْظَمُهَا عِنْدَهُ، وَأَعْظَمُ عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ يَوْمِ الْفِطْرِ وَيَوْمِ الْأَضْحَى، وَفِيهِ خَمْسُ خِلَالٍ: خَلَقَ اللَّهُ فِيهِ آدَمَ، وَأَهْبَطَ اللَّهُ فِيهِ آدَمَ إِلَى الْأَرْضِ، وَفِيهِ تَوَفَّى اللَّهُ آدَمَ، وَفِيهِ سَاعَةٌ لَا يَسْأَلُ الْعَبْدُ فِيهَا شَيْئًا إِلَّا آتَاهُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى إِيَّاهُ مَا لَمْ يَسْأَلْ حَرَامًا، وَفِيهِ تَقُومُ السَّاعَةُ، مَا مِنْ مَلَكٍ مُقَرَّبٍ، وَلَا سَمَاءٍ وَلَا أَرْضٍ، وَلَا رِيَاحٍ وَلَا جِبَالٍ، وَلَا بَحْرٍ إِلَّا هُنَّ يُشْفِقْنَ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ".
سیدنا ابولبابہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمام دنوں کا سردار اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ معظم حتی کہ عیدالفطر اور عیدالاضحی کے دن سے بھی زیادہ معظم دن جمعہ کا دن ہے اس کی پانچ خصوصیات ہیں اللہ نے اسی دن سیدنا آدم کو پیدا کیا اسی دن انہیں زمین پر اپنا نائب بنا کر بھیجا اسی دن ان کی وفات ہوئی اس دن میں ایک گھڑی ایسی بھی آتی ہے کہ بندہ اس میں جو بھی دعا مانگے اللہ تعالیٰ اسے وہ چیز ضرور عطا فرماتا ہے تاقتی کہ وہ کسی حرام چیز کی دعا نہ کر ے اور اسی دن قیامت قائم ہو گی کوئی مقرب فرشتہ آسمان و زمین، ہوائیں پہاڑ اور سمندرایسا نہیں جو جمعہ کے دن سے ڈرتانہ ہو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف من أجل عبدالله بن محمد بن عقيل
(حديث مرفوع) حدثنا حدثنا الهيثم بن خارجة , قال: ابو عبد الرحمن: وسمعته انا من الهيثم , حدثنا رشدين بن سعد ، عن عبد الله بن الوليد ، عن ابي منصور مولى الانصار، عن عمرو بن الجموح , انه سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول:" لا يحق العبد حق صريح الإيمان حتى يحب لله تعالى ويبغض لله، فإذا احب لله تبارك وتعالى، وابغض لله تبارك وتعالى , فقد استحق الولاء من الله، وإن اوليائي من عبادي، واحبائي من خلقي الذين يذكرون بذكري، واذكر بذكرهم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ خَارِجَةَ , قَالَ: أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: وَسَمِعْتُهُ أَنَا مِنَ الْهَيْثَمِ , حَدَّثَنَا رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْوَلِيدِ ، عَنْ أَبِي مَنْصُورٍ مَوْلَى الْأَنْصَارِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْجَمُوحِ , أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" لَا يَحِقُّ الْعَبْدُ حَقَّ صَرِيحِ الْإِيمَانِ حَتَّى يُحِبَّ لِلَّهِ تَعَالَى وَيُبْغِضَ لِلَّهِ، فَإِذَا أَحَبَّ لِلَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى، وَأَبْغَضَ لِلَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى , فَقَدْ اسْتَحَقَّ الْوَلَاءَ مِنَ اللَّهِ، وَإِنَّ أَوْلِيَائِي مِنْ عِبَادِي، وَأَحِبَّائِي مِنْ خَلْقِي الَّذِينَ يُذْكَرُونَ بِذِكْرِي، وَأُذْكَرُ بِذِكْرِهِمْ".
سیدنا عمر و بن جموح سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس وقت کوئی شخص صریح ایمان دار نہیں ہو سکتا جب تک صرف اللہ کی رضاء کے لئے محبت اور نفرت نہ کرنے لگے جب کوئی شخص صرف اللہ کی رضا کے لئے محبت اور نفرت کرنے لگے تو وہ اللہ کی دوستی کا مستحق ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندوں میں سے میرے دوست اور میری مخلوق میں سے میرے محبوب لوگ وہ ہیں جو مجھے یاد کرتے ہیں اور میں انہیں یاد کرتا ہوں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف رشدين بن سعد، وعبيد الله بن الوليد، ولانقطاعه، أبو منصور لم يلق عمرا
سیدنا عبدالرحمن بن صفوان سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حجر اسود اور باب کعبہ کے درمیان چمٹے ہوئے دیکھا آپ نے اپناچہرہ مبارک بیت اللہ پر رکھا ہوا تھا۔
(حديث مرفوع) حدثنا جرير ، عن يزيد بن ابي زياد , عن مجاهد , قال: كان رجل من المهاجرين يقال له: عبد الرحمن بن صفوان ، وكان له بلاء في الإسلام حسن، وكان صديقا للعباس، فلما كان يوم فتح مكة، جاء بابيه إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال: يا رسول الله، بايعه على الهجرة، فابى، وقال:" إنها لا هجرة" , فانطلق إلى العباس وهو في السقاية، فقال: يا ابا الفضل، اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم بابي يبايعه على الهجرة، فابى , قال: فقام العباس معه وما عليه رداء، فقال: يا رسول الله، قد عرفت ما بيني وبين فلان، واتاك بابيه لتبايعه على الهجرة، فابيت , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم" إنها لا هجرة" , فقال العباس: اقسمت عليك لتبايعنه , قال: فبسط رسول الله صلى الله عليه وسلم يده، قال: فقال:" هات، ابررت قسم عمي، ولا هجرة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ , عَنْ مُجَاهِدٍ , قَالَ: كَانَ رَجُلٌ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ يُقَالُ لَهُ: عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ صَفْوَانَ ، وَكَانَ لَهُ بَلَاءٌ فِي الْإِسْلَامِ حَسَنٌ، وَكَانَ صَدِيقًا لِلْعَبَّاسِ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ فَتْحِ مَكَّةَ، جَاءَ بِأَبِيهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بَايِعْهُ عَلَى الْهِجْرَةِ، فَأَبَى، وَقَالَ:" إِنَّهَا لَا هِجْرَةَ" , فَانْطَلَقَ إِلَى الْعَبَّاسِ وَهُوَ فِي السِّقَايَةِ، فَقَالَ: يَا أَبَا الْفَضْلِ، أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَبِي يُبَايِعُهُ عَلَى الْهِجْرَةِ، فَأَبَى , قَالَ: فَقَامَ الْعَبَّاسُ مَعَهُ وَمَا عَلَيْهِ رِدَاءٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ عَرَفْتَ مَا بَيْنِي وَبَيْنَ فُلَانٍ، وَأَتَاكَ بِأَبِيهِ لِتُبَايِعَهُ عَلَى الْهِجْرَةِ، فَأَبَيْتَ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" إِنَّهَا لَا هِجْرَةَ" , فَقَالَ الْعَبَّاسُ: أَقْسَمْتُ عَلَيْكَ لَتُبَايِعَنَّهُ , قَالَ: فَبَسَطَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ، قَالَ: فَقَالَ:" هَاتِ، أَبْرَرْتُ قَسَمَ عَمِّي، وَلَا هِجْرَةَ".
سیدنا عبدالرحمن بن صفوان جنہیں اسلام میں خوب ابتلاء پیش آیا تھا اور وہ سیدنا عباس کے دوست تھے فتح مکہ کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے والد صاحب کو لے کر حاضر ہوئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ! ان سے ہجرت پر بیعت لے لیجیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کرتے ہوئے فرمایا کہ اب ہجرتکا حکم باقی ہیں رہا اس پر وہ سیدنا عباس کے پاس چلے گئے جو لوگوں کو پانی پلانے کی خدمت سرانجام دے رہے تھے اور ان سے کہا کہ اے ابوفضل میں اپنے والد صاحب کو لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا تھا کہ وہ ان سے ہجرت پر بیعت لے لیتے لیکن انہوں نے انکار کر دیا حضڑت عباس ان کے ساتھ اٹھ کر چل پڑے اور چادر بھی نہیں لی اور کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! آپ جانتے ہیں کہ فلاں شخص کے ساتھ میرے کیسے تعلقات ہیں وہ آپ کے پاس اپنے والد کو لے کر آیا تھا آپ اس سے ہجرت پر بیعت لے لیں لیکن آپ نے انکار کر دیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اب ہجرتکا حکم باقی نہیں رہا انہوں نے کہا میں آپ کو قسم دیتا ہوں آپ اسے بیعت کر لیجیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اپنا دست مبارک بڑھادیا اور فرمایا: آؤ میں اپنے چچا کی قسم پوری کر دوں البتہ بات پھر بھی ہی ہے کہ اب ہجرتکا حکم باقی نہیں رہا۔
سیدنا عبدالرحمن بن صفوان سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حجر اسود اور باب کعبہ کے درمیان چمٹے ہوئے دیکھا آپ نے اپناچہرہ مبارک بیت اللہ پر رکھا ہوا تھا۔ اور میں نے لوگوں کو بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ بیت اللہ سے چمٹے ہوئے دیکھا تھا۔
(حديث مرفوع) حدثنا احمد بن الحجاج ، اخبرنا جرير ، عن يزيد بن ابي زياد ، عن مجاهد ، عن عبد الرحمن بن صفوان ، قال: لما افتتح رسول الله صلى الله عليه وسلم مكة، قلت لالبسن ثيابي وكان داري على الطريق فلانظرن ما يصنع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فانطلقت، فوافقت رسول الله صلى الله عليه وسلم قد خرج من الكعبة، واصحابه قد استلموا البيت من الباب إلى الحطيم، وقد وضعوا خدودهم على البيت، ورسول الله صلى الله عليه وسلم وسطهم، فقلت لعمر كيف صنع رسول الله صلى الله عليه وسلم حين دخل الكعبة؟ قال:" صلى ركعتين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَجَّاجِ ، أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ صَفْوَانَ ، قَالَ: لَمَّا افْتَتَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ، قُلْتُ لَأَلْبَسَنَّ ثِيَابِي وَكَانَ دَارِي عَلَى الطَّرِيقِ فَلَأَنْظُرَنَّ مَا يَصْنَعُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَانْطَلَقْتُ، فَوَافَقْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ خَرَجَ مِنَ الْكَعْبَةِ، وَأَصْحَابُهُ قَدْ اسْتَلَمُوا الْبَيْتَ مِنَ الْبَابِ إِلَى الْحَطِيمِ، وَقَدْ وَضَعُوا خُدُودَهُمْ عَلَى الْبَيْتِ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسْطَهُمْ، فَقُلْتُ لِعُمَرَ كَيْفَ صَنَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ دَخَلَ الْكَعْبَةَ؟ قَالَ:" صَلَّى رَكْعَتَيْنِ".
سیدنا عبدالرحمن بن صفوان سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکر مہ فتح کر لیا تو میں نے اپنے دل میں سوچا کہ گھر جآ کر جوراستے میں ہی تھا کہ کپڑے پہنتاہوں اور دیکھتاہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے ہیں چنانچہ میں چلا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت پہنچا جب آپ خانہ کعبہ سے باہر آچکے تھے صحابہ کرام استلام کر رہے تھے انہوں نے اپنے رخسار بیت اللہ پر رکھے ہوئے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان سب کے درمیان میں تھے میں نے سیدنا عمر سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہ کعبہ میں داخل ہو کر کیا کیا تو انہوں نے بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں پڑھی تھیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو النضر ، حدثنا محمد بن عبد الله العمري ، حدثنا ابو سهل عوف بن ابي جميلة , عن زيد ابي القموص ، عن وفد عبد القيس , انهم سمعوا رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" اللهم اجعلنا من عبادك المنتخبين، الغر المحجلين، الوفد المتقبلين" , قال: فقالوا: يا رسول الله، ما عباد الله المنتخبون؟ قال:" عباد الله الصالحون" , قالوا: فما الغر المحجلون؟ قال:" الذين تبيض منهم مواضع الطهور" , قالوا: فما الوفد المتقبلون؟ قال:" وفد يفدون من هذه الامة مع نبيهم إلى ربهم تبارك وتعالى".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعُمَرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو سَهْلٍ عَوْفُ بْنُ أَبِي جَمِيلَةَ , عَنْ زَيْدٍ أَبِي الْقَمُوصِ ، عَنْ وَفْدِ عَبْدِ الْقَيْسِ , أَنَّهُمْ سَمِعُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" اللَّهُمَّ اجْعَلْنَا مِنْ عِبَادِكَ الْمُنْتَخَبِينَ، الْغُرِّ الْمُحَجَّلِينَ، الْوَفْدِ الْمُتَقَبَّلِينَ" , قَالَ: فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا عِبَادُ اللَّهِ الْمُنْتَخَبُونَ؟ قَالَ:" عِبَادُ اللَّهِ الصَّالِحُونَ" , قَالُوا: فَمَا الْغُرُّ الْمُحَجَّلُونَ؟ قَالَ:" الَّذِينَ تَبيضُّ مِنْهُمْ مَوَاضِعُ الطُّهُورِ" , قَالُوا: فَمَا الْوَفْدُ الْمُتَقَبَّلُونَ؟ قَالَ:" وَفْدٌ يَفِدُونَ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ مَعَ نَبِيِّهِمْ إِلَى رَبِّهِمْ تَبَارَكَ وَتَعَالَى".
وفد عبدالقیس کے لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اے اللہ ہمیں اپنے منتخب ومجمل اور وفد متقبل میں شمار فرما لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ! اللہ کے منتخب بندے سے کیا مراد ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے نیک بندے مراد ہیں لوگوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! گرمجل بندوں سے کیا مراد ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جن کے اعضاء وضو چمک رہے ہوں گے لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ! وفد متقبل سے کیا مراد ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس امت کے وہ لوگ جو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں وفد کی صوت میں حاضر ہوں گے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، محمد بن العمري لم نعرفه
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، قال: حدثني محمد بن إبراهيم بن الحارث التيمي ، عن ابي الهيثم بن نصر بن دهر الاسلمي , عن ابيه , قال: اتى ماعز بن خالد بن مالك، رجل منا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاستودى على نفسه بالزنا، فامرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم برجمه، فخرجنا إلى حرة بني نيار، فرجمناه، فلما وجد مس الحجارة جزع جزعا شديدا، فلما فرغنا منه، ورجعنا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ذكرنا له جزعه، فقال:" هلا تركتموه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَبِي الْهَيْثَمِ بْنِ نَصْرِ بْنِ دَهْرٍ الْأَسْلَمِيِّ , عَنْ أَبِيهِ , قَالَ: أَتَى مَاعِزُ بْنُ خَالِدِ بْنِ مَالِكٍ، رَجُلٌ مِنَّا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَوْدَى عَلَى نَفْسِهِ بالزِّنَا، فَأَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَجْمِهِ، فَخَرَجْنَا إِلَى حَرَّةِ بَنِي نِيَارٍ، فَرَجَمْنَاهُ، فَلَمَّا وَجَدَ مَسَّ الْحِجَارَةِ جَزِعَ جَزَعًا شَدِيدًا، فَلَمَّا فَرَغْنَا مِنْهُ، وَرَجَعْنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرْنَا لَهُ جَزَعَهُ، فَقَالَ:" هَلَّا تَرَكْتُمُوهُ".
سیدنا نصر بن دہر سے مروی ہے کہ ہمارے ایک ساتھی ماعز بن مالک بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے اور اپنے متعلق بدکاری کا اعتراف کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ انہیں سنگسار کر دو چنانچہ ہم انہیں لے کر حرہ بنونیا کی طرف لے گئے اور انہیں پتھر مارنے لگے جب ہم انہیں پتھر مارنے لگے تو انہیں اس کی تکلیف محسوس ہوئی جب ہم لوگ ان سے فارغ ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آئے تو ہم نے ان کی گھبراہٹ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگوں نے اسے چھوڑ کیوں نہ دیا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة حال أبى الهيثم