(حديث مرفوع) حدثنا سليمان بن داود الهاشمي ، انبانا ابو بكر بن عياش ، حدثنا عاصم ، عن ابي وائل ، عن ابن معيز السعدي ، قال: خرجت اسقي فرسا لي في السحر، فمررت بمسجد بني حنيفة، وهم يقولون: إن مسيلمة رسول الله، فاتيت عبد الله ، فاخبرته، فبعث الشرطة، فجاءوا بهم، فاستتابهم، فتابوا، فخلى سبيلهم، وضرب عنق عبد الله بن النواحة، فقالوا: آخذت قوما في امر واحد، فقتلت بعضهم، وتركت بعضهم، قال: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقدم عليه هذا وابن اثال بن حجر، فقال:" اتشهدان اني رسول الله؟" فقالا: نشهد ان مسيلمة رسول الله، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" آمنت بالله ورسله، ولو كنت قاتلا وفدا، لقتلتكما"، قال: فلذلك قتلته.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْهَاشِمِيُّ ، أَنْبَأَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ ابْنِ مُعَيْزٍ السَّعْدِيِّ ، قَالَ: خَرَجْتُ أَسْقِي فَرَسًا لِي فِي السَّحَرِ، فَمَرَرْتُ بِمَسْجِدِ بَنِي حَنِيفَةَ، وَهُمْ يَقُولُونَ: إِنَّ مُسَيْلِمَةَ رَسُولُ اللَّهِ، فَأَتَيْتُ عَبْدَ اللَّهِ ، فَأَخْبَرْتُهُ، فَبَعَثَ الشُّرْطَةَ، فَجَاءُوا بِهِمْ، فَاسْتَتَابَهُمْ، فَتَابُوا، فَخَلَّى سَبِيلَهُمْ، وَضَرَبَ عُنُقَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ النَّوَّاحَةِ، فَقَالُوا: آخَذْتَ قَوْمًا فِي أَمْرٍ وَاحِدٍ، فَقَتَلْتَ بَعْضَهُمْ، وَتَرَكْتَ بَعْضَهُمْ، قَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدِمَ عَلَيْهِ هَذَا وَابْنُ أُثَالِ بْنِ حَجَرٍ، فَقَالَ:" أَتَشْهَدَانِ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟" فَقَالَا: نَشْهَدُ أَنَّ مُسَيْلِمَةَ رَسُولُ اللَّهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" آمَنْتُ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ، ولَوْ كُنْتُ قَاتِلًا وَفْدًا، لَقَتَلْتُكُمَا"، قال: فَلِذَلِكَ قَتَلْتُهُ.
ابن معیز سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں صبح کے وقت اپنے گھوڑے کو پانی پلانے کے لئے نکلا تو بنو حنیفہ کی مسجد کے پاس سے میرا گزر ہوا، وہ لوگ کہہ رہے تھے کہ مسیلمہ اللہ کا پیغمبر ہے، میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے یہ بات ذکر کی، انہوں نے سپاہیوں کو بھیج کر انہیں بلوا لیا، ان سے توبہ کروائی، انہوں نے توبہ کر لی، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان کا راستہ چھوڑ دیا البتہ عبداللہ بن نواحہ کی گردن اڑا دی، لوگوں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے ایک ہی معاملے میں ایک قوم کو پکڑا اور ان میں سے کچھ کو قتل کر دیا اور کچھ کو چھوڑ دیا، اس کی کیا وجہ ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ یہ اور ابن اثال، مسیلمہ کذاب کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قاصد بن کر آئے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے پوچھا تھا: ”کیا تم دونوں اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟“ انہوں نے کہا کہ ہم تو مسیلمہ کے اللہ کے پیغمبر ہونے کی گواہی دیتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میں قاصدوں کو قتل کرتا ہوتا تو میں تم دونوں کی گردن اڑا دیتا“، اس وجہ سے میں نے اسے قتل کیا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، ابن معيز: مجهول.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”دعوت دینے والے کی دعوت کو قبول کرو، ہدیہ مت لوٹاؤ اور مسلمانوں کو مت مارو۔“
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ماہ رمضان کے تیس روزے جس کثرت کے ساتھ رکھے ہیں، اتنی کثرت کے ساتھ انتیس کبھی نہیں رکھے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة دينار والد عيسي.
(حديث مرفوع) حدثنا معاوية بن عمرو ، حدثنا زائدة ، عن الاعمش ، عن شقيق ، قال: كنت جالسا مع عبد الله ، وابي موسى ، وهما يتحدثان، فقالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" بين يدي الساعة ايام يرفع فيها العلم، وينزل فيهن الجهل، ويظهر فيهن الهرج"، والهرج: القتل.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِيقٍ ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا مَعَ عَبْدِ اللَّهِ ، وَأَبِي مُوسَى ، وَهُمَا يَتَحَدَّثَانِ، فَقَالا: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بَيْنَ يَدَيْ السَّاعَةِ أَيَّامٌ يُرْفَعُ فِيهَا الْعِلْمُ، وَيَنْزِلُ فِيهِنَّ الْجَهْلُ، وَيَظْهَرُ فِيهِنَّ الْهَرْجُ"، وَالْهَرْجُ: الْقَتْلُ.
ابووائل کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، یہ دونوں حضرات کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”قیامت کے قریب جو زمانہ ہو گا اس میں جہالت کا نزول ہو گا، علم اٹھا لیا جائے گا اور اس میں ہرج کی کثرت ہو گی، اور ہرج کا معنی ہے قتل۔“
(حديث مرفوع) حدثنا معاوية بن عمرو ، حدثنا زائدة ، حدثنا عاصم ، عن زر ، عن عبد الله ، قال: لما قبض النبي صلى الله عليه وسلم، قالت الانصار: منا امير، ومنكم امير، فاتاهم عمر، فقال: يا معشر الانصار، الستم تعلمون ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" امر ابا بكر ان يؤم الناس؟" قالوا: بلى، قال: فايكم تطيب نفسه ان يتقدم ابا بكر؟ قالت الانصار: نعوذ بالله ان نتقدم ابا بكر.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: لَمَّا قُبِضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ الْأَنْصَارُ: مِنَّا أَمِيرٌ، وَمِنْكُمْ أَمِيرٌ، فَأَتَاهُمْ عُمَرُ، فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَمَرَ أَبَا بَكْرٍ أَنْ يَؤُمَّ النَّاسَ؟" قَالُوا: بَلَى، قَالَ: فَأَيُّكُمْ تَطِيبُ نَفْسُهُ أَنْ يَتَقَدَّمَ أَبَا بَكْرٍ؟ قَالَتْ الْأَنْصَارُ: نَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ نَتَقَدَّمَ أَبَا بَكْرٍ.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال مبارک ہو گیا تو انصار کہنے لگے کہ ایک امیر ہم میں سے ہو گا اور ایک امیر تم میں سے ہو گا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور فرمایا: گروہ انصار! کیا آپ کے علم میں یہ بات نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو لوگوں کی امامت کا حکم خود دیا تھا؟ آپ میں سے کون شخص اپنے دل کی بشاشت کے ساتھ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے آگے بڑھ سکتا ہے؟ اس پر انصار کہنے لگے: اللہ کی پناہ! کہ ہم سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے آگے بڑھیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا معاوية ، حدثنا زائدة ، عن عاصم بن ابي النجود ، عن زر ، عن عبد الله ، قال: لحق بالنبي صلى الله عليه وسلم عبد اسود فمات، فاوذن النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" انظروا هل ترك شيئا؟"، فقالوا: ترك دينارين، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" كيتان".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: لَحِقَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَبْدٌ أَسْوَدُ فَمَاتَ، فَأُوذِنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" انْظُرُوا هَلْ تَرَكَ شَيْئًا؟"، فَقَالُوا: تَرَكَ دِينَارَيْنِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَيَّتَانِ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک سیاہ فام غلام آ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مل گیا، کچھ عرصے بعد اس کا انتقال ہو گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”یہ دیکھو کہ اس نے کچھ چھوڑا بھی ہے؟“ لوگوں نے بتایا کہ اس نے ترکہ میں دو دینار چھوڑے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ جہنم کے دو انگارے ہیں۔“
(حديث مرفوع) حدثنا معاوية ، حدثنا زائدة ، عن عاصم بن ابي النجود ، عن شقيق ، عن عبد الله ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إن من شرار الناس من تدركه الساعة وهم احياء، ومن يتخذ القبور مساجد".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ مِنْ شِرَارِ النَّاسِ مَنْ تُدْرِكُهُ السَّاعَةُ وَهُمْ أَحْيَاءٌ، وَمَنْ يَتَّخِذُ الْقُبُورَ مَسَاجِدَ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ”سب سے بدترین لوگ وہ ہوں گے جو اپنی زندگی میں قیامت کا زمانہ پائیں گے یا وہ جو قبرستان کو سجدہ گاہ بنا لیں۔“
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عبد الرحمن بن عابس ، قال: حدثنا رجل من همدان من اصحاب عبد الله وما سماه لنا، قال: لما اراد عبد الله ان ياتي المدينة، جمع اصحابه، فقال: والله إني لارجو ان يكون قد اصبح اليوم فيكم من افضل ما اصبح في اجناد المسلمين من الدين والفقه والعلم بالقرآن، إن هذا القرآن انزل على حروف، والله إن كان الرجلان ليختصمان اشد ما اختصما في شيء قط، فإذا قال القارئ: هذا اقراني، قال: احسنت، وإذا قال الآخر: قال: كلاكما محسن، فاقرانا: إن الصدق يهدي إلى البر، والبر يهدي إلى الجنة، والكذب يهدي إلى الفجور، والفجور يهدي إلى النار، واعتبروا ذاك بقول احدكم لصاحبه: كذب وفجر، وبقوله إذا صدقه: صدقت وبررت، إن هذا القرآن، لا يختلف ولا يستشن، ولا يتفه لكثرة الرد، فمن قراه على حرف، فلا يدعه رغبة عنه، ومن قراه على شيء من تلك الحروف، التي علم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلا يدعه رغبة عنه، فإنه من يجحد بآية منه، يجحد به كله، فإنما هو كقول احدكم لصاحبه: اعجل، وحي هلا، والله لو اعلم رجلا اعلم بما انزل الله على محمد صلى الله عليه وسلم مني لطلبته، حتى ازداد علمه إلى علمي، إنه سيكون قوم يميتون الصلاة، فصلوا الصلاة لوقتها، واجعلوا صلاتكم معهم تطوعا، وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يعارض بالقرآن في كل رمضان، وإني عرضت في العام الذي قبض فيه مرتين، فانباني اني محسن، وقد قرات من في رسول الله صلى الله عليه وسلم سبعين سورة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَابِسٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا رَجُلٌ مِنْ هَمْدَانَ مِنْ أَصْحَابِ عَبْدِ اللَّهِ وَمَا سَمَّاهُ لَنَا، قَالَ: لَمَّا أَرَادَ عَبْدُ اللَّهِ أَنْ يَأْتِيَ الْمَدِينَةَ، جَمَعَ أَصْحَابَهُ، فَقَالَ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ يَكُونَ قَدْ أَصْبَحَ الْيَوْمَ فِيكُمْ مِنْ أَفْضَلِ مَا أَصْبَحَ فِي أَجْنَادِ الْمُسْلِمِينَ مِنَ الدِّينِ وَالْفِقْهِ وَالْعِلْمِ بِالْقُرْآنِ، إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَى حُرُوفٍ، وَاللَّهِ إِنْ كَانَ الرَّجُلَانِ لَيَخْتَصِمَانِ أَشَدَّ مَا اخْتَصَمَا فِي شَيْءٍ قَطُّ، فَإِذَا قَالَ الْقَارِئُ: هَذَا أَقْرَأَنِي، قَالَ: أَحْسَنْتَ، وَإِذَا قَالَ الْآخَرُ: قَالَ: كِلَاكُمَا مُحْسِنٌ، فَأَقْرَأَنَا: إِنَّ الصِّدْقَ يَهْدِي إِلَى الْبِرِّ، وَالْبِرَّ يَهْدِي إِلَى الْجَنَّةِ، وَالْكَذِبَ يَهْدِي إِلَى الْفُجُورِ، وَالْفُجُورَ يَهْدِي إِلَى النَّارِ، وَاعْتَبِرُوا ذَاكَ بِقَوْلِ أَحَدِكُمْ لِصَاحِبِهِ: كَذَبَ وَفَجَرَ، وَبِقَوْلِهِ إِذَا صَدَّقَهُ: صَدَقْتَ وَبَرَرْتَ، إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ، لَا يَخْتَلِفُ وَلَا يُسْتَشَنُّ، وَلَا يَتْفَهُ لِكَثْرَةِ الرَّدِّ، فَمَنْ قَرَأَهُ عَلَى حَرْفٍ، فَلَا يَدَعْهُ رَغْبَةً عَنْهُ، وَمَنْ قَرَأَهُ عَلَى شَيْءٍ مِنْ تِلْكَ الْحُرُوفِ، الَّتِي عَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَا يَدَعْهُ رَغْبَةً عَنْهُ، فَإِنَّهُ مَنْ يَجْحَدْ بِآيَةٍ مِنْهُ، يَجْحَدْ بِهِ كُلِّهِ، فَإِنَّمَا هُوَ كَقَوْلِ أَحَدِكُمْ لِصَاحِبِهِ: اعْجَلْ، وَحَيَّ هَلًا، وَاللَّهِ لَوْ أَعْلَمُ رَجُلًا أَعْلَمَ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنِّي لَطَلَبْتُهُ، حَتَّى أَزْدَادَ عِلْمَهُ إِلَى عِلْمِي، إِنَّهُ سَيَكُونُ قَوْمٌ يُمِيتُونَ الصَّلَاةَ، فَصَلُّوا الصَّلَاةَ لِوَقْتِهَا، وَاجْعَلُوا صَلَاتَكُمْ مَعَهُمْ تَطَوُّعًا، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُعَارَضُ بِالْقُرْآنِ فِي كُلِّ رَمَضَانَ، وَإِنِّي عَرَضْتُ فِي الْعَامِ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ مَرَّتَيْنِ، فَأَنْبَأَنِي أَنِّي مُحْسِنٌ، وَقَدْ قَرَأْتُ مِنْ فِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْعِينَ سُورَةً".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے ایک شاگرد - جن کا تعلق ہمدان سے ہے - کہتے ہیں کہ جب سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ تشریف آوری کا ارادہ کیا تو اپنے شاگردوں کو جمع کیا اور فرمایا: مجھے امید ہے کہ تمہارے پاس دین، علم قرآن اور فقہ کی جو دولت ہے، وہ عساکر مسلمین میں سے کسی پاس نہیں ہے، یہ قرآن کئی حروف (متعدد قراءتوں پر) نازل ہوا ہے، واللہ! دو آدمی بعض اوقات اس معاملے میں اتنا شدید جھگڑا کرتے تھے جو لوگ کسی معاملے میں کر سکتے ہیں، ایک قاری کہتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یوں پڑھایا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تحسین فرماتے، اور جب دوسرا یہ کہتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ ”تم دونوں ہی درست ہو“، اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں پڑھایا۔ سچ نیکی کی راہ دکھاتا ہے اور نیکی جنت کا راستہ دکھاتی ہے، جھوٹ گناہ کا راستہ دکھاتا ہے اور گناہ جہنم کی راہ دکھاتا ہے، تم اسی سے اندازہ لگا لو کہ تم میں سے بھی بعض لوگ اپنے ساتھی کے متعلق کہتے ہیں: کذب و فجر، اس نے جھوٹ بولا اور گناہ کیا، اور سچ بولنے پر کہتے ہو کہ تم نے سچ بولا اور نیکی کا کام کیا۔ یہ قرآن بدلے گا اور نہ پرانا ہو گا، اور نہ کوئی شخص بار بار پڑھنے سے اس سے اکتائے گا، جو شخص اس کی تلاوت کسی ایک قراءت کے مطابق کرتا ہے وہ دوسری قراءتوں کو بےرغبتی کی وجہ سے نہ چھوڑے، کیونکہ جو شخص اس کی کسی آیت کا انکار کرتا ہے گویا وہ پورے قرآن کا انکار کرتا ہے، اور یہ ایسے ہی ہے جیسے تم میں سے کوئی شخص اپنے ساتھی سے کہے کہ جلدی کرو، ادھر آؤ۔ واللہ! اگر میرے علم میں ہوتا کہ کوئی شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والے قرآن کو مجھ سے زیادہ جانتا ہے تو میں اس سے علم حاصل کرتا تاکہ اس کا علم بھی میرے علم میں شامل ہو جائے، عنقریب کچھ ایسے لوگ آئیں گے جو نماز کو مار دیں گے، اس لئے تم وقت پر نماز ادا کیا کرو اور اس کے ساتھ نفلی نماز بھی شامل کیا کرو، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال رمضان میں قرآن کریم کا دور کرتے تھے لیکن جس سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دو مرتبہ قرآن سنایا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میری تحسین فرمائی تھی، اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دہن مبارک سے سن کر ستر سورتیں یاد کیں تھیں۔