(حديث مرفوع) حدثنا عتاب ، حدثنا عبد الله. ح وعلي بن إسحاق ، قال: اخبرنا عبد الله ، اخبرنا موسى بن علي بن رباح ، قال: سمعت ابي يقول: عن ابن مسعود ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اتاه ليلة الجن ومعه عظم حائل وبعرة وفحمة، فقال:" لا تستنجين بشيء من هذا إذا خرجت إلى الخلاء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَتَّابٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ. ح وَعَلِيُّ بْنُ إِسْحَاقَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ عَلِيِّ بْنِ رَبَاحٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ: عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَاهُ لَيْلَةَ الْجِنِّ وَمَعَهُ عَظْمٌ حَائِلٌ وَبَعْرَةٌ وَفَحْمَةٌ، فَقَالَ:" لَا تَسْتَنْجِيَنَّ بِشَيْءٍ مِنْ هَذَا إِذَا خَرَجْتَ إِلَى الْخَلَاءِ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم لیلۃ الجن کے موقع پر جب ان کے پاس واپس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہڈی، کالی مٹی، مینگنی اور کوئلہ بھی تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم بیت الخلا جاؤ تو ان میں سے کسی چیز کے ساتھ استنجا نہ کیا کرو۔“
حدثنا عبيدة بن حميد ، عن المخارق بن عبد الله الاحمسي ، عن طارق بن شهاب ، قال: قال عبد الله بن مسعود : لقد شهدت من المقداد مشهدا لان اكون انا صاحبه احب إلي مما على الارض من شيء، قال: اتى النبي صلى الله عليه وسلم، وكان رجلا فارسا، قال: فقال: ابشر يا نبي الله، والله لا نقول لك كما قالت بنو إسرائيل لموسى صلى الله عليه وسلم: اذهب انت وربك فقاتلا إنا ههنا قاعدون سورة المائدة آية 24، ولكن والذي بعثك بالحق لنكونن بين يديك، وعن يمينك، وعن شمالك، ومن خلفك، حتى يفتح الله عليك".حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ ، عَنِ الْمُخَارِقِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَحْمَسِيِّ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ : لَقَدْ شَهِدْتُ مِنَ الْمِقْدَادِ مَشْهَدًا لَأَنْ أَكُونَ أَنَا صَاحِبَهُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا عَلَى الْأَرْضِ مِنْ شَيْءٍ، قَالَ: أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ رَجُلًا فَارِسًا، قَالَ: فَقَالَ: أَبْشِرْ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، وَاللَّهِ لَا نَقُولُ لَكَ كَمَا قَالَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ لِمُوسَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلا إِنَّا هَهُنَا قَاعِدُون سورة المائدة آية 24، وَلَكِنْ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَنَكُونَنَّ بَيْنَ يَدَيْكَ، وَعَنْ يَمِينِكَ، وَعَنْ شِمَالِكَ، وَمِنْ خَلْفِكَ، حَتَّى يَفْتَحَ اللَّهُ عَلَيْكَ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں سیدنا مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھا - اور مجھے ان کا ہم نشین ہونا دوسری تمام چیزوں سے زیادہ محبوب تھا - وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مشرکین کو بد دعائیں دے کر کہنے لگے: یا رسول اللہ! واللہ! ہم اس طرح نہیں کہیں گے جیسے بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہہ دیا تھا کہ آپ اور آپ کا رب جا کر لڑو، ہم یہاں بیٹھے ہیں، بلکہ ہم آپ کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے سے لڑیں گے، یہاں تک کہ اللہ آپ کو فتح عطا فرما دے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب بن إبراهيم ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، قال: وحدثني عبد الرحمن بن الاسود بن يزيد النخعي ، عن ابيه ، عن عبد الله بن مسعود ، قال: نزلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم والمرسلات عرفا ليلة الحية، قال: فقلنا له: وما ليلة الحية يا ابا عبد الرحمن؟ قال: بينما نحن مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بحراء ليلا، خرجت علينا حية من الجبل،" فامرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم بقتلها، فطلبناها، فاعجزتنا، فقال: دعوها عنكم، فقد وقاها الله شركم، كما وقاكم شرها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: وَحَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ النَّخَعِيُّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: نَزَلَتْ عَلَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُرْسَلَاتِ عُرْفًا لَيْلَةَ الْحَيَّةِ، قَالَ: فَقُلْنَا لَهُ: وَمَا لَيْلَةُ الْحَيَّةِ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ؟ قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحِرَاءٍ لَيْلًا، خَرَجَتْ عَلَيْنَا حَيَّةٌ مِنَ الْجَبَلِ،" فَأَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَتْلِهَا، فَطَلَبْنَاهَا، فَأَعْجَزَتْنَا، فَقَالَ: دَعُوهَا عَنْكُمْ، فَقَدْ وَقَاهَا اللَّهُ شَرَّكُمْ، كَمَا وَقَاكُمْ شَرَّهَا".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سورہ مرسلات کا نزول سانپ والی رات میں ہوا تھا، ہم نے ان سے پوچھا کہ سانپ والی رات سے کیا مرا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ ایک مرتبہ رات کے وقت ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ غار حراء میں تھے کہ اچانک ایک سانپ پہاڑ سے نکل آیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اسے مار ڈالنے کا حکم دیا، ہم جلدی سے آگے بڑھے لیکن وہ ہم پر سبقت لے گیا اور اپنے بل میں گھس گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے چھوڑ دو، وہ تمہارے شر سے بچ گیا جیسے تم اس کے شر سے بچ گئے۔“
حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد حسن، ابن إسحاق صرح بالتحديث، فانتفت شبهة تدليسه.
عبدالرحمن بن یزید کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے ہمراہ جمرہ عقبہ کے سامنے پہنچ کر کھڑا ہو گیا، انہوں نے وہاں کھڑے ہو کر فرمایا: اس اللہ کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، اسی جگہ وہ ذات کھڑی ہوئی تھی جس پر رمی کرتے ہوئے سورہ بقرہ نازل ہوئی تھی، پھر سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اسے سات کنکریاں ماریں، اور ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہتے رہے، پھر واپس لوٹ گئے۔
حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد حسن من أجل ابن إسحاق.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مجھ سے پہلے اللہ نے جس امت میں بھی کسی نبی کو مبعوث فرمایا ہے، اس کی امت میں سے ہی اس کے حواری اور اصحاب بھی بنائے جو اس نبی کی سنت پر عمل کرتے اور ان کے حکم کی اقتدا کرتے، لیکن ان کے بعد کچھ ایسے ناہل آ جاتے جو وہ بات کہتے جس پر خود عمل نہ کرتے، اور وہ کام کرتے جن کا انہیں حکم نہ دیا گیا ہوتا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن صالح ، قال ابن شهاب : حدثني عبيد الله بن عبد الله بن عتبة ، ان عبد الله بن مسعود ، قال: بينا نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، في قريب من ثمانين رجلا من قريش، ليس فيهم إلا قرشي، لا والله ما رايت صفحة وجوه رجال قط احسن من وجوههم يومئذ، فذكروا النساء، فتحدثوا فيهن، فتحدث معهم، حتى احببت ان يسكت، قال: ثم اتيته فتشهد، ثم قال:" اما بعد، يا معشر قريش،" فإنكم اهل هذا الامر، ما لم تعصوا الله، فإذا عصيتموه بعث إليكم من يلحاكم كما يلحى هذا القضيب" لقضيب في يده، ثم لحا قضيبه، فإذا هو ابيض يصلد.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ : حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ ، قَالَ: بَيْنَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي قَرِيبٍ مِنْ ثَمَانِينَ رَجُلًا مِنْ قُرَيْشٍ، لَيْسَ فِيهِمْ إِلَّا قُرَشِيٌّ، لَا وَاللَّهِ مَا رَأَيْتُ صَفْحَةَ وُجُوهِ رِجَالٍ قَطُّ أَحْسَنَ مِنْ وُجُوهِهِمْ يَوْمَئِذٍ، فَذَكَرُوا النِّسَاءَ، فَتَحَدَّثُوا فِيهِنَّ، فَتَحَدَّثَ مَعَهُمْ، حَتَّى أَحْبَبْتُ أَنْ يَسْكُتَ، قَالَ: ثُمَّ أَتَيْتُهُ فَتَشَهَّدَ، ثُمَّ قَالَ:" أَمَّا بَعْدُ، يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ،" فَإِنَّكُمْ أَهْلُ هَذَا الْأَمْرِ، مَا لَمْ تَعْصُوا اللَّهَ، فَإِذَا عَصَيْتُمُوهُ بَعَثَ إِلَيْكُمْ مَنْ يَلْحَاكُمْ كَمَا يُلْحَى هَذَا الْقَضِيبُ" لِقَضِيبٍ فِي يَدِهِ، ثُمَّ لَحَا قَضِيبَهُ، فَإِذَا هُوَ أَبْيَضُ يَصْلِدُ.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم اسی کے قریب قریشی افراد - جن میں قریش کے علاوہ کسی قبیلے کا کوئی فرد نہ تھا - نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، واللہ! میں نے مردوں کے چہروں کا روشن رخ اس دن ان لوگوں سے زیادہ حسین کبھی نہیں دیکھا، دوران گفتگو عورتوں کا تذکرہ آیا اور لوگ خواتین کے متعلق گفتگو کرنے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ گفتگو میں شریک رہے، پھر میں نے چاہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سکوت اختیار فرمائیں، چنانچہ میں ان کے سامنے آ گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے محسوس کیا اور تشہد (کلمہ شہادت پڑھنے) کے بعد فرمایا: ”اما بعد! اے گروہ قریش! اس حکومت کے اہل تم لوگ ہی ہو بشرطیکہ اللہ کی نافرمانی نہ کرو، جب تم اللہ کی نافرمانی میں مبتلا ہو جاؤگے تو اللہ تم پر ایک ایسے شخص کو مسلط کر دے گا جو تمہیں اس طرح چھیل دے گا جیسے اس ٹہنی کو چھیل دیا جاتا ہے“ - اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک میں ایک ٹہنی تھی - نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چھیلا تو وہ اندر سے سفید، ٹھوس اور چکنی نکل آئی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، عبيد الله بن عبد الله بن عتبة لم يسمع من عم أبيه عبد الله ابن مسعود.
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، قال: حدثني ابو عميس عتبة بن عبد الله بن عتبة بن عبد الله بن مسعود ، عن ابي فزارة ، عن ابي زيد مولى عمرو بن حريث المخزومي، عن عبد الله بن مسعود ، قال: بينما نحن مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بمكة، وهو في نفر من اصحابه، إذ قال:" ليقم معي رجل منكم، ولا يقومن معي رجل في قلبه من الغش مثقال ذرة"، قال: فقمت معه، واخذت إداوة، ولا احسبها إلا ماء، فخرجت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، حتى إذا كنا باعلى مكة رايت اسودة مجتمعة، قال: فخط لي رسول الله صلى الله عليه وسلم خطا، ثم قال:" قم هاهنا حتى آتيك"، قال: فقمت، ومضى رسول الله صلى الله عليه وسلم إليهم، فرايتهم يتثورون إليه، قال: فسمر معهم رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلا طويلا، حتى جاءني مع الفجر، فقال لي:" ما زلت قائما يا ابن مسعود؟" قال: فقلت له: يا رسول الله، اولم تقل لي:" قم حتى آتيك؟!" قال: ثم قال لي:" هل معك من وضوء"، قال: فقلت: نعم، ففتحت الإداوة، فإذا هو نبيذ، قال: فقلت له: يا رسول الله، والله لقد اخذت الإداوة، ولا احسبها إلا ماء، فإذا هو نبيذ، قال فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" تمرة طيبة، وماء طهور"، قال: ثم توضا منها، فلما قام يصلي ادركه شخصان منهم، قالا له: يا رسول الله، إنا نحب ان تؤمنا في صلاتنا، قال:" فصفهما رسول الله صلى الله عليه وسلم خلفه، ثم صلى بنا، فلما انصرف، قلت له: من هؤلاء يا رسول الله؟ قال:" هؤلاء جن نصيبين، جاءوا يختصمون إلي في امور كانت بينهم، وقد سالوني الزاد فزودتهم"، قال: فقلت له: وهل عندك يا رسول الله من شيء تزودهم إياه؟ قال: فقال:" قد زودتهم الرجعة، وما وجدوا من روث وجدوه شعيرا، وما وجدوه من عظم وجدوه كاسيا"، قال: وعند ذلك نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ان يستطاب بالروث والعظم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو عُمَيْسٍ عُتْبَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، عَنْ أَبِي فَزَارَةَ ، عَنْ أَبِي زَيْدٍ مَوْلَى عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ الْمَخْزُومِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ مَعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ، وَهُوَ فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، إِذْ قَالَ:" لِيَقُمْ مَعِي رَجُلٌ مِنْكُمْ، وَلَا يَقُومَنَّ مَعِي رَجُلٌ فِي قَلْبِهِ مِنَ الْغِشِّ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ"، قَالَ: فَقُمْتُ مَعَهُ، وَأَخَذْتُ إِدَاوَةً، وَلَا أَحْسَبُهَا إِلَّا مَاءً، فَخَرَجْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِأَعْلَى مَكَّةَ رَأَيْتُ أَسْوِدَةً مُجْتَمِعَةً، قَالَ: فَخَطَّ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطًّا، ثُمَّ قَالَ:" قُمْ هَاهُنَا حَتَّى آتِيَكَ"، قَالَ: فَقُمْتُ، وَمَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِمْ، فَرَأَيْتُهُمْ يَتَثَوَّرُونَ إِلَيْهِ، قَالَ: فَسَمَرَ مَعَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلًا طَوِيلًا، حَتَّى جَاءَنِي مَعَ الْفَجْرِ، فَقَالَ لِي:" مَا زِلْتَ قَائِمًا يَا ابْنَ مَسْعُودٍ؟" قَالَ: فَقُلْتُ له: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَوَلَمْ تَقُلْ لِي:" قُمْ حَتَّى آتِيَكَ؟!" قَالَ: ثُمَّ قَالَ لِي:" هَلْ مَعَكَ مِنْ وَضُوءٍ"، قَالَ: فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَفَتَحْتُ الْإِدَاوَةَ، فَإِذَا هُوَ نَبِيذٌ، قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللَّهِ لَقَدْ أَخَذْتُ الْإِدَاوَةَ، وَلَا أَحْسَبُهَا إِلَّا مَاءً، فَإِذَا هُوَ نَبِيذٌ، قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" تَمْرَةٌ طَيِّبَةٌ، وَمَاءٌ طَهُورٌ"، قَالَ: ثُمَّ تَوَضَّأَ مِنْهَا، فَلَمَّا قَامَ يُصَلِّي أَدْرَكَهُ شَخْصَانِ مِنْهُمْ، قَالَا لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا نُحِبُّ أَنْ تَؤُمَّنَا فِي صَلَاتِنَا، قَالَ:" فَصَفَّهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَلْفَهُ، ثُمَّ صَلَّى بِنَا، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قُلْتُ لَهُ: مَنْ هَؤُلَاءِ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" هَؤُلَاءِ جِنُّ نَصِيبِينَ، جَاءُوا يَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ فِي أُمُورٍ كَانَتْ بَيْنَهُمْ، وَقَدْ سَأَلُونِي الزَّادَ فَزَوَّدْتُهُمْ"، قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: وَهَلْ عِنْدَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ تُزَوِّدُهُمْ إِيَّاهُ؟ قَالَ: فَقَالَ:" قَدْ زَوَّدْتُهُمْ الرَّجْعَةَ، وَمَا وَجَدُوا مِنْ رَوْثٍ وَجَدُوهُ شَعِيرًا، وَمَا وَجَدُوهُ مِنْ عَظْمٍ وَجَدُوهُ كَاسِيًا"، قَالَ: وَعِنْدَ ذَلِكَ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَنْ يُسْتَطَابَ بِالرَّوْثِ وَالْعَظْمِ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ مکی دور میں ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چند صحابہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، اسی اثنا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے ایک آدمی میرے ساتھ چلے، لیکن وہ آدمی جس کے دل میں ایک ذرے کے برابر بھی تکبر نہ ہو“، یہ سن کر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلنے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا اور اپنے ساتھ ایک برتن لے لیا جس میں میرے خیال کے مطابق پانی تھا، میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوا، چلتے چلتے ہم لوگ جب مکہ مکرمہ کے بالائی حصے پر پہنچے تو میں نے بہت سے سیاہ فام لوگوں کا ایک جم غفیر دیکھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خط کھینچ کر مجھ سے فرمایا کہ ”تم میرے آنے تک یہیں کھڑے رہنا۔“ چنانچہ میں اپنی جگہ کھڑا رہا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف چلے گئے، میں نے انہیں دیکھا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑے جوش و خروش کے ساتھ بڑھ رہے تھے، رات بھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ طویل گفتگو فرمائی اور فجر ہوتے ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لے آئے اور مجھ سے فرمانے لگے: ”اے ابن مسعود! کیا تم اس وقت سے کھڑے ہوئے ہو؟“ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ ہی نے تو فرمایا تھا کہ ”میرے آنے تک یہیں کھڑے رہنا۔“ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کہ ”تمہارے پاس وضو کا پانی ہے؟“ میں نے عرض کیا: جی ہاں! اب جو میں نے برتن کھولا تو اس میں نبیذ تھی، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! واللہ! میں نے جب یہ برتن لیا تھا تو میں یہی سمجھ رہا تھا کہ اس میں پانی ہو گا لیکن اس میں تو نبیذ ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عمدہ کھجور اور طہارت بخش پانی ہی تو ہے“، اور اسی سے وضو فرما لیا۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوئے تو دو آدمی آ گئے اور کہنے لگے: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہماری خواہش ہے کہ آپ ہماری بھی امامت فرمائیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی اپنے پیچھے صف میں کھڑا کر لیا اور ہمیں نماز پڑھائی، جب نماز سے فراغت ہوئی تو میں نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ کون لوگ تھے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ نصیبین کے جن تھے، میرے پاس اپنے کچھ جھگڑوں کا فیصلہ کرانے کے لئے آئے تھے، انہوں نے مجھ سے زاد سفر بھی مانگا تھا جو میں نے انہیں دے دیا“، میں نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ کے پاس کوئی ایسی چیز تھی جو آپ انہیں زاد راہ کے طور پر دے سکتے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے انہیں لید دی ہے، انہیں جو بھی مینگنی ملتی ہے وہ جو بن جاتی ہے اور جو بھی ہڈی ملتی ہے اس پر گوشت آجاتا ہے۔“ اسی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مینگنی اور ہڈی سے استنجا کرنے کی ممانعت فرمائی ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، قال: حدثني ابي ، عن ابن إسحاق ، قال: حدثني عن تشهد رسول الله صلى الله عليه وسلم في وسط الصلاة وفي آخرها عبد الرحمن بن الاسود بن يزيد النخعي ، عن ابيه ، عن عبد الله بن مسعود ، قال: علمني رسول الله صلى الله عليه وسلم التشهد في وسط الصلاة وفي آخرها، فكنا نحفظ عن عبد الله حين اخبرنا ان رسول الله صلى الله عليه وسلم علمه إياه، قال: فكان يقول إذا جلس في وسط الصلاة وفي آخرها على وركه اليسرى:" التحيات لله، والصلوات والطيبات، السلام عليك ايها النبي ورحمة الله وبركاته، السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين، اشهد ان لا إله إلا الله، واشهد ان محمدا عبده ورسوله"، قال ثم إن كان في وسط الصلاة نهض حين يفرغ من تشهده، وإن كان في آخرها، دعا بعد تشهده ما شاء الله ان يدعو، ثم يسلم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَنْ تَشَهُّدِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وَسَطِ الصَّلَاةِ وَفِي آخِرِهَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ النَّخَعِيُّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: عَلَّمَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التَّشَهُّدَ فِي وَسَطِ الصَّلَاةِ وَفِي آخِرِهَا، فَكُنَّا نَحْفَظُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ حِينَ أَخْبَرَنَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَّمَهُ إِيَّاهُ، قَالَ: فَكَانَ يَقُولُ إِذَا جَلَسَ فِي وَسَطِ الصَّلَاةِ وَفِي آخِرِهَا عَلَى وَرِكِهِ الْيُسْرَى:" التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ، وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ"، قَالَ ثُمَّ إِنْ كَانَ فِي وَسَطِ الصَّلَاةِ نَهَضَ حِينَ يَفْرُغُ مِنْ تَشَهُّدِهِ، وَإِنْ كَانَ فِي آخِرِهَا، دَعَا بَعْدَ تَشَهُّدِهِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَدْعُوَ، ثُمَّ يُسَلِّمَ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نماز کے درمیان اور اختتام کا تشہد سکھایا ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب درمیان نماز یا اختتام نماز پر اپنے بائیں سرین پر بیٹھتے تو یوں کہتے تھے: «التَّحِيَّاتُ لِلّٰهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَكَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللّٰهِ الصَّالِحِينَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ»”تمام قولی، فعلی اور بدنی عبادتیں اللہ ہی کے لئے ہیں، اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ پر سلامتی ہو اور اللہ کی رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہو، ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر سلامتی نازل ہو، میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔“ پھر اگر نماز کا درمیان ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشہد پڑھ کر کھڑے ہو جاتے تھے، اور اگر اختتام نماز ہوتا تو تشہد کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو چاہتے دعا مانگتے، پھر سلام پھیر دیتے تھے۔
حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد حسن من أجل ابن إسحاق وقد صرح بالتحديث، فانتفت شبهة تدليسه.
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، قال: حدثني عن انصراف رسول الله صلى الله عليه وسلم عبد الرحمن بن الاسود بن يزيد النخعي ، عن ابيه ، قال: سمعت رجلا يسال عبد الله بن مسعود عن انصراف رسول الله صلى الله عليه وسلم من صلاته عن يمينه كان ينصرف، او عن يساره؟ قال: فقال عبد الله بن مسعود : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ينصرف حيث اراد، كان" اكثر انصراف رسول الله صلى الله عليه وسلم من صلاته على شقه الايسر إلى حجرته".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَنِ انْصِرَافِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ النَّخَعِيُّ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا يَسْأَلُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ عَنِ انْصِرَافِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ صَلَاتِهِ عَنْ يَمِينِهِ كَانَ يَنْصَرِفُ، أَوْ عَنْ يَسَارِهِ؟ قَالَ: فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْصَرِفُ حَيْثُ أَرَادَ، كَانَ" أَكْثَرُ انْصِرَافِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ صَلَاتِهِ عَلَى شِقِّهِ الْأَيْسَرِ إِلَى حُجْرَتِهِ".
اسود رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک آدمی کو سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے یہ سوال پوچھتے ہوئے سنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ کر دائیں جانب سے واپس جاتے تھے یا بائیں جانب سے؟ انہوں نے فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم جہاں سے چاہتے تھے واپس چلے جاتے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی واپسی اکثر بائیں جانب سے اپنے حجرات کی طرف ہوتی تھی۔
حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد حسن من أجل ابن إسحاق.