سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی احسان جتانے والا اور کوئی والدین کا نافرمان اور کوئی عادی شرابی جنت میں داخل نہ ہو گا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة جابان
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن منصور ، عن هلال بن يساف ، عن ابي يحيى الاعرج ، عن عبد الله بن عمرو بن العاص ، قال: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صلاة الرجل قاعدا؟ فقال:" على النصف من صلاته قائما". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قال: قال: وابصر رسول الله صلى الله عليه وسلم قوما يتوضئون لم يتموا الوضوء، فقال:" اسبغوا" يعني الوضوء" ويل للعراقيب من النار"، او" الاعقاب".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ ، عَنْ أَبِي يَحْيَى الْأَعْرَجِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَلَاةِ الرَّجُلِ قَاعِدًا؟ فَقَالَ:" عَلَى النِّصْفِ مِنْ صَلَاتِهِ قَائِمًا". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ: قَالَ: وَأَبْصَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَوْمًا يَتَوَضَّئُونَ لَمْ يُتِمُّوا الْوُضُوءَ، فَقَالَ:" أَسْبِغُوا" يَعْنِي الْوُضُوءَ" وَيْلٌ لِلْعَرَاقِيبِ مِنَ النَّارِ"، أَوْ" الْأَعْقَابِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیٹھ کر نوافل پڑھنے کا حکم پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیٹھ کر نماز پڑھنے کا ثواب کھڑے ہو کر پڑھنے سے آدھا ہے؟“ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہاری طرح نہیں ہوں۔“ سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو وضو کرتے ہوئے دیکھا کہ وہ اچھی طرح وضو نہیں کر رہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایڑیوں کے لئے جہنم کی آگ سے ہلاکت ہے اعضاء وضو کو اچھی طرح مکمل دھویا کرو۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، والحديث قسمان: أما قسم صلاة القاعد: فأخرجه مسلم: 735، وأما قسم إسباغ الوضوء... أخرجه مسلم : 241 أيضاً
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن فراس ، عن الشعبي ، عن عبد الله بن عمرو ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال:" الكبائر: الإشراك بالله عز وجل، وعقوق الوالدين، او قتل النفس شعبة الشاك، واليمين الغموس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ فِرَاسٍ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:" الْكَبَائِرُ: الْإِشْرَاكُ بِاللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ، أَوْ قَتْلُ النَّفْسِ شُعْبَةُ الشَّاكُّ، وَالْيَمِينُ الْغَمُوسُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کبیرہ گناہ یہ ہے کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا (کسی کو قتل کرنا) اور جھوٹی قسم کھانا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن احمد، حدثنا محمد بن ابي بكر المقدمي ، حدثنا ابو معشر البراء ، حدثني صدقة بن طيسلة ، حدثني معن بن ثعلبة المازني ، والحي بعد، قال: حدثني الاعشى المازني ، قال: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فانشدته: يا مالك الناس وديان العرب إني لقيت ذربة من الذرب غدوت ابغيها الطعام في رجب فخلفتني بنزاع وهرب اخلفت العهد ولطت بالذنب وهن شر غالب لمن غلب قال": فجعل يقول النبي صلى الله عليه وسلم عند ذلك:" وهن شر غالب لمن غلب".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ بن أحمد، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو مَعْشَرٍ الْبَرَّاءُ ، حَدَّثَنِي صَدَقَةُ بْنُ طَيْسَلَةَ ، حَدَّثَنِي مَعْنُ بْنُ ثَعْلَبَةَ الْمَازِنِيُّ ، وَالْحَيُّ بَعْدُ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْأَعْشَى الْمَازِنِيُّ ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْشَدْتُهُ: يَا مَالِكَ النَّاسِ وَدَيَّانَ الْعَرَبْ إِنِّي لَقِيتُ ذِرْبَةً مِنَ الذِّرَبْ غَدَوْتُ أَبْغِيهَا الطَّعَامَ فِي رَجَبْ فَخَلَّفَتْنِي بِنِزَاعٍ وَهَرَبْ أَخْلَفَتْ الْعَهْدَ وَلَطَّتْ بِالذَّنَبْ وَهُنَّ شَرُّ غَالِبٍ لِمَنْ غَلَبْ قَالَ": فَجَعَلَ يَقُولُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ:" وَهُنَّ شَرُّ غَالِبٍ لِمَنْ غَلَبْ".
سیدنا اعشی مازنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ اشعار پیش کئے جن کا ترجمہ یہ ہے اے لوگوں کے بادشاہ اور عرب کو دینے والے میں ایک بدزبان عورت سے ملا، میں رجب کے مہینے میں اس کے لئے کھانے کی تلاش میں نکلا پیچھے سے اس نے جھگڑے اور راہ فرار کا منظر دکھایا، اس نے وعدہ خلافی کی اور دم سے مارا یہ عورتیں غالب آنے والا شر ہیں اس شخص کے لئے بھی جو ہمیشہ دوسروں پر غالب رہے یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کا آخری جملہ دہرانے لگے کہ یہ عورتیں غالب آنے والا شر ہیں اس شخص کے لئے بھی جو ہمیشہ دوسروں پر غالب رہے۔ فائدہ۔ اس کی مکمل وضاحت اگلی روایت میں آرہی ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة حال صدقة بن طيسلة ومعن بن ثعلبة
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن احمد، حدثني العباس بن عبد العظيم العنبري ، حدثنا ابو سلمة عبيد بن عبد الرحمن الحنفي ، حدثني الجنيد بن امين بن ذروة بن نضلة بن طريف بن بهصل الحرمازي ، حدثني ابي امين بن ذروة ، عن ابيه ذروة بن نضلة ، عن ابيه نضلة بن طريف ، ان رجلا منهم، يقال له: الاعشى، واسمه عبد الله بن الاعور، كانت عنده امراة يقال لها: معاذة، خرج في رجب يمير اهله من هجر، فهربت امراته بعده، ناشزا عليه، فعاذت برجل منهم، يقال له: مطرف بن بهصل بن كعب بن قميشع بن دلف بن اهضم بن عبد الله بن بهصل، فجعلها خلف ظهره، فلما قدم ولم يجدها في بيته، واخبر انها نشزت عليه، وانها عاذت بمطرف بن بهصل، فاتاه، فقال: يا ابن عم، اعندك امراتي معاذة؟ فادفعها إلي، قال: ليست عندي، ولو كانت عندي لم ادفعها إليك، قال: وكان مطرف اعز منه، فخرج حتى اتى النبي صلى الله عليه وسلم فعاذ به، وانشا يقول: يا سيد الناس وديان العرب إليك اشكو ذربة من الذرب كالذئبة الغبشاء في ظل السرب خرجت ابغيها الطعام في رجب فخلفتني بنزاع وهرب اخلفت العهد ولطت بالذنب وقذفتني بين عيص مؤتشب وهن شر غالب لمن غلب فقال النبي صلى الله عليه وسلم عند ذلك:" وهن شر غالب لمن غلب"، فشكا إليه امراته وما صنعت به، وانها عند رجل منهم يقال له: مطرف بن بهصل، فكتب له النبي صلى الله عليه وسلم:" إلى مطرف، انظر امراة هذا معاذة، فادفعها إليه"، فاتاه كتاب النبي صلى الله عليه وسلم، فقرئ عليه، فقال لها: يا معاذة، هذا كتاب النبي صلى الله عليه وسلم فيك، فانا دافعك إليه، قالت: خذ لي عليه العهد والميثاق وذمة نبيه لا يعاقبني فيما صنعت، فاخذ لها ذاك عليه، ودفعها مطرف إليه، فانشا يقول: لعمرك ما حبي معاذة بالذي يغيره الواشي ولا قدم العهد ولا سوء ما جاءت به إذ ازالها غواة الرجال إذ يناجونها بعدي.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ بن أحمد، حَدَّثَنِي الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ عُبَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحَنَفِيُّ ، حَدَّثَنِي الْجُنَيْدُ بْنُ أَمِينِ بْنِ ذِرْوَةَ بْنِ نَضْلَةَ بْنِ طَرِيفِ بْنِ بُهْصُلٍ الْحِرْمَازِيُّ ، حَدَّثَنِي أَبِي أَمِيْنُ بْنُ ذِرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ذِرْوَةَ بْنِ نَضْلَةَ ، عَنْ أَبِيهِ نَضْلَةَ بْنِ طَرِيفٍ ، أَنَّ رَجُلًا مِنْهُمْ، يُقَالُ لَهُ: الْأَعْشَى، وَاسْمُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْأَعْوَرِ، كَانَتْ عِنْدَهُ امْرَأَةٌ يُقَالُ لَهَا: مُعَاذَةُ، خَرَجَ فِي رَجَبٍ يَمِيرُ أَهْلَهُ مِنْ هَجَرَ، فَهَرَبَتْ امْرَأَتُهُ بَعْدَهُ، نَاشِزًا عَلَيْهِ، فَعَاذَتْ بِرَجُلٍ مِنْهُمْ، يُقَالُ لَهُ: مُطَرِّفُ بْنُ بُهْصُلِ بْنِ كَعْبِ بْنِ قَمَيْشَعِ بْنِ دُلَفَ بْنِ أَهْضَمَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بَنْ بُهْصُل، فَجَعَلَهَا خَلْفَ ظَهْرِهِ، فَلَمَّا قَدِمَ وَلَمْ يَجِدْهَا فِي بَيْتِهِ، وَأُخْبِرَ أَنَّهَا نَشَزَتْ عَلَيْهِ، وَأَنَّهَا عَاذَتْ بِمُطَرِّفِ بْنِ بُهْصُلٍ، فَأَتَاهُ، فَقَالَ: يَا ابْنَ عَمِّ، أَعِنْدَكَ امْرَأَتِي مُعَاذَةُ؟ فَادْفَعْهَا إِلَيَّ، قَالَ: لَيْسَتْ عِنْدِي، وَلَوْ كَانَتْ عِنْدِي لَمْ أَدْفَعْهَا إِلَيْكَ، قَالَ: وَكَانَ مُطَرِّفٌ أَعَزَّ مِنْهُ، فَخَرَجَ حَتَّى أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَاذَ بِهِ، وَأَنْشَأَ يَقُولُ: يَا سَيِّدَ النَّاسِ وَدَيَّانَ الْعَرَبْ إِلَيْكَ أَشْكُو ذِرْبَةً مِنَ الذِّرَبْ كَالذِّئْبَةِ الْغَبْشَاءِ فِي ظِلِّ السَّرَبْ خَرَجْتُ أَبْغِيهَا الطَّعَامَ فِي رَجَبْ فَخَلَّفَتْنِي بِنِزَاعٍ وَهَرَبْ أَخْلَفَتْ الْعَهْدَ وَلَطَّتْ بِالذَّنَبْ وَقَذَفَتْنِي بَيْنَ عِيصٍ مُؤْتَشَبْ وَهُنَّ شَرُّ غَالِبٍ لِمَنْ غَلَبْ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ:" وَهُنَّ شَرُّ غَالِبٍ لِمَنْ غَلَبْ"، فَشَكَا إِلَيْهِ امْرَأَتَهُ وَمَا صَنَعَتْ بِهِ، وَأَنَّهَا عِنْدَ رَجُلٍ مِنْهُمْ يُقَالُ لَهُ: مُطَرِّفُ بْنُ بُهْصُلٍ، فَكَتَبَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِلَى مُطَرِّفٍ، انْظُرْ امْرَأَةَ هَذَا مُعَاذَةَ، فَادْفَعْهَا إِلَيْهِ"، فَأَتَاهُ كِتَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُرِئَ عَلَيْهِ، فَقَالَ لَهَا: يَا مُعَاذَةُ، هَذَا كِتَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيكِ، فَأَنَا دَافِعُكِ إِلَيْهِ، قَالَتْ: خُذْ لِي عَلَيْهِ الْعَهْدَ وَالْمِيثَاقَ وَذِمَّةَ نَبِيِّهِ لَا يُعَاقِبُنِي فِيمَا صَنَعْتُ، فَأَخَذَ لَهَا ذَاكَ عَلَيْهِ، وَدَفَعَهَا مُطَرِّفٌ إِلَيْهِ، فَأَنْشَأَ يَقُولُ: لَعَمْرُكَ مَا حُبِّي مُعَاذَةَ بِالَّذِي يُغَيِّرُهُ الْوَاشِي وَلَا قِدَمُ الْعَهْدِ وَلَا سُوءُ مَا جَاءَتْ بِهِ إِذْ أَزَالَهَا غُوَاةُ الرِّجَالِ إِذْ يُنَاجُونَهَا بَعْدِي.
نظلہ بن طریف کہتے ہیں کہ ان کے قبیلے کا ایک آدمی تھا جسے اعشی کہا جاتا تھا اس کا اصل نام عبداللہ بن اعور تھا اس کے نکاح میں جو عورت تھی اس کا نام معاذہ تھا ایک مرتبہ اعشی رجب کے مہینے میں ہجر نامی علاقے سے اپنے اہل خانہ کے لئے غلہ لانے کے لئے روانہ ہوا پیچھے سے اس کی بیوی اس سے ناراض ہو کر گھر سے بھاگ گئی اور اپنے قبیلے کے ایک آدمی کے یہاں پناہ لی جس کا نام مطرف بن بہصل۔۔۔۔۔۔ تھا اس نے اسے اپنی پناہ فراہم کر دی۔ جب اعشی واپس آیا تو گھر میں بیوی نہ ملی پتہ چلا کہ وہ ناراض ہو کر گھربھاگ گئی ہے اور اب مطرف بن بہصل کی پناہ میں ہے اعشی یہ سن کر مطرف کے پاس آیا اور کہنے لگا اے میرے چچازادبھائی! کیا میری بیوی معاذہ آپ کے پاس ہے؟ اسے میرے حوالے کر دیں اس نے نے کہا کہ وہ میرے پاس نہیں ہے اگر ہوتی بھی تو میں اسے تیرے حوالے نہ کرتا مطرف دراصل اس کی نسبت زیادہ طاقتور تھا چنانچہ اعشی وہاں سے نکل کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ اشعار کہتے ہوئے ان کی پناہ چاہی اے لوگوں کے سردار اور عرب کو دینے والے! میں آپ کے پاس ایک بدزبان عورت کی شکایت لے کر آیا ہوں وہ اس مادہ بھیڑیے کی طرح ہے جو سراب کے سائے میں دھوکہ دے دیتی ہے ماہ رجب میں اس کے لئے غلہ کی تلاش میں نکلا تھا اس نے پیچھے سے مجھے جھگڑے اور راہ فرار کا منظر دکھایا اس نے وعدہ خلافی کی اور اپنی دم ماری اور اس نے مجھے سخت مشکل میں مبتلا کر دیا اور یہ عورتیں غالب آنے والا شر ہیں اس شخص کے لئے بھی جو ہمیشہ غالب رہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کا یہ آخری جملہ دہرانے لگے کہ یہ عورتیں غالب آنے والا شر ہیں اس شخص کے لئے بھی جو ہمیشہ دوسروں پر غالب رہے اس کے بعد اعشی نے اپنی بیوی کی شکایت کی اور اس کا سارا کارنامہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا اور یہ بھی کہ اب وہ انہی کے قبیلے کے ایک آدمی کے پاس ہے جس کا نام مطرف بن بہصل ہے اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مطرف کو یہ خط لکھا کہ دیکھو اس شخص کی بیوی معاذہ کو اس کے حوالے کر دو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خط جب اس کے پاس پہنچا اور اسے پڑھ کر سنایا گیا تو اس نے اس عورت سے کہا کہ معاذہ یہ تمہارے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خط ہے اس لئے میں تمہیں اس کے حوالے کر رہا ہوں اس نے کہا کہ اس سے میرے لئے عہد و پیمان لے لئے اور اسے اس کے حوالے کر دیا اس پر اعشی نے یہ اشعار کہے تیری عمر کی قسم معاذہ تجھ سے میری محبت ایسی نہیں ہے جسے کوئی رنگ بدل سکے یا زمانہ کا بعد اسے متغیر کر سکے اور نہ ہی اس حرکت کی برائی جو اس سے صادر ہوئی جبکہ اسے بہکے ہوئے لوگوں نے پھسلا لیا اور میرے پیچھے اس سے سرگوشیاں کرتے رہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا معمر ، اخبرنا ابن شهاب . وعبد الرزاق ، قال: اخبرنا معمر، عن ابن شهاب، عن عيسى بن طلحة ، عن عبد الله بن عمرو بن العاص ، قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم واقفا على راحلته بمنى، قال: فاتاه رجل، فقال: يا رسول الله، إني كنت ارى ان الحلق قبل الذبح، فحلقت قبل ان اذبح، فقال:" اذبح ولا حرج"، قال: ثم جاءه آخر، فقال: يا رسول الله، إني كنت ارى ان الذبح قبل الرمي، فذبحت قبل ان ارمي، قال:" فارم ولا حرج"، قال: فما سئل عن شيء قدمه رجل قبل شيء، إلا قال:" افعل ولا حرج"، قال عبد الرزاق: وجاءه آخر، فقال: يا رسول الله، إني كنت اظن ان الحلق قبل الرمي، فحلقت قبل ان ارمي، قال:" رم ولا حرج".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ . وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاقِفًا عَلَى رَاحِلَتِهِ بِمِنًى، قَالَ: فَأَتَاهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي كُنْتُ أَرَى أَنَّ الْحَلْقَ قَبْلَ الذَّبْحِ، فَحَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَذْبَحَ، فَقَالَ:" اذْبَحْ وَلَا حَرَجَ"، قَالَ: ثُمَّ جَاءَهُ آخَرُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي كُنْتُ أَرَى أَنَّ الذَّبْحَ قَبْلَ الرَّمْيِ، فَذَبَحْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ، قَالَ:" فَارْمِ وَلَا حَرَجَ"، قَالَ: فَمَا سُئِلَ عَنْ شَيْءٍ قَدَّمَهُ رَجُلٌ قَبْلَ شَيْءٍ، إِلَّا قَالَ:" افْعَلْ وَلَا حَرَجَ"، قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: وَجَاءَهُ آخَرُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي كُنْتُ أَظُنُّ أَنَّ الْحَلْقَ قَبْلَ الرَّمْيِ، فَحَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ، قَالَ:" رْمِ وَلَا حَرَجَ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے میدان منٰی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی سواری پر کھڑے ہوئے دیکھا اسی اثنا میں ایک آدمی آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! میں یہ سمجھتا تھا کہ حلق قربانی سے پہلے ہے اس لئے میں نے قربانی کر نے سے پہلے حلق کروا لیا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جا کر قربانی کر لو کوئی حرج نہیں ایک دوسرا آدمی آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! میں یہ سمجھتا تھا کہ قربانی رمی سے پہلے ہے اس لئے میں نے رمی سے پہلے قربانی کر لی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب جا کر رمی کر لو کوئی حرج نہیں ہے اس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس نوعیت کا جو سوال بھی پوچھا گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں یہی فرمایا: ”اب کر لو کوئی حرج نہیں۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری طرف سے آگے پہنچادیا کرو خواہ ایک آیت ہی ہو بنی اسرائیل کی باتیں بھی ذکر کر سکتے ہو کوئی حرج نہیں اور جو شخص میری طرف کسی بات کی جھوٹی نسبت کرے گا اسے اپنا ٹھکانہ جہنم میں تیار کر لینا چاہئے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعلى بن عبيد ، حدثنا الاعمش ، عن ابي سعد ، قال: جاء رجل إلى عبد الله بن عمرو ، فقال: إنما اسالك عما سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا اسالك عن التوراة! فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِي سَعْدٍ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، فَقَالَ: إِنَّمَا أَسْأَلُكَ عَمَّا سَمِعْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا أَسْأَلُكَ عَنِ التَّوْرَاةِ! فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ".
ابو سعد کہتے ہیں کہ ایک آدمی سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں آپ سے وہ حدیث پوچھتا ہوں جو آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنی ہے وہ نہیں پوچھتاجو تورات میں ہے انہوں نے فرمایا: ”کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے حقیقی مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔
حكم دارالسلام: مرفوعه صحيح، وهذا إسناد محتمل للتحسين
(حديث مرفوع) حدثنا ابو كامل ، حدثنا زياد بن عبد الله بن علاثة القاضي ابو سهل ، حدثنا العلاء بن رافع ، عن الفرزدق بن حنان القاص ، قال: الا احدثكم حديثا سمعته اذناي ووعاه قلبي، لم انسه بعد؟ خرجت انا وعبيد الله بن حيدة في طريق الشام، فمررنا بعبد الله بن عمرو بن العاص ، فذكر الحديث، فقال: جاء رجل من قومكما، اعرابي جاف جريء، فقال: يا رسول الله، اين الهجرة، إليك حيثما كنت، ام إلى ارض معلومة، او لقوم خاصة، ام إذا مت انقطعت؟ قال: فسكت رسول الله صلى الله عليه وسلم ساعة، ثم قال:" اين السائل عن الهجرة؟"، قال: ها انا ذا يا رسول الله، قال:" إذا اقمت الصلاة وآتيت الزكاة فانت مهاجر، وإن مت بالحضرمة"، قال: يعني ارضا باليمامة، قال: ثم قام رجل، فقال: يا رسول الله، ارايت ثياب اهل الجنة، اتنسج نسجا، ام تشقق من ثمر الجنة؟ قال: فكان القوم تعجبوا من مسالة الاعرابي! فقال:" ما تعجبون من جاهل يسال عالما؟"، قال: فسكت هنية، ثم قال:" اين السائل عن ثياب الجنة؟"، قال: انا، قال:" لا، بل تشقق من ثمر الجنة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ ، حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُلَاثَةَ الْقَاضِي أَبُو سَهْلٍ ، حَدَّثَنَا الْعَلَاءُ بْنُ رَافِعٍ ، عَنِ الْفَرَزْدَقِ بْنِ حَنَانٍ الْقَاصِّ ، قَالَ: أَلَا أُحَدِّثُكُمْ حَدِيثًا سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ وَوَعَاهُ قَلْبِي، لَمْ أَنْسَهُ بَعْدُ؟ خَرَجْتُ أَنَا وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ حَيْدَةَ فِي طَرِيقِ الشَّامِ، فَمَرَرْنَا بِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، فَقَالَ: جَاءَ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِكُمَا، أَعْرَابِيٌّ جَافٍ جَرِيءٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيْنَ الْهِجْرَةُ، إِلَيْكَ حَيْثُمَا كُنْتَ، أَمْ إِلَى أَرْضٍ مَعْلُومَةٍ، أَوْ لِقَوْمٍ خَاصَّةً، أَمْ إِذَا مُتَّ انْقَطَعَتْ؟ قَالَ: فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ:" أَيْنَ السَّائِلُ عَنِ الْهِجْرَةِ؟"، قَالَ: هَا أَنَا ذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" إِذَا أَقَمْتَ الصَّلَاةَ وَآتَيْتَ الزَّكَاةَ فَأَنْتَ مُهَاجِرٌ، وَإِنْ مُتَّ بِالْحَضْرَمَةِ"، قَالَ: يَعْنِي أَرْضًا بِالْيَمَامَةِ، قَالَ: ثُمَّ قَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ ثِيَابَ أَهْلِ الْجَنَّةِ، أَتُنْسَجُ نَسْجًا، أَمْ تُشَقَّقُ مِنْ ثَمَرِ الْجَنَّةِ؟ قَالَ: فَكَأَنَّ الْقَوْمَ تَعَجَّبُوا مِنْ مَسْأَلَةِ الْأَعْرَابِيِّ! فَقَالَ:" مَا تَعْجَبُونَ مِنْ جَاهِلٍ يَسْأَلُ عَالِمًا؟"، قَالَ: فَسَكَتَ هُنَيَّةً، ثُمَّ قَالَ:" أَيْنَ السَّائِلُ عَنْ ثِيَابِ الْجَنَّةِ؟"، قَالَ: أَنَا، قَالَ:" لَا، بَلْ تُشَقَّقُ مِنْ ثَمَرِ الْجَنَّةِ".
فرزدق بن حنان نے ایک مرتبہ اپنے ساتھیوں سے کہ کیا میں تمہیں ایک ایسی حدیث نہ سناؤں جسے میرے کانوں نے سنا میرے دل نے اسے محفوظ کیا اور میں اسے اب تک نہیں بھولا؟ میں ایک مرتبہ عبیداللہ بن حیدہ کے ساتھ شام کے راستے میں نکلا ہمارا گزر سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ کے پاس سے ہوا اس کے بعد انہوں نے حدیث ذکر کرتے ہوئے کہا کہ تم دونوں کی قوم سے ایک سخت طبیعت کا جری دیہاتی آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! آپ کی ہجرت کہاں کی جائے؟ آیا جہاں کہیں بھی آپ ہوں یا کسی معین علاقے کی طرف؟ یا یہ حکم ایک خاص قوم کے لئے ہے یا یہ کہ آپ کے وصال کے بعد ہجرت منقطع ہو جائے گی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تھوڑی دیرتک سکوت فرمایا: ”پھر پوچھا کہ ہجرت کے متعلق سوال کر نے والا شخص کہاں ہے؟ اس نے کہا یا رسول اللہ!! میں یہاں ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو تو تم مہاجرہو خواہ تمہاری موت حضرمہ جو یمامہ کا ایک علاقہ ہے ہی میں ہو۔ پھر وہ آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا یا رسول اللہ!! یہ بتائیے کہ جنتیوں کے کپڑے بنے جائیں گے یا ان سے جنت کا پھل چیر کر نکالا جائے گا؟ لوگوں کو اس دیہاتی کے سوال پر تعجب ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں کس بات پر تعجب ہو رہا ہے ایک ناواقف آدمی ایک عالم سے سوال کر رہا ہے۔ پھر تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد فرمایا: ”اہل جت کے کپڑوں کے متعلق پوچھنے والاکہاں ہے؟ اس نے کہا کہ میں یہاں ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ اہل جنت کے کپڑے جنت کے پھل سے چیر کر نکالے جائیں گے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة شيخ العلاء ابن رافع، وهو حنان بن خارجة
(حديث مرفوع) حدثنا ابن إدريس ، سمعت ابن إسحاق ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم ورجلا من مزينة يساله عن ضالة الإبل؟ فقال:" معها حذاؤها وسقاؤها، تاكل الشجر، وترد الماء، فذرها حتى ياتي باغيها"، قال: وساله عن ضالة الغنم؟ فقال:" لك او لاخيك او للذئب، اجمعها إليك حتى ياتي باغيها"، وساله عن الحريسة التي توجد في مراتعها؟ قال: فقال:" فيها ثمنها مرتين وضرب نكال"، قال:" فما اخذ من اعطانه ففيه القطع، إذا بلغ ما يؤخذ من ذلك ثمن المجن"، فساله، فقال: يا رسول الله، اللقطة نجدها في السبيل العامر؟ قال:" عرفها سنة، فإن جاء صاحبها، وإلا فهي لك"، قال: يا رسول الله، ما يوجد في الخراب العادي؟ قال:" فيه وفي الركاز الخمس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ ، سَمِعْتُ ابْنَ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَجُلًا مِنْ مُزَيْنَةَ يَسْأَلُهُ عَنْ ضَالَّةِ الْإِبِلِ؟ فَقَالَ:" مَعَهَا حِذَاؤُهَا وَسِقَاؤُهَا، تَأْكُلُ الشَّجَرَ، وَتَرِدُ الْمَاءَ، فَذَرْهَا حَتَّى يَأْتِيَ بَاغِيهَا"، قَالَ: وَسَأَلَهُ عَنْ ضَالَّةِ الْغَنَمِ؟ فَقَالَ:" لَكَ أَوْ لِأَخِيكَ أَوْ لِلذِّئْبِ، اجْمَعْهَا إِلَيْكَ حَتَّى يَأْتِيَ بَاغِيهَا"، وَسَأَلَهُ عَنِ الْحَرِيسَةِ الَّتِي تُوجَدُ فِي مَرَاتِعِهَا؟ قَالَ: فَقَالَ:" فِيهَا ثَمَنُهَا مَرَّتَيْنِ وَضَرْبُ نَكَالٍ"، قَالَ:" فَمَا أُخِذَ مِنْ أَعْطَانِهِ فَفِيهِ الْقَطْعُ، إِذَا بَلَغَ مَا يُؤْخَذُ مِنْ ذَلِكَ ثَمَنَ الْمِجَنِّ"، فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اللُّقَطَةُ نَجِدُهَا فِي السَّبِيلِ الْعَامِرِ؟ قَالَ:" عَرِّفْهَا سَنَةً، فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا، وَإِلَّا فَهِيَ لَكَ"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا يُوجَدُ فِي الْخَرَابِ الْعَادِيِّ؟ قَالَ:" فِيهِ وَفِي الرِّكَازِ الْخُمُسُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے قبیلہ مزینہ کے ایک آدمی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کرتے ہوئے سنا کہ یا رسول اللہ! میں آپ کے پاس یہ پوچھنے کے لئے آیا ہوں کہ گمشدہ اونٹ کا کیا حکم ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے ساتھ اس کا "" سم "" اور اس کا "" مشکیزہ "" ہوتا ہے وہ خود ہی درختوں کے پتے کھاتا اور وادیوں کا پانی پیتا اپنے مالک کے پاس پہنچ جائے گا اس لئے تم اسے چھوڑ دو تاکہ وہ اپنی منزل پر خود ہی پہنچ جائے اس نے پوچھا کہ گمشدہ بکر ی کا کیا حکم ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یا تم اسے لے جاؤ گے یا تمہارا کوئی بھائی لے جائے گا یا کوئی بھیڑیا لے جائے گا تم اسے اپنی بکر یوں میں شامل کرو تاکہ وہ اپنے مقصود پر پہنچ جائے اس نے پوچھا وہ محفوظ بکر ی جو اپنی، چراگاہ میں ہو اسے چوری کر نے والے کے لئے کیا حکم ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی دوگنی قیمت اور سزا اور جسے باڑے سے چرایا گیا ہو تو اس میں ہاتھ کاٹ دیا جائے گا جبکہ وہ ایک ڈھال کی قیمت کو پہنچ جائے۔ اس نے پوچھا یا رسول اللہ!! اس گری پڑی چیز کا کیا حکم ہے جو ہمیں کسی آبادعلاقے کے راستے میں ملے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پورے ایک سال تک اس کی تشہیر کر اؤ اگر اس کا مالک آ جائے تو وہ اس کے حوالے کر دو ورنہ وہ تمہاری ہے اس نے کہا کہ اگر یہی چیز کسی ویرانے میں ملے تو؟ فرمایا: ”اس میں اور رکاز میں خمس واجب ہے۔