(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، حدثنا ايوب ، عن نافع ، عن ابن عمر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" الا لا تحتلبن ماشية امرئ إلا بإذنه، ايحب احدكم ان تؤتى مشربته، فيكسر بابها، ثم ينتثل ما فيها؟! فإنما في ضروع مواشيهم طعام احدهم، الا فلا تحتلبن ماشية امرئ إلا بإذنه" او قال:" بامره".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" أَلَا لَا تُحْتَلَبَنَّ مَاشِيَةُ امْرِئٍ إِلَّا بِإِذْنِهِ، أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ تُؤْتَى مَشْرُبَتُهُ، فَيُكْسَرَ بَابُهَا، ثُمَّ يُنْتَثَلَ مَا فِيهَا؟! فَإِنَّمَا فِي ضُرُوعِ مَوَاشِيهِمْ طَعَامُ أَحَدِهِمْ، أَلَا فَلَا تُحْتَلَبَنَّ مَاشِيَةُ امْرِئٍ إِلَّا بِإِذْنِهِ" أَوْ قَالَ:" بِأَمْرِهِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں کی اجازت کے بغیر ان کے جانوروں کا دودھ دوہ کر اپنے استعمال میں مت لایا کرو کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات کو پسند کر سکتا ہے کہ اس کے بالاخانے میں کوئی جا کر اس کے گودام کا دروازہ توڑ دے اور اس میں سے سب کچھ نکال کر لے جائے، یاد رکھو! لوگوں کے جانوروں کے تھنوں میں ان کا کھانا ہوتا ہے اس لئے اس کی اجازت کے بغیر اس کے جانور کا دودھ نہ دوہا جائے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، اخبرنا ايوب ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال:" صليت مع النبي صلى الله عليه وسلم ركعتين قبل الظهر، وركعتين بعدها، وركعتين بعد المغرب في بيته، وركعتين بعد العشاء في بيته، قال: وحدثتني حفصة انه كان" يصلي ركعتين حين يطلع الفجر، وينادي المنادي بالصلاة،" قال ايوب: اراه قال: خفيفتين، وركعتين بعد الجمعة في بيته".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَن ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ:" صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الظُّهْرِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَهَا، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ فِي بَيْتِهِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعِشَاءِ فِي بَيْتِهِ، قَالَ: وَحَدَّثَتْنِي حَفْصَةُ أَنَّهُ كَانَ" يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ حِينَ يَطْلُعُ الْفَجْرُ، وَيُنَادِي الْمُنَادِي بِالصَّلَاةِ،" قَالَ أَيُّوبُ: أُرَاهُ قَالَ: خَفِيفَتَيْنِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْجُمُعَةِ فِي بَيْتِهِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ظہر کی نماز سے قبل دو رکعتیں اور اس کے ساتھ دو رکعتیں پڑھی ہیں، نیز مغرب کے بعد اپنے گھر میں دو رکعتیں اور عشاء کے بعد بھی اپنے گھر میں دو رکعتیں پڑھی ہیں اور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے مجھے یہ بتایا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم طلوع فجر کے وقت بھی دو رکعتیں پڑھتے تھے اس وقت منادی نماز کا اعلان کر رہا ہوتا تھا (اقامت کہہ رہا ہوتا تھا) اور دو رکعتیں جمعہ کے بعد اپنے گھر میں۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، حدثنا ايوب ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا تسافروا بالقرآن، فإني اخاف ان يناله العدو".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تُسَافِرُوا بِالْقُرْآنِ، فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ يَنَالَهُ الْعَدُوُّ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”سفر میں جاتے وقت قرآن کریم اپنے ساتھ نہ لے جایا کرو مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں وہ دشمن کے ہاتھ نہ لگ جائے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، اخبرنا ايوب ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" مثلكم ومثل اليهود والنصارى كرجل استعمل عمالا، فقال: من يعمل من صلاة الصبح إلى نصف النهار على قيراط قيراط؟ الا فعملت اليهود، ثم قال: من يعمل لي من نصف النهار إلى صلاة العصر على قيراط قيراط؟ الا فعملت النصارى، ثم قال: من يعمل لي من صلاة العصر إلى غروب الشمس على قيراطين قيراطين؟ الا فانتم الذين عملتم، فغضب اليهود والنصارى، قالوا: نحن كنا اكثر عملا، واقل عطاء!!، قال: هل ظلمتكم من حقكم شيئا؟ قالوا: لا، قال: فإنما هو فضلي، اوتيه من اشاء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَثَلُكُمْ وَمَثَلُ الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى كَرَجُلٍ اسْتَعْمَلَ عُمَّالًا، فَقَالَ: مَنْ يَعْمَلُ مِنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ إِلَى نِصْفِ النَّهَارِ عَلَى قِيرَاطٍ قِيرَاطٍ؟ أَلَا فَعَمِلَتْ الْيَهُودُ، ثُمَّ قَالَ: مَنْ يَعْمَلُ لِي مِنْ نِصْفِ النَّهَارِ إِلَى صَلَاةِ الْعَصْرِ عَلَى قِيرَاطٍ قِيرَاطٍ؟ أَلَا فَعَمِلَتْ النَّصَارَى، ثُمَّ قَالَ: مَنْ يَعْمَلُ لِي مِنْ صَلَاةِ الْعَصْرِ إِلَى غُرُوبِ الشَّمْسِ عَلَى قِيرَاطَيْنِ قِيرَاطَيْنِ؟ أَلَا فَأَنْتُمْ الَّذِينَ عَمِلْتُمْ، فَغَضِبَ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى، قَالُوا: نَحْنُ كُنَّا أَكْثَرَ عَمَلًا، وَأَقَلَّ عَطَاءً!!، قَالَ: هَلْ ظَلَمْتُكُمْ مِنْ حَقِّكُمْ شَيْئًا؟ قَالُوا: لَا، قَالَ: فَإِنَّمَا هُوَ فَضْلِي، أُوتِيهِ مَنْ أَشَاءُ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تمہاری اور یہود و نصاریٰ کی مثال ایسے ہے کہ ایک شخص نے چند مزدوروں کو کام پر لگایا اور کہا کہ ایک قیراط کے عوض نماز فجر سے لے کر نصف النہار تک کون کام کرے گا؟ اس پر یہودیوں نے فجر کی نماز سے لے کر نصف النہار تک کام کیا، پھر اس نے کہا کہ ایک قیراط کے عوض نصف النہار سے لے کر نماز عصر تک کون کام کرے گا؟ اس پر عیسائیوں نے کام کیا، پھر اس نے کہا کہ نماز عصر سے لے کر غروب آفتاب تک دو دو قیراط کے عوض کون کام کرے گا؟ یاد رکھو! وہ تم ہو جنہوں نے اس عرصے میں کام کیا لیکن اس پر یہود و نصاریٰ غضب ناک ہو گئے اور کہنے لگے کہ ہماری محنت اتنی زیادہ اور اجرت اتنی کم؟ اللہ نے فرمایا: ”کیا میں نے تمہارا حق ادا کرنے میں ذرا بھی کوتاہی یا کمی کی؟“ انہوں نے جواب دیا نہیں۔ اللہ نے فرمایا: ”پھر یہ میرا فضل ہے میں جسے چاہوں عطاء کر دوں۔“
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، اخبرنا ايوب ، عن نافع ، عن ابن عمر ، ان النبي صلى الله عليه وسلم راى نخامة في قبلة المسجد، فقام، فحكها او قال: فحتها بيده، ثم اقبل على الناس، فتغيظ عليهم، وقال:" إن الله عز وجل قبل وجه احدكم في صلاته، فلا يتنخمن احد منكم قبل وجهه في صلاته".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى نُخَامَةً فِي قِبْلَةِ الْمَسْجِدِ، فَقَامَ، فَحَكَّهَا أَوْ قَالَ: فَحَتَّهَا بِيَدِهِ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ، فَتَغَيَّظَ عَلَيْهِمْ، وَقَالَ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قِبَلَ وَجْهِ أَحَدِكُمْ فِي صَلَاتِهِ، فَلَا يَتَنَخَّمَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ قِبَلَ وَجْهِهِ فِي صَلَاتِهِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں قبلہ کی جانب بلغم لگا ہوا دیکھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر اسے صاف کر دیا پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر ان سے ناراض ہو کر فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص نماز میں ہوتا ہے تو اللہ اس کے چہرے کے سامنے ہوتا ہے، اس لئے تم میں سے کوئی شخص اپنی نماز میں اپنے چہرے کے سامنے ناک صاف نہ کرے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، حدثنا ايوب ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال ايوب: لا اعلمه إلا عن لنبي صلى الله عليه وسلم، قال:" من حلف، فاستثنى، فهو بالخيار، إن شاء ان يمضي على يمينه مضى، وإن شاء ان يرجع غير حنث"، او قال:" غير حرج".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ أَيُّوبُ: لَا أَعْلَمُهُ إِلَّا عَن لنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ حَلَفَ، فَاسْتَثْنَى، فَهُوَ بِالْخِيَارِ، إِنْ شَاءَ أَنْ يَمْضِيَ عَلَى يَمِينِهِ مَضَى، وَإِنْ شَاءَ أَنْ يَرْجِعَ غَيْرَ حِنْثٍ"، أَوْ قَالَ:" غَيْرَ حَرِجٍ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے غالباً مرفوعاً مروی ہے کہ جو شخص قسم کھاتے وقت ان شاء اللہ کہہ لے اسے اختیار ہے، اگر اپنی قسم پوری کرنا چاہے تو کر لے اور اگر اس سے رجوع کرنا چاہے تو حانث ہوئے بغیر رجوع کر لے۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، حدثنا ايوب ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال:" صلوا في بيوتكم، ولا تتخذوها قبورا"، قال: احسبه ذكره عن النبي صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَال:" صَلُّوا فِي بُيُوتِكُمْ، وَلَا تَتَّخِذُوهَا قُبُورًا"، قَالَ: أَحْسِبُهُ ذَكَرَهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے غالباً مرفوعاً مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے گھروں میں بھی نماز پڑھا کرو انہیں قبرستان نہ بناؤ۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن فضيل ، عن بيان ، عن وبرة ، قال، قال رجل لابن عمر اطوف بالبيت وقد احرمت بالحج؟ قال: وما باس ذلك؟! قال: إن ابن عباس نهى عن ذلك، قال: قد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم" احرم بالحج، وطاف بالبيت" وبين الصفا والمروة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، عَنْ بَيَانٍ ، عَنْ وَبَرَةَ ، قَالَ، قَالَ رَجُلٌ لِابْنِ عُمَرَ أَطُوفُ بِالْبَيْتِ وَقَدْ أَحْرَمْتُ بِالْحَجِّ؟ قَالَ: وَمَا بَأْسُ ذَلِكَ؟! قَالَ: إِنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ نَهَى عَنْ ذَلِكَ، قَالَ: قَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم" أَحْرَمَ بِالْحَجِّ، وَطَافَ بِالْبَيْتِ" وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ".
وبرہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ اگر میں نے حج کا احرام باندھ رکھا ہو تو کیا میں بیت اللہ کا طواف کر سکتا ہوں؟ انہوں نے فرمایا کہ اس میں کیا حرج ہے؟ وہ شخص کہنے لگا کہ اصل میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اس سے منع کرتے ہیں، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کا احرام باندھا اور بیت اللہ کا طواف بھی کیا اور صفا مروہ کے درمیان سعی بھی کی۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن فضيل ، حدثنا حصين ، عن مجاهد ، عن ابن عمر انه كان يلعق اصابعه، ثم يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنك لا تدري في اي طعامك تكون البركة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ كَانَ يَلْعَقُ أَصَابِعَهُ، ثُمَّ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّكَ لَا تَدْرِي فِي أَيِّ طَعَامِكَ تَكُونُ الْبَرَكَةُ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کھانے کے بعد اپنی انگلیوں کو چاٹ لیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے، تمہیں معلوم نہیں کہ تمہارے کھانے کے کس حصے میں برکت ہے۔