(حديث مرفوع) حدثنا سريج ، حدثنا عبد الله ، عن سعيد المقبري ، قال: جلست إلى ابن عمر ومعه رجل يحدثه، فدخلت معهما، فضرب بيده صدري، وقال: اما علمت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" إذا تناجى اثنان فلا تجلس إليهما حتى تستاذنهما".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُرَيْجٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، قَالَ: جَلَسْتُ إِلَى ابْنِ عُمَرَ وَمَعَهُ رَجُلٌ يُحَدِّثُهُ، فَدَخَلْتُ مَعَهُمَا، فَضَرَبَ بِيَدِهِ صَدْرِي، وَقَالَ: أَمَا عَلِمْتَ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا تَنَاجَى اثْنَانِ فَلَا تَجْلِسْ إِلَيْهِمَا حَتَّى تَسْتَأْذِنَهُمَا".
سعید مقبری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کسی شخص کے ساتھ کوئی بات کر رہے تھے، میں ان کے بیچ میں جا کر بیٹھ گیا، انہوں نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر مار کر فرمایا: کیا تم نہیں جانتے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب دو آدمی آپس میں خفیہ بات کر رہے ہوں، تو ان کی اجازت کے بغیر ان کے پاس جا کر مت بیٹھو۔“
حكم دارالسلام: حديث حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبد الله العمري، وروي موقوفا وهو أصح.
(حديث مرفوع) حدثنا سريج ، حدثنا عبد الله ، عن نافع ، عن ابن عمر انه كان" يصفر لحيته، ويلبس النعال السبتية، ويستلم الركنين، ويلبي إذا استوت به راحلته"، ويخبر ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يفعله.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُرَيْجٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ كَانَ" يُصَفِّرُ لِحْيَتَهُ، وَيَلْبَسُ النِّعَالَ السِّبْتِيَّةَ، وَيَسْتَلِمُ الرُّكْنَيْنِ، وَيُلَبِّي إِذَا اسْتَوَتْ بِهِ رَاحِلَتُهُ"، وَيُخْبِرُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَفْعَلُهُ.
نافع رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما اپنی ڈاڑھی کو رنگتے تھے، رنگی ہوئی کھال کی جوتیاں پہنتے تھے، حجر اسود اور رکن یمانی کا استلام کرتے تھے اور تلبیہ اس وقت پڑھتے تھے جب سواری انہیں لے کر سیدھی ہو جاتی اور بتاتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبد الله العمري.
(حديث مرفوع) حدثنا هاشم بن القاسم ، حدثنا شعبة ، عن ابي بكر بن حفص ، عن سالم بن عبد الله ، عن ابيه , ان النبي صلى الله عليه وسلم بعث إلى عمر بحلة من حرير او سيراء، او نحو هذا، فرآها عليه، فقال:" إني لم ارسل بها إليك لتلبسها، إنما هي ثياب من لا خلاق له، إنما بعثت بها إليك لتستنفع بها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ حَفْصٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِيهِ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ إِلَى عُمَرَ بِحُلَّةٍ مِنْ حَرِيرٍ أَوْ سِيَرَاءَ، أَوْ نَحْوِ هَذَا، فَرَآهَا عَلَيْهِ، فَقَالَ:" إِنِّي لَمْ أُرْسِلْ بِهَا إِلَيْكَ لِتَلْبَسَهَا، إِنَّمَا هِيَ ثِيَابُ مَنْ لَا خَلَاقَ لَهُ، إِنَّمَا بَعَثْتُ بِهَا إِلَيْكَ لِتَسْتَنْفِعَ بِهَا".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ریشمی جوڑا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بھجوا دیا، پھر وہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے جسم پر دیکھا تو فرمایا کہ میں نے اسے تمہارے پاس پہننے کے لئے نہیں بھیجا کیونکہ دنیا میں یہ ان لوگوں کا لباس ہے جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے، میں نے تمہیں یہ اس لئے بھجوایا ہے کہ تم اسے فروخت کر کے اس سے فائدہ اٹھاؤ۔
(حديث مرفوع) حدثنا اسود بن عامر ، حدثنا سنان بن هارون ، عن كليب بن وائل ، عن ابن عمر ، قال: ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم فتنة، فمر رجل، فقال:" يقتل فيها هذا المقنع يومئذ مظلوما"، قال: فنظرت فإذا هو عثمان بن عفان رضي الله تعالى عنه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا سِنَانُ بْنُ هَارُونَ ، عَنْ كُلَيْبِ بْنِ وَائِلٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِتْنَةً، فَمَرَّ رَجُلٌ، فَقَالَ:" يُقْتَلُ فِيهَا هَذَا الْمُقَنَّعُ يَوْمَئِذٍ مَظْلُوماً"، قَالَ: فَنَظَرْتُ فَإِذَا هُوَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فتنوں کا تذکر ہ فرما رہے تھے کہ سامنے سے ایک آدمی گزرا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھ کر ارشاد فرمایا کہ اس موقع پر یہ نقاب پوش آدمی مظلوم ہونے کی حالت میں شہید ہو جائے گا، میں نے جا کر دیکھا تو وہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا اسود ، حدثنا ابان ، عن قتادة ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عمر , انه سئل عن نبيذ الجر، فقال:" حرمه رسول الله صلى الله عليه وسلم"، قال: فاتيت ابن عباس ، فقلت له: سالت ابا عبد الرحمن عن نبيذ الجر، فقال: حرمه رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: صدق ابو عبد الرحمن، قال: قلت: ما الجر؟ قال: كل شيء من مدر.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ ، حَدَّثَنَا أَبَانُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ , أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ نَبِيذِ الْجَرِّ، فَقَالَ:" حَرَّمَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، قَالَ: فَأَتَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ ، فَقُلْتُ لَهُ: سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ نَبِيذِ الْجَرِّ، فَقَالَ: حَرَّمَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: صَدَقَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: قُلْتُ: مَا الْجَرُّ؟ قَالَ: كُلُّ شَيْءٍ مِنْ مَدَرٍ.
سعید بن جبیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ انہوں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ مٹکے کی نبیذ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے، میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آیا اور ان سے عرض کیا کہ آپ کو ابوعبدالرحمن پر تعجب نہیں ہوتا، ان کا خیال ہے کہ مٹکے کی نبیذ کو تو انہوں نے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: انہوں نے سچ کہا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حرام قرار دیا ہے، میں نے پوچھا ”مٹکے“ سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: ہر وہ چیز جو پکی مٹی سے بنائی جائے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 1997، وهذا الإسناد ظاهره الانقطاع، لكن صرح قتادة عند أبي عوانة: 301/5 باتصاله كما سيرد.
(حديث مرفوع) حدثنا اسود ، حدثنا شريك ، سمعت سلمة بن كهيل يذكر , عن مجاهد ، عن ابن عمر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إني لاعلم شجرة ينتفع بها، مثل المؤمن، هي التي لا ينفض ورقها"، قال ابن عمر: اردت ان اقول هي النخلة، ففرقت من عمر، ثم سمعته بعد يقول:" هي النخلة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، سَمِعْتُ سَلَمَةَ بْنَ كُهَيْلٍ يَذْكُرُ , عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنِّي لَأَعْلَمُ شَجَرَةً يُنْتَفَعُ بِهَا، مِثْلَ الْمُؤْمِنِ، هِيَ الَّتِي لَا يُنْفَضُ وَرَقُهَا"، قَالَ ابْنُ عُمَرَ: أَرَدْتُ أَنْ أَقُولَ هِيَ النَّخْلَةُ، فَفَرِقْتُ مِنْ عُمَرَ، ثُمَّ سَمِعْتُهُ بَعْدُ يَقُولُ:" هِيَ النَّخْلَةُ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں ایک ایسا درخت جانتا ہوں جس سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور وہ مسلمان کی طرح ہے اور اس کے پتے بھی نہیں جھڑتے“، میں نے چاہا کہ کہہ دوں وہ کھجور کا درخت ہے، لیکن پھر میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ڈر گیا، بعد میں میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف شريك.
(حديث مرفوع) حدثنا اسود ، وحسين , قالا: حدثنا شريك ، عن معاوية بن إسحاق ، عن ابي صالح ، عن رجل من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، اراه ابن عمر ، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم , يقول:" من مثل بذي الروح، ثم لم يتب مثل الله به يوم القيامة"، قال حسين: من مثل بذي روح.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَسْوَدُ ، وَحُسَيْنٌ , قَالَا: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أُرَاهُ ابْنَ عُمَرَ ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" مَنْ مَثَّلَ بِذِي الرُّوحِ، ثُمَّ لَمْ يَتُبْ مَثَّلَ اللَّهُ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ"، قَالَ حُسَيْنٌ: مَنْ مَثَّلَ بِذِي رُوحٍ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص کسی ذی روح کا مثلہ کرے اور توبہ نہ کرے قیامت کا دن اللہ تعالیٰ اس کا بھی مثلہ کریں گے۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف شريك.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ تین مرتبہ ایسا ہوا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض نماز میں آیت سجدہ کی تلاوت فرمائی۔
(حديث مرفوع) قال عبد الله بن احمد: وجدت هذا الحديث في كتاب ابي بخط يده , حدثنا اسود بن عامر ، حدثنا ايوب بن عتبة ، حدثنا عكرمة بن خالد ، قال: سالت عبد الله بن عمر , عن امراة اراد ان يتزوجها رجل وهو خارج من مكة، فاراد ان يعتمر او يحج، فقال: لا تتزوجها وانت محرم،" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عنه".(حديث مرفوع) قَالَ عَبْد اللَّهِ بْنِ أَحْمَّد: وَجَدْتُ هَذَا الْحَدِيثَ فِي كِتَابِ أَبِي بِخَطِّ يَدِهِ , حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ عُتْبَةَ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ خَالِدٍ ، قَالَ: سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ , عَنِ امْرَأَةٍ أَرَادَ أَنْ يَتَزَوَّجَهَا رَجُلٌ وَهُوَ خَارِجٌ مِنْ مَكَّةَ، فَأَرَادَ أَنْ يَعْتَمِرَ أَوْ يَحُجَّ، فَقَالَ: لَا تَتَزَوَّجْهَا وَأَنْتَ مُحْرِمٌ،" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهُ".
عکرمہ بن خالد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے یہ مسئلہ پوچھا کہ اگر کوئی آدمی مکہ مکرمہ سے باہر کسی عورت سے نکاح کرنا چاہئے اور وہ حج یا عمرہ کا ارادہ بھی رکھتا ہو تو کیا حکم ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ حالت احرام میں نکاح نہ کرو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ممانعت فرمائی ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره ، وهذا إسناد ضعيف لضعف أيوب بن عتبة.