(حديث مرفوع) حدثنا حسن ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثنا حيي بن عبد الله ، ان ابا عبد الرحمن الحبلي حدثه، قال: اخرج لنا عبد الله بن عمرو قرطاسا، وقال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعلمنا يقول:" اللهم فاطر السموات والارض، عالم الغيب والشهادة، انت رب كل شيء، وإله كل شيء اشهد ان لا إله إلا انت، وحدك لا شريك لك، وان محمدا عبدك ورسولك، والملائكة يشهدون اعوذ بك من الشيطان وشركه، واعوذ بك ان اقترف على نفسي إثما، او اجره على مسلم"، قال ابو عبد الرحمن: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعلمه عبد الله بن عمرو ان يقول ذلك حين يريد ان ينام.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا حُيَيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيّ حَدَّثَهُ، قَالَ: أَخْرَجَ لَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو قِرْطَاسًا، وَقَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُنَا يَقُولُ:" اللَّهُمَّ فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ، عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ، أَنْتَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ، وَإِلَهُ كُلِّ شَيْءٍ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، وَحْدَكَ لَا شَرِيكَ لَكَ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُكَ وَرَسُولُكَ، وَالْمَلَائِكَةُ يَشْهَدُونَ أَعُوذُ بِكَ مِنَ الشَّيْطَانِ وَشِرْكِهِ، وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أَقْتَرِفَ عَلَى نَفْسِي إِثْمًا، أَوْ أَجُرَّهُ عَلَى مُسْلِمٍ"، قَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُهُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو أَنْ يَقُولَ ذَلِكَ حِينَ يُرِيدُ أَنْ يَنَامَ.
ابوعبدالرحمن حبلی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے ہمارے سامنے ایک کاغذ نکالا اور فرمایا: ”کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں یہ دعاء سکھایا کرتے تھے کہ اے آسمان و زمین کو پیدا کر نے والے اللہ پوشیدہ اور ظاہر سب کو جاننے والے اللہ تو ہر چیز کا رب ہے اور ہر چیز کا معبود ہے میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں تو اکیلا ہے تیرا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تیرے بندے اور رسول ہیں اور فرشتے بھی اس بات کے گواہ ہیں میں شیطان اور اس کے شرک سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور میں اس بات سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ خود کسی گناہ کا ارتکاب کروں یا کسی مسلمان پر اسے لا دوں (یہ دعاء نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کو سوتے وقت پڑھنے کے لئے سکھائی تھی)
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن لهيعة
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بچے جننے والی ماؤں سے نکاح کیا کرو کیونکہ میں قیامت کے دن ان کے ذریعے فخر کروں گا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن لهيعة، و حيي بن عبد الله مختلف فيه
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص جامع مسجد کی طرف جاتا ہے اس کے ایک قدم پر ایک گناہ معاف ہوتا ہے اور ایک قدم پر ایک نیکی لکھی جاتی ہے آتے اور جاتے دونوں وقت یہی حکم ہے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی شخص کسی مریض کی عیادت کے لئے جائے تو یہ دعاء کرے کہ اے اللہ اپنے بندے کو شفاء عطاء فرما تاکہ تیرے دشمن سے انتقام لے سکے اور نماز کے لئے چل کر جاسکے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ابن لهيعة - وإن كان سييء الحفظ- قد توبع، لكن تبقي العلة فى حيي بن عبد الله، فهو ضعيف إذا انفرد
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ! مؤذنین اذان کی وجہ سے ہم پر فضیلت رکھتے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کلمات وہ کہیں تم بھی کہہ لیا کرو اور جب اختتام ہو جائے تو جو دعاء کرو گے وہ پوری ہو گی۔
(حديث مرفوع) حدثنا حسن ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثني حيي بن عبد الله ، ان ابا عبد الرحمن حدثه، ان عبد الله بن عمرو ، قال: إن رجلا جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فساله عن افضل الاعمال؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الصلاة"، ثم قال: مه؟ قال:" الصلاة"، ثم قال: مه؟ قال:" الصلاة" ثلاث مرات، قال: فلما غلب عليه، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الجهاد في سبيل الله"، قال الرجل: فإن لي والدين، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" آمرك بالوالدين خيرا"، قال: والذي بعثك بالحق نبيا لاجاهدن؟ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" انت اعلم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنِي حُيَيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو ، قَالَ: إِنَّ رَجُلًا جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَهُ عَنْ أَفْضَلِ الْأَعْمَالِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الصَّلَاةُ"، ثُمَّ قَالَ: مَهْ؟ قَالَ:" الصَّلَاةُ"، ثُمَّ قَالَ: مَهْ؟ قَالَ:" الصَّلَاةُ" ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، قَالَ: فَلَمَّا غَلَبَ عَلَيْهِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ"، قَالَ الرَّجُلُ: فَإِنَّ لِي وَالِدَيْنِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" آمُرُكَ بِالْوَالِدَيْنِ خَيْرًا"، قَالَ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ نَبِيًّا لَأُجَاهِدَنَّ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنْتَ أَعْلَمُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر سب سے افضل عمل کے متعلق پوچھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کا ذکر کیا تین مرتبہ اس نے یہی سوال کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر مرتبہ نماز ہی کا ذکر کیا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سوال سے مغلوب ہو گئے تو فرمایا: ”جہاد فی سبیل اللہ اس آدمی نے کہا کہ میرے تو والدین بھی ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہیں اس کے ساتھ بہتر سلوک کر نے کا حکم دیتا ہوں اس نے کہا کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں ضرور جہاد میں شرکت کروں گا اور انہیں چھوڑ کر چلاجاؤں گا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم زیادہ بڑے عالم ہو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ابن لهيعة - وإن كان سييء الحفظ- قد توبع، و تبقي علته منحصرة فى حيي بن عبد الله المعافري، وهو ضعيف
(حديث مرفوع) حدثنا حسن ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثني حيي بن عبد الله ، ان ابا عبد الرحمن حدثه، عن عبد الله بن عمرو ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم ذكر فتان القبور، فقال عمر: اترد علينا عقولنا يا رسول الله؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" نعم، كهيئتكم اليوم"، فقال عمر: بفيه الحجر.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنِي حُيَيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَهُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ فَتَّانَ الْقُبُورِ، فَقَالَ عُمَرُ: أَتُرَدُّ عَلَيْنَا عُقُولُنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَعَمْ، كَهَيْئَتِكُمْ الْيَوْمَ"، فَقَالَ عُمَرُ: بِفِيهِ الْحَجَرُ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں میں امتحان لینے والے فرشتوں کا تذکر ہ کیا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے یا رسول اللہ! کیا اس وقت ہمیں ہماری عقلیں لوٹا دی جائیں گی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں بالکل آج کی طرح سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”اس کے منہ میں پتھر (جو وہ میرا امتحان لے سکے)
(حديث مرفوع) حدثنا حسن ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثنا حيي بن عبد الله ، عن ابي عبد الرحمن الحبلي ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إني اقرا القرآن، فلا اجد قلبي يعقل عليه؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن قلبك حشي الإيمان، وإن الإيمان يعطى العبد قبل القرآن".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا حُيَيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَقْرَأُ الْقُرْآنَ، فَلَا أَجِدُ قَلْبِي يَعْقِلُ عَلَيْهِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ قَلْبَكَ حُشِيَ الْإِيمَانَ، وَإِنَّ الْإِيمَانَ يُعْطَى الْعَبْدَ قَبْلَ الْقُرْآنِ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! میں قرآن تو پڑھتاہوں لیکن اپنے دل کو اس پر جمتا ہوا نہیں پاتا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرا دل ایمان سے بھر پور ہے کیونکہ انسان کو قرآن سے پہلے ایمان دیا جاتا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف ابن لهيعة، و حيي بن عبد الله المعافري، وقد تفرد به
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ اور اس کے فرشتے اس پر ستر مرتبہ رحمت بھیجتے ہیں اب بندے کی مرضی ہے کہ درود کی کثرت کرے یا کمی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ابن لهيعة سييء الحفظ، وعبد الرحمن بن مريح مجهول
(حديث مرفوع) (حديث موقوف) وسمعت عبد الله بن عمرو ، يقول: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما كالمودع، فقال:" انا محمد النبي الامي" قاله ثلاث مرات" ولا نبي بعدي، اوتيت فواتح الكلم وخواتمه وجوامعه، وعلمت كم خزنة النار وحملة العرش، وتجوز بي وعوفيت، وعوفيت امتي، فاسمعوا واطيعوا ما دمت فيكم، فإذا ذهب بي، فعليكم بكتاب الله، احلوا حلاله، وحرموا حرامه".(حديث مرفوع) (حديث موقوف) وسَمِعْت عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو ، يَقُولُ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا كَالْمُوَدِّعِ، فَقَالَ:" أَنَا مُحَمَّدٌ النَّبِيُّ الْأُمِّيُّ" قَالَهُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ" وَلَا نَبِيَّ بَعْدِي، أُوتِيتُ فَوَاتِحَ الْكَلِمِ وَخَوَاتِمَهُ وَجَوَامِعَهُ، وَعَلِمْتُ كَمْ خَزَنَةُ النَّارِ وَحَمَلَةُ الْعَرْشِ، وَتُجُوِّزَ بِي وَعُوفِيتُ، وَعُوفِيَتْ أُمَّتِي، فَاسْمَعُوا وَأَطِيعُوا مَا دُمْتُ فِيكُمْ، فَإِذَا ذُهِبَ بِي، فَعَلَيْكُمْ بِكِتَابِ اللَّهِ، أَحِلُّوا حَلَالَهُ، وَحَرِّمُوا حَرَامَهُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح ہمارے پاس تشریف لائے جیسے کوئی رخصت کر نے والا ہوتا ہے اور تین مرتبہ فرمایا: ”میں محمد ہوں نبی امی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا مجھے ابتدائی کلمات، اختتامی کلمات اور جامع کلمات بھی دئیے گئے ہیں میں جانتا ہوں کہ جہنم کے نگران فرشتے اور عرش الہٰی کو اٹھانے والے فرشتوں کی تعداد کتنی ہے؟ مجھ سے تجاوز کیا جا چکا مجھے اور میری امت کو عافیت عطاء فرمادی گئی اس لئے جب تک میں تمہارے درمیان رہوں میری بات سنتے اور مانتے رہو اور جب مجھے لے جایا جائے تو کتاب اللہ کو اپنے اوپر لازم پکڑ لو اس کے حلال کو حلال سمجھو اور اس کے حرام کو حرام سمجھو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف كسابقه، وقوله:’’ لا نبي بعدي‘‘ له شاهد من حديث سعد بن أبى وقاص عند البخاري: 4416، م: 2404