سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تمہیں اپنے چہرے کو جہنم کی آگ سے بچانا چاہئے، خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف كسابقه.
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، قال: قرات على ابي: حدثنا علي بن عاصم ، عن الهجري ، عن ابي الاحوص ، عن عبد الله ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا جاء احدكم خادمه بطعامه، فليقعده معه، او ليناوله منه، فإنه ولي حره ودخانه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى أَبِي: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَاصِمٍ ، عَنْ الْهَجَرِيِّ ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمْ خَادِمُهُ بِطَعَامِهِ، فَلْيُقْعِدْهُ مَعَهُ، أَوْ لِيُنَاوِلْهُ مِنْهُ، فَإِنَّهُ وَلِيَ حَرَّهُ وَدُخَانَهُ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے یہ ارشاد نبوی منقول ہے کہ ”جب تم میں سے کسی کا خادم اور نوکر کھانا لے کر آئے تو اسے چاہئے کہ سب سے پہلے اسے کچھ کھلا دے، یا اپنے ساتھ بٹھا لے، کیونکہ اس نے اس کی گرمی اور دھواں برداشت کیا ہے۔“
(حديث موقوف) (حديث مرفوع) قال عبد الله بن مسعود ، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الله عز وجل لم ينزل داء إلا وقد انزل معه دواء، جهله منكم من جهله، وعلمه منكم من علمه".(حديث موقوف) (حديث مرفوع) قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ يُنْزِلْ دَاءً إِلَّا وَقَدْ أَنْزَلَ مَعَهُ دَوَاءً، جَهِلَهُ مِنْكُمْ مَنْ جَهِلَهُ، وَعَلِمَهُ مِنْكُمْ مَنْ عَلِمَهُ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ ”اللہ نے جو بیماری بھی اتاری ہے، اس کی شفا بھی اتاری ہے، جو جان لیتا ہے سو جان لیتا ہے، اور جو ناواقف رہتا ہے سو ناواقف رہتا ہے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، على بن عاصم - و إن سمع من ابن السائب بعد اختلاطه - توبع.
(حديث قدسي) حدثنا حدثنا عبد الله، قال: قرات على ابي: حدثنا معاوية بن عمرو ، قال: حدثنا زائدة ، حدثنا إبراهيم الهجري ، عن ابي الاحوص ، عن عبد الله ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" إن الله عز وجل يفتح ابواب السماء ثلث الليل الباقي، ثم يهبط إلى السماء الدنيا، ثم يبسط يده، ثم يقول: الا عبد يسالني، فاعطيه؟ حتى يسطع الفجر".(حديث قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى أَبِي: حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو ، قَالَ: حَدَّثَنَا زَائِدَةُ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ الْهَجَرِيُّ ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَفْتَحُ أَبْوَابَ السَّمَاءِ ثُلُثَ اللَّيْلِ الْبَاقِي، ثُمَّ يَهْبِطُ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، ثُمَّ يَبْسُطُ يَدَهُ، ثُمَّ يَقُولُ: أَلَا عَبْدٌ يَسْأَلُنِي، فَأُعْطِيَهُ؟ حَتَّى يَسْطَعَ الْفَجْرُ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی شان کے مطابق آسمان دنیا پر نزول اجلال فرماتے ہیں، آسمانوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور اللہ اپنے ہاتھوں کو پھیلا کر فرماتے ہیں: ”ہے کوئی مانگنے والا کہ اس کی درخواست پوری کی جائے؟“ اور یہ سلسلہ طلوع فجر تک چلتا رہتا ہے۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن فى الشواهد، إبراهيم الهجري لين الحديث.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میانہ روی سے چلنے والا کبھی محتاج اور تنگدست نہیں ہوتا۔“ فائدہ: امام احمد رحمہ اللہ کے صاحبزادے عبداللہ نے حدیث 4255 سے 4269 تک کی احادیث کے بارے فرمایا ہے کہ میں نے والد صاحب کو یہ احادیث پڑھ کر سنائی ہیں، اور اس سے آگے کی احادیث انہوں نے مجھے خود سنائی ہیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، إبراهيم الهجري لين الحديث ، سكين العبدي مختلف فيه.
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن سليمان ، عن إبراهيم ، عن ابي معمر ، عن عبد الله ، انه قال في هذه الآية: اقتربت الساعة وانشق القمر سورة القمر آية 1، فقال: قد" انشق على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فرقتين، او فلقتين شعبة الذي يشك، فكان فلقة من وراء الجبل، وفلقة على الجبل، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اللهم اشهد".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سُلَيْمَانَ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّهُ قَالَ فِي هَذِهِ الْآيَةِ: اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ سورة القمر آية 1، فَقَالَ: قَدْ" انْشَقَّ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِرْقَتَيْنِ، أَوْ فِلْقَتَيْنِ شُعْبَةُ الَّذِي يَشُكُّ، فَكَانَ فِلْقَةٌ مِنْ وَرَاءِ الْجَبَلِ، وَفِلْقَةٌ عَلَى الْجَبَلِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اللَّهُمَّ اشْهَدْ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے آیت قرآنی: «﴿اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ﴾»[القمر: 1] کی تفسیر میں مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں ایک مرتبہ چاند دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا، ایک ٹکڑا پہاڑ کے پیچھے چلا گیا اور ایک ٹکڑا پہاڑ کے اوپر رہا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! گواہ رہ۔“
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن سليمان ، عن إبراهيم ، عن علقمة ، ان ابن مسعود لقيه عثمان بعرفات، فخلا به، فحدثه، ثم إن عثمان قال لابن مسعود: هل لك في فتاة ازوجكها؟ فدعا عبد الله بن مسعود علقمة، فحدث، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" من استطاع منكم الباءة فليتزوج، فإنه اغض للبصر، واحصن للفرج، ومن لم يستطع، فليصم، فإن الصوم وجاؤه، او وجاءة له".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سُلَيْمَانَ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، أَنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ لَقِيَهُ عُثْمَانُ بِعَرَفَاتٍ، فَخَلَا بِهِ، فَحَدَّثَهُ، ثُمَّ إِنَّ عُثْمَانَ قَالَ لِابْنِ مَسْعُودٍ: هَلْ لَكَ فِي فَتَاةٍ أُزَوِّجُكَهَا؟ فَدَعَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ عَلْقَمَةَ، فَحَدَّثَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ، فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ، وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ، فَلْيَصُمْ، فَإِنَّ الصَّوْمَ وِجَاؤُهُ، أَوْ وِجَاءَةٌ لَهُ".
علقمہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ عرفات کے میدان میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی ملاقات ہو گئی، وہ ان کے ساتھ کھڑے ہو کر باتیں کرنے لگے، سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ ابوعبدالرحمن! کیا ہم آپ کی شادی کسی نوجوان لڑکی سے نہ کرا دیں؟ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے علقمہ کو بلا کر یہ حدیث بیان کی کہ ہم سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ”اے گروہ نوجواناں! تم میں سے جس میں نکاح کرنے کی صلاحیت ہو، اسے شادی کر لینی چاہیے کیونکہ نکاح نگاہوں کو جھکانے والا اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا ہے، اور جو شخص نکاح کرنے کی قدرت نہیں رکھتا اسے روزہ رکھنا اپنے اوپر لازم کر لینا چاہیے کیونکہ روزہ انسانی شہوت کو توڑ دیتا ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن سليمان ، عن إبراهيم ، ان الاسود، وعلقمة كانا مع عبد الله في الدار، فقال عبد الله : صلى هؤلاء؟ قالوا: نعم، قال:" فصلى بهم بغير اذان ولا إقامة، وقام وسطهم، وقال: إذا كنتم ثلاثة فاصنعوا هكذا، فإذا كنتم اكثر، فليؤمكم احدكم، وليضع احدكم يديه بين فخذيه إذا ركع، فليحنا. فكانما انظر إلى اختلاف اصابع رسول الله صلى الله عليه وسلم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سُلَيْمَانَ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، أَنَّ الْأَسْوَدَ، وَعَلْقَمَةَ كَانَا مَعَ عَبْدِ اللَّهِ فِي الدَّارِ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ : صَلَّى هَؤُلَاءِ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ:" فَصَلَّى بِهِمْ بِغَيْرِ أَذَانٍ وَلَا إِقَامَةٍ، وَقَامَ وَسَطَهُمْ، وَقَالَ: إِذَا كُنْتُمْ ثَلَاثَةً فَاصْنَعُوا هَكَذَا، فَإِذَا كُنْتُمْ أَكْثَرَ، فَلْيَؤُمَّكُمْ أَحَدُكُمْ، وَلْيَضَعْ أَحَدُكُمْ يَدَيْهِ بَيْنَ فَخِذَيْهِ إِذَا رَكَعَ، فَلْيَحْنَأْ. فَكَأَنَّمَا أَنْظُرُ إِلَى اخْتِلَافِ أَصَابِعِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ابراہیم کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کے گھر میں اسود اور علقمہ تھے، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے انہیں بغیر اذان اور اقامت کے نماز پڑھائی اور خود ان کے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا: جب تم تین آدمی ہوا کرو تو اسی طرح کیا کرو، اور جب تم تین سے زیادہ ہو تو تم میں سے ایک آدمی کو امامت کرنی چاہئے، اور رکوع کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو اپنی رانوں کے درمیان رکھ کر جھکنا چاہئے، کیونکہ وہ منطر میرے سامنے اب تک موجود ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیاں منتشر دیکھ رہا ہوں۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا سعيد ، عن قتادة ، عن خلاس ، وعن ابي حسان ، عن عبد الله بن عتبة بن مسعود ، عن عبد الله بن مسعود ، ان سبيعة بنت الحارث وضعت حملها بعد وفاة زوجها بخمس عشرة ليلة، فدخل عليها ابو السنابل، فقال: كانك تحدثين نفسك بالباءة؟! ما لك ذلك حتى ينقضي ابعد الاجلين. فانطلقت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاخبرته بما قال ابو السنابل، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" كذب ابو السنابل، إذا اتاك احد ترضينه، فاتيني به او قال: فانبئيني"،" فاخبرها ان عدتها قد انقضت".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ خِلَاسٍ ، وَعَنْ أَبِي حَسَّانَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، أَنَّ سُبَيْعَةَ بِنْتَ الْحَارِثِ وَضَعَتْ حَمْلَهَا بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا بِخَمْسَ عَشْرَةَ لَيْلَةً، فَدَخَلَ عَلَيْهَا أَبُو السَّنَابِلِ، فَقَالَ: كَأَنَّكِ تُحَدِّثِينَ نَفْسَكِ بِالْبَاءَةِ؟! مَا لَكِ ذَلِكَ حَتَّى يَنْقَضِيَ أَبْعَدُ الْأَجَلَيْنِ. فَانْطَلَقَتْ إِلَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَتْهُ بِمَا قَالَ أَبُو السَّنَابِلِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَذَبَ أَبُو السَّنَابِلِ، إِذَا أَتَاكِ أَحَدٌ تَرْضَيْنَهُ، فَأْتِينِي بِهِ أَوْ قَالَ: فَأَنْبِئِينِي"،" فَأَخْبَرَهَا أَنَّ عِدَّتَهَا قَدْ انْقَضَتْ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سبیعہ بنت حارث کے یہاں ان کے شوہر کی وفات کے صرف پندرہ دن بعد بچے کی ولادت ہو گئی، اس دوران ابوالسنابل ان کے یہاں گئے تو کہنے لگے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے تم دوسری شادی کرنا چاہتی ہو؟ جب تک تم لمبی مدت والی عدت نہیں گذار لیتیں، تمہارے لئے دوسری شادی کرنا جائز نہیں، سبیعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور انہیں ابوالسنابل کی بات بتائی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوالسنابل سے غلطی ہوئی، اگر تمہارے پاس کوئی ایسا رشتہ آئے جو تمہیں پسند ہو تو مجھے آ کر بتانا۔“ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بتایا کہ ان کی عدت پوری ہو چکی ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، محمد بن جعفر سمع من سعيد بن أبى عروبة بعد أختلاطه.