(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، اخبرنا ايوب ، عن نافع ، عن ابن عمر ، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال:" كلكم راع، وكلكم مسئول، فالامير الذي على الناس راع، وهو مسئول عن رعيته، والرجل راع على اهل بيته، وهو مسئول، والمراة راعية على بيت زوجها، وهي مسئولة، والعبد راع على مال سيده، وهو مسئول، الا فكلكم راع، وكلكم مسئول".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَال:" كُلُّكُمْ رَاعٍ، وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ، فَالْأَمِيرُ الَّذِي عَلَى النَّاسِ رَاعٍ، وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ، وَهُوَ مَسْئُولٌ، وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ زَوْجِهَا، وَهِيَ مَسْئُولَةٌ، وَالْعَبْدُ رَاعٍ عَلَى مَالِ سَيِّدِهِ، وَهُوَ مَسْئُولٌ، أَلَا فَكُلُّكُمْ رَاعٍ، وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور تم میں سے ہر ایک سے باز پرس ہو گی چنانچہ حکمران اپنی رعایا کے ذمہ دار ہیں اور ان سے ان کی رعایا کے حوالے سے باز پرس ہو گی، مرد اپنے اہل خانہ کا ذمہ دار ہے اور اس کے متعلق باز پرس ہو گی، عورت اپنے خاوند کے گھر کی ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی باز پرس ہو گی، غلام اپنے آقا کے مال کا ذمہ دار ہے اور اس سے اس کے متعلق باز پرس ہو گی، الغرض تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور تم میں سے ہر ایک کی باز پرس ہو گی۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، حدثنا ايوب ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قفل من حج او غزو فعلا فدفدا من الارض او شرفا، قال:" الله اكبر، الله اكبر، لا إله إلا الله وحده، لا شريك له، له الملك وله الحمد، وهو على كل شيء قدير، آيبون تائبون، ساجدون عابدون، لربنا حامدون، صدق الله وعده، ونصر عبده، وهزم الاحزاب وحده".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَفَلَ مِنْ حَجٍّ أَوْ غَزْوٍ فَعَلَا فَدْفَدًا مِنَ الْأَرْضِ أَوْ شَرَفًا، قَالَ:" اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ، لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، آيِبُونَ تَائِبُونَ، سَاجِدُونَ عَابِدُونَ، لِرَبِّنَا حَامِدُونَ، صَدَقَ اللَّهُ وَعْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب حج، جہاد یا عمرہ سے واپس آتے تو زمین کے جس بلند حصے پر چڑھتے یہ دعا پڑھتے: اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اسی کی حکومت ہے اور اسی کی تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، توبہ کرتے ہوئے لوٹ رہے ہیں، سجدہ کرتے ہوئے عبادت کرتے ہوئے اور اپنے رب کی حمد کرتے ہوئے واپس آ رہے ہیں، اللہ نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا، اپنے بندے کی مدد کی اور تمام لشکروں کو اکیلے ہی شکت دے دی۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، حدثنا ايوب ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال:" قد اتي به النبي صلى الله عليه وسلم يعني: الضب، فلم ياكله، ولم يحرمه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ:" قَدْ أُتِيَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْنِي: الضَّبَّ، فَلَمْ يَأْكُلْهُ، وَلَمْ يُحَرِّمْهُ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گوہ کو پیش کیا گیا ہے، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تناول فرمایا اور نہ ہی حرام قرار دیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، حدثنا ايوب ، عن نافع ، عن ابن عمر ، ان اليهود اتوا النبي صلى الله عليه وسلم برجل وامراة منهم قد زنيا، فقال:" ما تجدون في كتابكم؟" فقالوا: نسخم وجوههما ويخزيان!! فقال:" كذبتم، إن فيها الرجم، فاتوا بالتوراة، فاتلوها إن كنتم صادقين"، فجاءوا بالتوراة، وجاءوا بقارئ لهم اعور، يقال له: ابن صوريا، فقرا حتى إذا انتهى إلى موضع منها وضع يده عليه، فقيل له: ارفع يدك، فرفع يده، فإذا هي تلوح، فقال: او قالوا: يا محمد، إن فيها الرجم، ولكنا كنا نتكاتمه بيننا،" فامر بهما رسول الله صلى الله عليه وسلم، فرجما"، قال: فلقد رايته يجانئ عليها يقيه الحجارة بنفسه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّ الْيَهُودَ أَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ وَامْرَأَةٍ مِنْهُمْ قَدْ زَنَيَا، فَقَالَ:" مَا تَجِدُونَ فِي كِتَابِكُمْ؟" فَقَالُوا: نُسَخِّمُ وُجُوهَهُمَا وَيُخْزَيَانِ!! فَقَالَ:" كَذَبْتُمْ، إِنَّ فِيهَا الرَّجْمَ، فَأْتُوا بِالتَّوْرَاةِ، فَاتْلُوهَا إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ"، فَجَاءُوا بِالتَّوْرَاةِ، وَجَاءُوا بِقَارِئٍ لَهُمْ أَعْوَرَ، يُقَالُ لَهُ: ابْنُ صُورِيَا، فَقَرَأَ حَتَّى إِذَا انْتَهَى إِلَى مَوْضِعٍ مِنْهَا وَضَعَ يَدَهُ عَلَيْهِ، فَقِيلَ لَهُ: ارْفَعْ يَدَكَ، فَرَفَعَ يَدَهُ، فَإِذَا هِيَ تَلُوحُ، فَقَالَ: أَوْ قَالُوا: يَا مُحَمَّدُ، إِنَّ فِيهَا الرَّجْمَ، وَلَكِنَّا كُنَّا نَتَكَاتَمُهُ بَيْنَنَا،" فَأَمَرَ بِهِمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرُجِمَا"، قَالَ: فَلَقَدْ رَأَيْتُهُ يُجَانِئُ عَلَيْهَا يَقِيهَ الْحِجَارَةَ بِنَفْسِهِ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ چند یہودی اپنے میں سے ایک مرد و عورت کو لے کر آئے ”جنہوں نے بدکاری کی تھی“، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری کتاب (تورات) میں اس کی کیا سزا درج ہے؟“ انہوں نے کہا: ہم ان کے چہرے کالے کر دیں گے اور انہیں ذلیل کیا جائے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم جھوٹ بولتے ہو تورات میں اس کی سزا رجم بیان کی گئی ہے تم تورات لے کر آؤ اور مجھے پڑھ کر سناؤ اگر تم سچے ہو۔“ چنانچہ وہ تورات لے آئے اور ساتھ ہی اپنے ایک اندھے قاری کو ”جس کا نام ابن صوریا تھا“ بھی لے آئے، اس نے تورات پڑھنا شروع کی جب وہ آیت رجم پر پہنچا تو اس نے اس پر ہاتھ رکھ دیا، اسے جب ہاتھ ہٹانے کے لئے کہا گیا اور جب اس نے ہاتھ ہٹایا تو وہاں آیت رجم چمک رہی تھی، یہ دیکھ کروہ یہودی خود ہی کہنے لگے کہ اے محمد! اس میں ”رجم“ کا حکم ہے، ہم خود ہی اسے آپس میں چھپاتے تھے، بہرحال! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر ان دونوں کو رجم کر دیا گیا۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے اس یہودی کو دیکھا کہ وہ عورت کو پتھروں سے بچانے کے لئے اس پر جھکا پڑتا تھا۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، اخبرنا ايوب ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال: كان الناس يرون الرؤيا، فيقصونها على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" ارى او قال: اسمع رؤياكم قد تواطات على السبع الاواخر، فمن كان منكم متحريها، فليتحرها في السبع الاواخر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: كَانَ النَّاسُ يَرَوْنَ الرُّؤْيَا، فَيَقُصُّونَهَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" أرى أَوْ قَالَ: أَسْمَعُ رُؤْيَاكُمْ قَدْ تَوَاطَأَتْ عَلَى السَّبْعِ الْأَوَاخِرِ، فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مُتَحَرِّيَهَا، فَلْيَتَحَرَّهَا فِي السَّبْعِ الْأَوَاخِرِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے خواب آخری سات راتوں پر آ کر ایک دوسرے کے موافق ہو جاتے ہیں اس لئے تم میں سے جو شخص شب قدر کو تلاش کرنا چاہتا ہے، اسے چاہئے کہ آخری سات راتوں میں اسے تلاش کرے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، حدثنا ايوب ، عن نافع ، ان ابن عمر " طلق امراته تطليقة وهي حائض، فسال عمر النبي صلى الله عليه وسلم؟ فامره ان يرجعها، ثم يمهلها حتى تحيض حيضة اخرى، ثم يمهلها حتى تطهر، ثم يطلقها قبل ان يمسها، قال: وتلك العدة التي امر الله عز وجل ان يطلق لها النساء، فكان ابن عمر إذا سئل عن الرجل يطلق امراته وهي حائض، فيقول: اما انا فطلقتها واحدة او اثنتين، ثم إن رسول الله صلى الله عليه وسلم" امره ان يرجعها، ثم يمهلها حتى تحيض حيضة اخرى، ثم يمهلها حتى تطهر، ثم يطلقها قبل ان يمسها، واما انت طلقتها ثلاثا، فقد عصيت الله بما امرك به من طلاق امراتك، وبانت منك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ " طَلَّقَ امْرَأَتَهُ تَطْلِيقَةً وَهِيَ حَائِضٌ، فَسَأَلَ عُمَرُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَأَمَرَهُ أَنْ يَرْجِعَهَا، ثُمَّ يُمْهِلَهَا حَتَّى تَحِيضَ حَيْضَةً أُخْرَى، ثُمَّ يُمْهِلَهَا حَتَّى تَطْهُرَ، ثُمَّ يُطَلِّقَهَا قَبْلَ أَنْ يَمَسَّهَا، قَالَ: وَتِلْكَ الْعِدَّةُ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ، فَكَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا سُئِلَ عَنِ الرَّجُلِ يُطَلِّقُ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، فَيَقُولُ: أَمَّا أَنَا فَطَلَّقْتُهَا وَاحِدَةً أَوْ اثْنَتَيْنِ، ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَمَرَهُ أَنْ يُرْجِعَهَا، ثُمَّ يُمْهِلَهَا حَتَّى تَحِيضَ حَيْضَةً أُخْرَى، ثُمَّ يُمْهِلَهَا حَتَّى تَطْهُرَ، ثُمَّ يُطَلِّقَهَا قَبْلَ أَنْ يَمَسَّهَا، وَأَمَّا أَنْتَ طَلَّقْتَهَا ثَلَاثًا، فَقَدْ عَصَيْتَ اللَّهَ بِمَا أَمَرَكَ بِهِ مِنْ طَلَاقِ امْرَأَتِكَ، وَبَانَتْ مِنْكَ".
نافع رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو ایام کی حالت میں ایک طلاق دے دی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھا: تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ وہ رجوع کر لیں اور دوبارہ ایام آنے تک انتظار کر یں اور ان سے پاکیزگی حاصل ہونے تک رکے رہیں، پھر اپنی بیوی کے قریب جانے سے پہلے اسے طلاق دے دیں یہی وہ طریقہ ہے جس کے مطابق اللہ نے مردوں کو اپنی بیویوں کو طلاق دینے کی رخصت دی ہے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا یہ معمول تھا کہ جب ان سے اس شخص کے متعلق پوچھا جاتا جو ایام کی حالت میں بیوی کو طلاق دے دے تو وہ فرماتے کہ میں نے تو اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاقیں دی تھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اپنی بیوی سے رجوع کر لیں اور دوسرے ایام اور ان کے بعد طہر ہونے تک انتظار کریں پھر اس کے قریب جانے سے پہلے اسے طلاق دے دیں، جب کہ تم تو اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے آئے ہو، تم نے اللہ کے اس حکم کی نافرمانی کی جو اس نے تمہیں اپنی بیوی کو طلاق دینے سے متعلق بتایا ہے اور تمہاری بیوی تم سے جدا ہو چکی۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، اخبرنا ايوب ، عن نافع ، عن ابن عمر رفعه، قال:" إن اليدين تسجدان، كما يسجد الوجه، فإذا وضع احدكم وجهه، فليضع يديه، وإذا رفعه، فليرفعهما".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَفَعَهُ، قَالَ:" إِنَّ الْيَدَيْنِ تَسْجُدَانِ، كَمَا يَسْجُدُ الْوَجْهُ، فَإِذَا وَضَعَ أَحَدُكُمْ وَجْهَهُ، فَلْيَضَعْ يَدَيْهِ، وَإِذَا رَفَعَهُ، فَلْيَرْفَعْهُمَا".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً مروی ہے کہ جس طرح چہرہ سجدہ کرتا ہے، ہاتھ بھی اسی طرح سجدہ کرتے ہیں، اس لئے جب تم میں سے کوئی شخص اپنا چہرہ زمین پر رکھے تو ہاتھ بھی رکھے اور جب چہرہ اٹھائے تو ہاتھ بھی اٹھائے۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، اخبرنا ايوب ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من باع نخلا قد ابرت، فثمرتها للبائع، إلا ان يشترط المبتاع".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ بَاعَ نَخْلًا قَدْ أُبِّرَتْ، فَثَمَرَتُهَا لِلْبَائِعِ، إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص کسی ایسے درخت کو فروخت کرے جس میں کھجوروں کی پیوندکاری کی گئی ہو، تو اس کا پھل بائع (بچنے والا) کی ملیکت میں ہو گا الاّ یہ کہ مشتری (خریدنے والا) خریدتے وقت اس کی بھی شرط لگا دے (کہ میں یہ درخت پھل سمیت خرید رہا ہوں)۔“
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، اخبرنا ايوب ، عن نافع ، عن ابن عمر ، ان النبي صلى الله عليه وسلم" قطع في مجن ثمنه ثلاثة دراهم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" قَطَعَ فِي مِجَنٍّ ثَمَنُهُ ثَلَاثَةُ دَرَاهِمَ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کا ہاتھ ایک ڈھال جس کی قیمت تین درہم تھی چوری کرنے کی وجہ سے کاٹ دیا تھا۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل ، اخبرنا ايوب ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال: قد علمت ان الارض كانت تكرى على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم بما على الاربعاء وشيء من التبن، لا ادري كم هو، وإن ابن عمر، كان يكري ارضه في عهد ابي بكر، وعهد عمر وعهد عثمان، وصدر إمارة معاوية، حتى إذا كان في آخرها بلغه ان رافعا يحدث في ذلك بنهي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاتاه وانا معه، فساله، فقال: نعم،" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن كراء المزارع، فتركها ابن عمر، فكان لا يكريها، فكان إذا سئل يقول: زعم ابن خديج، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" نهى عن كراء المزارع".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ الْأَرْضَ كَانَتْ تُكْرَى عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهِ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا عَلَى الْأَرْبِعَاءِ وَشَيْءٍ مِنَ التِّبْنِ، لَا أَدْرِي كَمْ هُوَ، وَإِنَّ ابْنَ عُمَرَ، كَانَ يُكْرِي أَرْضَهُ فِي عَهْدِ أَبِي بَكْرٍ، وَعَهْدِ عُمَرَ وَعَهْدِ عُثْمَانَ، وَصَدْرِ إِمَارَةِ مُعَاوِيَةَ، حَتَّى إِذَا كَانَ فِي آخِرِهَا بَلَغَهُ أَنَّ رَافِعًا يُحَدِّثُ فِي ذَلِكَ بِنَهْيِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَاهُ وَأَنَا مَعَهُ، فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: نَعَمْ،" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ كِرَاءِ الْمَزَارِعِ، فَتَرَكَهَا ابْنُ عُمَر، فَكَانَ لَا يُكْرِيهَا، فَكَانَ إِذَا سُئِلَ يَقُول: زَعَمَ ابْنُ خَدِيجٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنْ كِرَاءِ الْمَزَارِعِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں اس بات کو جانتا ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں گھاس اور تھوڑے سے بھوسے کے عوض زمین کو کر ایہ پر دے دیا جاتا تھا، جس کی مقدار مجھے یاد نہیں، خود سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی دور صدیقی و فاروقی و عثمانی اور سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور حکومت میں زمین کرائے پر دیا کرتے تھے، لیکن سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے آخری دور میں انہیں پتہ چلا کہ سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ زمین کو کر ائے پر دینے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ممانعت روایت کرتے ہیں، تو وہ ان کے پاس آئے، میں بھی ان کے ساتھ تھا، انہوں نے سیدنا رافع رضی اللہ عنہ سے اس کے متعلق پوچھا: تو انہوں نے فرمایا کہ ہاں! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کو کرائے پر دینے سے منع فرمایا ہے، یہ سن کر سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے یہ کام چھوڑ دیا اور بعد میں وہ کسی کو بھی زمین کرائے پر نہ دیتے تھے، اور جب کوئی ان سے پوچھتا تو وہ فرما دیتے کہ سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کا یہ خیال ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کو کر ائے پر دینے سے منع فرمایا ہے۔