سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جنت تمہارے جوتوں کے تسموں سے بھی زیادہ تمہارے قریب ہے، یہی حال جہنم کا بھی ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا الاعمش ، عن إبراهيم ، عن عبيدة ، عن عبد الله ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" خير الناس قرني، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم، ثم يجيء قوم تسبق شهادتهم ايمانهم، وايمانهم شهادتهم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَبِيدَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ يَجِيءُ قَوْمٌ تَسْبِقُ شَهَادَتُهُمْ أَيْمَانَهُمْ، وَأَيْمَانُهُمْ شَهَادَتَهُمْ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”لوگوں میں سب سے بہترین وہ ہیں جو میرے زمانے میں ہیں، پھر وہ جو ان کے بعد ہوں گے، پھر وہ جو ان کے بعد ہوں گے، پھر وہ جو ان کے بعد ہوں گے، اس کے بعد ایک ایسی قوم آئے گی جس کی گواہی قسم سے آگے بڑھ جائے گی اور قسم گواہی سے آگے بڑھ جائے گی۔“
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک منہ سے سن کر ستر سورتیں پڑھی ہیں، اور سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کاتبان وحی میں سے تھے جن کی مینڈھیاں تھیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، خمير بن مالك، لم يرو عنه غير أبى إسحاق السبيعي.
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا بشير بن سلمان ، عن سيار ابي الحكم، عن طارق ، عن عبد الله ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من نزلت به فاقة فانزلها بالناس، كان قمنا من ان لا تسد حاجته، ومن انزلها بالله عز وجل، اتاه الله برزق عاجل، او موت آجل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا بَشِيرُ بْنُ سَلْمَانَ ، عَنْ سَيَّارٍ أَبِي الْحَكَمِ، عَنْ طَارِقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ نَزَلَتْ بِهِ فَاقَةٌ فَأَنْزَلَهَا بِالنَّاسِ، كَانَ قَمِنًا مِنْ أَنْ لَا تُسَدَّ حَاجَتُهُ، وَمَنْ أَنْزَلَهَا بِاللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، أَتَاهُ اللَّهُ بِرِزْقٍ عَاجِلٍ، أَوْ مَوْتٍ آجِلٍ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جس شخص کو کوئی ضرورت پیش آئے اور وہ اسے لوگوں کے سامنے بیان کرنا شروع کر دے، وہ اس بات کا مستحق ہے کہ اس کا کام آسان نہ ہو، اور جو شخص اسے اللہ کے سامنے بیان کرے تو اللہ اسے فوری رزق یا تاخیر کی موت عطا فرما دے گا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن الاعمش ، عن عمارة بن عمير التيمي ، عن وهب بن ربيعة ، عن عبد الله ، قال: إني لمستتر باستار الكعبة، إذ دخل رجلان ثقفيان، وختنهما قرشي، او قرشيان وختنهما ثقفي، كثيرة شحوم بطونهم، قليل فقه قلوبهم، فتحدثوا بحديث فيما بينهم، فقال احدهم لصاحبه: اترى الله عز وجل يسمع ما نقول؟! قال الآخر: اراه يسمع إذا رفعنا اصواتنا، ولا يسمع إذا خافتنا. قال الآخر: لئن كان يسمع منه شيئا إنه ليسمعه كله، فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فذكرت ذلك له، فانزل الله عز وجل:" وما كنتم تستترون ان يشهد عليكم سمعكم ولا ابصاركم سورة فصلت آية 22 الآية".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ الْتَيْمِي ، عَنْ وَهْبِ بْنِ رَبِيعَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: إِنِّي لَمُسْتَتِرٌ بِأَسْتَارِ الْكَعْبَةِ، إِذْ دَخَلَ رَجُلَانِ ثَقَفِيَّانِ، وَخَتَنُهُمَا قُرَشِيٌّ، أَوْ قُرَشِيَّانِ وَخَتَنُهُمَا ثَقَفِيٌّ، كَثِيرَةٌ شُحُومُ بُطُونِهِمْ، قَلِيلٌ فِقْهُ قُلُوبِهِمْ، فَتَحَدَّثُوا بِحَدِيثٍ فِيمَا بَيْنَهُمْ، فَقَالَ أَحَدُهُمْ لِصَاحِبِهِ: أَتُرَى اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَسْمَعُ مَا نَقُولُ؟! قَالَ الْآخَرُ: أُرَاهُ يَسْمَعُ إِذَا رَفَعْنَا أَصْوَاتَنَا، وَلَا يَسْمَعُ إِذَا خَافَتْنَا. قَالَ الْآخَرُ: لَئِنْ كَانَ يَسْمَعُ مِنْهُ شَيْئًا إِنَّهُ لَيَسْمَعُهُ كُلَّهُ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ:" وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَنْ يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلا أَبْصَارُكُمْ سورة فصلت آية 22 الْآيَةَ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں غلاف کعبہ سے چمٹا ہوا تھا کہ تین آدمی آئے، ان میں سے ایک قریشی تھا اور دو قبیلہ ثقیف کے جو اس کے داماد تھے، یا ایک ثقفی اور دو قریشی، ان کے پیٹ میں چربی زیادہ تھی لیکن دلوں میں سمجھ بوجھ بہت کم تھی، وہ چپکے چپکے باتیں کرنے لگے جنہیں میں نہ سن سکا، اتنی دیر میں ان میں سے ایک نے کہا: تمہارا کیا خیال ہے، کیا اللہ ہماری ان باتوں کو سن رہا ہے؟ دوسرا کہنے لگا: میرا خیال ہے کہ جب ہم اونچی آواز سے باتیں کرتے ہیں تو وہ انہیں سنتا ہے اور جب ہم اپنی آوازیں بلند نہیں کرتے تو وہ انہیں نہیں سن پاتا، تیسرا کہنے لگا: اگر وہ کچھ سن سکتا ہے تو سب کچھ بھی سن سکتا ہے، میں نے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کی تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی: «﴿وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَنْ يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَا أَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُودُكُمْ . . . . . وَذَلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِي ظَنَنْتُمْ بِرَبِّكُمْ أَرْدَاكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ مِنَ الْخَاسِرِينَ﴾»[فصلت: 22-23]”اور تم جو چیزیں چھپاتے ہو کہ تمہارے کان، آنکھیں اور کھالیں تم پر گواہ نہ بن سکیں . . . . . یہ اپنے رب کے ساتھ تمہارا گھٹیا خیال ہے اور تم نقصان اٹھانے والے ہو گئے۔“
ابوعمرو شیبانی کہتے ہیں کہ ہم سے اس گھر میں رہنے والے نے یہ حدیث بیان کی ہے، یعنی سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے، کہ ایک مرتبہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال پوچھا کہ بارگاہ الہی میں سب سے زیادہ پسندیدہ عمل کون سا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے وقت پر نماز پڑھنا۔“
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر مرتبہ جھکتے، اٹھتے، کھڑے اور بیٹھتے وقت تکبیر کہتے تھے اور سیدنا ابوبکر و سیدنا عمر رضی اللہ عنہما بھی اسی طرح کرتے تھے۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر و سیدنا عمر رضی اللہ عنہما بھی ہر مرتبہ جھکتے، اٹھتے، کھڑے اور بیٹھتے وقت تکبیر کہتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن من أجل والد وكيع، والاسناد من طريق عبدالرحمن بن الأسود منقطع، لكنه متابع بعبدالرحمن بن يزيد النخعي.