سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم امی امت ہیں حساب کتاب نہیں جانتے بعض اوقات مہینہ اتنا اتنا اور اتنا ہوتا ہے تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگوٹھا بند کر لیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب بن إبراهيم ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، حدثني نافع ، عن ابن عمر ، قال:" غدا رسول الله صلى الله عليه وسلم من منى حين صلى الصبح في صبيحة يوم عرفة، حتى اتى عرفة، فنزل بنمرة، وهي منزل الإمام الذي كان ينزل به بعرفة، حتى إذا كان عند صلاة الظهر، راح رسول الله صلى الله عليه وسلم مهجرا، فجمع بين الظهر والعصر، ثم خطب الناس، ثم راح فوقف على الموقف من عرفة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ:" غَدَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مِنًى حِينَ صَلَّى الصُّبْحَ فِي صَبِيحَةِ يَوْمِ عَرَفَةَ، حَتَّى أَتَى عَرَفَةَ، فَنَزَلَ بِنَمِرَةَ، وَهِيَ مَنْزِلُ الْإِمَامِ الَّذِي كَانَ يَنْزِلُ بِهِ بِعَرَفَةَ، حَتَّى إِذَا كَانَ عِنْدَ صَلَاةِ الظُّهْرِ، رَاحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُهَجِّرًا، فَجَمَعَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، ثُمَّ خَطَبَ النَّاسَ، ثُمَّ رَاحَ فَوَقَفَ عَلَى الْمَوْقِفِ مِنْ عَرَفَةَ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نو ذی الحجہ کی صبح کی نماز پڑھ کرنبی صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ سے روانہ ہوئے اور میدان عرفات پہنچ کر مسجد نمرہ کے قریب پڑاؤ ڈالا جہاں آج کل امام صاحب آ کر پڑاؤ کرتے ہیں " جب ظہر کی نماز کا وقت قریب آیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اول وقت ہی میں تشریف لائے اور ظہر اور عصر کی نمازیں اکٹھی ادا کی پھر خطبہ ارشاد فرمایا: اور اس کے بعد وہاں سے نکل کر میدان عرفات میں وقوف کی جگہ پر تشریف لے گئے۔
حكم دارالسلام: إسناده حسن من أجل ابن إسحاق، وقد صرح بالتحديث هنا، فانتفت شبهة تدليسه.
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، حدثني نافع ، عن عبد الله بن عمر , انه كان يحب إذا استطاع، ان يصلي الظهر بمنى من يوم التروية، وذلك ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" صلى الظهر بمنى".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ , أَنَّهُ كَانَ يُحِبُّ إِذَا اسْتَطَاعَ، أَنْ يُصَلِّيَ الظُّهْرَ بِمِنًى مِنْ يَوْمِ التَّرْوِيَةِ، وَذَلِكَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" صَلَّى الظُّهْرَ بِمِنًى".
نافع رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما آٹھ ذی الحجہ کی نماز ظہر حتی المقدور منٰی میں ادا کرنا پسند فرماتے تھے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس دن ظہر کی نماز منٰی میں پڑھی تھی۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن كسابقه .
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، حدثني نافع ، عن ابن عمر , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" صلى حين اقبل من حجته قافلا في تلك البطحاء، قال: ثم دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة، فاناخ على باب مسجده، ثم دخله، فركع فيه ركعتين، ثم انصرف إلى بيته"، قال نافع: فكان عبد الله بن عمر كذلك يصنع.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" صَلَّى حِينَ أَقْبَلَ مِنْ حَجَّتِهِ قَافِلًا فِي تِلْكَ الْبَطْحَاءِ، قَالَ: ثُمَّ دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، فَأَنَاخَ عَلَى بَابِ مَسْجِدِهِ، ثُمَّ دَخَلَهُ، فَرَكَعَ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى بَيْتِهِ"، قَالَ نَافِعٌ: فَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ كَذَلِكَ يَصْنَعُ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب حج سے واپس تشریف لا رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وادی بطحاء میں نماز ادا فرمائی پھر جب مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تو مسجد نبوی کے دروازے پر اپنی اونٹنی کو بٹھا کر مسجد میں داخل ہوئے اور وہاں بھی دو رکعتیں پڑھیں پھر اپنے گھر تشریف لے گئے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما خود بھی اسی طرح کرتے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن شهاب ، عن سالم بن عبد الله ، عن عبد الله بن عمر ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول:" الا إنما بقاؤكم فيما سلف قبلكم من الامم كما بين صلاة العصر إلى غروب الشمس، اوتي اهل التوراة التوراة، فعملوا حتى إذا انتصف النهار، ثم عجزوا، فاعطوا قيراطا قيراطا، ثم اوتي اهل الإنجيل الإنجيل، فعملوا إلى صلاة العصر، ثم عجزوا، فاعطوا قيراطا قيراطا، ثم اوتينا القرآن فعملنا إلى غروب الشمس، فاعطينا قيراطين قيراطين، فقال اهل الكتابين: اي ربنا، لم اعطيت هؤلاء قيراطين قيراطين، واعطيتنا قيراطا قيراطا، ونحن كنا اكثر عملا منهم؟ قال الله تعالى: هل ظلمتكم من اجوركم من شيء؟ قالوا: لا، قال: فهو فضلي اوتيه من اشاء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" أَلَا إِنَّمَا بَقَاؤُكُمْ فِيمَا سَلَفَ قَبْلَكُمْ مِنَ الْأُمَمِ كَمَا بَيْنَ صَلَاةِ الْعَصْرِ إِلَى غُرُوبِ الشَّمْسِ، أُوتِيَ أَهْلُ التَّوْرَاةِ التَّوْرَاةَ، فَعَمِلُوا حَتَّى إِذَا انْتَصَفَ النَّهَارُ، ثُمَّ عَجَزُوا، فَأُعْطُوا قِيرَاطًا قِيرَاطًا، ثُمَّ أُوتِيَ أَهْلُ الْإِنْجِيلِ الْإِنْجِيلَ، فَعَمِلُوا إِلَى صَلَاةِ الْعَصْرِ، ثُمَّ عَجَزُوا، فَأُعْطُوا قِيرَاطًا قِيرَاطًا، ثُمَّ أُوتِينَا الْقُرْآنَ فَعَمِلْنَا إِلَى غُرُوبِ الشَّمْسِ، فَأُعْطِينَا قِيرَاطَيْنِ قِيرَاطَيْنِ، فَقَالَ أَهْلُ الْكِتَابَيْنِ: أَيْ رَبَّنَا، لِمَ أَعْطَيْتَ هَؤُلَاءِ قِيرَاطَيْنِ قِيرَاطَيْنِ، وَأَعْطَيْتَنَا قِيرَاطًا قِيرَاطًا، وَنَحْنُ كُنَّا أَكْثَرَ عَمَلًا مِنْهُمْ؟ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: هَلْ ظَلَمْتُكُمْ مِنْ أُجُورِكُمْ مِنْ شَيْءٍ؟ قَالُوا: لَا، قَالَ: فَهُوَ فَضْلِي أُوتِيهِ مَنْ أَشَاءُ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو برسر منبر یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ گزشتہ لوگوں کے مقابلے میں تمہاری بقاء کی مدت اتنی ہے جیسے عصر اور مغرب کا درمیانی وقت ہوتا ہے، تورات والوں کو تورات دی گئی چنانچہ انہوں نے اس پر عمل کیا لیکن نصف النہار کے وقت وہ اس سے عاجز آگئے لہٰذا انہیں ایک ایک قیراط دے دیا گیا، پھر انجیل والوں کو انجیل دی گئی اور انہوں نے اس پر عصر تک عمل کیا لیکن پھر وہ بھی عاجز آگئے لہٰذا انہیں بھی ایک ایک قیراط دے دیا گیا پھر تمہیں قرآن دیا گیا اور تم نے مغرب تک اس پر عمل کیا چنانچہ تمہیں دو دو قیراط دے دیئے گئے اس پر اہل تورات و انجیل کہنے لگے پروردگار! ان لوگوں نے محنت تھوڑی کی لیکن انہیں اجر زیادہ ملا اللہ نے فرمایا: کیا میں نے تمہاری مزدوری میں تم پر کچھ ظلم کیا ہے؟ انہوں نے کہا نہیں، اللہ نے فرمایا: پھر میں اپنا فضل جسے چاہوں عطاء کر دوں۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، حدثني نافع ، عن ابن عمر ، قال: كان رجل من الانصار لا يزال يغبن في البيوع، وكانت في لسانه لوثة، فشكا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ما يلقى من الغبن، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا انت بايعت، فقل: لا خلابة"، قال: يقول ابن عمر: فوالله لكاني اسمعه يبايع، ويقول: لا خلابة، يلجلج بلسانه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: كَانَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ لَا يَزَالُ يُغْبَنُ فِي الْبُيُوعِ، وَكَانَتْ فِي لِسَانِهِ لُوثَةٌ، فَشَكَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا يَلْقَى مِنَ الْغَبْنِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا أَنْتَ بَايَعْتَ، فَقُلْ: لَا خِلَابَةَ"، قَالَ: يَقُولُ ابْنُ عُمَرَ: فَوَاللَّهِ لَكَأَنِّي أَسْمَعُهُ يُبَايِعُ، وَيَقُولُ: لَا خِلَابَةَ، يُلَجْلِجُ بِلِسَانِهِ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انصار کا ایک آدمی تھا جسے بیع میں لوگ دھوکہ دیتے تھے اس کی زبان میں لکنت بھی تھی اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے ساتھ ہونے والے دھوکے کی شکایت کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم بیع کیا کرو تو تم یوں کہہ لیا کرو کہ اس بیع میں کوئی دھوکہ نہیں ہے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ واللہ یوں محسوس ہوتا ہے جسے اب بھی میں اسے بیع کرتے ہوئے " لا خلابہ " کہتے ہوئے سن رہا ہوں اور اس کی زبان اڑ رہی ہے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا: ہے کہ کوئی شخص اپنے بھائی کی بیع پر بیع کرے اور اپنے بھائی کے پیغام نکاح پر اپنا پیغام نکاح بھیجے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 5142، م: 1412، وهذا إسناد حسن من أجل ابن إسحاق .
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، حدثني عمر بن حسين بن عبد الله مولى آل حاطب، عن نافع مولى عبد الله بن عمر، عن عبد الله بن عمر، قال: توفي عثمان بن مظعون، وترك ابنة له من خويلة بنت حكيم بن امية بن حارثة بن الاوقص، قال: واوصى إلى اخيه قدامة بن مظعون، قال عبد الله : وهما خالاي، قال: فخطبت إلى قدامة بن مظعون , ابنة عثمان بن مظعون، فزوجنيها، ودخل المغيرة بن شعبة , يعني: إلى امها، فارغبها في المال، فحطت إليه، وحطت الجارية إلى هوى امها، فابيا، حتى ارتفع امرهما إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال قدامة بن مظعون: يا رسول الله، ابنة اخي، اوصى بها إلي، فزوجتها ابن عمتها عبد الله بن عمر، فلم اقصر بها في الصلاح ولا في الكفاءة، ولكنها امراة، وإنما حطت إلى هوى امها، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هي يتيمة، ولا تنكح إلا بإذنها"، قال: فانتزعت والله مني بعد ان ملكتها، فزوجوها المغيرة بن شعبة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ حُسَيْنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ مَوْلَى آلِ حَاطِبٍ، عَنْ نَافِعٍ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: تُوُفِّيَ عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ، وَتَرَكَ ابْنَةً لَهُ مِنْ خُوَيْلَةَ بِنْتِ حَكِيمِ بْنِ أُمَيَّةَ بْنِ حَارِثَةَ بْنِ الْأَوْقَصِ، قَالَ: وَأَوْصَى إِلَى أَخِيهِ قُدَامَةَ بْنِ مَظْعُونٍ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ : وَهُمَا خَالَايَ، قَالَ: فَخَطَبْتُ إِلَى قُدَامَةَ بْنِ مَظْعُونٍ , ابْنَةَ عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ، فَزَوَّجَنِيهَا، وَدَخَلَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ , يَعْنِي: إِلَى أُمِّهَا، فَأَرْغَبَهَا فِي الْمَالِ، فَحَطَّتْ إِلَيْهِ، وَحَطَّتْ الْجَارِيَةُ إِلَى هَوَى أُمِّهَا، فَأَبَيَا، حَتَّى ارْتَفَعَ أَمْرُهُمَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ قُدَامَةُ بْنُ مَظْعُونٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ابْنَةُ أَخِي، أَوْصَى بِهَا إِلَيَّ، فَزَوَّجْتُهَا ابْنَ عَمَّتِهَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، فَلَمْ أُقَصِّرْ بِهَا فِي الصَّلَاحِ وَلَا فِي الْكَفَاءَةِ، وَلَكِنَّهَا امْرَأَةٌ، وَإِنَّمَا حَطَّتْ إِلَى هَوَى أُمِّهَا، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هِيَ يَتِيمَةٌ، وَلَا تُنْكَحُ إِلَّا بِإِذْنِهَا"، قَالَ: فَانْتُزِعَتْ وَاللَّهِ مِنِّي بَعْدَ أَنْ مَلَكْتُهَا، فَزَوَّجُوهَا الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو ان کے ورثاء میں ایک بیٹی تھی جو خویلہ بنت حکیم بن امیہ بن حارثہ بن الاوقص سے پیدا ہوئی تھی، انہوں نے اپنے بھائی سیدنا قدامہ بن مظعون رضی اللہ عنہ کو اپنا وصی مقرر کیا تھا یہ دونوں میرے ماموں تھے میں نے سیدنا قدامہ رضی اللہ عنہ کے پاس سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی بیٹی سے اپنے لئے پیغام نکاح بھیجاجو انہوں نے قبول کر لیا اور میرے ساتھ اس کی شادی کر دی اسی دوران سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ اس کی ماں کے پاس آئے اور اسے مال و دولت کا لالچ دیا اور پھسل گئی اور لڑکی بھی اپنی ماں کی رغبت کو دیکھتے ہوئے پھسل گئی اور دونوں نے اس رشتے سے انکار کر دیا۔ بالآخریہ معاملہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا سیدنا قدامہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے یا رسول اللہ! یہ میرے بھائی کی بیٹی ہے اس نے مجھے خود اس کے متعلق وصیت کی تھی میں نے اس کا نکاح اس کے پھوپھی زادبھائی عبداللہ بن عمر سے کر دیا میں نے جوڑ تلاش کرنے میں اور بہتری و صلاح کو جانچنے میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کی لیکن یہ بھی ایک عورت ہے اور اپنی ماں کی رغبت دوسری طرف دیکھتے ہوئے پھسل رہی ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ یتیم بچی ہے، اس کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ واللہ اسے میری ملکیت میں آنے کے بعد مجھ سے چھین لیا گیا اور سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے اس کا نکاح کر دیا گیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن صالح ، حدثنا نافع ، ان عبد الله اخبره: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال على المنبر:" غفار غفر الله لها، واسلم سالمها الله، وعصية عصت الله ورسوله".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ أَخْبَرَهُ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ عَلَى الْمِنْبَرِ:" غِفَارٌ غَفَرَ اللَّهُ لَهَا، وَأَسْلَمُ سَالَمَهَا اللَّهُ، وَعُصَيَّةُ عَصَتْ اللَّهَ وَرَسُولَهُ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: برسر منبر ارشاد فرمایا: قبیلہ غفار اللہ اس کی بخشش کرے قبیلہ اسلم اللہ اسے سلامت رکھے اور عصیہ نے اللہ اور اس کی رسول کی نافرمانی کی۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن صالح , حدثنا نافع ، ان عبد الله بن عمر ، قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" يدخل اهل الجنة الجنة" , قال عبد الله بن احمد: قال ابي: وحدثناه سعد، قال:" يدخل الله اهل الجنة الجنة، واهل النار النار، ثم يقوم مؤذن بينهم، فيقول يا اهل الجنة، لا موت، ويا اهل النار، لا موت، كل خالد فيما هو فيه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ , حَدَّثَنَا نَافِعٌ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" يَدْخُلُ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ" , قَالَ عَبْدُ الله بْنِ أَحْمَّد: قَالَ أَبِي: وحَدَّثَنَاه سَعْدٌ، قَالَ:" يُدْخِلُ اللَّهُ أَهْلَ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ، وَأَهْلَ النَّارِ النَّارَ، ثُمَّ يَقُومُ مُؤَذِّنٌ بَيْنَهُمْ، فَيَقُولُ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ، لَا مَوْتَ، وَيَا أَهْلَ النَّارِ، لَا مَوْتَ، كُلٌّ خَالِدٌ فِيمَا هُوَ فِيهِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب اہل جنت جنت میں اور جہنمی جہنم میں چلے جائیں گے تو ایک منادی پکار کر کہے گا اے اہل جنت! یہاں تمہیں موت نہ آئے گی اور اے اہل جہنم یہاں تمہیں موت نہ آئے گی سب اپنی اپنی جگہ ہمیشہ رہیں گے۔