(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن يعلى بن عطاء ، عن عبد الله بن سفيان ، عن ابيه , قال: يا رسول الله، اخبرني امرا في الإسلام لا اسال عنه احدا بعدك , قال:" قل آمنت بالله ثم استقم" , قال: يا رسول الله، فاي شيء اتقي؟ قال: فاشار بيده إلى لسانه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سُفْيَانَ ، عَنْ أَبِيهِ , قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَخْبِرْنِي أَمْرًا فِي الْإِسْلَامِ لَا أَسْأَلُ عَنْهُ أَحَدًا بَعْدَكَ , قَالَ:" قُلْ آمَنْتُ بِاللَّهِ ثُمَّ اسْتَقِمْ" , قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأَيَّ شَيْءٍ أَتَّقِي؟ قَالَ: فَأَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى لِسَانِهِ".
سیدنا سفیان بن عبداللہ سے مروی ہے کہ میں نے ایک مرتبہ بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے اسلام کے حوالے سے کوئی ایسی بات بتا دیجیے کہ مجھے آپ کے بعد کسی سے کچھ پوچھنے کی ضرورت ہی نہ رہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پہلے زبان سے اقرار کر و کہ میں اللہ پر ایمان لایا پھر اس پر ہمیشہ ثابت قدم رہو۔ عرض کیا: یا رسول اللہ! کس چیز سے بچوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زبان کی طرف اشارہ کر لیا۔
سیدنا سفیان بن عبداللہ سے مروی ہے کہ میں نے ایک مرتبہ بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے اسلام کے حوالے سے کوئی ایسی بات بتادیجیے کہ مجھے آپ کے بعد کسی سے کچھ پوچھنے کی ضرورت ہی نہ رہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پہلے زبان سے اقرار کر و کہ میں اللہ پر ایمان لایا پھر اس پر ہمیشہ ثابت قدم رہو۔ عرض کیا: یا رسول اللہ! کس چیز سے بچوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان کی طرف اشارہ کر لیا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 38، وهذا إسناده ضعيف لجهالة حال محمد بن عبدالرحمن
سیدنا سفیان بن عبداللہ سے مروی ہے کہ میں نے ایک مرتبہ بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے اسلام کے حوالے سے کوئی ایسی بات بتادیجیے کہ مجھے آپ کے بعد کسی سے کچھ پوچھنے کی ضرورت ہی نہ رہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پہلے زبان سے اقرار کر و کہ میں اللہ پر ایمان لایا پھر اس پر ہمیشہ ثابت قدم رہو۔ عرض کیا: یا رسول اللہ! کس چیز سے بچوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان کی طرف اشارہ کر لیا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لجهالة حال عبدالرحمن بن ماعز
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، حدثنا ايوب ، قال: سمعت رجلا منا يحدث , عن ابيه : قال: بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم سرية كنت فيها،" فنهانا ان نقتل العسفاء، والوصفاء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا مَنًا يُحَدِّثُ , عَنْ أَبِيهِ : قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَرِيَّةً كُنْتُ فِيهَا،" فَنَهَانَا أَنْ نَقْتُلَ الْعُسَفَاءَ، وَالْوُصَفَاءَ".
ایوب کہتے ہیں کہ میں نے ایک آدمی کو اپنے والد کے حوالے سے یہ روایت بیان کرتے ہوئے سنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر روانہ فرمایا: جس میں میں بھی تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں مزدوروں اور خدمت کے قابل لڑکوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا: تھا۔
حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد ضعيف لإبهام الرجل الذى روى عنه أيوب
(حديث مرفوع) حدثنا بهز ، وعفان , قالا: حدثنا همام ، قال عفان في حديثه، حدثنا قتادة ، عن كثير ، عن ابي عياض ، عن رجل من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، ان النبي صلى الله عليه وسلم:" نهى ان يجلس بين الضح والظل، وقال: مجلس الشيطان".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، وَعَفَّانُ , قَالَا: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، قَالَ عَفَّانُ فِي حَدِيثِهِ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ كَثِيرٍ ، عَنْ أَبِي عِيَاضٍ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَهَى أَنْ يُجْلَسَ بَيْنَ الضِّحِّ وَالظِّلِّ، وَقَالَ: مَجْلِسُ الشَّيْطَانِ".
ایک صحابی سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ دھوپ اور کچھ سائے میں بیٹھنے سے منع کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ شیطانی نشست ہو تی ہے۔
ایک صحابی سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ سو گئے یہاں تک کہ خراٹے لینے لگے پھر کھڑے ہوئے اور تازہ وضو کئے بغیر نماز پڑھا دی۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق , وروح , قالا: حدثنا ابن جريج ، قال: اخبرني حسن بن مسلم ، عن طاوس ، عن رجل قد ادرك النبي صلى الله عليه وسلم، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال:" إنما الطواف صلاة، فإذا طفتم فاقلوا الكلام" , قال عبد الله , قال ابي: ولم يرفعه محمد بن بكر.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَزَّاقِ , وَرَوْحٍ , قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي حَسَنُ بْنُ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَاوُسٍ ، عَنْ رَجُلٍ قَدْ أَدْرَكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِنَّمَا الطَّوَافُ صَلَاةٌ، فَإِذَا طُفْتُمْ فَأَقِلُّوا الْكَلَامَ" , قال عبد الله , قال أبي: وَلَمْ يَرْفَعْهُ مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ.
ایک صحابی سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: طواف بھی نماز کی طرح ہی ہوتا ہے اس لئے جب تم طواف کیا کر و تو گفتگو کم کیا کر و۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، ولا يضره توقف محمد بن بكر عن رفعه
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن ابي عدي ، عن حميد ، عن رجل من اهل مكة يقال له: يوسف , قال: كنت انا ورجل من قريش نلي مال ايتام، قال: وكان رجل قد ذهب مني بالف درهم، قال: فوقعت له في يدي الف درهم، قال: فقلت للقرشي: إنه قد ذهب لي بالف درهم، وقد اصبت له الف درهم، قال: فقال القرشي : حدثني ابي , انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" اد الامانة إلى من ائتمنك، ولا تخن من خانك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ حُمَيْدٍ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ يُقَالُ لَهُ: يُوسُفُ , قَالَ: كُنْتُ أَنَا وَرَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ نَلِي مَالَ أَيْتَامٍ، قَالَ: وَكَانَ رَجُلٌ قَدْ ذَهَبَ مِنِّي بِأَلْفِ دِرْهَمٍ، قَالَ: فَوَقَعَتْ لَهُ فِي يَدِي أَلْفُ دِرْهَمٍ، قَالَ: فَقُلْتُ لِلْقُرَشِيِّ: إِنَّهُ قَدْ ذَهَبَ لِي بِأَلْفِ دِرْهَمٍ، وَقَدْ أَصَبْتُ لَهُ أَلْفَ دِرْهَمٍ، قَالَ: فَقَالَ الْقُرَشِيُّ : حَدَّثَنِي أَبِي , أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" أَدِّ الْأَمَانَةَ إِلَى مَنْ ائْتَمَنَكَ، وَلَا تَخُنْ مَنْ خَانَكَ".
حمید کہتے ہیں کہ مکہ مکر مہ میں ایک آدمی تھا جس کا نام یوسف تھا اس کا کہنا ہے کہ میں اور قریش کا ایک دوسرا آدمی یتیموں کے مال کی نگہبانی کیا کرتے تھے اسی دوران ایک آدمی مجھ سے ایک ہزار درہم لے گیا بعد میں اس کے ایک ہزار درہم کہیں سے میرے ہاتھ لگ گئے میں نے اپنے قریشی ساتھی سے ذکر کیا فلاں آدمی مجھ سے ایک ہزار درہم لے کر گیا تھا اب مجھے کہیں سے اس کے ایک ہزار درہم ملے ہیں تو میں کیا کر وں اس قریشی نے جواب دیا کہ مجھے میرے والد صاحب نے یہ حدیث سنائی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو شخص تمہارے پاس امانت رکھوائے اسے وہ امانت پہنچادیا کر و اور جو تمہارے ساتھ خیانت کر ے تم اس کے ساتھ خیانت نہ کیا کر و۔
حكم دارالسلام: مرفوعه حسن لغيره، وهذا اسناده ضعيف لأبهام ابن الصحابي الذى روي عنه يوسف
سیدنا کلدہ بن حنبل سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر انہیں صفوان بن امیہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیوسی ہرن کا بچہ اور کچھ سبزیاں دے کر بھیجا اس وقت وادی کے بالائی علاقے میں تھے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو سلام کیا اور نہ ہی اجازت لی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: واپس جاؤ سلام کر واجازت لویہ اس وقت کی بات ہے جب صفوان نے اسلام قبول کر لیا تھا۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا زكريا بن إسحاق ، عن عمرو بن ابي سفيان ، سمعه منه مسلم بن ثفنة ، قال: استعمل ابن علقمة ابي على عرافة قومه، وامره ان يصدقهم، قال: فبعثني ابي في طائفة لآتيه بصدقتهم، قال: فخرجت حتى اتيت شيخا كبيرا يقال له: سعر , فقلت: إن ابي بعثني إليك لتؤدي صدقة غنمك , قال: يا ابن اخي، واي نحو تاخذون؟ قلت نختار، حتى إنا لنشبر ضروع الغنم، قال ابن اخي: فإني، احدثك اني كنت في شعب، من هذه الشعاب في غنم لي، على عهد النبي صلى الله عليه وسلم، فجاءني رجلان على بعير، فقالا: نحن رسولا النبي صلى الله عليه وسلم إليك، لتؤدي صدقة غنمك، قلت ما علي فيها , قالا: شاة، فاعمد إلى شاة قد علمت مكانها ممتلئة محضا وشحما، فاخرجتها إليهما، فقالا هذه الشافع الحابل، وقد نهانا رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ان ناخذ شافعا" , قلت فاي شيء؟ قالا: عناقا جذعة او ثنية , قال: فاعمد إلى عناق معتاطا، قال: والمعتاط التي لم تلد ولدا وقد حان ولادها، فاخرجتها إليهما، فقالا: ناولناها فدفعتها إليهما، فجعلاها معهما على بعيرهما، ثم انطلقا، قال عبد الله: سمعت ابي يقول: كذا قال وكيع: مسلم بن ثفنة , صحف، وقال روح: ابن شعبة، وهو الصواب، وقال ابي وقال بشر بن السري: لا إله إلا الله، هو ذا ولده هاهنا يعني مسلم بن شعبة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي سُفْيَانَ ، سَمِعَهُ مِنهْ مُسْلِمِ بْنِ ثَفِنَةَ ، قَالَ: اسْتَعْمَلَ ابْنُ عَلْقَمَةَ أَبِي عَلَى عِرَافَةِ قَوْمِهِ، وأَمَرَهُ أَنْ يُصَدِّقَهُمْ، قَالَ: فَبَعَثَنِي أَبِي فِي طَائِفَةٍ لِآتِيَهُ بِصَدَقَتِهِمْ، قَالَ: فَخَرَجْتُ حَتَّى أَتَيْتُ شَيْخًا كَبِيرًا يُقَالُ لَهُ: سِعْرٌ , فَقُلْتُ: إِنَّ أَبِي بَعَثَنِي إِلَيْكَ لِتُؤَدِّيَ صَدَقَةَ غَنَمِكَ , قَالَ: يَا ابْنَ أَخِي، وَأَيُّ نَحْوٍ تَأْخُذُونَ؟ قُلْتُ نَخْتَارُ، حَتَّى إِنَّا لَنَشْبُرُ ضُرُوعَ الْغَنَمِ، قَالَ ابْنَ أَخِي: فَإِنِّي، أُحَدِّثُكَ أَنِّي كُنْتُ فِي شِعْبٍ، مِنْ هَذِهِ الشِّعَابِ فِي غَنَمٍ لِي، عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَنِي رَجُلَانِ عَلَى بَعِيرٍ، فَقَالَا: نَحْنُ رَسُولَا النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْكَ، لِتُؤَدِّيَ صَدَقَةَ غَنَمِكَ، قُلْتُ مَا عَلَيَّ فِيهَا , قَالَا: شَاةٌ، فَأَعْمِدُ إِلَى شَاةٍ قَدْ عَلِمْتُ مَكَانَهَا مُمْتَلِئَةٍ مَحْضًا وَشَحْمًا، فَأَخْرَجْتُهَا إِلَيْهِمَا، فَقَالَا هَذِهِ الشَّافِعُ الْحَابلُ، وَقَدْ نَهَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنْ نَأْخُذَ شَافِعًا" , قُلْتُ فَأَيُّ شَيْءٍ؟ قَالَا: عَنَاقًا جَذَعَةً أَوْ ثَنِيَّةً , قَالَ: فَأَعْمِدُ إِلَى عَنَاقٍ مُعْتَاطًاٍ، قَالَ: وَالْمُعْتَاطُ الَّتِي لَمْ تَلِدْ وَلَدًا وَقَدْ حَانَ وِلَادُهَا، فَأَخْرَجْتُهَا إِلَيْهِمَا، فَقَالَا: نَاوِلْنَاهَا فَدَفَعْتُهَا إِلَيْهِمَا، فَجَعَلَاهَا مَعَهُمَا عَلَى بَعِيرِهِمَا، ثُمَّ انْطَلَقَا، قَالَ عَبْد اللَّهِ: سَمِعْتُ أَبِي يَقُول: كَذَا قَالَ وَكِيعٌ: مُسْلِمُ بْنُ ثَفِنَةَ , صُحِّفَ، وقَالَ رَوْحٌ: ابْنُ شُعْبَةَ، وَهُوَ الصَّوَابُ، وقَالَ أَبِي وقَالَ بِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، هُوَ ذَا وَلَدُهُ هَاهُنَا يَعْنِي مُسْلِمَ بْنَ شُعْبَةَ.
مسلم بن ثفنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ابن علقمہ نے میرے والد کو اپنی قوم کا سردار مقرر کر دیا اور انہیں لوگوں سے زکوٰۃ وصول کرنے کا حکم دیا میرے والد صاحب نے مجھے کچھ لوگوں کے پاس بھیجا تاکہ میں ان سے زکوٰۃ وصول کر کے لے آؤں میں گھر سے نکلا اور ایک انتہائی عمر رسیدہ بزرگ جن کا نام سعر تھا کے پاس پہنچا اور ان سے کہا کہ میرے والد صاحب نے مجھے آپ کے پاس بکریوں کی زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے بھیجا ہے انہوں نے فرمایا: بھتیجے تم کس طرح زکوٰۃ وصول کرتے ہو میں نے کہا ہم چھانٹ کر بکری لیتے ہیں حتی کہ بعض اوقات بکری کے تھنوں کا بالشت کے اعتبار سے تناسب بھی معلوم کرتے ہیں انہوں نے فرمایا: بھتیجے میں تمہیں ایک حدیث سناتا ہوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں میں اپنی بکریوں کے ساتھ انہی گھاٹیوں میں سے کسی گھاٹی میں تھا میرے پاس اونٹ پر دو آدمی آئے اور کہنے لگے کہ ہم دونوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد ہیں آپ اپنی بکریوں کی زکوٰۃ ادا کیجیے میں نے ان سے پوچھا کہ مجھ پر کتنی زکوٰۃ فرض ہے انہوں نے جواب دیا ایک بکری یہ سن کر میں ایک بکری کی طرف بڑھا جس کی اہمیت کو میں ہی جانتا تھا وہ دودھ اور گوشت سے لبریز تھی میں نے وہ بکری نکال کر ان کے سامنے پیش کی وہ کہنے لگے کہ یہ بکری تو بچہ جنم دینے والی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایسی بکری لینے سے منع فرمایا ہے میں نے پوچھا: پھر کون سی بکری لاؤں انہوں نے جواب دیا کہ چھ ماہ کا بچہ یا ایک سال کی بکری ہو چنانچہ میں نے ان کے سامنے ایک ایسی بکری لآ کر پیش کی جس کے یہاں ابھی تک کسی بچے کی پیدائش نہیں ہوئی تھی بلکہ اس کی پیدائش بھی قریب ہی کے زمانے میں ہوئی تھی میں نے جب وہ بکری نکالی تو انہوں نے کہا یہ بکری ہمیں دیدو چنانچہ میں نے انہیں وہی بکری دیدی اور وہ اسے اپنے اونٹ پر بٹھا کر لے گئے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة مسلم بن شعبة، وقد أخطأ وكيع فى هذه الرواية فى أسمه فقال: مسلم بن ثفنة، والصواب: مسلم بن شعبة