سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ عید کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نکلے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر اذان و اقامت کے پہلے نماز پڑھائی، پھر خطبہ دیا۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”اللہ تعالیٰ اپنی رخصتوں پر عمل کر نے کو اسی طرح پسند کرتا ہے جیسے اپنی نافرمانی کو ناپسند کرتا ہے۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں کھڑے ہو کر پانی پی لیتے تھے اور چلتے چلتے کھانا کھا لیتے تھے (کیونکہ جہاد کی مصروفیت میں کھانے پینے کی کے لئے وقت کہاں؟)۔
حكم دارالسلام: رجاله ثقات، وصححه الترمذي وابن حبان.
نافع رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو حجر اسود کا استلام کر کے اپنے ہاتھ کو بوسہ دیتے ہوئے دیکھا ہے اور وہ فرماتے تھے کہ میں نے جب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے،کبھی اسے ترک نہیں کیا۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے حوالے سے مروی ہے کہ وہ دس ذی الحجہ کو عیدگاہ میں ہی قربانی کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 982، وهذا إسناد حسن من أجل أسامة.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ کسی آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھا کہ رضاعت کے ثبوت کے لئے کتنے گواہوں کا ہونا کافی ہوتا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک مرد اور ایک عورت۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا، محمد بن عثيم مجمع على ضعفه.
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن محمد , قال عبد الله بن احمد: وسمعته انا من عبد الله بن محمد ، حدثنا ابو اسامة ، اخبرنا عمر بن حمزة ، اخبرني سالم , اخبرني ابن عمر , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , اتي بحاطب بن ابي بلتعة، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" انت كتبت هذا الكتاب؟" قال: نعم، اما والله، يا رسول الله، ما تغير الإيمان من قلبي، ولكن لم يكن رجل من قريش , إلا وله جذم واهل بيت يمنعون له اهله، وكتبت كتابا رجوت ان يمنع الله بذلك اهلي، فقال عمر: ائذن لي فيه، قال:" او كنت قاتله؟" قال: نعم، إن اذنت لي، قال:" وما يدريك لعله قد اطلع الله إلى اهل بدر"، فقال:" اعملوا ما شئتم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ , قَالَ عَبْدٌ الله بْنِ أَحْمَّد: وَسَمِعْتُهُ أَنَا مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ حَمْزَةَ ، أَخْبَرَنِي سَالِمٌ , أَخْبَرَنِي ابْنُ عُمَرَ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , أُتِيَ بِحَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنْتَ كَتَبْتَ هَذَا الْكِتَابَ؟" قَالَ: نَعَمْ، أَمَا وَاللَّهِ، يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا تَغَيَّرَ الْإِيمَانُ مِنْ قَلْبِي، وَلَكِنْ لَمْ يَكُنْ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ , إِلَّا وَلَهُ جِذْمٌ وَأَهْلُ بَيْتٍ يَمْنَعُونَ لَهُ أَهْلَهُ، وَكَتَبْتُ كِتَابًا رَجَوْتُ أَنْ يَمْنَعَ اللَّهُ بِذَلِكَ أَهْلِي، فَقَالَ عُمَرُ: ائْذَنْ لِي فِيهِ، قَالَ:" أَوَ كُنْتَ قَاتِلَهُ؟" قَالَ: نَعَمْ، إِنْ أَذِنْتَ لِي، قَالَ:" وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ قَدْ اطَّلَعَ اللَّهُ إِلَى أَهْلِ بَدْرٍ"، فَقَالَ:" اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سیدنا حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کو لایا گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ کیا یہ خط تم نے ہی لکھا ہے؟ انہوں نے اس کا اقرار کرتے ہوئے عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ کی قسم، میرے دل میں ایمان کے اعتبار سے کوئی تغیر واقع نہیں ہوا، بات اصل میں اتنی ہے کہ قریش کے ہر آدمی کا مکہ مکرمہ میں کوئی نہ کوئی حمایتی یا اس کے اہل خانہ موجود ہیں جو اس کے اعزہ و اقرباء کی حفاظت کرتے ہیں، میں نے انہیں یہ خط لکھ دیا تاکہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے ان میں سے کسی سے میرے اہل خانہ کی حفاظت کروا لے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس کی گردن اتاروں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم واقعی اسے مارو گے؟“ انہوں نے عرض کیا: جی ہاں! اگر آپ نے اجازت دے دی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں کیا معلوم کہ اللہ نے اہل بدر کو زمین پر جھانک کر دیکھا اور فرمایا تم جو چاہو کرو (میں نے تمہیں معاف کر دیا)۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف بهذه السياقة لضعف عمر بن حمزة.