(حديث قدسي) حدثنا وكيع ، حدثنا عمر بن ذر ، عن العيزار بن جرول الحضرمي عن رجل منهم يكنى ابا عمير ، انه كان صديقا لعبد الله بن مسعود، وإن عبد الله بن مسعود زاره في اهله، فلم يجده، قال: فاستاذن على اهله، وسلم، فاستسقى، قال: فبعثت الجارية تجيئه بشراب من الجيران، فابطات، فلعنتها، فخرج عبد الله ، فجاء ابو عمير، فقال: يا ابا عبد الرحمن، ليس مثلك يغار عليه، هلا سلمت على اهل اخيك، وجلست واصبت من الشراب؟ قال: قد فعلت، فارسلت الخادم، فابطات، إما لم يكن عندهم، وإما رغبوا فيما عندهم، فابطات الخادم، فلعنتها، وسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إن اللعنة إلى من وجهت إليه، فإن اصابت عليه سبيلا، او وجدت فيه مسلكا، وإلا قالت: يا رب، وجهت إلى فلان، فلم اجد عليه سبيلا، ولم اجد فيه مسلكا، فيقال لها: ارجعي من حيث جئت"، فخشيت ان تكون الخادم معذورة، فترجع اللعنة، فاكون سببها.(حديث قدسي) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ ذَرٍّ ، عَنْ الْعَيْزَارِ بْنِ جَرْوَلٍ الْحَضْرَمِيِّ عَنْ رَجُلٍ مِنْهُمْ يُكْنَى أَبَا عُمَيْرٍ ، أَنَّهُ كَانَ صَدِيقًا لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَإِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ زَارَهُ فِي أَهْلِهِ، فَلَمْ يَجِدْهُ، قَالَ: فَاسْتَأْذَنَ عَلَى أَهْلِهِ، وَسَلَّمَ، فَاسْتَسْقَى، قَالَ: فَبَعَثَتْ الْجَارِيَةَ تَجِيئُهُ بِشَرَابٍ مِنَ الْجِيرَانِ، فَأَبْطَأَتْ، فَلَعَنَتْهَا، فَخَرَجَ عَبْدُ اللَّهِ ، فَجَاءَ أَبُو عُمَيْرٍ، فَقَالَ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، لَيْسَ مِثْلُكَ يُغَارُ عَلَيْهِ، هَلَّا سَلَّمْتَ عَلَى أَهْلِ أَخِيكَ، وَجَلَسْتَ وَأَصَبْتَ مِنَ الشَّرَابِ؟ قَالَ: قَدْ فَعَلْتُ، فَأَرْسَلَتْ الْخَادِمَ، فَأَبْطَأَتْ، إِمَّا لَمْ يَكُنْ عِنْدَهُمْ، وَإِمَّا رَغِبُوا فِيمَا عِنْدَهُمْ، فَأَبْطَأَتْ الْخَادِمُ، فَلَعَنَتْهَا، وَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ اللَّعْنَةَ إِلَى مَنْ وُجِّهَتْ إِلَيْهِ، فَإِنْ أَصَابَتْ عَلَيْهِ سَبِيلًا، أَوْ وَجَدَتْ فِيهِ مَسْلَكًا، وَإِلَّا قَالَتْ: يَا رَبِّ، وُجِّهْتُ إِلَى فُلَانٍ، فَلَمْ أَجِدْ عَلَيْهِ سَبِيلًا، وَلَمْ أَجِدْ فِيهِ مَسْلَكًا، فَيُقَالُ لَهَا: ارْجِعِي مِنْ حَيْثُ جِئْتِ"، فَخَشِيتُ أَنْ تَكُونَ الْخَادِمُ مَعْذُورَةً، فَتَرْجِعَ اللَّعْنَةُ، فَأَكُونَ سَبَبَهَا.
ابوعمیر کہتے ہیں کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا ایک دوست تھا، ایک مرتبہ وہ اس سے ملنے کے لئے اس کے گھر گئے، لیکن وہاں اس سے ملاقات نہ ہو سکی، انہوں نے اس کے اہل خانہ سے اجازت لی اور سلام کیا اور ان سے پینے کے لئے پانی منگوایا، گھر والوں نے ہمسایوں سے پانی لینے کے لئے باندی کو بھیجا، اس نے آنے میں تاخیر کر دی تو اس عورت نے اس پر لعنت بھیجی، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ اسی وقت اس گھر سے نکل آئے، اتنی دیر میں ابوعمیر آ گئے اور کہنے لگے: اے ابوعبدالرحمن! آپ جیسے شخص کے گھر میں آنے پر غیرت مندی نہیں دکھائی جا سکتی (کیونکہ آپ کی طرف سے ہمیں مکمل اطمینان ہے) آپ اپنے بھائی کے گھر میں داخل ہو کر بیٹھے کیوں نہیں، اور پانی وغیرہ بھی نہیں پیا؟ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے ایسا ہی کیا تھا، اہل خانہ نے ایک نوکرانی کو پانی لانے کے لئے بھیجا، اسے آنے میں دیر ہو گئی، یا تو اس وجہ سے کہ اسے جن لوگوں کے پاس بھیجا گیا تھا ان کے پاس بھی پانی نہیں ہو گا، یا تھوڑا ہونے کی وجہ سے وہ خود اس کے ضرورت مند ہوں گے، ادھر اہل خانہ نے اس پر لعنت بھیجی اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ”جس شخص پر لعنت بھیجی گئی ہو، لعنت اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے، اگر وہاں تک پہنچنے کا راستہ مل جائے تو وہ اس پر واقع ہو جاتی ہے ورنہ بارگاہ الٰہی میں عرض کرتی ہے کہ پروردگار! مجھے فلاں شخص کی طرف متوجہ کیا گیا لیکن میں نے اس تک پہنچنے کا راستہ نہ پایا، اب کیا کروں؟ اس سے کہا جاتا ہے کہ جہاں سے آئی ہے وہیں واپس چلی جا۔“ مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں خادمہ کو کوئی عذر پیش آگیا ہو اور وہ لعنت واپس پلٹ کر یہیں آ جائے اور میں اس کا سبب بن جاؤں۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، عن ابي إسحاق ، عن ابي الاحوص ، عن ابن مسعود ، قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم" علم فواتح الخير وجوامعه او جوامع الخير وفواتحه وإنا كنا لا ندري ما نقول في صلاتنا، حتى علمنا، فقال: قولوا:" التحيات لله والصلوات والطيبات، السلام عليك ايها النبي، ورحمة الله وبركاته السلام علينا، وعلى عباد الله الصالحين، اشهد ان لا إله إلا الله، واشهد ان محمدا عبده ورسوله".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" عُلِّمَ فَوَاتِحَ الْخَيْرِ وَجَوَامِعَهُ أَوْ جَوَامِعَ الْخَيْرِ وَفَوَاتِحَهُ وَإِنَّا كُنَّا لَا نَدْرِي مَا نَقُولُ فِي صَلَاتِنَا، حَتَّى عُلِّمْنَا، فَقَالَ: قُولُوا:" التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ، وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا، وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خیر و بھلائی سے متعلق افتتاحی اور جامع چیزیں سکھائی گئی تھیں، مثلا ہمیں یہ معلوم نہیں تھا کہ ہمیں نماز میں کیا پڑھنا چاہئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھایا کہ یوں کہا کرو: «التَّحِيَّاتُ لِلّٰهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَكَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللّٰهِ الصَّالِحِينَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ»”تمام قولی، فعلی اور بدنی عبادتیں اللہ ہی کے لئے ہیں، اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ پر سلامتی ہو اور اللہ کی رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہو، ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر سلامتی نازل ہو، میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔“
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دائیں بائیں اس طرح سلام پھیرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک رخساروں کی سفیدی دکھائی دیتی تھی۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں ہر دوست کی دوستی سے بیزاری ظاہر کرتا ہوں، اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بناتا، اور تمہارا پیغمبر اللہ تعالیٰ کا خلیل ہے۔“
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سود کھانے والا اور کھلانے والا، اسے تحریر کرنے والا اور اس کے گواہ جب کہ وہ جانتے بھی ہوں، اور حسن کے لئے جسم گودنے اور گدوانے والی عورتیں، زکوٰۃ چھپانے والے اور ہجرت کے بعد مرتد ہوجانے والے دیہاتی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی قیامت کے دن تک کے لئے ملعون قرار دیئے گئے ہیں۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث ابراہیم سے ذکر کی تو انہوں نے علقمہ کے حوالے سے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کیا کہ سود کھانے والا اور کھلانے والا دونوں برابر ہیں۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، الحارث بن عبدالله، وإن كان ضعيفا قد توبع، وأصله فى م: 1597.
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا سفيان ، عن خصيف ، عن ابي عبيدة ، عن عبد الله ، قال:" كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فصف صفا خلفه، وصف موازي العدو، قال: وهم في صلاة كلهم، قال: وكبر وكبروا جميعا، فصلى بالصف الذي يليه ركعة، وصف موازي العدو، قال: ثم ذهب هؤلاء، وجاء هؤلاء، فصلى بهم ركعة، ثم قام هؤلاء الذين صلى بهم الركعة الثانية، فقضوا مكانهم، ثم ذهب هؤلاء إلى مصاف هؤلاء، وجاء اولئك فقضوا ركعة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ خُصَيْفٍ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ:" كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَفَّ صَفَّا خَلْفَهُ، وَصَفٌّ مُوَازِي الْعَدُوِّ، قَالَ: وَهُمْ فِي صَلَاةٍ كُلُّهُمْ، قَالَ: وَكَبَّرَ وَكَبَّرُوا جَمِيعًا، فَصَلَّى بِالصَّفِّ الَّذِي يَلِيهِ رَكْعَةً، وَصَفٌّ مُوَازِي الْعَدُوِّ، قَالَ: ثُمَّ ذَهَبَ هَؤُلَاءِ، وَجَاءَ هَؤُلَاءِ، فَصَلَّى بِهِمْ رَكْعَةً، ثُمَّ قَامَ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ صَلَّى بِهِمْ الرَّكْعَةَ الثَّانِيَةَ، فَقَضَوْا مَكَانَهُمْ، ثُمَّ ذَهَبَ هَؤُلَاءِ إِلَى مَصَافِّ هَؤُلَاءِ، وَجَاءَ أُولَئِكَ فَقَضَوْا رَكْعَةً".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز خوف پڑھائی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دو صفوں میں کھڑے ہو گئے، ایک صف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے، اور دوسری صف دشمن کے سامنے، مجموعی طور پر وہ سب نماز ہی میں تھے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر کہی اور ان کے ساتھ سب لوگوں نے تکبیر کہی، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے صف میں کھڑے ہوئے لوگوں کو ایک رکعت پڑھائی، پھر یہ لوگ کھڑے ہو کر چلے گئے اور ان لوگوں کی جگہ جا کر دشمن کے سامنے کھڑے ہو گئے، اور دوسری صف والے آگئے اور پہلی صف والوں کی جگہ کھڑے ہو گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی ایک رکعت پڑھائی اور خود سلام پھیر دیا، پھر ان لوگوں نے کھڑے ہو کر خود ہی ایک رکعت پڑھی اور سلام پھیر کر پہلی صف والوں کی جگہ جا کر دشمن کے سامنے کھڑے ہو گئے، اور پہلی صف والوں نے اپنی جگہ واپس آ کر ایک رکعت پڑھی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه ، أبو عبيدة لم يسمع من أبيه عبدالله.
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا سفيان ، عن جابر ، عن عبد الرحمن بن الاسود ، عن الاسود ، عن عبد الله ، ان النبي صلى الله عليه وسلم" صلى الظهر، او العصر خمسا، ثم سجد سجدتي السهو، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هاتان السجدتان لمن ظن منكم انه زاد، او نقص".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ ، عَنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" صَلَّى الظُّهْرَ، أَوْ الْعَصْرَ خَمْسًا، ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْ السَّهْوِ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَاتَانِ السَّجْدَتَانِ لِمَنْ ظَنَّ مِنْكُمْ أَنَّهُ زَادَ، أَوْ نَقَصَ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر یا عصر کی پانچ رکعتیں پڑھا دیں، پھر معلوم ہونے پر سہو کے دو سجدے کر لئے اور فرمایا کہ ”یہ دو سجدے اس شخص کے لئے ہیں جسے نماز میں کسی کمی بیشی کا اندیشہ ہو۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا سفيان ، عن الاعمش ، عن إبراهيم ، قال: قال عبد الله : كنا نسلم على النبي صلى الله عليه وسلم في الصلاة، حتى رجعنا من عند النجاشي، فسلمنا عليه، فلم يرد علينا، وقال:" إن في الصلاة شغلا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ : كُنَّا نُسَلِّمُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصَّلَاةِ، حَتَّى رَجَعْنَا مِنْ عِنْدِ النَّجَاشِيِّ، فَسَلَّمْنَا عَلَيْهِ، فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْنَا، وَقَالَ:" إِنَّ فِي الصَّلَاةِ شُغْلًا".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ابتدا میں ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دوران نماز سلام کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواب دے دیتے تھے، لیکن جب ہم نجاشی کے یہاں سے واپس آئے اور انہیں سلام کیا تو انہوں نے جواب نہ دیا اور فرمایا: ”دراصل نماز میں مشغولیت ہوتی ہے۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 1199، م: 538، وهذا إسناد ظاهرة الانقطاع، إبراهيم النخعي لم يسمع من ابن مسعود.
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن فضيل ، حدثنا مطرف ، عن ابي الجهم ، عن ابي الرضراض ، عن عبد الله بن مسعود ، قال: كنت اسلم على رسول الله صلى الله عليه وسلم في الصلاة، فيرد علي، فلما كان ذات يوم، سلمت عليه، فلم يرد علي، فوجدت في نفسي، فلما فرغ، قلت: يا رسول الله، إني إذا كنت سلمت عليك في الصلاة رددت علي؟ قال: فقال:" إن الله عز وجل يحدث في امره ما يشاء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، حَدَّثَنَا مُطَرِّفٌ ، عَنْ أَبِي الْجَهْمِ ، عَنْ أَبِي الرَّضْرَاضِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: كُنْتُ أُسَلِّمُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصَّلَاةِ، فَيَرُدُّ عَلَيَّ، فَلَمَّا كَانَ ذَاتَ يَوْمٍ، سَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ، فَوَجَدْتُ فِي نَفْسِي، فَلَمَّا فَرَغَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي إِذَا كُنْتُ سَلَّمْتُ عَلَيْكَ فِي الصَّلَاةِ رَدَدْتَ عَلَيَّ؟ قَالَ: فَقَالَ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُحْدِثُ فِي أَمْرِهِ مَا يَشَاءُ".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دوران نماز سلام کرتا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواب دے دیتے تھے، لیکن ایک دن میں نے انہیں سلام کیا تو انہوں نے جواب نہ دیا، مجھے اس کا بڑا رنج ہوا، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! پہلے تو میں دوران نماز آپ کو سلام کرتا تھا تو آپ سلام کا جواب دے دیتے تھے؟ فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اپنے معاملات میں جس طرح چاہتا ہے، نیا حکم بھیج دیتا ہے۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن فى المتابعات. وانظر ما قبله.