(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة. ح ويحيى ، عن شعبة ، عن ابي إسحاق ، عن عمرو بن ميمون ، عن عبد الله ، انه قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في قبة نحوا من اربعين، قال:" اترضون ان تكونوا ربع اهل الجنة؟"، قال: قلنا: نعم، قال:" اترضون ان تكونوا ثلث اهل الجنة؟" فقلنا: نعم، فقال:" والذي نفس محمد بيده، إني لارجو ان تكونوا نصف اهل الجنة، وذاك ان الجنة لا يدخلها إلا نفس مسلمة، وما انتم من اهل الشرك إلا كالشعرة البيضاء في جلد الثور الاسود، او الشعرة السوداء في جلد الثور الاحمر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ. ح وَيَحْيَى ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّهُ قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قُبَّةٍ نَحْوًا مِنْ أَرْبَعِينَ، قَالَ:" أَتَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا رُبُعَ أَهْلِ الْجَنَّةِ؟"، قَالَ: قُلْنَا: نَعَمْ، قَالَ:" أَتَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا ثُلُثَ أَهْلِ الْجَنَّةِ؟" فَقُلْنَا: نَعَمْ، فَقَالَ:" وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ تَكُونُوا نِصْفَ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَذَاكَ أَنَّ الْجَنَّةَ لَا يَدْخُلُهَا إِلَّا نَفْسٌ مُسْلِمَةٌ، وَمَا أَنْتُمْ مِنْ أَهْلِ الشِّرْكِ إِلَّا كَالشَّعْرَةِ الْبَيْضَاءِ فِي جِلْدِ الثَّوْرِ الْأَسْوَدِ، أَوْ الشَّعْرَةِ السَّوْدَاءِ فِي جِلْدِ الثَّوْرِ الْأَحْمَرِ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک خیمے میں چالیس کے قریب افراد بیٹھے ہوئے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم اس بات پر خوش اور راضی ہو کہ تم تمام اہل جنت کا ایک چوتھائی حصہ ہو؟“ ہم نے عرض کیا: جی ہاں! پھر پوچھا: ”کیا ایک تہائی حصہ ہونے پر خوش ہو؟“ ہم نے پھر اثبات میں جواب دیا، فرمایا: ”اس ذات کی قسم! جس کے دست قدرت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے، مجھے امید ہے کہ تم تمام اہل جنت کا نصف ہو گے، کیونکہ جنت میں صرف وہی شخص داخل ہو سکے گا جو مسلمان ہو، اور شرک کے ساتھ تمہاری نسبت ایسی ہی ہے جیسے سیاہ بیل کی کھال میں سفید بال، یا سرخ بیل کی کھال میں سیاہ بال ہوتے ہیں۔“
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عمرو بن مرة ، قال: سمعت عبد الله بن سلمة ، يقول: سمعت عبد الله بن مسعود ، يقول:" اوتي نبيكم صلى الله عليه وسلم مفاتيح كل شيء غير الخمس: إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث ويعلم ما في الارحام وما تدري نفس ماذا تكسب غدا وما تدري نفس باي ارض تموت إن الله عليم خبير سورة لقمان آية 34". قال: قلت له: انت سمعته من عبد الله، قال: نعم، اكثر من خمسين مرة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَلَمَةَ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ ، يَقُولُ:" أُوتِيَ نَبِيُّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَفَاتِيحَ كُلِّ شَيْءٍ غَيْرَ الْخَمْسِ: إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ سورة لقمان آية 34". قَالَ: قُلْتُ لَهُ: أَنْتَ سَمِعْتَهُ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: نَعَمْ، أَكْثَرَ مِنْ خَمْسِينَ مَرَّةً.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر چیز کی کنجیاں دے دی گئی ہیں سوائے پانچ چیزوں کے، پھر انہوں نے یہ آیت تلاوت فرمائی: «﴿إِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللّٰهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ﴾» [لقمان: 34]”قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے، وہی بارش برساتا ہے، وہی جانتا ہے کہ رحم مادر میں کیا ہے؟ کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کمائے گا؟ اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کس علاقے میں مرے گا؟ بیشک اللہ بڑا جاننے والا باخبر ہے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ىحتمل التحسين .
رقم الحديث: 4027 (حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، قال: سمعت يحيى بن المجبر ، قال: سمعت ابا ماجد يعني الحنفي ، قال: كنت قاعدا مع عبد الله ، قال: إني لاذكر اول رجل قطعه، اتي بسارق، فامر بقطعه، وكانما اسف وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: قالوا: يا رسول الله، كانك كرهت قطعه؟ قال:" وما يمنعني، لا تكونوا عونا للشيطان على اخيكم، إنه ينبغي للإمام إذا انتهى إليه حد ان يقيمه، إن الله عز وجل عفو يحب العفو: وليعفوا وليصفحوا الا تحبون ان يغفر الله لكم والله غفور رحيم سورة النور آية 22".رقم الحديث: 4027 (حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ الْمُجَبِّرِ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا مَاجِدٍ يَعْنِي الْحَنَفِيَّ ، قَالَ: كُنْتُ قَاعِدًا مَعَ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: إِنِّي لَأَذْكُرُ أَوَّلَ رَجُلٍ قَطَعَهُ، أُتِيَ بِسَارِقٍ، فَأَمَرَ بِقَطْعِهِ، وَكَأَنَّمَا أُسِفَّ وَجْهُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَأَنَّكَ كَرِهْتَ قَطْعَهُ؟ قَالَ:" وَمَا يَمْنَعُنِي، لَا تَكُونُوا عَوْنًا لِلشَّيْطَانِ عَلَى أَخِيكُمْ، إِنَّهُ يَنْبَغِي لِلْإِمَامِ إِذَا انْتَهَى إِلَيْهِ حَدٌّ أَنْ يُقِيمَهُ، إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ عَفُوٌّ يُحِبُّ الْعَفْوَ: وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا أَلا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ سورة النور آية 22".
ابوماجد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے یاد ہے کہ اسلام میں سب سے پہلے ایک آدمی کا ہاتھ کاٹا گیا تھا، جس نے چوری کی تھی، لوگ اسے لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس نے چوری کی ہے، جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کا رنگ اڑ گیا، کسی نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ہوا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ اپنے ساتھی کے متعلق شیطان کے مددگار ثابت ہوئے، جبکہ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا اور معافی کو پسند فرماتا ہے، اور کسی حاکم کے لئے یہ جائز نہیں کہ اس کے پاس حد کا کوئی مقدمہ آئے اور وہ اسے نافذ نہ کرے“، پھر یہ آیت تلاوت فرمائی: «﴿وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا أَلَا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْ وَاللّٰهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ﴾»[النور: 22]”انہیں معاف کرنا اور درگزر کرنا چاہیے تھا، کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں معاف کر دے اور اللہ بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔“
حكم دارالسلام: حسن بشواهده، وهذا إسناد ضعيف، أبو ماجد الحنفي مجهول، وقال البخاري والنسائي: منكر الحديث.
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن سلمة بن كهيل ، عن إبراهيم بن سويد ، وكان إمام مسجد علقمة بعد علقمة، قال:" صلى بنا علقمة الظهر، فلا ادري اصلى ثلاثا ام خمسا، فقيل له: فقال: وانت يا اعور؟ فقلت: نعم، قال: فسجد سجدتين"، ثم حدث علقمة ، عن عبد الله ، عن النبي صلى الله عليه وسلم... مثل ذلك.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سُوَيْدٍ ، وَكَانَ إِمَامَ مَسْجِدِ عَلْقَمَةَ بَعْدَ عَلْقَمَةَ، قَالَ:" صَلَّى بِنَا عَلْقَمَةُ الظُّهْرَ، فَلَا أَدْرِي أَصَلَّى ثَلَاثًا أَمْ خَمْسًا، فَقِيلَ لَهُ: فَقَالَ: وَأَنْتَ يَا أَعْوَرُ؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ"، ثُمَّ حَدَّثَ عَلْقَمَةُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ... مِثْلَ ذَلِكَ.
ابراہیم بن سوید - جو علقمہ کے بعد ان کی مسجد کے امام تھے - کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہمیں سیدنا علقمہ رضی اللہ عنہ نے ظہر کی نماز پڑھائی، مجھے یاد نہیں کہ انہوں نے تین رکعتیں پڑھائیں یا پانچ، لوگوں نے ان سے کہا تو انہوں نے مجھ سے پوچھا: اے اعور! تمہاری کیا رائے ہے؟ میں نے عرض کیا کہ لوگ ٹھیک کہتے ہیں، اس پر انہوں نے سجدہ سہو کر لیا اور اس کے بعد سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے حوالے سے حدیث سنائی۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بدشگونی شرک ہے، ہم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں ہے، لیکن یہ کہ اللہ اسے توکل کے ذریعے ختم کر دے گا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن جابر ، عن ابي الضحى ، عن مسروق ، عن عبد الله ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، انه كان" يسلم عن يمينه وعن شماله، حتى ارى بياض وجهه، فما نسيت بعد فيما نسيت: السلام عليكم ورحمة الله، السلام عليكم ورحمة الله".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ أَبِي الضُّحَى ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ كَانَ" يُسَلِّمُ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ، حَتَّى أَرَى بَيَاضَ وَجْهِهِ، فَمَا نَسِيتُ بَعْدُ فِيمَا نَسِيتُ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں جو باتیں بھول گیا، سو بھول گیا، لیکن یہ بات نہیں بھولا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اختتام نماز پر دائیں اور بائیں جانب سلام پھیرتے ہوئے السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہتے تھے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخساروں کی سفیدی دکھائی دیتی تھی۔
حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف جابر الجعفي.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”لوگوں میں سب سے بہترین وہ ہیں جو میرے زمانے میں ہیں، پھر وہ جو ان کے بعد ہوں گے، پھر وہ جو ان کے بعد ہوں گے، پھر وہ جو ان کے بعد ہوں گے، اس کے بعد ایک ایسی قوم آئے گی جس کی گواہی قسم سے آگے بڑھ جائے گی اور قسم گواہی سے آگے بڑھ جائے گی۔“
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، قال: كتب إلي منصور ، وقراته عليه، قال: حدثني إبراهيم ، عن علقمة ، عن عبد الله ، قال:" صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة لا ادري زاد ام نقص، إبراهيم القائل: لا يدري، علقمة، قال: زاد او نقص، او عبد الله، ثم استقبلنا، فحدثناه بصنيعه، فثنى رجله، واستقبل القبلة، وسجد سجدتين، ثم اقبل علينا بوجهه، فقال:" لو حدث في الصلاة شيء لانباتكموه، ولكن إنما انا بشر انسى كما تنسون، فإن نسيت فذكروني، وايكم ما شك في صلاته، فليتحر اقرب ذلك للصواب، فليتم عليه ويسلم، ثم يسجد سجدتين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: كَتَبَ إِلَيَّ مَنْصُورٌ ، وَقَرَأْتُهُ عَلَيْهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ:" صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةً لَا أَدْرِي زَادَ أَمْ نَقَصَ، إِبْرَاهِيمُ الْقَائِلُ: لَا يَدْرِي، عَلْقَمَةُ، قَالَ: زَادَ أَوْ نَقَصَ، أَوْ عَبْدُ اللَّهِ، ثُمَّ اسْتَقْبَلَنَا، فَحَدَّثْنَاهُ بِصَنِيعِهِ، فَثَنَى رِجْلَهُ، وَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ، وَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ، فَقَالَ:" لَوْ حَدَثَ فِي الصَّلَاةِ شَيْءٌ لَأَنْبَأْتُكُمُوهُ، وَلَكِنْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ أَنْسَى كَمَا تَنْسَوْنَ، فَإِنْ نَسِيتُ فَذَكِّرُونِي، وَأَيُّكُمْ مَا شَكَّ فِي صَلَاتِهِ، فَلْيَتَحَرَّ أَقْرَبَ ذَلِكَ لِلصَّوَابِ، فَلْيُتِمَّ عَلَيْهِ وَيُسَلِّمْ، ثُمَّ يَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی نماز پڑھائی، مجھے یہ یاد نہیں کہ اس میں کچھ کمی ہو گئی یا بیشی؟ بہرحال! جب سلام پھیرا تو ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا، یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاؤں موڑے اور سہو کے دو سجدے کر لئے، پھر ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا: ”اگر نماز کے حوالے سے کوئی نیا حکم آیا ہوتا تو میں تمہیں ضرور متنبہ کرتا، بات یہ ہے کہ میں بھی انسان ہوں، جس طرح تم بھول جاتے ہو، میں بھی بھول سکتا ہوں، اگر میں بھول جاؤں تو تم مجھے یاد کرا دیا کرو، اور تم میں سے کسی کو جب کبھی اپنی نماز میں شک پیدا ہو جائے تو وہ خوب غور کر کے محتاط رائے کو اختیار کر لے اور سلام پھیر کر سہو کے دو سجدے کر لے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن منصور ، عن ابي وائل ، عن عبد الله ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال:" إذا كنتم ثلاثة، فلا يتناج اثنان دون صاحبهما،، اجل يحزنه، ولا تباشر المراة المراة، اجل تنعتها لزوجها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:" إِذَا كُنْتُمْ ثَلَاثَةً، فَلَا يَتَنَاجَ اثْنَانِ دُونَ صَاحِبِهِمَا،، أَجْلَ يُحْزِنُهُ، وَلَا تُبَاشِرْ الْمَرْأَةُ الْمَرْأَةَ، أَجْلَ تَنْعَتُهَا لِزَوْجِهَا".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب تم تین آدمی ہو تو تیسرے کو چھوڑ کر دو آدمی سرگوشی نہ کرنے لگا کرو کیونکہ اس سے تیسرے کو غم ہو گا، اور کوئی عورت کسی عورت کے ساتھ اپنا برہنہ جسم نہ لگائے کہ اپنے شوہر کے سامنے اس کی جسمانی ساخت اس طرح سے بیان کرے کہ گویا وہ اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہو۔“