(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن محمد , قال عبد الله بن احمد: وسمعته انا من عبد الله بن محمد ، حدثنا ابو اسامة ، اخبرنا عمر بن حمزة ، اخبرني سالم , اخبرني ابن عمر , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , اتي بحاطب بن ابي بلتعة، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" انت كتبت هذا الكتاب؟" قال: نعم، اما والله، يا رسول الله، ما تغير الإيمان من قلبي، ولكن لم يكن رجل من قريش , إلا وله جذم واهل بيت يمنعون له اهله، وكتبت كتابا رجوت ان يمنع الله بذلك اهلي، فقال عمر: ائذن لي فيه، قال:" او كنت قاتله؟" قال: نعم، إن اذنت لي، قال:" وما يدريك لعله قد اطلع الله إلى اهل بدر"، فقال:" اعملوا ما شئتم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ , قَالَ عَبْدٌ الله بْنِ أَحْمَّد: وَسَمِعْتُهُ أَنَا مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ حَمْزَةَ ، أَخْبَرَنِي سَالِمٌ , أَخْبَرَنِي ابْنُ عُمَرَ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , أُتِيَ بِحَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنْتَ كَتَبْتَ هَذَا الْكِتَابَ؟" قَالَ: نَعَمْ، أَمَا وَاللَّهِ، يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا تَغَيَّرَ الْإِيمَانُ مِنْ قَلْبِي، وَلَكِنْ لَمْ يَكُنْ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ , إِلَّا وَلَهُ جِذْمٌ وَأَهْلُ بَيْتٍ يَمْنَعُونَ لَهُ أَهْلَهُ، وَكَتَبْتُ كِتَابًا رَجَوْتُ أَنْ يَمْنَعَ اللَّهُ بِذَلِكَ أَهْلِي، فَقَالَ عُمَرُ: ائْذَنْ لِي فِيهِ، قَالَ:" أَوَ كُنْتَ قَاتِلَهُ؟" قَالَ: نَعَمْ، إِنْ أَذِنْتَ لِي، قَالَ:" وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ قَدْ اطَّلَعَ اللَّهُ إِلَى أَهْلِ بَدْرٍ"، فَقَالَ:" اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سیدنا حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کو لایا گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ کیا یہ خط تم نے ہی لکھا ہے؟ انہوں نے اس کا اقرار کرتے ہوئے عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ کی قسم، میرے دل میں ایمان کے اعتبار سے کوئی تغیر واقع نہیں ہوا، بات اصل میں اتنی ہے کہ قریش کے ہر آدمی کا مکہ مکرمہ میں کوئی نہ کوئی حمایتی یا اس کے اہل خانہ موجود ہیں جو اس کے اعزہ و اقرباء کی حفاظت کرتے ہیں، میں نے انہیں یہ خط لکھ دیا تاکہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے ان میں سے کسی سے میرے اہل خانہ کی حفاظت کروا لے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس کی گردن اتاروں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم واقعی اسے مارو گے؟“ انہوں نے عرض کیا: جی ہاں! اگر آپ نے اجازت دے دی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں کیا معلوم کہ اللہ نے اہل بدر کو زمین پر جھانک کر دیکھا اور فرمایا تم جو چاہو کرو (میں نے تمہیں معاف کر دیا)۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف بهذه السياقة لضعف عمر بن حمزة.