(حديث موقوف) حدثنا حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن صالح ، حدثنا نافع ، ان عبد الله اخبره:" ان المسجد كان على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم مبنيا باللبن، وسقفه الجريد، وعمده خشب النخل، فلم يزد فيه ابو بكر شيئا، وزاد فيه عمر، وبناه على بنائه في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم باللبن والجريد، واعاد عمده خشبا، ثم غيره عثمان، فزاد فيه زيادة كثيرة، وبنى جداره بالحجارة المنقوشة والقصة، وجعل عمده من حجارة منقوشة، وسقفه بالساج".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ أَخْبَرَهُ:" أَنَّ الْمَسْجِدَ كَانَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَبْنِيًّا بِاللَّبِنِ، وَسَقْفُهُ الْجَرِيدُ، وَعُمُدُهُ خَشَبُ النَّخْلِ، فَلَمْ يَزِدْ فِيهِ أَبُو بَكْرٍ شَيْئًا، وَزَادَ فِيهِ عُمَرُ، وَبَنَاهُ عَلَى بِنَائِهِ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِاللَّبِنِ وَالْجَرِيدِ، وَأَعَادَ عُمُدَهُ خَشَبًا، ثُمَّ غَيَّرَهُ عُثْمَانُ، فَزَادَ فِيهِ زِيَادَةً كَثِيرَةً، وَبَنَى جِدَارَهُ بِالْحِجَارَةِ الْمَنْقُوشَةِ وَالْقَصَّةِ، وَجَعَلَ عُمُدَهُ مِنْ حِجَارَةٍ مَنْقُوشَةٍ، وَسَقْفَهُ بِالسَّاجِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں مسجد نبوی کچی اینٹوں سے بنی ہوئی تھی اس کی چھت پر ٹہنیاں ڈال دی گئی تھیں اور اس کے ستون کھجور کے درخت کی لکڑی کے تھے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں اس تعمیر میں کچھ اضافہ نہ کیا سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس کی تعمیر میں کچھ اضافہ کیا لیکن اس کی بنیاد اسی تعمیر کی بنائی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں تھی یعنی کچی اینٹیں اور ٹہنیاں اور ستونوں میں بھی نئی لکڑی لگوا دی سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے اس کی عمارت میں تبدیلیاں کیں اور اس میں بہت زیادہ اضافے کئے انہوں نے اس کی دیوار منقش پتھروں اور چونے سے تعمیر کروائی اس کے ستون منقش پتھروں سے بنوائے اور چھت پر ساگوان کی لکڑی ڈالی۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثني ابن اخي ابن شهاب ، عن عمه محمد بن مسلم ، اخبرني سالم بن عبد الله ، عن عبد الله بن عمر ، قال:" إن مهل اهل المدينة , ذو الحليفة، ومهل اهل الشام , مهيعة، وهي الجحفة، ومهل اهل نجد , قرن"، قال سالم: سمعت عبد الله , يقول: سمعت هؤلاء الكلمات من رسول الله صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنِي ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَمِّهِ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ ، أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ:" إِنَّ مُهَلَّ أَهْلِ الْمَدِينَةِ , ذُو الْحُلَيْفَةِ، وَمُهَلَّ أَهْلِ الشَّامِ , مَهْيَعَةُ، وَهِيَ الْجُحْفَةُ، وَمُهَلَّ أَهْلِ نَجْدٍ , قَرْنٌ"، قَالَ سَالِمٌ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ , يَقُولُ: سَمِعْتُ هَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اہل مدینہ کے لئے ذوالحلیفہ اہل شام کے لئے جحفہ اور اہل نجد کے لئے قرن مواقیت ہیں اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے یہ چیزیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 1525، م: 1182، وهذا إسناد جيد .
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، اخبرني ابن اخي ابن شهاب ، عن عمه ، اخبرنا سالم بن عبد الله ، ان عبد الله بن عمر ، قال: طلقت امراتي وهي حائض، فذكر عمر ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم قال: فتغيظ رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال:" ليراجعها حتى تحيض حيضة مستقبلة سوى حيضتها التي طلقها فيها، فإن بدا له ان يطلقها، فليطلقها طاهرا من حيضتها قبل ان يمسها، فذلك الطلاق للعدة، كما امر الله تعالى"، وكان عبد الله طلقها تطليقة، فحسبت من طلاقها، وراجعها عبد الله كما امره.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، أَخْبَرَنِي ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَمِّهِ ، أَخْبَرَنَا سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، قَالَ: طَلَّقْتُ امْرَأَتِي وَهِيَ حَائِضٌ، فَذَكَرَ عُمَرُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فَتَغَيَّظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ:" لِيُرَاجِعْهَا حَتَّى تَحِيضَ حَيْضَةً مُسْتَقْبَلَةً سِوَى حَيْضَتِهَا الَّتِي طَلَّقَهَا فِيهَا، فَإِنْ بَدَا لَهُ أَنْ يُطَلِّقَهَا، فَلْيُطَلِّقْهَا طَاهِرًا مِنْ حَيْضَتِهَا قَبْلَ أَنْ يَمَسَّهَا، فَذَلِكَ الطَّلَاقُ لِلْعِدَّةِ، كَمَا أَمَرَ اللَّهُ تَعَالَى"، وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ طَلَّقَهَا تَطْلِيقَةً، فَحُسِبَتْ مِنْ طَلَاقِهَا، وَرَاجَعَهَا عَبْدُ اللَّهِ كَمَا أَمَرَهُ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے اپنی بیوی کو ایام کی حالت میں طلاق دے دی تھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جا کرنبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بتائی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سخت ناراض ہوئے اور فرمایا: اسے کہو کہ وہ اس سے رجوع کر لے پھر اگر وہ اسے طلاق دینا ہی چاہے تو اس کے قریب جانے پہلے طہر کی دوران دے یہ طلاق کا وہ طریقہ ہے جس کے مطابق اللہ نے طلاق دینے کی اجازت دی ہے چونکہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اسے طلاق دے دی تھی لہٰذا اسے شمار کیا گیا اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق اس سے رجوع کر لیا فرمایا: یہ بتاؤ کیا تم اسے بیوقوف اور احمق ثابت کرنا چاہتے ہو (طلاق کیوں نہ ہو گی)
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 1471، وهذا إسناد جيد .
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن صالح ، قال ابن شهاب , حدثني حمزة بن عبد الله بن عمر ، انه سمع عبد الله بن عمر , يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" بينا انا نائم اتيت بقدح لبن، فشربت منه، حتى إني لارى الري يخرج من اطرافي، فاعطيت فضلي عمر بن الخطاب"، فقال من حوله: فما اولت ذلك يا رسول الله؟ قال:" العلم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ , حَدَّثَنِي حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ , يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ أُتِيتُ بِقَدَحِ لَبَنٍ، فَشَرِبْتُ مِنْهُ، حَتَّى إِنِّي لَأَرَى الرِّيَّ يَخْرُجُ مِنْ أَطْرَافِي، فَأَعْطَيْتُ فَضْلِي عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ"، فَقَالَ مَنْ حَوْلَهُ: فَمَا أَوَّلْتَ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" الْعِلْمَ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ایک مرتبہ خواب میں میرے پاس دودھ کا ایک پیالہ لایا گیا میں نے اسے اتنا پیا کہ میرے ناخنوں سے دودھ نکلنے لگا پھر میں نے اپنا پس خوردہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کودے دیا کسی نے پوچھا یا رسول اللہ! آپ نے اس کی کیا تعبیر لی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: علم۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن صالح ، حدثنا نافع ، عن عبد الله بن عمر ، قال: قام رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكر المسيح الدجال، فقال:" إن الله تعالى ليس باعور، الا إن المسيح الدجال اعور عين اليمنى، كان عينه عنبة طافية".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ، فَقَالَ:" إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَيْسَ بِأَعْوَرَ، أَلَا إِنَّ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ أَعْوَرُ عَيْنِ الْيُمْنَى، كَأَنَّ عَيْنَهُ عِنَبَةٌ طَافِيَةٌ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن کھڑے ہو کر مسیح دجال کا تذکر ہ کیا اور فرمایا: اللہ تعالیٰ کانا نہیں ہے یاد رکھو مسیح دجال دائیں آنکھ سے کانا ہو گا اور اس کی آنکھ انگور کے دانے کی طرح پھولی ہوئی ہو گی۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن صالح ، حدثني نافع ، ان عبد الله بن عمر اخبره: قال:" اطلع رسول الله صلى الله عليه وسلم على اهل القليب , ببدر، ثم ناداهم، فقال:" يا اهل القليب، هل وجدتم ما وعدكم ربكم حقا؟" قال اناس من اصحابه: يا رسول الله، اتنادي ناسا امواتا؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما انتم باسمع لما قلت منهم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ أَخْبَرَهُ: قَالَ:" اطَّلَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَهْلِ الْقَلِيبِ , بِبَدْرٍ، ثُمَّ نَادَاهُمْ، فَقَالَ:" يَا أَهْلَ الْقَلِيبِ، هَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَكُمْ رَبُّكُمْ حَقًّا؟" قَالَ أُنَاسٌ مِنْ أَصْحَابِهِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتُنَادِي نَاسًا أَمْوَاتًا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا قُلْتُ مِنْهُمْ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ بدر کے دن اس کنوئیں کے پاس آ کر کھڑے ہوئے جس میں صنادید قریش کی لاشیں پڑی تھیں اور انہیں پکار کر فرمانے لگے اے کنوئیں والو! کیا تم نے اپنے رب کے وعدے کو سچا پایا؟ بعض صحابہ کر ام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ!! کیا آپ مردوں کو پکار رہے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں ان سے جو کچھ کہہ رہاہوں وہ تم ان سے زیادہ نہیں سن رہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثني ابن اخي ابن شهاب ، عن عمه ، قال: اخبرني سالم بن عبد الله بن عمر ، عن عبد الله بن عمر ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يهل وهو ملبد، يقول:" لبيك اللهم لبيك، لبيك لا شريك لك لبيك، إن الحمد والنعمة لك، والملك، لا شريك لك"، قال: وسمعت عمر بن الخطاب يهل بإهلال رسول الله صلى الله عليه وسلم، ويزيد فيها: لبيك وسعديك، والخير في يديك، والرغباء إليك والعمل.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنِي ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَمِّهِ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُهِلُّ وَهُوَ مُلَبِّدٌ، يَقُولُ:" لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ، وَالْمُلْكَ، لَا شَرِيكَ لَكَ"، قَالَ: وسَمِعْت عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يُهِلُّ بِإِهْلَالِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَيَزِيدُ فِيهَا: لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ، وَالْخَيْرُ فِي يَدَيْكَ، وَالرَّغْبَاءُ إِلَيْكَ وَالْعَمَلُ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سر کے بال جمائے یوں تلبیہ پڑھتے ہوئے سنا ہے کہ میں حاضر ہوں اے اللہ میں حاضر ہوں میں حاضر ہوں آپ کا کوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں تمام تعریفیں اور تمام نعمتیں آپ کے لئے ہیں حکومت بھی آپ ہی کی ہے آپ کا کوئی شریک نہیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس میں یہ اضافہ فرماتے تھے کہ میں حاضر ہوں میں حاضر ہوں میں تیری خدمت میں آگیا ہوں ہر قسم کی خیر آپ کے ہاتھ میں ہے میں حاضر ہوں تمام رغبتیں اور عمل آپ ہی کے لئے ہیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 1184، وهذا إسناد جيد .
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ یہودی تم سے قتال کر یں گے اور تم ان پر غالب آجاؤ گے حتیٰ کہ اگر کوئی یہودی کسی پتھر کے نیچے چھپا ہو گا تو وہ پتھر مسلمانوں سے پکار پکار کر کہے گا کہ یہ میرے نیچے یہودی چھپا ہوا ہے آکر اسے قتل کرو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 3593، م: 2921، وهذا إسناد جيد .
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابن اخي ابن شهاب ، عن عمه ، اخبرني سالم بن عبد الله ، عن عبد الله بن عمر ، قال: صلى لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم العشاء، وهي التي يدعو الناس العتمة، ثم انصرف، فاقبل علينا، فقال:" ارايتم ليلتكم هذه، فإن راس مئة سنة منها لا يبقى ممن هو اليوم على ظهر الارض احد".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَمِّهِ ، أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ: صَلَّى لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِشَاءَ، وَهِيَ الَّتِي يَدْعُو النَّاسُ الْعَتَمَةَ، ثُمَّ انْصَرَفَ، فَأَقْبَلَ عَلَيْنَا، فَقَالَ:" أَرَأَيْتُمْ لَيْلَتَكُمْ هَذِهِ، فَإِنَّ رَأْسَ مِئَةِ سَنَةٍ مِنْهَا لَا يَبْقَى مِمَّنْ هُوَ الْيَوْمَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ أَحَدٌ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی زندگی کے آخری ایام میں) ایک مرتبہ عشاء کی نماز پڑھائی یہ وہی نماز ہے جسے لوگ " عتمہ " بھی کہتے ہیں جب سلام پھیر چکے تو کھڑے ہو گئے اور فرمایا: کہ آج کی رات کو یاد رکھنا کیونکہ اس کے پورے سو سال بعد روئے زمین پر جو آج موجود ہیں ان میں سے کوئی بھی باقی نہ بچے گا۔