مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر

مسند احمد
30. مسنَد عَبدِ اللهِ بنِ عَمرو بنِ العَاصِ رَضِیَ الله تَعالَى عَنهمَا
حدیث نمبر: 6886
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن احمد، حدثني العباس بن عبد العظيم العنبري ، حدثنا ابو سلمة عبيد بن عبد الرحمن الحنفي ، حدثني الجنيد بن امين بن ذروة بن نضلة بن طريف بن بهصل الحرمازي ، حدثني ابي امين بن ذروة ، عن ابيه ذروة بن نضلة ، عن ابيه نضلة بن طريف ، ان رجلا منهم، يقال له: الاعشى، واسمه عبد الله بن الاعور، كانت عنده امراة يقال لها: معاذة، خرج في رجب يمير اهله من هجر، فهربت امراته بعده، ناشزا عليه، فعاذت برجل منهم، يقال له: مطرف بن بهصل بن كعب بن قميشع بن دلف بن اهضم بن عبد الله بن بهصل، فجعلها خلف ظهره، فلما قدم ولم يجدها في بيته، واخبر انها نشزت عليه، وانها عاذت بمطرف بن بهصل، فاتاه، فقال: يا ابن عم، اعندك امراتي معاذة؟ فادفعها إلي، قال: ليست عندي، ولو كانت عندي لم ادفعها إليك، قال: وكان مطرف اعز منه، فخرج حتى اتى النبي صلى الله عليه وسلم فعاذ به، وانشا يقول: يا سيد الناس وديان العرب إليك اشكو ذربة من الذرب كالذئبة الغبشاء في ظل السرب خرجت ابغيها الطعام في رجب فخلفتني بنزاع وهرب اخلفت العهد ولطت بالذنب وقذفتني بين عيص مؤتشب وهن شر غالب لمن غلب فقال النبي صلى الله عليه وسلم عند ذلك:" وهن شر غالب لمن غلب"، فشكا إليه امراته وما صنعت به، وانها عند رجل منهم يقال له: مطرف بن بهصل، فكتب له النبي صلى الله عليه وسلم:" إلى مطرف، انظر امراة هذا معاذة، فادفعها إليه"، فاتاه كتاب النبي صلى الله عليه وسلم، فقرئ عليه، فقال لها: يا معاذة، هذا كتاب النبي صلى الله عليه وسلم فيك، فانا دافعك إليه، قالت: خذ لي عليه العهد والميثاق وذمة نبيه لا يعاقبني فيما صنعت، فاخذ لها ذاك عليه، ودفعها مطرف إليه، فانشا يقول: لعمرك ما حبي معاذة بالذي يغيره الواشي ولا قدم العهد ولا سوء ما جاءت به إذ ازالها غواة الرجال إذ يناجونها بعدي.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ بن أحمد، حَدَّثَنِي الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ عُبَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحَنَفِيُّ ، حَدَّثَنِي الْجُنَيْدُ بْنُ أَمِينِ بْنِ ذِرْوَةَ بْنِ نَضْلَةَ بْنِ طَرِيفِ بْنِ بُهْصُلٍ الْحِرْمَازِيُّ ، حَدَّثَنِي أَبِي أَمِيْنُ بْنُ ذِرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ذِرْوَةَ بْنِ نَضْلَةَ ، عَنْ أَبِيهِ نَضْلَةَ بْنِ طَرِيفٍ ، أَنَّ رَجُلًا مِنْهُمْ، يُقَالُ لَهُ: الْأَعْشَى، وَاسْمُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْأَعْوَرِ، كَانَتْ عِنْدَهُ امْرَأَةٌ يُقَالُ لَهَا: مُعَاذَةُ، خَرَجَ فِي رَجَبٍ يَمِيرُ أَهْلَهُ مِنْ هَجَرَ، فَهَرَبَتْ امْرَأَتُهُ بَعْدَهُ، نَاشِزًا عَلَيْهِ، فَعَاذَتْ بِرَجُلٍ مِنْهُمْ، يُقَالُ لَهُ: مُطَرِّفُ بْنُ بُهْصُلِ بْنِ كَعْبِ بْنِ قَمَيْشَعِ بْنِ دُلَفَ بْنِ أَهْضَمَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بَنْ بُهْصُل، فَجَعَلَهَا خَلْفَ ظَهْرِهِ، فَلَمَّا قَدِمَ وَلَمْ يَجِدْهَا فِي بَيْتِهِ، وَأُخْبِرَ أَنَّهَا نَشَزَتْ عَلَيْهِ، وَأَنَّهَا عَاذَتْ بِمُطَرِّفِ بْنِ بُهْصُلٍ، فَأَتَاهُ، فَقَالَ: يَا ابْنَ عَمِّ، أَعِنْدَكَ امْرَأَتِي مُعَاذَةُ؟ فَادْفَعْهَا إِلَيَّ، قَالَ: لَيْسَتْ عِنْدِي، وَلَوْ كَانَتْ عِنْدِي لَمْ أَدْفَعْهَا إِلَيْكَ، قَالَ: وَكَانَ مُطَرِّفٌ أَعَزَّ مِنْهُ، فَخَرَجَ حَتَّى أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَاذَ بِهِ، وَأَنْشَأَ يَقُولُ: يَا سَيِّدَ النَّاسِ وَدَيَّانَ الْعَرَبْ إِلَيْكَ أَشْكُو ذِرْبَةً مِنَ الذِّرَبْ كَالذِّئْبَةِ الْغَبْشَاءِ فِي ظِلِّ السَّرَبْ خَرَجْتُ أَبْغِيهَا الطَّعَامَ فِي رَجَبْ فَخَلَّفَتْنِي بِنِزَاعٍ وَهَرَبْ أَخْلَفَتْ الْعَهْدَ وَلَطَّتْ بِالذَّنَبْ وَقَذَفَتْنِي بَيْنَ عِيصٍ مُؤْتَشَبْ وَهُنَّ شَرُّ غَالِبٍ لِمَنْ غَلَبْ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ:" وَهُنَّ شَرُّ غَالِبٍ لِمَنْ غَلَبْ"، فَشَكَا إِلَيْهِ امْرَأَتَهُ وَمَا صَنَعَتْ بِهِ، وَأَنَّهَا عِنْدَ رَجُلٍ مِنْهُمْ يُقَالُ لَهُ: مُطَرِّفُ بْنُ بُهْصُلٍ، فَكَتَبَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِلَى مُطَرِّفٍ، انْظُرْ امْرَأَةَ هَذَا مُعَاذَةَ، فَادْفَعْهَا إِلَيْهِ"، فَأَتَاهُ كِتَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُرِئَ عَلَيْهِ، فَقَالَ لَهَا: يَا مُعَاذَةُ، هَذَا كِتَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيكِ، فَأَنَا دَافِعُكِ إِلَيْهِ، قَالَتْ: خُذْ لِي عَلَيْهِ الْعَهْدَ وَالْمِيثَاقَ وَذِمَّةَ نَبِيِّهِ لَا يُعَاقِبُنِي فِيمَا صَنَعْتُ، فَأَخَذَ لَهَا ذَاكَ عَلَيْهِ، وَدَفَعَهَا مُطَرِّفٌ إِلَيْهِ، فَأَنْشَأَ يَقُولُ: لَعَمْرُكَ مَا حُبِّي مُعَاذَةَ بِالَّذِي يُغَيِّرُهُ الْوَاشِي وَلَا قِدَمُ الْعَهْدِ وَلَا سُوءُ مَا جَاءَتْ بِهِ إِذْ أَزَالَهَا غُوَاةُ الرِّجَالِ إِذْ يُنَاجُونَهَا بَعْدِي.
نظلہ بن طریف کہتے ہیں کہ ان کے قبیلے کا ایک آدمی تھا جسے اعشی کہا جاتا تھا اس کا اصل نام عبداللہ بن اعور تھا اس کے نکاح میں جو عورت تھی اس کا نام معاذہ تھا ایک مرتبہ اعشی رجب کے مہینے میں ہجر نامی علاقے سے اپنے اہل خانہ کے لئے غلہ لانے کے لئے روانہ ہوا پیچھے سے اس کی بیوی اس سے ناراض ہو کر گھر سے بھاگ گئی اور اپنے قبیلے کے ایک آدمی کے یہاں پناہ لی جس کا نام مطرف بن بہصل۔۔۔۔۔۔ تھا اس نے اسے اپنی پناہ فراہم کر دی۔ جب اعشی واپس آیا تو گھر میں بیوی نہ ملی پتہ چلا کہ وہ ناراض ہو کر گھربھاگ گئی ہے اور اب مطرف بن بہصل کی پناہ میں ہے اعشی یہ سن کر مطرف کے پاس آیا اور کہنے لگا اے میرے چچازادبھائی! کیا میری بیوی معاذہ آپ کے پاس ہے؟ اسے میرے حوالے کر دیں اس نے نے کہا کہ وہ میرے پاس نہیں ہے اگر ہوتی بھی تو میں اسے تیرے حوالے نہ کرتا مطرف دراصل اس کی نسبت زیادہ طاقتور تھا چنانچہ اعشی وہاں سے نکل کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ اشعار کہتے ہوئے ان کی پناہ چاہی اے لوگوں کے سردار اور عرب کو دینے والے! میں آپ کے پاس ایک بدزبان عورت کی شکایت لے کر آیا ہوں وہ اس مادہ بھیڑیے کی طرح ہے جو سراب کے سائے میں دھوکہ دے دیتی ہے ماہ رجب میں اس کے لئے غلہ کی تلاش میں نکلا تھا اس نے پیچھے سے مجھے جھگڑے اور راہ فرار کا منظر دکھایا اس نے وعدہ خلافی کی اور اپنی دم ماری اور اس نے مجھے سخت مشکل میں مبتلا کر دیا اور یہ عورتیں غالب آنے والا شر ہیں اس شخص کے لئے بھی جو ہمیشہ غالب رہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کا یہ آخری جملہ دہرانے لگے کہ یہ عورتیں غالب آنے والا شر ہیں اس شخص کے لئے بھی جو ہمیشہ دوسروں پر غالب رہے اس کے بعد اعشی نے اپنی بیوی کی شکایت کی اور اس کا سارا کارنامہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا اور یہ بھی کہ اب وہ انہی کے قبیلے کے ایک آدمی کے پاس ہے جس کا نام مطرف بن بہصل ہے اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مطرف کو یہ خط لکھا کہ دیکھو اس شخص کی بیوی معاذہ کو اس کے حوالے کر دو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خط جب اس کے پاس پہنچا اور اسے پڑھ کر سنایا گیا تو اس نے اس عورت سے کہا کہ معاذہ یہ تمہارے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خط ہے اس لئے میں تمہیں اس کے حوالے کر رہا ہوں اس نے کہا کہ اس سے میرے لئے عہد و پیمان لے لئے اور اسے اس کے حوالے کر دیا اس پر اعشی نے یہ اشعار کہے تیری عمر کی قسم معاذہ تجھ سے میری محبت ایسی نہیں ہے جسے کوئی رنگ بدل سکے یا زمانہ کا بعد اسے متغیر کر سکے اور نہ ہی اس حرکت کی برائی جو اس سے صادر ہوئی جبکہ اسے بہکے ہوئے لوگوں نے پھسلا لیا اور میرے پیچھے اس سے سرگوشیاں کرتے رہے۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة أكثر رواته


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.