(حديث مرفوع) حدثنا حسن ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثني حيي بن عبد الله ، ان ابا عبد الرحمن حدثه، ان عبد الله بن عمرو ، قال: إن رجلا جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فساله عن افضل الاعمال؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الصلاة"، ثم قال: مه؟ قال:" الصلاة"، ثم قال: مه؟ قال:" الصلاة" ثلاث مرات، قال: فلما غلب عليه، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الجهاد في سبيل الله"، قال الرجل: فإن لي والدين، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" آمرك بالوالدين خيرا"، قال: والذي بعثك بالحق نبيا لاجاهدن؟ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" انت اعلم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنِي حُيَيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو ، قَالَ: إِنَّ رَجُلًا جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَهُ عَنْ أَفْضَلِ الْأَعْمَالِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الصَّلَاةُ"، ثُمَّ قَالَ: مَهْ؟ قَالَ:" الصَّلَاةُ"، ثُمَّ قَالَ: مَهْ؟ قَالَ:" الصَّلَاةُ" ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، قَالَ: فَلَمَّا غَلَبَ عَلَيْهِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ"، قَالَ الرَّجُلُ: فَإِنَّ لِي وَالِدَيْنِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" آمُرُكَ بِالْوَالِدَيْنِ خَيْرًا"، قَالَ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ نَبِيًّا لَأُجَاهِدَنَّ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنْتَ أَعْلَمُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر سب سے افضل عمل کے متعلق پوچھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کا ذکر کیا تین مرتبہ اس نے یہی سوال کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر مرتبہ نماز ہی کا ذکر کیا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سوال سے مغلوب ہو گئے تو فرمایا: ”جہاد فی سبیل اللہ اس آدمی نے کہا کہ میرے تو والدین بھی ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہیں اس کے ساتھ بہتر سلوک کر نے کا حکم دیتا ہوں اس نے کہا کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں ضرور جہاد میں شرکت کروں گا اور انہیں چھوڑ کر چلاجاؤں گا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم زیادہ بڑے عالم ہو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ابن لهيعة - وإن كان سييء الحفظ- قد توبع، و تبقي علته منحصرة فى حيي بن عبد الله المعافري، وهو ضعيف