(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن يعني ابن مهدي ، حدثنا مالك ، عن نافع ، عن ابن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" نهى عن بيع الثمرة حتى يبدو صلاحها، نهى البائع والمشتري". (حديث مرفوع) (حديث موقوف)" ونهى ان يسافر بالقرآن إلى ارض العدو، مخافة ان يناله العدو".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنْ بَيْعِ الثَّمَرَةِ حَتَّى يَبْدُوَ صَلَاحُهَا، نَهَى الْبَائِعَ وَالْمُشْتَرِيَ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف)" وَنَهَى أَنْ يُسَافَرَ بِالْقُرْآنِ إِلَى أَرْضِ الْعَدُوِّ، مَخَافَةَ أَنْ يَنَالَهُ الْعَدُوُّ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھلوں کی بیع سے منع فرمایا ہے جب تک وہ پک نہ جائے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ممانعت بائع (بچنے والا) اور مشتری (خریدنے والا اور بیچنے والا) دونوں کو فرمائی ہے۔ نیز سفر میں جاتے وقت قرآن کریم اپنے ساتھ لے جانے کی ممانعت فرمائی ہے کیونکہ اندیشہ ہے کہ کہیں وہ دشمن کے ہاتھ نہ لگ جائے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن ، عن مالك ، عن نافع ، عن ابن عمر ، ان رجلا لاعن امراته، وانتفى من ولدها،" ففرق رسول الله صلى الله عليه وسلم بينهما، فالحق الولد بالمراة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّ رَجُلًا لَاعَنَ امْرَأَتَهُ، وَانْتَفَى مِنْ وَلَدِهَا،" فَفَرَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمَا، فَأَلْحَقَ الْوَلَدَ بِالْمَرْأَةِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی سے لعان کیا اور اس کے بچے کی اپنی طرف نسبت کی نفی کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان تفریق کرا دی اور بچے کو ماں کے حوالے کر دیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن ، عن مالك ، عن نافع ، عن ابن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" نهى عن المزابنة، والمزابنة: اشتراء الثمر بالتمر، كيلا، والكرم بالزبيب كيلا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنِ الْمُزَابَنَةِ، وَالْمُزَابَنَةُ: اشْتِرَاءُ الثَّمَرِ بِالتَّمْر، كَيْلًا، وَالْكَرْمِ بِالزَّبِيبِ كَيْلًا".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع مزابنہ کی ممانعت فرمائی ہے بیع مزابنہ کا مطلب یہ ہے کہ درختوں پر لگی ہوئی کھجور کے بدلے کٹی ہوئی کھجور کو یا انگور کو کشمش کے بدلے ایک معین اندازے سے بیچنا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن ، حدثنا مالك ، عن نافع ، عن ابن عمر ، ان النبي صلى الله عليه وسلم" نهى عن تلقي السلع حتى يهبط بها الاسواق، ونهى عن النجش، وقال: لا يبع بعضكم على بيع بعض". (حديث موقوف) (حديث مرفوع)" وكان إذا عجل به السير، جمع بين المغرب والعشاء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنْ تَلَقِّي السِّلَعِ حَتَّى يُهْبَطَ بِهَا الْأَسْوَاقُ، وَنَهَى عَنِ النَّجْشِ، وَقَالَ: لَا يَبِعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَيْعِ بَعْضٍ". (حديث موقوف) (حديث مرفوع)" وَكَانَ إِذَا عَجَّلَ بِهِ السَّيْرُ، جَمَعَ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بازار میں پہنچنے سے پہلے تاجروں سے ملنے اور دھوکہ کی بیع سے منع فرمایا ہے اور یہ کہ تم میں سے کوئی شخص دوسرے کی بیع پر اپنی بیع نہ کرے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب سفر کی جلدی ہوتی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مغرب اور عشاء کے درمیان جمع صوری فرما لیتے تھے۔
مطلب بن عبداللہ کہتے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اعضاء وضو کو تین تین مرتبہ دھوتے تھے اور اس کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرتے تھے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، وروي مرقوفا، وهو أصح، المطلب بن عبد الله بن حنطب، قال البخاري - فيما نقله العلائي في جامع التحصيل 774 - لا أعرف للمطلب ابن حنطب عن أحد من الصحابة سماعا، وقال أبو حاتم عامة أحادیثه مراسيل، لم يدرك أحدا من أصحاب النبي صلي الله عليه وسلم إلا سهل بن سعد وأنسا وسلمة بن الأكوع، أو من كان قريبا منهم، وقال في «المراسيل» ص: 164: لا ندري أنه سمع منهما يعني ابن عمرو ابن عباس أم لا؟