سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی بےوقت نماز پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا، البتہ مزدلفہ میں مغرب اور عشا کو اور اسی دن کی فجر کو اپنے وقت سے آگے پیچھے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن ، عن سفيان ، عن الاعمش ، عن عبد الله بن مرة ، عن ابي الاحوص ، عن عبد الله ، قال:" لان احلف تسعا ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قتل قتلا، احب إلي من ان احلف واحدة انه لم يقتل، وذلك ان الله عز وجل جعله نبيا، واتخذه شهيدا"، قال: فذكرت ذلك لإبراهيم، فقال: كانوا يرون، ويقولون إن اليهود سموه، وابا بكر رضي الله عنه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ:" لَأَنْ أَحْلِفَ تِسْعًا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُتِلَ قَتْلًا، أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَحْلِفَ وَاحِدَةً أَنَّهُ لَمْ يُقْتَلْ، وَذَلِكَ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ جَعَلَهُ نَبِيًّا، وَاتَّخَذَهُ شَهِيدًا"، قَالَ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِإِبْرَاهِيمَ، فَقَالَ: كَانُوا يَرَوْنَ، وَيَقُولُونَ إِنَّ الْيَهُودَ سَمُّوهُ، وَأَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے نو مرتبہ اس بات پر قسم کھانا زیادہ پسند ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوئے، بہ نسبت اس کے کہ میں ایک مرتبہ قسم کھاؤں کہ وہ شہید نہیں ہوئے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ نے انہیں اپنا نبی بھی بنایا ہے اور انہیں شہید بھی قرار دیا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الملك بن عمرو ، حدثنا سفيان . ح وعبد الرزاق ، اخبرنا سفيان ، عن ابي إسحاق ، عن ابي عبيدة ، عن عبد الله ، قال: لما نزلت فسبح بحمد ربك واستغفره إنه كان توابا سورة النصر آية 3 قال عبد الرزاق لما نزلت: إذا جاء نصر الله والفتح، كان النبي صلى الله عليه وسلم يكثر ان يقول:" سبحانك اللهم وبحمدك، اللهم اغفر لي، إنك انت التواب".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ . ح وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا سورة النصر آية 3 قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ لَمَّا نَزَلَتْ: إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ، كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكْثِرُ أَنْ يَقُولَ:" سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي، إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سورہ نصر نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سے یہ دعا کرنے لگے: «سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِكَ اللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِي إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ»”اے اللہ! تو پاک ہے، اور سب تعریف تیرے لیے ہے، اے اللہ! مجھے بخش دے کیونکہ تو ہی توبہ قبول کرنے والا بڑا مہربان ہے۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه ، أبو عبيدة لم يسمع من أبيه أبن مسعود.
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن ، عن إسرائيل ، عن السدي ، عن مرة ، عن عبد الله : وإن منكم إلا واردها سورة مريم آية 71، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يرد الناس النار كلهم، ثم يصدرون عنها باعمالهم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ إِسْرَائِيلَ ، عَنْ السُّدِّيِّ ، عَنْ مُرَّةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ : وَإِنْ مِنْكُمْ إِلا وَارِدُهَا سورة مريم آية 71، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَرِدُ النَّاسُ النَّارَ كُلُّهُمْ، ثُمَّ يَصْدُرُونَ عَنْهَا بِأَعْمَالِهِمْ".
سیدنا عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ”تم میں سے ہر شخص جہنم میں وارد ہو گا“ کی تفسیر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر انسان جہنم میں داخل ہو گا، بعد میں اپنے اعمال کے مطابق وہاں سے نکل آئے گا۔“
حكم دارالسلام: إسناده حسن، إسماعيل السدي، مختلف فيه، وحديثه لا يرقي إلى الصحة.
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن بن مهدي . ح وحدثنا يزيد ، اخبرنا حماد بن زيد ، عن عاصم بن ابي النجود ، عن ابي وائل ، عن عبد الله بن مسعود ، قال:" خط لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم خطا، ثم قال:" هذا سبيل الله"، ثم خط خطوطا عن يمينه وعن شماله، ثم قال:" هذه سبل قال يزيد: متفرقة على كل سبيل منها شيطان يدعو إليه"، ثم قرا: وان هذا صراطي مستقيما فاتبعوه ولا تتبعوا السبل فتفرق بكم عن سبيله سورة الانعام آية 153".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ . ح وَحَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ:" خَطَّ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطًّا، ثُمَّ قَالَ:" هَذَا سَبِيلُ اللَّهِ"، ثُمَّ خَطَّ خُطُوطًا عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ، ثُمَّ قَالَ:" هَذِهِ سُبُلٌ قَالَ يَزِيدُ: مُتَفَرِّقَةٌ عَلَى كُلِّ سَبِيلٍ مِنْهَا شَيْطَانٌ يَدْعُو إِلَيْهِ"، ثُمَّ قَرَأَ: وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ سورة الأنعام آية 153".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے ایک لکیر کھینچی اور فرمایا کہ ”یہ اللہ کا راستہ ہے“، پھر اس کے دائیں بائیں کچھ اور لکیریں کھینچیں اور فرمایا کہ یہ ”مختلف راستے ہیں جن میں سے ہر راستے پر شیطان بیٹھا ہے اور ان راستوں پر چلنے کی دعوت دے رہا ہے“، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: «﴿وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ﴾»[الأنعام: 153]”یہ میرا سیدھا راستہ ہے سو اس کی پیروی کرو، دوسرے راستوں کے پیچھے نہ پڑو، ورنہ تم اللہ کے راستے سے بھٹک جاؤ گے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن ، حدثنا زائدة ، عن عاصم ، عن شقيق ، عن عبد الله ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" إن من شرار الناس من تدركه الساعة وهم احياء، ومن يتخذ القبور مساجد".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِنَّ مِنْ شِرَارِ النَّاسِ مَنْ تُدْرِكُهُ السَّاعَةُ وَهُمْ أَحْيَاءٌ، وَمَنْ يَتَّخِذُ الْقُبُورَ مَسَاجِدَ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ”سب سے بدترین لوگ وہ ہوں گے جو اپنی زندگی میں قیامت کا زمانہ پائیں گے، یا وہ جو قبرستان کو سجدہ گاہ بنا لیں۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن ، حدثنا زائدة ، عن عاصم ، عن شقيق ، عن عبد الله ، قال: كنا نتكلم في الصلاة، ويسلم بعضنا على بعض، ويوصي احدنا بالحاجة، فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فسلمت عليه وهو يصلي، فلم يرد علي، فاخذني ما قدم، وما حدث، فلما صلى، قال:" إن الله عز وجل يحدث من امره ما شاء، وإنه قد احدث ان لا تكلموا في الصلاة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كُنَّا نَتَكَلَّمُ فِي الصَّلَاةِ، وَيُسَلِّمُ بَعْضُنَا عَلَى بَعْضٍ، وَيُوصِي أَحَدُنَا بِالْحَاجَةِ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ وَهُوَ يُصَلِّي، فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ، فَأَخَذَنِي مَا قَدُمَ، وَمَا حَدُثَ، فَلَمَّا صَلَّى، قَالَ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُحْدِثُ مِنْ أَمْرِهِ مَا شَاءَ، وَإِنَّهُ قَدْ أَحْدَثَ أَنْ لَا تَكَلَّمُوا فِي الصَّلَاةِ".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ابتدا میں ہم لوگ نماز کے دوران بات چیت اور سلام کر لیتے تھے، اور ایک دوسرے کو ضرورت کے مطابق بتا دیتے تھے، ایک دن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور انہیں سلام کیا تو انہوں نے جواب نہ دیا، مجھے نئے پرانے خیالات نے گھیر لیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ ”اللہ تعالیٰ جو نیا حکم دینا چاہتا ہے دے دیتا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ نیا حکم نازل فرمایا ہے کہ دوران نماز بات چیت نہ کیا کرو۔“