(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا شعبة ، عن عبد الله بن دينار ، قال: سمعت ابن عمر , يقول: كنا إذا بايعنا رسول الله صلى الله عليه وسلم على السمع والطاعة، يلقننا هو" فيما استطعت".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ , يَقُولُ: كُنَّا إِذَا بَايَعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ، يُلَقِّنُنَا هُوَ" فِيمَا اسْتَطَعْتَ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بات سننے اور اطاعت کرنے کی شرط پر بیعت لیا کرتے تھے، پھر فرماتے تھے کہ حسب استطاعت، (جہاں تک ممکن ہو گا تم بات سنو گے اور مانو گے)۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا ابو عوانة ، حدثنا عثمان بن عبد الله بن موهب ، قال: جاء رجل من مصر يحج البيت، قال: فراى قوما جلوسا، فقال: من هؤلاء القوم؟ فقالوا: قريش، قال: فمن الشيخ فيهم؟ قالوا: عبد الله بن عمر، قال: يا ابن عمر، إني سائلك عن شيء، او انشدك، او نشدتك بحرمة هذا البيت، اتعلم ان عثمان فر يوم احد؟ قال: نعم، قال: فتعلم انه غاب عن بدر فلم يشهده؟ قال: نعم، قال: وتعلم انه تغيب عن بيعة الرضوان؟ قال: نعم، قال: فكبر المصري، فقال ابن عمر : تعال ابين لك ما سالتني عنه , اما فراره يوم احد، فاشهد ان الله قد عفا عنه، وغفر له، واما تغيبه عن بدر، فإنه كانت تحته ابنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، وإنها مرضت، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لك اجر رجل شهد بدرا وسهمه"، واما تغيبه عن بيعة الرضوان، فلو كان احد اعز ببطن مكة من عثمان لبعثه، بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم عثمان، وكانت بيعة الرضوان بعدما ذهب عثمان، فضرب بها يده على يده، وقال:" هذه لعثمان"، قال: وقال ابن عمر: اذهب بهذا الآن معك!!.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ مِنْ مِصْرَ يَحُجُّ الْبَيْتَ، قَالَ: فَرَأَى قَوْمًا جُلُوسًا، فَقَالَ: مَنْ هَؤُلَاءِ الْقَوْمُ؟ فَقَالُوا: قُرَيْشٌ، قَالَ: فَمَنْ الشَّيْخُ فِيهِمْ؟ قَالُوا: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: يَا ابْنَ عُمَرَ، إِنِّي سَائِلُكَ عَنْ شَيْءٍ، أَوْ أَنْشُدُكَ، أَوْ نَشَدْتُكَ بِحُرْمَةِ هَذَا الْبَيْتِ، أَتَعْلَمُ أَنَّ عُثْمَانَ فَرَّ يَوْمَ أُحُدٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَتَعْلَمُ أَنَّهُ غَابَ عَنْ بَدْرٍ فَلَمْ يَشْهَدْهُ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: وَتَعْلَمُ أَنَّهُ تَغَيَّبَ عَنْ بَيْعَةِ الرِّضْوَانِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَكَبَّرَ الْمِصْرِيُّ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : تَعَالَ أُبَيِّنْ لَكَ مَا سَأَلْتَنِي عَنْهُ , أَمَّا فِرَارُهُ يَوْمَ أُحُدٍ، فَأَشْهَدُ أَنَّ اللَّهَ قَدْ عَفَا عَنْهُ، وَغَفَرَ لَهُ، وَأَمَّا تَغَيُّبُهُ عَنْ بَدْرٍ، فَإِنَّهُ كَانَتْ تَحْتَهُ ابْنَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنَّهَا مَرِضَتْ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَكَ أَجْرُ رَجُلٍ شَهِدَ بَدْرًا وَسَهْمُهُ"، وَأَمَّا تَغَيُّبُهُ عَنْ بَيْعَةِ الرِّضْوَانِ، فَلَوْ كَانَ أَحَدٌ أَعَزَّ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْ عُثْمَانَ لَبَعَثَهُ، بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُثْمَانَ، وَكَانَتْ بَيْعَةُ الرِّضْوَانِ بَعْدَمَا ذَهَبَ عُثْمَانُ، فَضَرَبَ بِهَا يَدَهُ عَلَى يَدِهِ، وَقَالَ:" هَذِهِ لِعُثْمَانَ"، قَالَ: وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: اذْهَبْ بِهَذَا الْآنَ مَعَكَ!!.
عثمان بن عبداللہ بن موہب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مصر سے ایک آدمی حج کے لئے آیا، اس نے حرم شریف میں کچھ لوگوں کو بیٹھے ہوئے دیکھا، اس نے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ پتہ چلا کہ قریش، اس نے پوچھا کہ ان میں سب سے بزرگ کون ہیں؟ لوگون نے بتایا سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما۔ وہ ان کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اے ابن عمر! میں آپ کو اس بیت اللہ کی حرمت کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا آپ جانتے ہیں، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ غزوہ احد کے دن بھاگے تھے؟ انہوں نے کہا، ہاں! پھر اس نے پوچھا:کیا آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ غزوہ بدر میں شریک نہیں ہوئے تھے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں! اس نے کہا: کیا آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ بیعت رضوان کے موقع پر بھی موجود نہ تھے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں! مصری اس بات پر بڑا خوش ہوا اور اس نے نعرہ تکبیر بلند کیا۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اب آؤ میں تمہیں ان تمام چیزوں کی حقیقت سے آگاہ کروں جن کے متعلق تم نے مجھ سے پوچھا ہے، جہاں تک غزوہ احد کے موقع پر بھاگنے کی بات ہے تو میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ نے ان سے در گزر کی اور انہیں معاف فرما دیا ہے، غزوہ بدر میں شریک نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی (سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا) جو کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں اس وقت بیمار تھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تھا کہ (تم یہیں رہ کر اس کی تیمارداری کرو) تمہیں غزوہ بدر کے شرکاء کے برابر اجر بھی ملے گا اور مال غنیمت کا حصہ بھی، رہی بیعت رضوان سے غیر حاضری تو اگر بطن مکہ میں عثمان سے زیادہ کوئی معزز ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی کو بھیجتے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو مکہ مکرمہ میں بھیجا تھا اور بیعت رضوان ان کے جانے کے بعد ہوئی تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر مار کر فرمایا تھا یہ عثمان کا ہاتھ ہے، اس کے بعد سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ان باتوں کو اپنے ساتھ لے کر چلا جا۔
(حديث مرفوع) حدثنا حسين بن محمد ، قال: حدثنا إسرائيل ، عن سماك ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عمر ، قال: سالت النبي صلى الله عليه وسلم , آشتري الذهب بالفضة، او الفضة بالذهب؟ قال:" إذا اخذت واحدا منهما بالآخر، فلا يفارقك صاحبك وبينك وبينه لبس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , آشْتَرِي الذَّهَبَ بِالْفِضَّةِ، أَوْ الْفِضَّةَ بِالذَّهَبِ؟ قَالَ:" إِذَا أَخَذْتَ وَاحِدًا مِنْهُمَا بِالْآخَرِ، فَلَا يُفَارِقْكَ صَاحِبُكَ وَبَيْنَكَ وَبَيْنَهُ لَبْسٌ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھا کہ میں سونے کو چاندی کے بدلے یا چاندی کو سونے کے بدلے خرید سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جب تم ان دونوں میں سے کسی ایک کو دوسرے کے بدلے وصول کرو، تو اس وقت تک اپنے ساتھی سے جدا نہ ہو جب تک تمہارے اور اس کے درمیان بیع کا کوئی معاملہ باقی ہو۔“
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن عبيد ، حدثنا عبيد الله ، عن نافع ، عن ابن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" من اقتنى كلبا إلا كلب ماشية، او كلب صيد، نقص من عمله كل يوم قيراطان"، وكان يامر بالكلاب ان تقتل.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَنْ اقْتَنَى كَلْبًا إِلَّا كَلْبَ مَاشِيَةٍ، أَوْ كَلْبَ صَيْدٍ، نَقَصَ مِنْ عَمَلِهِ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطَانِ"، وَكَانَ يَأْمُرُ بِالْكِلَابِ أَنْ تُقْتَلَ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”جو شخص ایسا کتا رکھے جو حفاظت کے لئے بھی نہ ہو اور نہ ہی شکاری کتا ہو تو اس کے ثواب میں روزانہ دو قیراط کمی ہوتی رہے گی۔“ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کتوں کو مار دینے کا حکم دیتے تھے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، وأخرج منه الأمر بقتل الكلاب، مسلم: 1570.
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن عبيد ، حدثنا عبيد الله ، عن نافع ، عن ابن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" إن الذي يجر ثوبه من الخيلاء، لا ينظر الله إليه يوم القيامة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِنَّ الَّذِي يَجُرُّ ثَوْبَهُ مِنَ الْخُيَلَاءِ، لَا يَنْظُرُ اللَّهُ إِلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص تکبر کی وجہ سے اپنے کپڑے گھسیٹتا ہوا چلتا ہے (کپڑے زمین پر گھستے جاتے ہیں) اللہ قیامت کے دن اس پر نظر رحم نہ فرمائے گا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن عبيد ، حدثنا عبيد الله ، عن نافع ، عن ابن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" صلاة في مسجدي هذا، افضل من الف صلاة في غيره، إلا المسجد الحرام".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" صَلَاةٌ فِي مَسْجِدِي هَذَا، أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ صَلَاةٍ فِي غَيْرِهِ، إِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مسجد حرام کو چھوڑ کر میری اس مسجد میں نماز پڑھنے کا ثواب دوسری مساجد کی نسبت ایک ہزار نمازوں سے افضل ہے۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تنہا نماز پڑھنے پر جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی فضیلت ستائیں درجے زیادہ ہے۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جس شخص کی نماز عصر فوت ہو جائے، گویا اس کے اہل خانہ اور مال تباہ و برباد ہو گیا۔“