(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة. ح وحجاج ، حدثنا شعبة ، عن الوليد بن العيزار ، قال حجاج: سمعت ابا عمرو الشيباني ، وقال محمد: عن ابي عمرو الشيباني، قال: حدثنا صاحب هذه الدار واشار بيده إلى دار عبد الله ، وما سماه لنا، قال: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم: اي العمل احب إلى الله عز وجل؟ فقال:" الصلاة على وقتها" قال الحجاج: لوقتها، قال: ثم اي؟ قال:" ثم بر الوالدين"، قال: ثم اي؟ قال:" ثم الجهاد في سبيل الله"، ولو استزدته لزادني.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ. ح وَحَجَّاجٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ الْعَيْزَارِ ، قَالَ حَجَّاجٌ: سَمِعْتُ أَبَا عَمْرٍو الشَّيْبَانِيَّ ، وَقَالَ مُحَمَّدٌ: عَنْ أَبِي عَمْرٍو الشَّيْبَانِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنَا صَاحِبُ هَذِهِ الدَّارِ وَأَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى دَارِ عَبْدِ اللَّهِ ، وَمَا سَمَّاهُ لَنَا، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ؟ فَقَالَ:" الصَّلَاةُ عَلَى وَقْتِهَا" قَالَ الْحَجَّاجُ: لِوَقْتِهَا، قَالَ: ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ:" ثُمَّ بِرُّ الْوَالِدَيْنِ"، قَالَ: ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ:" ثُمَّ الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ"، وَلَوْ اسْتَزَدْتُهُ لَزَادَنِي.
ابوعمرو شیبانی کہتے ہیں کہ ہم سے اس گھر میں رہنے والے نے یہ حدیث بیان کی ہے، یہ کہہ کر انہوں نے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے گھر کی طرف اشارہ کیا اور ادب کی وجہ سے ان کا نام نہیں لیا کہ ایک مرتبہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال پوچھا کہ بارگاہ الہی میں سب سے زیادہ پسندیدہ عمل کون سا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے وقت پر نماز پڑھنا“، میں نے پوچھا: اس کے بعد؟ فرمایا: ”والدین کے ساتھ حسن سلوک“، میں نے پوچھا: اس کے بعد؟ فرمایا: ”اللہ کے راستے میں جہاد۔“ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ باتیں مجھ سے بیان فرمائیں، اگر میں مزید سوالات کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے ان کا جواب بھی مرحمت فرماتے۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن منصور ، عن ابي وائل ، عن عبد الله ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال:" لا يزال الرجل يصدق، ويتحرى الصدق، حتى يكتب صديقا، ولا يزال الرجل يكذب، ويتحرى الكذب، حتى يكتب عند الله كذابا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:" لَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَصْدُقُ، وَيَتَحَرَّى الصِّدْقَ، حَتَّى يُكْتَبَ صِدِّيقًا، وَلَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَكْذِبُ، وَيَتَحَرَّى الْكَذِبَ، حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ كَذَّابًا".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”انسان مسلسل سچ بولتا رہتا ہے اور سچ ہی کی تلاش میں رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے یہاں اسے «صديق» لکھ دیا جاتا ہے، اور انسان مسلسل جھوٹ بولتا اور اسی میں غور و فکر کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے یہاں اسے «كذاب» لکھ دیا جاتا ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن سليمان ، عن ابي وائل ، عن عبد الله ، انه قال: إني لاخبر بجماعتكم، فيمنعني الخروج إليكم خشية ان املكم، كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" يتخولنا في الايام بالموعظة، خشية السآمة علينا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سُلَيْمَانَ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّهُ قَالَ: إِنِّي لَأُخْبَرُ بِجَمَاعَتِكُمْ، فَيَمْنَعُنِي الْخُرُوجَ إِلَيْكُمْ خَشْيَةُ أَنْ أُمِلَّكُمْ، كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَتَخَوَّلُنَا فِي الْأَيَّامِ بِالْمَوْعِظَةِ، خَشْيَةَ السَّآمَةِ عَلَيْنَا".
ایک دن سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ لوگ میرا انتظار کر رہے ہیں، میں آپ کے پاس صرف اس وجہ سے نہیں آیا کہ میں آپ کو اکتاہٹ میں مبتلا کرنا اچھا نہیں سمجھتا، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی وعظ و نصحیت میں اسی وجہ سے بعض دنوں کو خالی چھوڑ دیتے تھے کہ وہ بھی ہمارے اکتا جانے کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن سليمان ، ومنصور ، وحماد ، والمغيرة ، وابي هاشم ، عن ابي وائل ، عن عبد الله ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال في التشهد:" التحيات لله، والصلوات والطيبات، السلام عليك ايها النبي ورحمة الله وبركاته، السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين، اشهد ان لا إله إلا الله، وان محمدا عبده ورسوله".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سُلَيْمَانَ ، وَمَنْصُورٍ ، وَحَمَّادٍ ، وَالْمُغِيرَةِ ، وأَبي هاشم ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ فِي التَّشَهُّدِ:" التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ، وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تشہد کے یہ کلمات سکھائے ہیں: «التَّحِيَّاتُ لِلّٰهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَكَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللّٰهِ الصَّالِحِينَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ»”تمام قولی، بدنی اور مالی عبادتیں اللہ ہی کے لئے ہیں، اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ پر سلامتی ہو اور اللہ کی رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہو، ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر سلامتی نازل ہو، میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، حدثنا سفيان ، عن منصور ، والاعمش ، عن ابي وائل ، عن عبد الله ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" إذا كنتم ثلاثة، فلا ينتجي اثنان دون واحد، ولا تباشر المراة المراة فتنعتها لزوجها، حتى كانه ينظر إليها"، قال: ارى منصورا، قال: إلا ان يكون بينهما ثوب.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، والأعمش ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا كُنْتُمْ ثَلَاثَةً، فَلَا يَنْتَجِي اثْنَانِ دُونَ وَاحِدٍ، وَلَا تُبَاشِرُ الْمَرْأَةُ الْمَرْأَةَ فَتَنْعَتَهَا لِزَوْجِهَا، حَتَّى كَأَنَّهُ يَنْظُرُ إِلَيْهَا"، قَالَ: أُرَى مَنْصُورًا، قَالَ: إِلَّا أَنْ يَكُونَ بَيْنَهُمَا ثَوْبٌ.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب تم تین آدمی ہو تو تیسرے کو چھوڑ کر دو آدمی سرگوشی نہ کرنے لگا کرو کیونکہ اس سے تیسرے کو غم ہو گا، اور کوئی عورت کسی عورت کے ساتھ اپنا برہنہ جسم نہ لگائے کہ اپنے شوہر کے سامنے اس کی جسمانی ساخت اس طرح سے بیان کرے کہ گویا وہ اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہو۔“
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ شام کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہتے تھے: «أَمْسَيْنَا وَأَمْسَى الْمُلْكُ لِلّٰهِ وَالْحَمْدُ لِلّٰهِ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ»”ہم نے شام کی اور شام کے وقت بھی حکومت اللہ ہی کی ہے اور تمام تعریفیں بھی اللہ کے لئے ہیں، اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔“
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جسے خواب میں میری زیارت نصیب ہو جائے اسے یقین کر لینا چاہئے کہ اس نے میری ہی زیارت کی ہے، کیونکہ شیطان میری شکل و صورت اختیار کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔“
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بدشگونی شرک ہے، بدشگونی شرک ہے، لیکن اللہ اسے توکل کے ذریعے ختم کر دے گا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن ، عن سفيان ، عن ابي قيس ، عن هزيل ، قال: جاء رجل إلى ابي موسى، وسلمان بن ربيعة، فسالهما عن ابنة، وابنة ابن، واخت، فقالا: للابنة النصف، وللاخت النصف، وات عبد الله، فإنه سيتابعنا، فاتى عبد الله ، فاخبره، فقال: قد ضللت إذا وما انا من المهتدين، لاقضين فيها بقضاء رسول الله صلى الله عليه وسلم، او قال: قضاء رسول الله صلى الله عليه وسلم كذا قال سفيان:" للابنة النصف، ولابنة الابن السدس، وما بقي فللاخت".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ أَبِي قَيْسٍ ، عَنْ هُزَيْلٍ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى أَبِي مُوسَى، وَسَلْمَانَ بْنِ رَبِيعَةَ، فَسَأَلَهُمَا عَنِ ابْنَةٍ، وَابْنَةِ ابْنٍ، وأخت، فقالا: للابنة النصف، وللأخت النصف، وأت عبد الله، فإنه سيتابعنا، فأتى عبد الله ، فأخبره، فقال: قد ضللت إذا وما أَنَا مِنَ الْمُهْتَدِينَ، لَأَقْضِيَنَّ فِيهَا بِقَضَاءِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ قَالَ: قَضَاءَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَذَا قَالَ سُفْيَانُ:" لِلْابْنَةِ النِّصْفُ، وَلِابْنَةِ الِابْنِ السُّدُسُ، وَمَا بَقِيَ فَلِلْأُخْتِ".
ہزیل بن شرحبیل کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ اور سیدنا سلمان بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے یہ مسئلہ پوچھا کہ اگر کسی شخص کے ورثا میں ایک بیٹی، ایک پوتی اور ایک حقیقی بہن ہو تو تقسیم وراثت کس طرح ہو گی؟ ان دونوں نے جواب دیا کہ کل مال کا نصف بیٹی کو مل جائے گا اور دوسرا نصف بہن کو، اور تم سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس جا کر ان سے بھی یہ مسئلہ پوچھ لو، وہ ہماری موافقت اور تائید کریں گے، چنانچہ وہ شخص سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آ گیا اور ان سے وہ مسئلہ پوچھا اور مذکورہ حضرات کا جواب بھی نقل کیا، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر میں نے بھی یہی فتوی دیا تو میں گمراہ ہو جاؤں گا اور ہدایت یافتگان میں سے نہ رہوں گا، میں وہی فیصلہ کروں گا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا، بیٹی کو کل مال کا نصف ملے گا، پوتی کو چھٹا حصہ تاکہ دو ثلث مکمل ہو جائیں اور جو باقی بچے گا وہ بہن کو مل جائے گا۔