سیدنا مجمع بن جاریہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کا تذکر ہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اسے سیدنا عیسیٰ باب لد نامی جگہ پر قتل کر یں گے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا اسناد ضعيف لجهالة عبدالله بن ثعلبة، واختلف على الزهري فيه
سیدنا مجمع بن جاریہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کا تذکر ہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اسے سیدنا عیسیٰ باب لد نامی جگہ پر قتل کر یں گے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا اسناد ضعيف لجهالة عبدالله بن ثعلبة، واختلف على الزهري فيه
سیدنا مجمع بن جاریہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کا تذکر ہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اسے سیدنا عیسیٰ باب لد نامی جگہ پر قتل کر یں گے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا اسناد ضعيف لجهالة عبدالله بن ثعلبة، واختلف على الزهري فيه، وقوله: عبدالله بن يزيد لعله: عبدالرحمن بن يزيد الأنصاري
(حديث مرفوع) حدثنا إسحاق بن عيسى ، قال: حدثنا مجمع بن يعقوب , قال: سمعت ابي , يقول: عن عمه عبد الرحمن بن يزيد ، عن عمه مجمع ابن جارية الانصاري ، وكان احد القراء الذين قرءوا القرآن , قال: شهدنا الحديبية، فلما انصرفنا عنها إذا الناس ينفرون الاباعر، فقال الناس بعضهم لبعض: ما للناس؟ قالوا: اوحي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فخرجنا مع الناس، نوجف حتى وجدنا رسول الله صلى الله عليه وسلم على راحلته عند كراع الغميم، واجتمع الناس إليه، فقرا عليهم: إنا فتحنا لك فتحا مبينا سورة الفتح آية 1 , فقال رجل من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم: اي رسول الله، وفتح هو؟ قال:" اي والذي نفس محمد بيده , إنه لفتح" , فقسمت خيبر على اهل الحديبية، لم يدخل معهم فيها احدا، إلا من شهد الحديبية، فقسمها رسول الله صلى الله عليه وسلم على ثمانية عشر سهما، وكان الجيش الفا وخمس مئة، فيهم ثلاث مئة فارس، فاعطى الفارس سهمين، واعطى الراجل سهما.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عِيسَى ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُجَمِّعُ بْنُ يَعْقُوبَ , قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي , يَقُولُ: عَنْ عَمِّهِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ عَمِّهِ مُجَمِّعِ ابْنِ جَارِيَةَ الْأَنْصَارِيِّ ، وَكَانَ أَحَدَ الْقُرَّاءِ الَّذِينَ قَرَءُوا الْقُرْآنَ , قَالَ: شَهِدْنَا الْحُدَيْبِيَةَ، فَلَمَّا انْصَرَفْنَا عَنْهَا إِذَا النَّاسُ يُنْفِرُونَ الْأَبَاعِرَ، فَقَالَ النَّاسُ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: مَا لِلنَّاسِ؟ قَالُوا: أُوحِيَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَرَجْنَا مَعَ النَّاسِ، نُوجِفُ حَتَّى وَجَدْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَاحِلَتِهِ عِنْدَ كُرَاعِ الْغَمِيمِ، وَاجْتَمَعَ النَّاسُ إِلَيْهِ، فَقَرَأَ عَلَيْهِمْ: إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا سورة الفتح آية 1 , فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيْ رَسُولَ اللَّهِ، وَفَتْحٌ هُوَ؟ قَالَ:" أَيْ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ , إِنَّهُ لَفَتْحٌ" , فَقُسِمَتْ خَيْبَرُ عَلَى أَهْلِ الْحُدَيْبِيَةِ، لَمْ يُدْخِلْ مَعَهُمْ فِيهَا أَحَدًا، إِلَّا مَنْ شَهِدَ الْحُدَيْبِيَةَ، فَقَسَمَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ثَمَانِيَةَ عَشَرَ سَهْمًا، وَكَانَ الْجَيْشُ أَلْفًا وَخَمْسَ مِئَةٍ، فِيهِمْ ثَلَاثُ مِئَةِ فَارِسٍ، فَأَعْطَى الْفَارِسَ سَهْمَيْنِ، وَأَعْطَى الرَّاجِلَ سَهْمًا.
سیدنا مجمع بن جاریہ قرآن پڑھے ہوئے لوگوں میں سے ایک تھے کہتے ہیں کہ ہم لوگ صلح حدیبیہ میں شریک تھے واپسی پر راستے پر ہم نے دیکھا کہ لوگ اپنے اونٹوں کو بھگائے چلے جارہے ہیں لوگوں نے ایک دوسرے سے پوچھا: کیا ماجرا ہے انہوں نے بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی خاص وحی نازل ہوئی ہے ہم بھی ترسیدہ لوگوں کے ساتھ نکلے حتی کہ کراع غمیم نامی جگہ پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی سواری پر پایا لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد جمع تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں سورت فتح پڑھ کر سنا رہے تھے اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی صحابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا یہ فتح ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں مری جان ہے یہ فتح ہے اس کے بعد خیبر کا سارا علاقہ اہل حدیبیہ میں تقسیم کر دیا گیا اور اس تقسیم میں ان کے علاوہ کسی کو شامل نہیں کیا گیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اٹھارہ حصوں پر تقسیم کر دیا جبکہ لشکر پندرہ سو افراد پر مشتمل تھا جن میں تین افراد گھڑ سوار بھی تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گھڑ سوار کو دو حصے دیئے اور پیدل کو ایک حصہ دیا۔
حكم دارالسلام: اسناده ضعيف، تفرد به يعقوب بن مجمع، وقد خولف
(حديث مرفوع) حدثنا حسين بن محمد ، حدثنا ابو اويس ، حدثنا شرحبيل ، عن جبار بن صخر الانصاري ، احد بني سلمة، قال: قال: رسول الله صلى الله عليه وسلم، وهو بطريق مكة:" من يسبقنا إلى الاثاية، قال ابو اويس: هو حيث نفرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فيمدر حوضها ويفرط فيه، فيملاه حتى ناتيه" قال: قال جبار: فقمت فقلت: انا، قال" اذهب" , فذهبت، فاتيت الاثاية، فمدرت حوضها، وفرطت فيه، وملاته ثم غلبتني عيناي، فنمت فما انتبهت إلا برجل تنازعه راحلته إلى الماء، ويكفها عنه، فقال:" يا صاحب الحوض" , فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: نعم، قال: فاورد راحلته، ثم انصرف فاناخ، ثم قال:" اتبعني بالإداوة" فتبعته بها فتوضا، واحسن وضوءه، وتوضات معه، ثم قام يصلي، فقمت عن يساره، فاخذ بيدي فحولني عن يمينه، فصلينا فلم يلبث يسيرا ان جاء الناس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُوَيْسٍ ، حَدَّثَنَا شُرَحْبِيلٌ ، عَنْ جَبَّارِ بْنِ صَخْرٍ الْأَنْصَارِيِّ ، أَحَدِ بَنِي سَلِمَةَ، قَالَ: قَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ بِطَرِيقِ مَكَّةَ:" مَنْ يَسْبِقُنَا إِلَى الْأُثَايَةِ، قَالَ أَبُو أُوَيْسٍ: هُوَ حَيْثُ نَفَّرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَمْدُرَ حَوْضَهَا وَيَفْرِطَ فِيهِ، فَيَمْلَأَهُ حَتَّى نَأْتِيَهُ" قَالَ: قَالَ جَبَّارٌ: فَقُمْتُ فَقُلْتُ: أَنَا، قَالَ" اذْهَبْ" , فَذَهَبْتُ، فَأَتَيْتُ الْأُثَايَةَ، فَمَدَرْتُ حَوْضَهَا، وَفَرَطْتُ فِيهِ، وَمَلَأْتُهُ ثُمَّ غَلَبَتْنِي عَيْنَايَ، فَنِمْتُ فَمَا انْتَبَهْتُ إِلَّا بِرَجُلٍ تُنَازِعُهُ رَاحِلَتُهُ إِلَى الْمَاءِ، وَيَكُفُّهَا عَنْهُ، فَقَالَ:" يَا صَاحِبَ الْحَوْضِ" , فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَأَوْرَدَ رَاحِلَتَهُ، ثُمَّ انْصَرَفَ فَأَنَاخَ، ثُمَّ قَالَ:" اتْبَعْنِي بِالْإِدَاوَةِ" فَتَبِعْتُهُ بِهَا فَتَوَضَّأَ، وَأَحْسَنَ وُضُوءَهُ، وَتَوَضَّأْتُ مَعَهُ، ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي، فَقُمْتُ عَنْ يَسَارِهِ، فَأَخَذَ بِيَدِي فَحَوَّلَنِي عَنْ يَمِينِهِ، فَصَلَّيْنَا فَلَمْ يَلْبَثْ يَسِيرًا أَنْ جَاءَ النَّاسُ".
سیدنا جبار بن صخر سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ مکہ مکر مہ سے واپسی پر راستے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اثایہ نامی جگہ میں ہم سے پہلے کون پہنچے گا یہ وہ جگہ تھی جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بھیجا تھا کہ حوض پر قبضہ کر ے اور ہمارے وہاں پہنچنے تک اسے بھر کر رکھے میں نے اپنے آپ کو پیش کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم جاؤ چنانچہ میں روانہ ہوا مقام اثایہ پر پہنچ کر میں نے حوض پر قبضہ کیا اور پانی بھرا پھر میری آنکھ لگ گئی اور میں سوگیا اور اس آدمی کی وجہ سے ہی آنکھ کھلی جس کی سواری اس کے ہاتھ سے نکلی جارہی تھی وہ اسے حوض سے روک رہا تھا وہ کہنے لگا کہ اے حوض والے اپنے حوض پر پہنچو میں نے دیکھا تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے میں نے کہا بہت اچھا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھاٹ پر پہنچے تو میں نے اونٹنی کی لگام پکڑ لی اور اسے بٹھادیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے برتن منگوا کر خوب اچھی طرح وضو کیا میں نے بھی وضو کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر نماز عشا پڑھنے لگے سیدنا جبار اپنے بیان کے مطابق وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں پہلو میں کھڑے ہوئے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہاتھ سے پکڑ کر دائیں جانب کر لیا اور لوگوں کے آنے تک ہم نماز پڑھتے رہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف شرحبيل، وأبو أويس صدوق سيئ الحفظ
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان بن عيينة ، عن الزهري ، عن ابن ابي خزامة ، عن ابيه , قال: قلت: يا رسول الله، وقال سفيان مرة: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم، ارايت دواء نتداوى به، ورقى نسترقي بها، وتقى نتقيها، اترد من قدر الله تبارك وتعالى شيئا؟ قال:" إنها من قدر الله تبارك وتعالى".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنِ ابْنِ أَبِي خُزَامَةَ ، عَنْ أَبِيهِ , قَال: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَقَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَرَأَيْتَ دَوَاءً نَتَدَاوَى بِهِ، وَرُقًى نَسْتَرْقِي بِهَا، وَتُقًى نَتَّقِيهَا، أَتَرُدُّ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى شَيْئًا؟ قَالَ:" إِنَّهَا مِنْ قَدَرِ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى".
سیدنا ابوخزامہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ بتائیے کہ یہ جو ہم علاج کرتے ہیں یا جھاڑ پھونک کرتے ہیں یاپرہیز کرتے ہیں کیا یہ چیزیں اللہ کی تقدیر کا کچھ حصہ بھی ٹال سکتی ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ چیزیں بھی تقدیر الٰہی کا حصہ ہیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف على خطأ فيه، أخطأ فيه ابن عيينة، صوابه: عن الزهري، عن أبى خزامة، عن أبيه، و أبو خزامة مجهول
(حديث مرفوع) حدثنا علي بن عياش ، حدثنا بقية بن الوليد ، عن الزبيدي محمد بن الوليد ، عن الزهري ، عن ابي خزامة ، احد بني الحارث، عن ابيه , انه اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله , ارايت دواء نتداوى به، ورقى نسترقي، بها وتقى نتقيها، هل ترد ذلك من قدر الله شيئا؟ , قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ذلك من قدر الله تبارك وتعالى".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ ، عَنِ الزُّبَيْدِيِّ مُحَمَّدِ بْنِ الْوَلِيدِ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ أَبِي خِزَامَةَ ، أَحَدِ بَنِي الْحَارِثِ، عَنْ أَبِيهِ , أَنَّهُ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَرَأَيْتَ دَوَاءً نَتَدَاوَى بِهِ، وَرُقًى نَسْتَرْقِي، بِهَا وَتُقًى نَتَّقِيهَا، هَلْ تَرُدُّ ذَلِكَ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ شَيْئًا؟ , قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ذَلِكَ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى".
سیدنا ابوخزامہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ بتائیے کہ یہ جو ہم علاج کرتے ہیں یا جھاڑ پھونک کرتے ہیں یاپرہیز کرتے ہیں کیا یہ چیزیں اللہ کی تقدیر کا کچھ حصہ بھی ٹال سکتی ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ چیزیں بھی تقدیر الٰہی کا حصہ ہیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة أبى خزامة، وبقية بن الوليد مدلس، وقد عنعن، لكنه توبع
(حديث مرفوع) حدثنا هارون ، حدثنا ابن وهب ، قال: اخبرني عمرو ، عن ابن شهاب , ان خزامة احد بني الحارث بن سعد بن هذيم حدثه , ان اباه حدثه , انه قال: يا رسول الله، ارايت دواء نتداوى به، ورقى نسترقيها، وتقى نتقيها، هل يرد ذلك من قدر الله تبارك وتعالى من شيء؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنه من قدر الله عز وجل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَارُونُ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرٌو ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ , أَنَّ خُزَامَةَ أَحَدَ بَنِي الْحَارِثِ بْنِ سَعْدِ بْنِ هُذَيْمٍ حَدَّثَهُ , أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ , أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ دَوَاءً نَتَدَاوَى بِهِ، وَرُقًى نَسْتَرْقِيهَا، وَتُقًى نَتَّقِيها، هَلْ يَرُدُّ ذَلِكَ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى مِنْ شَيْءٍ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّهُ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".
سیدنا ابوخزامہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ بتائیے کہ یہ جو ہم علاج کرتے ہیں یا جھاڑ پھونک کرتے ہیں یاپرہیز کرتے ہیں کیا یہ چیزیں اللہ کی تقدیر کا کچھ حصہ بھی ٹال سکتی ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ چیزیں بھی تقدیر الٰہی کا حصہ ہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا الوليد بن مسلم ، حدثنا الاوزاعي , قال: سمعت يحيى بن ابي كثير , يقول: حدثني محمد بن عبد الرحمن بن اسعد بن زرارة ، عن قيس بن سعد ، قال: زارنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في منزلنا، فقال:" السلام عليكم ورحمة الله" , قال: فرد سعد ردا خفيا , قال قيس: فقلت الا تاذن لرسول الله صلى الله عليه وسلم؟! قال: ذره يكثر علينا من السلام، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" السلام عليكم ورحمة الله" , فرد سعد ردا خفيا , فرجع رسول الله صلى الله عليه وسلم واتبعه سعد , فقال: يا رسول الله , قد كنت اسمع تسليمك، وارد عليك ردا خفيا، لتكثر علينا من السلام، قال: فانصرف معه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فامر له سعد بغسل، فوضع، فاغتسل ثم ناوله , او قال: ناولوه ملحفة مصبوغة بزعفران وورس، فاشتمل بها , ثم رفع رسول الله صلى الله عليه وسلم يديه وهو يقول:" اللهم اجعل صلواتك ورحمتك على آل سعد بن عبادة" , قال: ثم اصاب من الطعام، فلما اراد الانصراف، قرب إليه سعد حمارا قد وطا عليه بقطيفة، فركب رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: سعد يا قيس اصحب رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال قيس: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم" اركب" , فابيت , ثم قال:" إما ان تركب، وإما ان تنصرف" , قال: فانصرفت.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ , قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ أَبِي كَثِيرٍ , يَقُولُ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَسْعَدَ بْنِ زُرَارَةَ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ: زَارَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَنْزِلِنَا، فَقَالَ:" السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ" , قَالَ: فَرَدَّ سَعْدٌ رَدًّا خَفِيًّا , قال قيس: فقلتُ ألا تأذنُ لرسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟! قال: ذَرْه يُكثِْرُ علينا من السلام، ثم قال رسولُ الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" السَّلام عليكم ورحمةُ الله" , فردَّ سعد ردًّا خفيًا , فَرَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاتَّبَعَهُ سَعْدٌ , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَدْ كُنْتُ أَسْمَعُ تَسْلِيمَكَ، وَأَرُدُّ عَلَيْكَ رَدًّا خَفِيًّا، لِتُكْثِرَ عَلَيْنَا مِنَ السَّلَامِ، قَالَ: فَانْصَرَفَ مَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَرَ لَهُ سَعْدٌ بِغُسْلٍ، فَوُضِعَ، فَاغْتَسَلَ ثُمَّ نَاوَلَهُ , أَوْ قَالَ: نَاوَلُوهُ مِلْحَفَةً مَصْبُوغَةً بِزَعْفَرَانٍ وَوَرْسٍ، فَاشْتَمَلَ بِهَا , ثُمَّ رَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَيْهِ وَهُوَ يَقُولُ:" اللَّهُمَّ اجْعَلْ صَلَوَاتِكَ وَرَحْمَتَكَ عَلَى آلِ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ" , قَالَ: ثُمَّ أَصَابَ مِنَ الطَّعَامِ، فَلَمَّا أَرَادَ الِانْصِرَافَ، قَرَّبَ إِلَيْهِ سَعْدٌ حِمَارًا قَدْ وَطَّأَ عَلَيْهِ بِقَطِيفَةٍ، فَرَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: سَعْدٌ يَا قَيْسُ اصْحَبْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ قَيْسٌ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" ارْكَبْ" , فَأَبَيْتُ , ثُمَّ قَالَ:" إِمَّا أَنْ تَرْكَبَ، وَإِمَّا أَنْ تَنْصَرِفَ" , قَالَ: فَانْصَرَفْتُ.
سیدنا قیس بن سعد سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر تشریف لائے اور باہر سے سلام کیا سیدنا سعد میرے والد نے آہستہ سے جواب دیا اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم واپس جانے لگے تو سیدنا سعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بھاگے اور کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! میں نے آپ کا سلام سنلیا تھا اور جواب بھی دیا تھا لیکن آہستہ آواز سے تاکہ آپ زیادہ سے زیادہ ہمارے لئے سلامتی کی دعا کر یں۔
پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا سعد کے ساتھ واپس آ گئے سیدنا سعد نے غسل کا پانی رکھنے کا حکم دیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کیا پھر فرمایا: لحاف لاؤ اس لحاف کو زعفران اور ورس سے رنگا گیا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ اوڑھ لیا اور ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی کے اے اللہ آل سعد بن عبادہ پر اپنی رحمتوں اور برکتوں کا نزول فرما اس کے بعد کچھ کھانا تناول فرمایا: واپسی کا ارادہ کیا تو سیدنا سعد ایک گدھا لے کر آئے جس پر انہوں نے چادر ڈال رکھی تھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس پر سوار ہوئے تو والد صاحب نے مجھ سے کہا قیس تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جاؤ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے ساتھ سوار ہو نے کے لئے کہا لیکن میں نے ادبا انکار کر دیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم یا تو سوار ہو جاؤ یا واپس چلے جاؤ چنانچہ میں واپس آگیا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، لم يثبت سماع محمد بن عبدالرحمن من قيس بن عبادة