(حديث مرفوع) حدثنا جرير ، عن منصور ، عن حبيب ، عن طاوس ، قال: قال رجل لابن عمر : إن ابا هريرة رضي الله تعالى عنه يزعم ان الوتر ليس بحتم؟ قال: سال رجل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صلاة الليل؟ فقال:" صلاة الليل مثنى مثنى، فإذا خفت الصبح فاوتر بواحدة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ حَبِيبٍ ، عَنْ طَاوُسٍ ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِابْنِ عُمَرَ : إِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ يَزْعُمُ أَنَّ الْوَتْرَ لَيْسَ بِحَتْمٍ؟ قَالَ: سَأَلَ رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَلَاةِ اللَّيْلِ؟ فَقَالَ:" صَلَاةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى، فَإِذَا خِفْتَ الصُّبْحَ فَأَوْتِرْ بِوَاحِدَةٍ".
طاؤس کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا خیال ہے کہ وتر ضروری نہیں ہیں؟ انہوں نے فرمایا: ”ایک مرتبہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کی نماز سے متعلق پوچھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم دو دو رکعت کر کے نماز پڑھا کرو اور جب صبح ہوجانے کا اندیشہ ہو تو ان دو کے ساتھ ایک رکعت اور ملا لو۔
(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، اخبرنا ابو بشر ، عن سعيد بن جبير ، قال: خرجت مع ابن عمر من منزله، فمررنا بفتيان من قريش قد نصبوا طيرا وهم يرمونه، وقد جعلوا لصاحب الطير كل خاطئة من نبلهم، فلما راوا ابن عمر تفرقوا، فقال ابن عمر : من فعل هذا؟! لعن الله من فعل هذا؟! , إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" لعن الله من اتخذ شيئا فيه الروح غرضا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا أَبُو بِشْرٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ ابْنِ عُمَرَ مِنْ مَنْزِلِهِ، فَمَرَرْنَا بِفِتْيَانٍ مِنْ قُرَيْشٍ قَدْ نَصَبُوا طَيْرًا وَهُمْ يَرْمُونَهُ، وَقَدْ جَعَلُوا لِصَاحِبِ الطَّيْرِ كُلَّ خَاطِئَةٍ مِنْ نَبْلِهِمْ، فَلَمَّا رَأَوْا ابْنَ عُمَرَ تَفَرَّقُوا، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : مَنْ فَعَلَ هَذَا؟! لَعَنَ اللَّهُ مَنْ فَعَلَ هَذَا؟! , إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَعَنَ اللَّهُ مَنْ اتَّخَذَ شَيْئًا فِيهِ الرُّوحُ غَرَضًا".
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ مدینہ منورہ کے کسی راستے پر سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ ان کے گھر سے نکلا ہمارا گزر قریش کے کچھ نوجوانوں پر ہوا جنہوں نے ایک زندہ پرندہ کو باندھ رکھا ہے اور اس پر نشانہ درست کر رہے تھے اور پرندے کے مالک سے کہہ رکھا تھا جو تیر چوک جائے وہ تمہارا ہو گا اس پر سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما غصے میں آگئے اور فرمانے لگے یہ کون کر رہا ہے؟ اسی وقت سارے نوجوان دائیں بائیں ہو گئے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ”کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص پر لعنت فرمائی ہے جو کسی جاندارچیز کو باندھ کر اس پر نشانہ درست کرے۔
(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، اخبرنا منصور ، وابن عون , عن ابن سيرين ، عن ابن عمر ، قال:" كان تطوع النبي صلى الله عليه وسلم ركعتين قبل الظهر، وركعتين بعدها، وركعتين بعد المغرب، وركعتين بعد العشاء"، قال: واخبرتني حفصة:" انه كان يصلي ركعتين بعد طلوع الفجر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا مَنْصُورٌ ، وَابْنُ عَوْنٍ , عَنِ ابْنِ سِيرِينَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ:" كَانَ تَطَوُّعُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الظُّهْرِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَهَا، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعِشَاءِ"، قَالَ: وَأَخْبَرَتْنِي حَفْصَةُ:" أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نوافل کی تفصیل یہ ہے کہ ظہر کی نماز سے قبل دو رکعتیں اور اس کے بعد دو رکعتیں نیز مغرب کے بعد دو رکعتیں اور عشاء کے بعد بھی دو رکعتیں اور سیدنا حفصہ رضی اللہ عنہ نے مجھے یہ بتایا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم طلوع فجر کے بعد بھی دو رکعتیں پڑھتے تھے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری کو سامنے رکھ کر اسے بطور سترہ آگے کر لیتے تھے اور نماز پڑھ لیتے تھے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مصوروں کو قیامت کے دن عذاب میں مبتلا کیا جائے گا کہ جنہیں تم نے بنایا تھا ان میں روح بھی پھونکو اور انہیں زندگی بھی دو۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الرحمن الطفاوي ، حدثنا ايوب ، عن زيد بن اسلم ، عن ابن عمر ، قال: دخلت على النبي صلى الله عليه وسلم وعلي إزار يتقعقع، فقال:" من هذا؟" قلت: عبد الله بن عمر , قال:" إن كنت عبد الله فارفع إزارك" , فرفعت إزاري إلى نصف الساقين، فلم تزل إزرته حتى مات.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الطُّفَاوِيُّ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيَّ إِزَارٌ يَتَقَعْقَعُ، فَقَالَ:" مَنْ هَذَا؟" قُلْتُ: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ , قَالَ:" إِنْ كُنْتَ عَبْدَ اللَّهِ فَارْفَعْ إِزَارَكَ" , فَرَفَعْتُ إِزَارِي إِلَى نِصْفِ السَّاقَيْنِ، فَلَمْ تَزَلْ إِزْرَتَهُ حَتَّى مَاتَ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا اس وقت میری تہبند نیچے لٹک رہی تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کون ہے؟ میں نے عرض کیا عبداللہ بن عمر ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم عبداللہ ہو تو اپنی تہبند اونچی کرو چنانچہ میں نے اسے نصف پنڈلی تک چڑھا لیاراوی کہتے ہیں کہ وفات تک پھر ان کا یہی معمول رہا۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب تم تین آدمی ہو تو تیسرے کو چھوڑ کر دو آدمی سرگوشی نہ کر نے لگا کرو۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الرحمن ، حدثنا ايوب ، عن نافع ، عن ابن عمر , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم ابصر نخامة في قبلة المسجد، فحتها بيده، ثم اقبل على الناس فتغيظ عليهم، ثم قال:" إن الله تعالى تلقاء وجه احدكم في صلاته، فلا يتنخمن احدكم قبل وجهه في صلاته".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبْصَرَ نُخَامَةً فِي قِبْلَةِ الْمَسْجِدِ، فَحَتَّهَا بِيَدِهِ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ فَتَغَيَّظَ عَلَيْهِمْ، ثُمَّ قَالَ:" إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى تِلْقَاءَ وَجْهِ أَحَدِكُمْ فِي صَلَاتِهِ، فَلَا يَتَنَخَّمَنَّ أَحَدُكُمْ قِبَلَ وَجْهِهِ فِي صَلَاتِهِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں قبلہ کی جانب بلغم لگا ہوا دیکھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر اسے صاف کر دیا پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر ان سے ناراض ہو کر فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص نماز میں ہوتا ہے تو اللہ اس کے چہرے کے سامنے ہوتا ہے اس لئے تم میں سے کوئی شخص اپنی نماز میں اپنے چہرے کے سامنے ناک صاف نہ کرے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 1213، م: 547، وهذا إسناد حسن .
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الرحمن الطفاوي ، حدثنا ايوب ، عن نافع , ان ابن عمر : خرج حاجا، فاحرم، فوضع راسه في برد شديد، فالقيت عليه برنسا، فانتبه، فقال: ما القيت علي؟ قلت: برنسا , قال: تلقيه علي وقد حدثتك , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهانا عن لبسه؟!.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الطُّفَاوِيُّ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ نَافِعٍ , أَنَّ ابْنَ عُمَرَ : خَرَجَ حَاجًّا، فَأَحْرَمَ، فَوَضَعَ رَأْسَهُ فِي بَرْدٍ شَدِيدٍ، فَأَلْقَيْتُ عَلَيْهِ بُرْنُسًا، فَانْتَبَهَ، فَقَالَ: مَا أَلْقَيْتَ عَلَيَّ؟ قُلْتُ: بُرْنُسًا , قَالَ: تُلْقِيهِ عَلَيَّ وَقَدْ حَدَّثْتُكَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَانَا عَنْ لُبْسِهِ؟!.
نافع رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما حج کے ارادے سے روانہ ہوئے انہوں نے احرام باندھا تو انہیں سر کے حصے میں شدید سردی لگنے لگی میں نے انہیں ٹوپی اوڑھا دی جب وہ ہوشیار ہوئے تو فرمایا: ”کہ یہ تم نے مجھ پر کیا ڈال دیا ہے؟ میں نے کہا ٹوپی ہے انہوں نے فرمایا: ”میں تمہیں بتا بھی چکا ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام کی حالت میں ہمیں اس کے پہننے سے منع فرمایا: ”ہے لیکن تم نے پھر بھی یہ میرے او پر ڈال دی؟
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 5794، وهذا إسناد حسن .