(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، اخبرنا يحيى بن سعيد ، وعبيد الله بن عمر ، وابن عون ، وغير واحد، عن نافع ، عن ابن عمر : ان رجلا سال النبي صلى الله عليه وسلم من اين يحرم؟ قال:" مهل اهل المدينة من ذي الحليفة، ومهل اهل الشام من الجحفة، ومهل اهل اليمن من يلملم، ومهل اهل نجد من قرن"، وقال ابن عمر: وقاس الناس ذات عرق بقرن.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، وَابْنُ عَوْنٍ ، وغير واحد، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ : أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَيْنَ يُحْرِمُ؟ قَالَ:" مُهَلُّ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ، وَمُهَلُّ أَهْلِ الشَّامِ مِنَ الْجُحْفَةِ، وَمُهَلُّ أَهْلِ الْيَمَنِ مِنْ يَلَمْلَمَ، وَمُهَلُّ أَهْلِ نَجْدٍ مِنْ قَرْنٍ"، وقَالَ ابْنُ عُمَرَ: وَقَاسَ النَّاسُ ذَاتَ عِرْقٍ بِقَرْنٍ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ انسان احرام کہاں سے باندھے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اہل مدینہ کے لئے ذوالحلیفہ، اہل شام کے لئے جحفہ، اہل یمن کے لئے یلملم اور اہل نجد کے لئے قرن میقات ہے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ بعد میں لوگوں نے ذات عرق کو قرن پر قیاس کر لیا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، اخبرنا ابن عون ، عن نافع ، عن ابن عمر ، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" إذا لم يجد المحرم النعلين، فليلبس الخفين، وليقطعهما اسفل من الكعبين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا لَمْ يَجِدْ الْمُحْرِمُ النَّعْلَيْنِ، فَلْيَلْبَسْ الْخُفَّيْنِ، وَلْيَقْطَعْهُمَا أَسْفَلَ مِنَ الْكَعْبَيْنِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اگر محرم کو جوتے نہ ملیں تو وہ موزے ہی پہن لے لیکن ٹخنوں سے نیچے کا حصہ کاٹ لے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، اخبرنا حميد ، عن بكر بن عبد الله ، عن ابن عمر ، قال: كانت تلبية رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لبيك اللهم لبيك، لبيك لا شريك لك لبيك، إن الحمد والنعمة لك والملك، لا شريك لك"، وزاد فيها ابن عمر: لبيك لبيك وسعديك، والخير في يديك، لبيك والرغباء إليك والعمل.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ ابْنِ عُمَر ، قَالَ: كَانَتْ تَلْبِيَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ، لَا شَرِيكَ لَكَ"، وَزَادَ فِيهَا ابْنُ عُمَرَ: لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ، وَالْخَيْرُ فِي يَدَيْكَ، لَبَّيْكَ وَالرَّغْبَاءُ إِلَيْكَ وَالْعَمَلُ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تلبیہ یہ تھا۔ میں حاضر ہوں اے اللہ میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں آپ کا کوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں، تمام تعریفیں اور تمام نعمتیں آپ کے لئے ہیں حکومت بھی آپ ہی کی ہے، آپ کا کوئی شریک نہیں۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما اس میں یہ اضافہ فرماتے تھے کہ میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں، میں تیری خدمت میں آ گیا ہوں، ہر قسم کی خیر آپ کے ہاتھ میں ہے، میں حاضر ہوں تمام رغبتیں اور عمل آپ ہی کے لئے ہیں۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جب میدان عرفات کی طرف روانہ ہوئے تو ہم میں سے بعض لوگ تکبیر کہہ رہے تھے اور بعض تلبیہ پڑھ رہے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، اخبرنا يونس ، اخبرني زياد بن جبير ، قال: كنت مع ابن عمر بمنى، فمر برجل وهو ينحر بدنة وهي باركة، فقال:" ابعثها، قياما مقيدة، سنة محمد صلى الله عليه وسلم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ ، أَخْبَرَنِي زِيَادُ بْنُ جُبَيْرٍ ، قَال: كُنْتُ مَعَ ابْنِ عُمَرَ بِمِنًى، فَمَرَّ بِرَجُلٍ وَهُوَ يَنْحَرُ بَدَنَةً وَهِيَ بَارِكَةٌ، فَقَالَ:" ابْعَثْهَا، قِيَامًا مُقَيَّدَةً، سُنَّةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
زیاد بن جبیر کہتے ہیں کہ میں میدان منیٰ میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھا راستے میں ان کا گزر ایک آدمی کے پاس سے ہوا جس نے اپنی اونٹنی کو گھٹنوں کے بل بٹھا رکھا تھا اور اسے نحر کرنا چاہتا تھا، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس سے فرمایا: اسے کھڑا کر کے اس کے پاؤں باندھ لو اور پھر اسے ذبح کرو، یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، اخبرنا إسماعيل بن ابي خالد ، حدثنا ابو إسحاق ، عن سعيد بن جبير ، قال: كنت مع ابن عمر حيث" افاض من عرفات، ثم اتى جمعا، فصلى المغرب والعشاء، فلما فرغ قال: فعل رسول الله صلى الله عليه وسلم في هذا المكان مثل ما فعلت، قال هشيم مرة: فصلى بنا المغرب، ثم قال:" الصلاة، وصلى ركعتين"، ثم قال: هكذا فعل بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في هذا المكان.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ ابْنِ عُمَرَ حَيْثُ" أَفَاضَ مِنْ عَرَفَاتٍ، ثُمَّ أَتَى جَمْعًا، فَصَلَّى الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ، فَلَمَّا فَرَغَ قَالَ: فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْمَكَانِ مِثْلَ مَا فَعَلْتُ، قَالَ هُشَيْمٌ مَرَّةً: فَصَلَّى بِنَا الْمَغْرِبَ، ثُمَّ قَالَ:" الصَّلَاةَ، وَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ"، ثُمَّ قَالَ: هَكَذَا فَعَلَ بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْمَكَانِ.
سعید بن جبیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ عرفات سے مزدلفہ کی طرف روانگی کے وقت ہم لوگ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھے، انہوں نے مغرب کی نماز مکمل پڑھائی پھر «الصلوة» کہہ کر (عشاء کی) دو رکعتیں پڑھائیں اور فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس جگہ اسی طرح کیا تھا جیسے میں نے کیا ہے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے سوال پوچھا کہ محرم کون سے جانور کو قتل کر سکتا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بچھو، چوہے، چیل، کوے اور باؤلے کتے کو مار سکتا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، اخبرنا عطاء بن السائب ، عن عبد الله بن عبيد بن عمير انه سمع اباه يقول لابن عمر: ما لي لا اراك تستلم إلا هذين الركنين، الحجر الاسود والركن اليماني؟ فقال ابن عمر: إن افعل فقد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن" استلامهما يحط الخطايا". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قال: وسمعته يقول:" من طاف اسبوعا يحصيه، وصلى ركعتين، كان له كعدل رقبة". قال: وسمعته يقول:" ما رفع رجل قدما، ولا وضعها، إلا كتبت له عشر حسنات، وحط عنه عشر سيئات، ورفع له عشر درجات".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَاهُ يَقُولُ لِابْنِ عُمَرَ: مَا لِي لَا أَرَاكَ تَسْتَلِمُ إِلَّا هَذَيْنِ الرُّكْنَيْنِ، الْحَجَرَ الْأَسْوَدَ وَالرُّكْنَ الْيَمَانِيَ؟ فَقَال ابْنُ عُمَرَ: إِنْ أَفْعَلْ فَقَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: إِنَّ" اسْتِلَامَهُمَا يَحُطُّ الْخَطَايَا". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ: وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ:" مَنْ طَافَ أُسْبُوعًا يُحْصِيهِ، وَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، كَانَ لَهُ كَعِدْلِ رَقَبَةٍ". قَالَ: وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ:" مَا رَفَعَ رَجُلٌ قَدَمًا، وَلَا وَضَعَهَا، إِلَّا كُتِبَتْ لَهُ عَشْرُ حَسَنَاتٍ، وَحُطَّ عَنْهُ عَشْرُ سَيِّئَاتٍ، وَرُفِعَ لَهُ عَشْرُ دَرَجَاتٍ".
عبید بن عمیر رحمہ اللہ نے ایک مرتبہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ میں آپ کو صرف ان دو رکنوں حجر اسود اور رکن یمانی ہی کا استلام کرتے ہوئے دیکھتا ہوں اس کی کیا وجہ ہے؟ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اگر میں ایسا کرتا ہوں تو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ان دونوں کا استلام انسان کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔ اور میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے بھی سنا ہے کہ جو شخص گن کر طواف کے سات چکر لگائے اور اس کے بعد دوگانہ طواف پڑھ لے تو یہ ایک غلام آزاد کر نے کے برابر ہے۔ اور میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص ایک قدم بھی اٹھاتا یا رکھتا ہے اس پر اس کے لئے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں دس گناہ مٹائے جاتے ہیں اور دس درجات بلند کئے جاتے ہیں۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، هشيم- وإن سمع من ابن السائب بعد الاختلاط متابع
(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، اخبرنا عبيد الله ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم" يستلم الحجر الاسود، فلا ادع استلامه في شدة ولا رخاء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَسْتَلِمُ الْحَجَرَ الْأَسْوَدَ، فَلَا أَدَعُ اسْتِلَامَهُ فِي شِدَّةٍ وَلَا رَخَاءٍ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حجر اسود کا استلام کرتے ہوئے خود دیکھا ہے اس لئے میں کسی سختی یا نرمی کی پرواہ کئے بغیر اس کا استلام کرتا ہی رہوں گا۔
(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، اخبرنا غير واحد، وابن عون ، عن نافع ، عن ابن عمر ، قال:" دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم البيت ومعه الفضل بن عباس، واسامة بن زيد، وعثمان بن طلحة، وبلال، فامر بلالا، فاجاف عليهم الباب، فمكث فيه ما شاء الله، ثم خرج، فقال ابن عمر: فكان اول من لقيت منهم بلالا، فقلت: اين صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: هاهنا، بين الاسطوانتين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا غَيْرُ وَاحِدٍ، وابن عون ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ:" دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْبَيْتَ وَمَعَهُ الْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ، وَأُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، وَعُثْمَانُ بْنُ طَلْحَةَ، وَبِلَالٌ، فَأَمَرَ بِلَالًا، فَأَجَافَ عَلَيْهِمْ الْبَابَ، فَمَكَثَ فِيهِ مَا شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ خَرَجَ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: فَكَانَ أَوَّلُ مَنْ لَقِيتُ مِنْهُمْ بِلَالًا، فَقُلْتُ: أَيْنَ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: هَاهُنَا، بَيْنَ الأُسْطُوَانَتَينٍ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ بیت اللہ میں داخل ہوئے، اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فضل بن عباس، اسامہ بن زید، عثمان بن طلحہ اور بلال رضی اللہ عنہم تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے دروازہ بند کر دیا، اور جب تک اللہ کو منظور تھا اس کے اندر رہے، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو سب سے پہلے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے میں نے ملاقات کی اور ان سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہاں نماز پڑھی؟ انہوں نے بتایا کہ یہاں، ان دو ستونوں کے درمیان۔