(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، وحجاج ، قالا: حدثنا شعبة ، ويزيد ، اخبرنا المسعودي ، عن سماك بن حرب ، عن عبد الرحمن بن عبد الله ، عن عبد الله بن مسعود ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال قال حجاج: كنا عند النبي صلى الله عليه وسلم، فقال قال يزيد: جمعنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ونحن اربعون، فكنت في آخر من اتاه، قال:" إنكم منصورون، ومصيبون، ومفتوح لكم، فمن ادرك ذلك فليتق الله، وليامر بالمعروف، ولينه عن المنكر، ومن كذب علي متعمدا، فليتبوا مقعده من النار"، قال يزيد:" وليصل رحمه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، وَحَجَّاجٌ ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، وَيَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا الْمَسْعُودِيُّ ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ قَالَ حَجَّاجٌ: كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ قَالَ يَزِيدُ: جَمَعَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ أَرْبَعُونَ، فَكُنْتُ فِي آخِرِ مَنْ أَتَاهُ، قَالَ:" إِنَّكُمْ مَنْصُورُونَ، وَمُصِيبُونَ، وَمَفْتُوحٌ لَكُمْ، فَمَنْ أَدْرَكَ ذَلِكَ فَلْيَتَّقِ اللَّهَ، وَلْيَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ، وَلْيَنْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ، وَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ"، قَالَ يَزِيدُ:" وَلْيَصِلْ رَحِمَهُ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں جمع فرمایا، اس وقت ہم لوگ چالیس افراد تھے، میں ان میں سب سے آخر میں آیا تھا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم لوگ فتح و نصرت حاصل کرنے والے ہو، تم میں سے جو شخص اس زمانے کو پائے، اسے چاہئے کہ اللہ سے ڈرے، اچھی باتوں کا حکم کرے اور بری باتوں سے روکے، اور جو شخص جان بوجھ کر میری طرف کسی بات کی جھوٹی نسبت کرے گا اسے جہنم میں اپنا ٹھکانا بنا لینا چاہئے۔“ یزید کے بقول یہ اضافہ بھی ہے کہ ”اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے۔“
حكم دارالسلام: إسناده حسن، إن صح سماع عبدالرحمن بن عبدالله لهذا الحديث من أبيه، فقد سمع منه شيئا يسيرا.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اس شخص کو تر و تازہ رکھے جو ہم سے حدیث سن کر اسے یاد کرے، اور اسے آگے پہنچا دے، کیونکہ بہت سے سننے والوں سے زیادہ اسے محفوظ کرنے والے وہ لوگ ہوتے ہیں جن تک وہ حدیث پہنچائی جاتی ہے۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن إن صح سماع عبد الرحمن بن عبدالله لهذا الحديث من أبيه.
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، وحجاج ، قال: حدثني شعبة ، قال حجاج، قال: سمعت عقبة بن وساج ، عن ابي الاحوص ، عن عبد الله ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال:" فضل صلاة الرجل في الجميع على صلاته وحده، خمس وعشرون درجة"، قال حجاج: ولم يرفعه شعبة لي، وقد رفعه لغيري، قال: انا اهاب ان ارفعه، لان عبد الله قلما كان يرفع إلى النبي صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، وَحَجَّاجٌ ، قال: حدثني شعبة ، قال حجاج، قَالَ: سَمِعْتُ عُقْبَةَ بْنَ وَسَّاجٍ ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:" فَضْلُ صَلَاةِ الرَّجُلِ فِي الْجَمِيعِ عَلَى صَلَاتِهِ وَحْدَهُ، خَمْسٌ وَعِشْرُونَ دَرَجَةً"، قَالَ حَجَّاجٌ: وَلَمْ يَرْفَعْهُ شُعْبَةُ لِي، وَقَدْ رَفَعَهُ لِغَيْرِي، قَالَ: أَنَا أَهَابُ أَنْ أَرْفَعَهُ، لِأَنَّ عَبْدَ اللَّهِ قَلَّمَا كَانَ يَرْفَعُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تنہا نماز پڑھنے پر جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی فضیلت پچیس درجے زیادہ ہے۔“
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تنہا نماز پڑھنے پر جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی فضیلت پچیس درجے زیادہ ہے، اور ان میں سے ہر ایک درجہ اس کی نماز کی طرح ہو گا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، قال: سمعت ابا إسحاق يحدث، عن ابي الاحوص ، عن عبد الله بن مسعود ، انه قال:" إن محمدا صلى الله عليه وسلم علم فواتح الخير وجوامعه وخواتمه".(حديث موقوف) (حديث مرفوع) فقال:" إذا قعدتم في كل ركعتين، فقولوا:" التحيات لله، والصلوات والطيبات، السلام عليك ايها النبي ورحمة الله وبركاته، السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين، اشهد ان لا إله إلا الله، واشهد ان محمدا عبده ورسوله، ثم ليتخير احدكم من الدعاء اعجبه إليه، فليدع به ربه، عز وجل". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وإن محمدا صلى الله عليه وسلم، قال:" الا انبئكم ما العضه؟" قال:" هي النميمة القالة بين الناس". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وإن محمدا صلى الله عليه وسلم، قال:" إن الرجل يصدق حتى يكتب صديقا، ويكذب حتى يكتب كذابا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاقَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، أَنَّهُ قَالَ:" إِنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُلِّمَ فَوَاتِحَ الْخَيْرِ وَجَوَامِعَهُ وَخَوَاتِمَهُ".(حديث موقوف) (حديث مرفوع) فَقَالَ:" إِذَا قَعَدْتُمْ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ، فَقُولُوا:" التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ، وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، ثُمَّ لِيَتَخَيَّرْ أَحَدُكُمْ مِنَ الدُّعَاءِ أَعْجَبَهُ إِلَيْهِ، فَلْيَدْعُ بِهِ رَبَّهُ، عَزَّ وَجَلَّ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وَإِنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" أَلَا أُنَبِّئُكُمْ مَا الْعَضْهُ؟" قَالَ:" هِيَ النَّمِيمَةُ الْقَالَةُ بَيْنَ النَّاسِ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وَإِنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ الرَّجُلَ يَصْدُقُ حَتَّى يُكْتَبَ صِدِّيقًا، وَيَكْذِبُ حَتَّى يُكْتَبَ كَذَّابًا".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خیر کے جامع، افتتاحی اور اختتامی کلمات عطا فرمائے گئے تھے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم دو رکعتوں پر بیٹھا کرو تو یوں کہا کرو: «التَّحِيَّاتُ لِلّٰهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَكَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللّٰهِ الصَّالِحِينَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ»”تمام قولی، فعلی اور بدنی عبادتیں اللہ ہی کے لئے ہیں، اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ پر سلامتی ہو اور اللہ کی رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہو، ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر سلامتی نازل ہو، میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں“، اور اس کے بعد جو دعا اسے اچھی لگے وہ مانگے۔“ اور ایک موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ «عضه» کیا چیز ہوتی ہے؟ اس سے مراد وہ چغلی ہوتی ہے جو لوگوں کے درمیان نفرت پیدا کر دے۔“ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”انسان مسلسل سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے یہاں اسے «صديق» لکھ دیا جاتا ہے، اور اسی طرح انسان مسلسل جھوٹ بولتا رہتا ہے تو اللہ کے یہاں اسے «كذاب» لکھ دیا جاتا ہے۔“ اور ایک موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ '' عضہ " کیا چیز ہوتی ہے؟ اس سے مراد وہ چغلی ہوتی ہے جو لوگوں کے درمیان نفرت پیدا کر دے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انسان مسلسل سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے یہاں اسے صدیق لکھ دیا جاتا ہے اور اسی طرح انسان مسلسل جھوٹ بولتا رہتا ہے تو اللہ کے یہاں اسے کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے: «اللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْهُدَى وَالتُّقَى وَالْعَفَافَ وَالْغِنَى»”اے اللہ! میں تجھ سے ہدایت، تقوی، عفت اور غنا (مخلوق کے سامنے عدم احتیاج) کا سوال کرتا ہوں۔“
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت کو اس طرح پڑھتے تھے: «﴿وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ﴾» [القمر: 17] ۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، وعفان ، قالا: حدثنا شعبة ، عن ابي إسحاق . قال عفان: اخبرنا ابو إسحاق، عن الاسود وقال محمد: عن ابي إسحاق، قال: سمعت الاسود يحدث، عن عبد الله ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه" قرا النجم، فسجد بها، وسجد من كان معه"، غير ان شيخا اخذ كفا من حصى، او تراب، فرفعه إلى جبهته، وقال: يكفيني هذا!! قال عبد الله: لقد رايته بعد قتل كافرا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، وَعَفَّانُ ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ . قَالَ عَفَّانُ: أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، عَنِ الْأَسْوَدِ وَقَالَ مُحَمَّدٌ: عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ الْأَسْوَدَ يُحَدِّثُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ" قَرَأَ النَّجْمَ، فَسَجَدَ بِهَا، وَسَجَدَ مَنْ كَانَ مَعَهُ"، غَيْرَ أَنَّ شَيْخًا أَخَذَ كَفًّا مِنْ حَصًى، أَوْ تُرَابٍ، فَرَفَعَهُ إِلَى جَبْهَتِهِ، وَقَالَ: يَكْفِينِي هَذَا!! قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: لَقَدْ رَأَيْتُهُ بَعْدُ قُتِلَ كَافِرًا.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ نجم کے آخر میں سجدہ تلاوت کیا اور تمام مسلمانوں نے بھی سجدہ کیا، سوائے قریش کے ایک آدمی کے جس نے ایک مٹھی بھر کر مٹی اٹھائی اور اسے اپنی پیشانی کی طرف بڑھا کر اس پر سجدہ کر لیا، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بعد میں، میں نے اسے دیکھا کہ وہ کفر کی حالت میں مارا گیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن ابي إسحاق ، عن ابي عبيدة ، عن عبد الله ، قال: مر بي رسول الله وانا اصلي، فقال:" سل تعطه يا ابن ام عبد"، فقال عمر: فابتدرت انا وابو بكر، فسبقني إليه ابو بكر، وما استبقنا إلى خير، إلا سبقني إليه ابو بكر.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: مَرَّ بِي رَسُولُ اللَّهِ وَأَنَا أُصَلِّي، فَقَالَ:" سَلْ تُعْطَهْ يَا ابْنَ أُمِّ عَبْدٍ"، فَقَالَ عُمَرُ: فَابْتَدَرْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ، فَسَبَقَنِي إِلَيْهِ أَبُو بَكْرٍ، وَمَا اسْتَبَقْنَا إِلَى خَيْرٍ، إِلَّا سَبَقَنِي إِلَيْهِ أَبُو بَكْرٍ.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نماز پڑھ رہا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ہوا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دور ہی سے فرمایا: ”اے ابن ام عبد! مانگو تمہیں دیا جائے گا“، یہ خوشخبری مجھ تک پہنچانے میں حضرات شیخین کے درمیان مسابقت ہوئی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے جس معاملے میں بھی مسابقت کی وہ اس میں سبقت لے گئے، بہرحال! انہوں نے بتایا کہ میں اس دعا کو کبھی ترک نہیں کرتا: «اللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ نَعِيمًا لَا يَبِيدُ وَقُرَّةَ عَيْنٍ لَا تَنْفَدُ وَمُرَافَقَةَ النَّبِيِّ مُحَمَّدٍ فِي أَعْلَى الْجَنَّةِ جَنَّةِ الْخُلْدِ»”اے اللہ! میں آپ سے ایسی نعمتوں کا سوال کرتا ہوں جو کبھی ختم نہ ہوں، آنکھوں کی ایسی ٹھنڈک جو کبھی فنا نہ ہو، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جنت الخلد میں رفاقت کا سوال کرتا ہوں۔“
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، أبو عبيدة لم يسمع من أبيه ابن مسعود.