مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر
مسند احمد
حدیث نمبر: 4285
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن ابي إسحاق ، عن ابي عبيدة ، عن ابن مسعود ، قال: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم، قلت: اي الاعمال افضل؟ قال:" الصلوات لوقتها، وبر الوالدين، والجهاد في سبيل الله عز وجل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: أَيُّ الْأَعْمَالِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:" الصَّلَوَاتُ لِوَقْتِهَا، وَبِرُّ الْوَالِدَيْنِ، وَالْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال پوچھا کہ بارگاہ الٰہی میں سب سے زیادہ پسندیدہ عمل کون سا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے وقت پر نماز پڑھنا، والدین کے ساتھ حسن سلوک، اللہ کے راستے میں جہاد۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 527، م، 85، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، أبو عبيدة لم يسمع من أبيه ابن مسعود.
حدیث نمبر: 4286
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، قال: اخبرنا معمر ، عن رجل ، عن عمرو بن وابصة الاسدي ، عن ابيه ، قال: إني بالكوفة في داري، إذ سمعت على باب الدار: السلام عليكم، االج؟ قلت: عليكم السلام فلج، فلما دخل، فإذا هو عبد الله بن مسعود ، قلت: يا ابا عبد الرحمن، اية ساعة زيارة هذه؟! وذلك في نحر الظهيرة، قال: طال علي النهار، فذكرت من اتحدث إليه. قال: فجعل يحدثني عن رسول الله صلى الله عليه وسلم واحدثه، قال: ثم انشا يحدثني، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" تكون فتنة، النائم فيها خير من المضطجع، والمضطجع فيها خير من القاعد، والقاعد فيها خير من القائم، والقائم فيها خير من الماشي، والماشي خير من الراكب، والراكب خير من المجري، قتلاها كلها في النار"، قال: قلت: يا رسول الله، ومتى ذلك؟ قال:" ذلك ايام الهرج"، قلت: ومتى ايام الهرج؟ قال:" حين لا يامن الرجل جليسه"، قال: قلت: فما تامرني إن ادركت ذلك؟ قال:" اكفف نفسك ويدك، وادخل دارك"، قال: قلت: يا رسول الله، ارايت إن دخل رجل علي داري؟ قال:" فادخل بيتك"، قال: قلت: افرايت إن دخل علي بيتي؟ قال: فادخل مسجدك، واصنع هكذا، وقبض بيمينه على الكوع، وقل: ربي الله، حتى تموت على ذلك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ وَابِصَةَ الْأَسَدِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: إِنِّي بِالْكُوفَةِ فِي دَارِي، إِذْ سَمِعْتُ عَلَى بَابِ الدَّارِ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، أَأَلِجُ؟ قُلْتُ: عَلَيْكُمْ السَّلَامُ فَلِجْ، فَلَمَّا دَخَلَ، فَإِذَا هُوَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ ، قُلْتُ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَيَّةُ سَاعَةِ زِيَارَةٍ هَذِهِ؟! وَذَلِكَ فِي نَحْرِ الظَّهِيرَةِ، قَالَ: طَالَ عَلَيَّ النَّهَارُ، فَذَكَرْتُ مَنْ أَتَحَدَّثُ إِلَيْهِ. قَالَ: فَجَعَلَ يُحَدِّثُنِي عَنْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُحَدِّثُهُ، قَالَ: ثُمَّ أَنْشَأَ يُحَدِّثُنِي، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" تَكُونُ فِتْنَةٌ، النَّائِمُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْمُضْطَجِعِ، وَالْمُضْطَجِعُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْقَاعِدِ، وَالْقَاعِدُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْقَائِمِ، وَالْقَائِمُ فِيهَا خَيْرٌ مِنَ الْمَاشِي، وَالْمَاشِي خَيْرٌ مِنَ الرَّاكِبِ، وَالرَّاكِبُ خَيْرٌ مِنَ الْمُجْرِي، قَتْلَاهَا كُلُّهَا فِي النَّارِ"، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَتَى ذَلِكَ؟ قَالَ:" ذَلِكَ أَيَّامَ الْهَرْجِ"، قُلْتُ: وَمَتَى أَيَّامُ الْهَرْجِ؟ قَالَ:" حِينَ لَا يَأْمَنُ الرَّجُلُ جَلِيسَهُ"، قَالَ: قُلْتُ: فَمَا تَأْمُرُنِي إِنْ أَدْرَكْتُ ذَلِكَ؟ قَالَ:" اكْفُفْ نَفْسَكَ وَيَدَكَ، وَادْخُلْ دَارَكَ"، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ إِنْ دَخَلَ رَجُلٌ عَلَيَّ دَارِي؟ قَالَ:" فَادْخُلْ بَيْتَكَ"، قَالَ: قُلْتُ: أَفَرَأَيْتَ إِنْ دَخَلَ عَلَيَّ بَيْتِي؟ قَالَ: فَادْخُلْ مَسْجِدَكَ، وَاصْنَعْ هَكَذَا، وَقَبَضَ بِيَمِينِهِ عَلَى الْكُوعِ، وَقُلْ: رَبِّيَ اللَّهُ، حَتَّى تَمُوتَ عَلَى ذَلِكَ".
وابصہ اسدی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ کوفہ میں اپنے گھر میں تھا کہ گھر کے دروازے پر آواز آئی: السلام علیکم! کیا میں اندر آ سکتا ہوں؟ میں نے کہا: وعلیکم السلام! آ جائیے، دیکھا تو وہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تھے، میں نے عرض کیا: اے ابوعبدالرحمن! اس وقت ملاقات کے لئے تشریف آوری؟ وہ دوپہر کا وقت تھا (اور گرمی خوب تھی)، انہوں نے فرمایا کہ آج کا دن میرے لئے بڑا لمبا ہو گیا، میں سوچنے لگا کہ کس کے پاس جا کر باتیں کروں (تمہاے بارے خیال آیا اس لئے تمہاری طرف آ گیا)۔ پھر وہ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سنانے لگے اور میں انہیں سنانے لگا، اس دوران انہوں نے یہ حدیث بھی سنائی کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: عنقریب فتنہ کا زمانہ آنے والا ہے، اس زمانے میں سویا ہوا شخص لیٹے ہوئے سے بہتر ہو گا، لیٹا ہوا بیٹھے ہوئے سے بہتر ہو گا، بیٹھا ہوا کھڑے ہوئے سے بہتر ہو گا، کھڑا ہوا چلنے والے سے بہتر ہو گا، چلنے والا سوار سے بہتر ہو گا اور سوار دوڑنے والے سے بہتر ہو گا، اس زمانے کے تمام مقتولین جہنم میں جائیں گے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ایسا کب ہو گا؟ فرمایا: وہ ہرج کے ایام ہوں گے، میں نے پوچھا کہ ہرج کے ایام سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: جب انسان کو اپنے ہم نشین سے اطمینان نہ ہو، میں نے عرض کیا کہ اگر میں ایسا زمانہ پاؤں تو آپ اس کے متعلق مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ فرمایا: اپنے نفس اور اپنے ہاتھ کو روک لو اور اپنے گھر میں گھس جاؤ، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ بتائیے کہ اگر کوئی شخص میرے گھر میں آ جائے تو کیا کروں؟ فرمایا: اپنے کمرے میں چلے جاؤ، میں نے عرض کیا کہ اگر وہ میرے کمرے میں آ جائے تو کیا کروں؟ فرمایا: اپنی مسجد میں چلے جاؤ اور اس طرح کرو، یہ کہہ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دائیں ہاتھ کی مٹھی بنا کر انگوٹھے پر رکھی اور فرمایا: یہ کہتے رہو کہ میرا رب اللہ ہے یہاں تک کہ اسی ایمان و عقیدے پر تمہیں موت آجائے۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف على نكارة فى بعض ألفاظه، الراوي عن عمرو بن وابصة مبهم فهو مجهول، وعلى القول بأنه إسحاق بن راشد كما فى الرواية التالية، فهو مختلف فيه.
حدیث نمبر: 4287
Save to word اعراب
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، إسحاق بن راشد مختلف فيه، ثم إنه لم يصرح بسماعه من عمرو ابن وابصة.
حدیث نمبر: 4288
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا ابن جريج ، حدثني عبدة بن ابي لبابة ، ان شقيق بن سلمة ، قال: سمعت ابن مسعود ، يقول: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول:" بئسما للرجل او للمرء ان يقول: نسيت سورة كيت وكيت، او آية كيت وكيت، بل هو نسي".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، حَدَّثَنِي عَبْدَةُ بْنُ أَبِي لُبَابَةَ ، أَنَّ شَقِيقَ بْنَ سَلَمَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" بِئْسَمَا لِلرَّجُلِ أَوْ لِلْمَرْءِ أَنْ يَقُولَ: نَسِيتُ سُورَةَ كَيْتَ وَكَيْتَ، أَوْ آيَةَ كَيْتَ وَكَيْتَ، بَلْ هُوَ نُسِّيَ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کسی آدمی کی یہ بات انتہائی بری ہے کہ وہ یوں کہے کہ میں فلاں فلاں آیت بھول گیا، بلکہ اسے یوں کہنا چاہئے کہ اسے فلاں آیت بھلا دی گئی ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 5039.
حدیث نمبر: 4289
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن الاعمش ، في قوله عز وجل: لقد راى من آيات ربه الكبرى سورة النجم آية 18، قال: قال ابن مسعود :" راى النبي صلى الله عليه وسلم رفرفا اخضر من الجنة قد سد الافق". ذكره عن إبراهيم ، عن علقمة ، عن عبد الله .(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: لَقَدْ رَأَى مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَى سورة النجم آية 18، قَالَ: قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ :" رَأَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَفْرَفًا أَخْضَرَ مِنَ الْجَنَّةِ قَدْ سَدَّ الْأُفُقَ". ذَكَرَهُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ .
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے آیت قرآنی: «‏‏‏‏﴿لَقَدْ رَأَى مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَى﴾» ‏‏‏‏ [النجم: 18] بلاشبہ یقیناً اس نے اپنے رب کی بعض بہت بڑی نشانیاں دیکھیں۔ کی تفسیر میں مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کا ایک سبز ریشمی لباس دیکھا (جو جبرئیل علیہ السلام نے پہن رکھا تھا) اور جس نے افق کو گھیر رکھا تھا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 3233.
حدیث نمبر: 4290
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا إسرائيل ، عن سماك ، انه سمع إبراهيم يحدث، عن علقمة ، والاسود ، عن عبد الله بن مسعود ، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا نبي الله، إني اخذت امراة في البستان، ففعلت بها كل شيء غير اني لم اجامعها، قبلتها ولزمتها، ولم افعل غير ذلك، فافعل بي ما شئت، فلم يقل له رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا، فذهب الرجل، فقال عمر: لقد ستر الله عليه، لو ستر على نفسه! قال: فاتبعه رسول الله صلى الله عليه وسلم بصره، فقال:" ردوه علي"، فردوه عليه،" فقرا عليه: واقم الصلاة طرفي النهار وزلفا من الليل إن الحسنات يذهبن السيئات سورة هود آية 114 إلى الذاكرين سورة هود آية 114، فقال معاذ بن جبل: اله وحده ام للناس كافة يا نبي الله؟ فقال:" بل للناس كافة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ سِمَاكٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ إِبْرَاهِيمَ يُحَدِّثُ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، وَالْأَسْوَدِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، إِنِّي أَخَذْتُ امْرَأَةً فِي الْبُسْتَانِ، فَفَعَلْتُ بِهَا كُلَّ شَيْءٍ غَيْرَ أَنِّي لَمْ أُجَامِعْهَا، قَبَّلْتُهَا وَلَزِمْتُهَا، وَلَمْ أَفْعَلْ غَيْرَ ذَلِكَ، فَافْعَلْ بِي مَا شِئْتَ، فَلَمْ يَقُلْ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا، فَذَهَبَ الرَّجُلُ، فَقَالَ عُمَرُ: لَقَدْ سَتَرَ اللَّهُ عَلَيْهِ، لَوْ سَتَرَ عَلَى نَفْسِهِ! قَالَ: فَأَتْبَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَصَرَهُ، فَقَالَ:" رُدُّوهُ عَلَيَّ"، فَرَدُّوهُ عَلَيْهِ،" فَقَرَأَ عَلَيْهِ: وَأَقِمِ الصَّلاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ سورة هود آية 114 إِلَى الذَّاكِرِينَ سورة هود آية 114، فَقَالَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ: أَلَهُ وَحْدَهُ أَمْ لِلنَّاسِ كَافَّةً يَا نَبِيَّ اللَّهِ؟ فَقَالَ:" بَلْ لِلنَّاسِ كَافَّةً".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے باغ میں ایک عورت مل گئی، میں نے اسے اپنی طرف گھسیٹ کر اپنے سینے سے لگا لیا اور اسے بوسہ دے دیا، اور خلوت کے علاوہ اس کے ساتھ سب ہی کچھ کیا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دیر خاموش رہے، وہ آدمی چلا گیا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ اگر یہ اپنا پردہ رکھتا تو اللہ نے اس پر اپنا پردہ رکھا ہی تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نگاہیں دوڑا کر اسے دیکھا اور فرمایا: اسے میرے پاس بلا کر لاؤ، چنانچہ لوگ اسے بلا لائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سامنے یہ آیت تلاوت فرمائی: «﴿وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ﴾» [هود: 114] دن کے دونوں حصوں اور رات کے کچھ حصے میں نماز قائم کرو، بیشک نیکیاں گناہوں کو ختم کر دیتی ہیں، یہ نصیحت ہے نصیحت پکڑنے والوں کے لئے۔ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا یہ حکم اس کے ساتھ خاص ہے؟ فرمایا: نہیں، بلکہ میری امت کے ہر اس شخص کے لئے یہی حکم ہے جس سے ایسا عمل سرزد ہو جائے۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن من أجل سماك.
حدیث نمبر: 4291
Save to word اعراب
حدثنا سريج ، حدثنا ابو عوانة ، عن سماك ، عن إبراهيم ، عن علقمة ، والاسود ... وذكر الحديث.حَدَّثَنَا سُرَيْجٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، وَالْأَسْوَدِ ... وذكر الحديث.
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن من أجل سماك.
حدیث نمبر: 4292
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا إسرائيل ، عن سماك ، عن عبد الرحمن بن عبد الله ، عن ابيه ، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" من اعان قومه على ظلم، فهو كالبعير المتردي ينزع بذنبه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ أَعَانَ قَوْمَهُ عَلَى ظُلْمٍ، فَهُوَ كَالْبَعِيرِ الْمُتَرَدِّي يَنْزِعُ بِذَنَبِهِ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص اپنے قبیلے والوں کی کسی ایسی بات پر مدد اور حمایت کرتا ہے جو ناحق اور غلط ہو، اس کی مثال اس اونٹ کی سی ہے جو کسی کنوئیں میں گر پڑے، پھر اپنی دم کے سہارے کنوئیں سے باہر نکلنا چاہے۔

حكم دارالسلام: إسناده حسن من أجل سماك إن صح سماع عبد الرحمن لهذا الحديث من أبيه، فهو إنما سمع من أبيه شيئا يسيرا.
حدیث نمبر: 4293
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن عبد الرحمن بن يزيد ، قال: افضت مع ابن مسعود من عرفة، فلما جاء المزدلفة صلى المغرب والعشاء، كل واحدة منهما باذان وإقامة، وجعل بينهما العشاء، ثم نام، فلما قال قائل: طلع الفجر، صلى الفجر، ثم قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" إن هاتين الصلاتين اخرتا عن وقتهما في هذا المكان، اما المغرب، فإن الناس لا ياتون هاهنا حتى يعتموا، واما الفجر فهذا الحين"، ثم وقف، فلما اسفر، قال: إن اصاب امير المؤمنين، دفع الآن، قال: فما فرغ عبد الله من كلامه حتى دفع عثمان.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ ، قَالَ: أَفَضْتُ مَعَ ابْنِ مَسْعُودٍ مِنْ عَرَفَةَ، فَلَمَّا جَاءَ الْمُزْدَلِفَةَ صَلَّى الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ، كُلَّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا بِأَذَانٍ وَإِقَامَةٍ، وَجَعَلَ بَيْنَهُمَا الْعَشَاءَ، ثُمَّ نَامَ، فَلَمَّا قَالَ قَائِلٌ: طَلَعَ الْفَجْرُ، صَلَّى الْفَجْرَ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِنَّ هَاتَيْنِ الصَّلَاتَيْنِ أُخِّرَتَا عَنْ وَقْتِهِمَا فِي هَذَا الْمَكَانِ، أَمَّا الْمَغْرِبُ، فَإِنَّ النَّاسَ لَا يَأْتُونَ هَاهُنَا حَتَّى يُعْتِمُوا، وَأَمَّا الْفَجْرُ فَهَذَا الْحِينُ"، ثُمَّ وَقَفَ، فَلَمَّا أَسْفَرَ، قَالَ: إِنْ أَصَابَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ، دَفَعَ الْآنَ، قَالَ: فَمَا فَرَغَ عَبْدُ اللَّهِ مِنْ كَلَامِهِ حَتَّى دَفَعَ عُثْمَانُ.
عبدالرحمن بن یزید کہتے ہیں کہ میں نے میدان عرفات سے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ کوچ کیا، جب وہ مزدلفہ پہنچے تو وہاں پہنچ کر سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ہمیں مغرب اور عشا کی نماز اذان اور اقامت کے ساتھ پڑھائی اور درمیان میں کھانا منگوا کر کھایا اور سو گئے، جب طلوع فجر کا ابتدائی وقت ہوا تو آپ بیدار ہوئے اور منہ اندھیرے ہی فجر کی نماز پڑھ لی، اور فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ ان دو نمازوں کو ان کے وقت سے مؤخر کر دیا تھا، مغرب کو تو اس لئے کہ لوگ یہاں رات ہی کو پہنچتے ہیں، اور فجر کی نماز اس وقت پڑھ لیتے تھے، پھر انہوں نے وقوف کیا اور جب روشنی پھیل گئی تو فرمانے لگے: اگر امیر المومنین اب روانہ ہو جائیں تو وہ صحیح کریں گے، چنانچہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بات پوری نہیں ہوئی تھی کہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ وہاں سے روانہ ہو گئے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 1683.
حدیث نمبر: 4294
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرني ابي ، عن ميناء ، عن عبد الله بن مسعود ، قال: كنت مع النبي صلى الله عليه وسلم ليلة وفد الجن، فلما انصرف تنفس، فقلت: ما شانك؟ فقال:" نعيت إلي نفسي يا ابن مسعود".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنِي أَبِي ، عَنْ مِينَاءَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ وَفْدِ الْجِنِّ، فَلَمَّا انْصَرَفَ تَنَفَّسَ، فَقُلْتُ: مَا شَأْنُكَ؟ فَقَالَ:" نُعِيَتْ إِلَيَّ نَفْسِي يَا ابْنَ مَسْعُودٍ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ لیلۃ الجن کے ایک واقعے میں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے واپس تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سانس پھولا ہوا تھا، میں نے پوچھا: خیر تو ہے؟ فرمایا: اے ابن مسعود! میری تو موت قریب آ گئی تھی۔

حكم دارالسلام: حديث شبه موضوع، ميناء قال فيه الدارقطني: متروك، وكذبه أبو حاتم، وقال ابن معين والنسائي: ليس بثقة، وقال العقيلي: روى عنه همام بن نافع أحاديث مناكير لا يتابع منها على شيء.

Previous    71    72    73    74    75    76    77    78    79    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.