Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

مسند احمد
مسنَد المكثِرِینَ مِنَ الصَّحَابَةِ
0
29. مسنَد عَبدِ اللَّهِ بنِ عمَرَ بنِ الخَطَّابِ رَضِیَ اللَّه تَعَالَى عَنهمَا
0
حدیث نمبر: 5772
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ مِنْ مِصْرَ يَحُجُّ الْبَيْتَ، قَالَ: فَرَأَى قَوْمًا جُلُوسًا، فَقَالَ: مَنْ هَؤُلَاءِ الْقَوْمُ؟ فَقَالُوا: قُرَيْشٌ، قَالَ: فَمَنْ الشَّيْخُ فِيهِمْ؟ قَالُوا: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: يَا ابْنَ عُمَرَ، إِنِّي سَائِلُكَ عَنْ شَيْءٍ، أَوْ أَنْشُدُكَ، أَوْ نَشَدْتُكَ بِحُرْمَةِ هَذَا الْبَيْتِ، أَتَعْلَمُ أَنَّ عُثْمَانَ فَرَّ يَوْمَ أُحُدٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَتَعْلَمُ أَنَّهُ غَابَ عَنْ بَدْرٍ فَلَمْ يَشْهَدْهُ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: وَتَعْلَمُ أَنَّهُ تَغَيَّبَ عَنْ بَيْعَةِ الرِّضْوَانِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَكَبَّرَ الْمِصْرِيُّ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : تَعَالَ أُبَيِّنْ لَكَ مَا سَأَلْتَنِي عَنْهُ , أَمَّا فِرَارُهُ يَوْمَ أُحُدٍ، فَأَشْهَدُ أَنَّ اللَّهَ قَدْ عَفَا عَنْهُ، وَغَفَرَ لَهُ، وَأَمَّا تَغَيُّبُهُ عَنْ بَدْرٍ، فَإِنَّهُ كَانَتْ تَحْتَهُ ابْنَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنَّهَا مَرِضَتْ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَكَ أَجْرُ رَجُلٍ شَهِدَ بَدْرًا وَسَهْمُهُ"، وَأَمَّا تَغَيُّبُهُ عَنْ بَيْعَةِ الرِّضْوَانِ، فَلَوْ كَانَ أَحَدٌ أَعَزَّ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْ عُثْمَانَ لَبَعَثَهُ، بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُثْمَانَ، وَكَانَتْ بَيْعَةُ الرِّضْوَانِ بَعْدَمَا ذَهَبَ عُثْمَانُ، فَضَرَبَ بِهَا يَدَهُ عَلَى يَدِهِ، وَقَالَ:" هَذِهِ لِعُثْمَانَ"، قَالَ: وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: اذْهَبْ بِهَذَا الْآنَ مَعَكَ!!.
عثمان بن عبداللہ بن موہب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مصر سے ایک آدمی حج کے لئے آیا، اس نے حرم شریف میں کچھ لوگوں کو بیٹھے ہوئے دیکھا، اس نے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ پتہ چلا کہ قریش، اس نے پوچھا کہ ان میں سب سے بزرگ کون ہیں؟ لوگون نے بتایا سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما۔ وہ ان کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اے ابن عمر! میں آپ کو اس بیت اللہ کی حرمت کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا آپ جانتے ہیں، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ غزوہ احد کے دن بھاگے تھے؟ انہوں نے کہا، ہاں! پھر اس نے پوچھا:کیا آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ غزوہ بدر میں شریک نہیں ہوئے تھے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں! اس نے کہا: کیا آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ بیعت رضوان کے موقع پر بھی موجود نہ تھے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں! مصری اس بات پر بڑا خوش ہوا اور اس نے نعرہ تکبیر بلند کیا۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اب آؤ میں تمہیں ان تمام چیزوں کی حقیقت سے آگاہ کروں جن کے متعلق تم نے مجھ سے پوچھا ہے، جہاں تک غزوہ احد کے موقع پر بھاگنے کی بات ہے تو میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ نے ان سے در گزر کی اور انہیں معاف فرما دیا ہے، غزوہ بدر میں شریک نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی (سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا) جو کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں اس وقت بیمار تھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تھا کہ (تم یہیں رہ کر اس کی تیمارداری کرو) تمہیں غزوہ بدر کے شرکاء کے برابر اجر بھی ملے گا اور مال غنیمت کا حصہ بھی، رہی بیعت رضوان سے غیر حاضری تو اگر بطن مکہ میں عثمان سے زیادہ کوئی معزز ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی کو بھیجتے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو مکہ مکرمہ میں بھیجا تھا اور بیعت رضوان ان کے جانے کے بعد ہوئی تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر مار کر فرمایا تھا یہ عثمان کا ہاتھ ہے، اس کے بعد سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ان باتوں کو اپنے ساتھ لے کر چلا جا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 3698.