قزعہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے مجھے کسی کام سے بھیجتے ہوئے فرمایا: قریب آجاؤ تاکہ میں تمہیں اسی طرح رخصت کروں جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے کام سے بھیجتے ہوئے رخصت کیا تھا پھر میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: کہ میں تمہارے دین و امانت اور تمہارے عمل کا انجام اللہ کے حوالے کرتا ہوں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف ليحيى بن إسماعيل بن جرير، قال الدارقطني: لا يحتج به .
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن كناسة ، حدثنا إسحاق بن سعيد ، عن ابيه ، قال: اتى عبد الله بن عمر عبد الله بن الزبير، فقال: يا ابن الزبير، إياك والإلحاد في حرم الله تبارك وتعالى، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول:" إنه سيلحد فيه رجل من قريش، لو وزنت ذنوبه بذنوب الثقلين لرجحت"، قال: فانظر لا تكونه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كُنَاسَةَ ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: أَتَى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ، فَقَالَ: يَا ابْنَ الزُّبَيْرِ، إِيَّاكَ وَالْإِلْحَادَ فِي حَرَمِ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" إِنَّهُ سَيُلْحِدُ فِيهِ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ، لَوْ وُزِنَتْ ذُنُوبُهُ بِذُنُوبِ الثَّقَلَيْنِ لَرَجَحَتْ"، قَالَ: فَانْظُرْ لَا تَكُونُهُ.
ایک مرتبہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور فرمانے لگے اے زبیر اللہ کے حرم میں الحاد پھیلنے کا ذریعہ بننے سے بھی اپنے آپ کو بچاؤ کیونکہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قریش کا ایک آدمی حرم شریف میں الحاد پھیلائے گا اگر اس کے گناہوں کا تمام انس وجن کے گناہوں سے وزن کیا جائے تو اس کے گناہوں کا پلڑا جھک جائے گا اس لئے دیکھو تم وہ آدمی نہ بننا۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ مؤذن اس کی آواز کی انتہا تک اللہ اس کی بخشش فرما دے گا اور ہر وہ خشک اور تر چیز جس تک اس کی آواز پہنچی ہو گی وہ اس کے حق میں گواہی دے گی۔
(حديث مرفوع) حدثنا معاوية ، حدثنا زائدة ، عن الاعمش ، عن رجل ، عن ابن عمر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" يغفر الله للمؤذن منتهى اذانه، ويستغفر له كل رطب ويابس سمع صوته".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" يَغْفِرُ اللَّهُ لِلْمُؤَذِّنِ مُنْتَهَى أَذَانِهِ، وَيَسْتَغْفِرُ لَهُ كُلُّ رَطْبٍ وَيَابِسٍ سَمِعَ صَوْتَهُ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ مؤذن اس کی آواز کی انتہا تک اللہ اس کی بخشش فرمادے گا اور ہر وہ خشک اور تر چیز جس تک اس کی آواز پہنچی ہو گی وہ اس کے حق میں گواہی دے گی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لإبهام الراوي عن ابن عمر .
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص تکبر کی وجہ سے اپنے کپڑے زمین پر گھسیٹتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس پر نظر رحم نہیں فرمائے گا سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ میرے کپڑے کا ایک کونا بعض اوقات نیچے لٹک جاتا ہے گو کہ میں کوشش تو بہت کرتا ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آپ ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جو یہ کام تکبر کی وجہ سے کرتے ہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا سليمان بن داود الهاشمي ، اخبرنا إسماعيل ، اخبرني موسى بن عقبة ، عن سالم بن عبد الله ، عن ابيه , ان النبي صلى الله عليه وسلم اتي وهو في معرسه من ذي الحليفة في بطن الوادي، فقيل له: إنك ببطحاء مباركة , فقال موسى: وقد اناخ بنا سالم بالمناخ الذي كان عبد الله ينيخ به، يتحرى معرس النبي صلى الله عليه وسلم، وهو اسفل من المسجد الذي في بطن الوادي، بينه وبين الطريق، وسطا من ذلك.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْهَاشِمِيُّ ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَخْبَرَنِي مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِيهِ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ وَهُوَ فِي مُعَرَّسِهِ مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ فِي بَطْنِ الْوَادِي، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّكَ بِبَطْحَاءَ مُبَارَكَةٍ , فَقَالَ مُوسَى: وَقَدْ أَنَاخَ بِنَا سَالِمٌ بِالْمُنَاخِ الَّذِي كَانَ عَبْدُ اللَّهِ يُنِيخُ بِهِ، يَتَحَرَّى مُعَرَّسَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ أَسْفَلُ مِنَ الْمَسْجِدِ الَّذِي فِي بَطْنِ الْوَادِي، بَيْنَهُ وَبَيْنَ الطَّرِيقِ، وَسَطًا مِنْ ذَلِكَ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑاؤ میں " جو ذوالحلیفہ کے بطن وادی میں تھا ایک فرشتہ آیا اور کہنے لگا کہ آپ مبارک بطحاء میں ہیں موسیٰ بن عقبہ رحمتہ اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ سالم نے بھی اسی جگہ پر اونٹنی بٹھائی تھی جہاں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما اپنی اونٹنی بٹھاتے تھے اور خوب احتیاط سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پڑاؤ تلاش کرتے تھے جو کہ بطن وادی کی مسجد سے نشیب میں تھا اور مسجد اور راستے کے بالکل بیچ میں تھا۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے لوگو ظلم کرنے سے بچو کیونکہ ظلم قیامت کے دن اندھیروں کی صورت میں ہو گا۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب اللہ کسی قوم پر عذاب مسلط کرتا ہے تو وہ عذاب وہاں رہنے والے تمام لوگوں کو ہوتا ہے (جن میں نیک اور بد سب ہی اس کی لپیٹ میں آتے ہیں) پھر اللہ تعالیٰ انہیں ان کے اعمال کے مطابق دوبارہ زندگی دے گا کتاب میں اسی طرح ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف من أجل تدليس حجاج، ثم إن حجاجا قد خالف فيه يونس بن يزيد الأيلي .
(حديث مرفوع) حدثنا هارون بن معروف ، اخبرنا عبد الله بن وهب ، اخبرني ابو صخر ، عن نافع ، قال: بينما نحن عند عبد الله بن عمر قعودا، إذ جاء رجل , فقال: إن فلانا يقرا عليك السلام، لرجل من اهل الشام، فقال عبد الله : بلغني انه احدث حدثا، فإن كان كذلك، فلا تقران عليه مني السلام، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول:" إنه سيكون في امتي مسخ وقذف، وهو في الزنديقية والقدرية".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو صَخْرٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قُعُودًا، إِذْ جَاءَ رَجُلٌ , فَقَالَ: إِنَّ فُلَانًا يَقْرَأُ عَلَيْكَ السَّلَامَ، لِرَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ : بَلَغَنِي أَنَّهُ أَحْدَثَ حَدَثًا، فَإِنْ كَانَ كَذَلِكَ، فَلَا تَقْرَأَنَّ عَلَيْهِ مِنِّي السَّلَامَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" إِنَّهُ سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي مَسْخٌ وَقَذْفٌ، وَهُوَ فِي الزِّنْدِيقِيَّةِ وَالْقَدَرِيَّةِ".
نافع رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کہ فلاں شامی آپ کو سلام کہتا ہے انہوں نے فرمایا: مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس نے نئی رائے قائم کر لی ہے اگر واقعی یہ بات ہے تو تم اسے میری جانب سے سلام نہ کہنا کیونکہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس امت میں بھی شکلیں مسخ ہوں گی اور پتھروں کی بارش ہو گی یاد رکھو کہ یہ ان لوگوں کی ہوں گی جو تقدیر کی تکذیب کرتے ہیں یا زندیق ہیں۔
حكم دارالسلام: ضعيف، أبو صخر حميد بن صخر مختلف فيه .