(حديث مرفوع) حدثنا عبد العزيز ، حدثنا منصور ، عن مسلم بن صبيح ، قال: كنت مع مسروق في بيت فيه تمثال مريم، فقال مسروق: هذا تمثال كسرى؟ فقلت: لا، ولكن تمثال مريم، فقال مسروق : اما إني سمعت عبد الله بن مسعود يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم" إن اشد الناس عذابا يوم القيامة المصورون".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ ، حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ صُبَيْحٍ ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ مَسْرُوقٍ فِي بَيْتٍ فِيهِ تِمْثَالُ مَرْيَمَ، فَقَالَ مَسْرُوقٌ: هَذَا تِمْثَالُ كِسْرَى؟ فَقُلْتُ: لَا، وَلَكِنْ تِمْثَالُ مَرْيَمَ، فَقَالَ مَسْرُوقٌ : أَمَا إِنِّي سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" إِنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَذَابًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ الْمُصَوِّرُونَ".
مسلم بن صبیح کہتے ہیں کہ میں مسروق کے ساتھ ایک ایسے گرجے میں گیا جہاں حضرت مریم علیہا السلام کی مورتی رکھی ہوئی تھی، مسروق نے پوچھا: کیا یہ کسری کی مورتی ہے؟ میں نے کہا: نہیں، بلکہ حضرت مریم علیہا السلام کی مورتی ہے، فرمایا: میں نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہوئے سنا ہے کہ ”قیامت کے دن سب سے زیادہ سخت عذاب تصویر ساز لوگوں کو ہو گا۔“
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جسے خواب میں میری زیارت نصیب ہو جائے، اسے یقین کر لینا چاہئے کہ اس نے میری ہی زیارت کی ہے کیونکہ شیطان میری شکل و صورت اختیار کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا إسحاق ، حدثنا الاعمش ، عن ابي وائل ، عن عبد الله بن مسعود ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا كنتم ثلاثة، فلا يتناجى اثنان دون صاحبهما، فإن ذلك يحزنه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا كُنْتُمْ ثَلَاثَةً، فَلَا يَتَنَاجَى اثْنَانِ دُونَ صَاحِبِهِمَا، فَإِنَّ ذَلِكَ يَحْزُنُهُ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب تم تین آدمی ہو تو تیسرے کو چھوڑ کر دو آدمی سرگوشی نہ کرنے لگا کرو کیونکہ اس سے تیسرے کو غم ہوگا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن فضيل ، عن خصيف ، حدثنا ابو عبيدة ، عن عبد الله ، قال:" صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة الخوف، فقاموا صفين، فقام صف خلف النبي صلى الله عليه وسلم، وصف مستقبل العدو، فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بالصف الذين يلونه ركعة، ثم قاموا فذهبوا، فقاموا مقام اولئك مستقبل العدو، وجاء اولئك فقاموا مقامهم، فصلى بهم رسول الله صلى الله عليه وسلم ركعة، ثم سلم، ثم قاموا فصلوا لانفسهم ركعة، ثم سلموا، ثم ذهبوا فقاموا مقام اولئك مستقبل العدو، ورجع اولئك إلى مقامهم، فصلوا لانفسهم ركعة، ثم سلموا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، عَنْ خُصَيْفٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عُبَيْدَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ:" صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْخَوْفِ، فَقَامُوا صَفَّيْنِ، فَقَامَ صَفٌّ خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَصَفٌّ مُسْتَقْبِلَ الْعَدُوِّ، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالصَّفِّ الَّذِينَ يَلُونَهُ رَكْعَةً، ثُمَّ قَامُوا فَذَهَبُوا، فَقَامُوا مَقَامَ أُولَئِكَ مُسْتَقْبِلَ الْعَدُوِّ، وَجَاءَ أُولَئِكَ فَقَامُوا مَقَامَهُمْ، فَصَلَّى بِهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَةً، ثُمَّ سَلَّمَ، ثُمَّ قَامُوا فَصَلَّوْا لِأَنْفُسِهِمْ رَكْعَةً، ثُمَّ سَلَّمُوا، ثُمَّ ذَهَبُوا فَقَامُوا مَقَامَ أُولَئِكَ مُسْتَقْبِلَ الْعَدُوِّ، وَرَجَعَ أُولَئِكَ إِلَى مَقَامِهِمْ، فَصَلَّوْا لِأَنْفُسِهِمْ رَكْعَةً، ثُمَّ سَلَّمُوا".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز خوف پڑھائی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دو صفوں میں کھڑے ہوئے، ایک صف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اور دوسری صف دشمن کے سامنے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے صف میں کھڑے ہوئے لوگوں کو ایک رکعت پڑھائی، پھر یہ لوگ کھڑے ہو کر چلے گئے اور ان لوگوں کی جگہ جا کر دشمن کے سامنے کھڑے ہو گئے اور دوسری صف والے آ گئے اور پہلی صف والوں کی جگہ پر کھڑے ہو گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی ایک رکعت پڑھائی اور خود سلام پھیر دیا، پھر ان لوگوں نے کھڑے ہو کر خود ہی ایک رکعت پڑھی اور سلام پھیر کر پہلی صف والوں کی جگہ جا کر دشمن کے سامنے کھڑے ہو گئے اور پہلی صف والوں نے اپنی جگہ واپس آ کر ایک رکعت پڑھی اور سلام پھیر دیا۔
حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، أبو عبيدة لم يسمع من عبدالله وهو أبوه
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن فضيل ، حدثنا خصيف الجزري ، قال: حدثني ابو عبيدة بن عبد الله ، عن عبد الله ، قال: علمه رسول الله صلى الله عليه وسلم التشهد، وامره ان يعلم الناس:" التحيات لله، والصلوات والطيبات السلام عليك ايها النبي ورحمة الله وبركاته، السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين، اشهد ان لا إله إلا الله، واشهد ان محمدا عبده ورسوله".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، حَدَّثَنَا خُصَيْفٌ الْجَزَرِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: عَلَّمَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التَّشَهُّدَ، وَأَمَرَهُ أَنْ يُعَلِّمَ النَّاسَ:" التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ، وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کلمات تشہد سکھائے اور لوگوں کو بھی سکھانے کا حکم دیا: «التَّحِيَّاتُ لِلّٰهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَكَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللّٰهِ الصَّالِحِينَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ» جن کا ترجمہ یہ ہے کہ ”تمام قولی، فعلی اور بدنی عبادتیں اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہیں، اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ پر سلام ہو اور اللہ کی رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہو، ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر سلامتی نازل ہو، میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔“
حكم دارالسلام: صحيح، خ: 831، م: 402، وهذا إسناد ضعيف الانقطاعه، أبو عبيدة لم يسمع من أبيه
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن فضيل ، حدثنا الاعمش ، عن إبراهيم ، عن علقمة ، عن عبد الله ، قال: كنا نسلم على رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو في الصلاة، فيرد علينا، فلما رجعنا من عند النجاشي سلمنا عليه، فلم يرد علينا، فقلنا: يا رسول الله، كنا نسلم عليك في الصلاة، فترد علينا؟ فقال:" إن في او في الصلاة لشغلا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كُنَّا نُسَلِّمُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ، فَيَرُدُّ عَلَيْنَا، فَلَمَّا رَجَعْنَا مِنْ عِنْدِ النَّجَاشِيِّ سَلَّمْنَا عَلَيْهِ، فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْنَا، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كُنَّا نُسَلِّمُ عَلَيْكَ فِي الصَّلَاةِ، فَتَرُدُّ عَلَيْنَا؟ فَقَالَ:" إِنَّ فِيَّ أَوْ فِي الصَّلَاةِ لَشُغْلًا".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ابتدا میں ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دوران نماز سلام کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواب دے دیتے تھے، لیکن جب ہم نجاشی کے یہاں سے واپس آئے اور انہیں سلام کیا تو انہوں نے جواب نہ دیا، ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! پہلے تو ہم دوران نماز آپ کو سلام کرتے تھے اور آپ جواب دے دیتے تھے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دراصل نماز میں مشغولیت ہوتی ہے۔“
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تنہا نماز پڑھنے پر جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی فضیلت بیس سے کچھ اوپر درجے زیادہ ہے۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، عطاء بن السائب مختلط - قد توبع
(حديث مرفوع) حدثنا عمرو بن الهيثم ابو قطن ، حدثنا المسعودي ، عن سعيد بن عمرو ، عن ابي عبيدة ، عن عبد الله بن مسعود ، ان رجلا اتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: متى ليلة القدر؟ قال:" من يذكر منكم ليلة الصهباوات؟ قال عبد الله: انا، بابي انت وامي، وإن في يدي لتمرات استحر بهن، مستترا بمؤخرة رحلي من الفجر، وذلك حين طلع القمر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ الْهَيْثَمِ أَبُو قَطَنٍ ، حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، أَنّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَتَى لَيْلَةُ الْقَدْرِ؟ قَالَ:" مَنْ يَذْكُرُ مِنْكُمْ لَيْلَةَ الصَّهْبَاوَاتِ؟ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: أَنَا، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، وَإِنَّ فِي يَدِي لَتَمَرَاتٍ أَسْتَحِرُ بِهِنَّ، مُسْتَتِرًا بِمُؤْخِرَةِ رَحْلِي مِنَ الْفَجْرِ، وَذَلِكَ حِينَ طَلَعَ الْقَمَرُ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے آ کر بارگاہ رسالت میں عرض کیا کہ شب قدر کب ہوگی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے وہ رات کسے یاد ہے جو سرخ و سفید ہو رہی تھی؟“ میں نے عرض کیا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، مجھے یاد ہے، میرے ہاتھ میں اس وقت کچھ کھجوریں تھیں اور میں چھپ کر اپنے کجاوے کے پچھلے حصے میں ان سے سحری کر رہا تھا اور اس وقت چاند نکلا ہوا تھا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، أبو عبيدة لم يسمع من عبدالله
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھولے سے ظہر کی نماز میں چار کی بجائے پانچ رکعتیں پڑھا دیں، کسی نے پوچھا: کیا نماز میں اضافہ ہو گیا ہے کہ آپ نے پانچ رکعتیں پڑھا دیں؟ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سہو کے دو سجدے کر لئے۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تنہا نماز پڑھنے پر جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی فضیلت پچیس درجے زیادہ ہے اور ہر درجہ اس کی نماز کے برابر ہوگا۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا سند ضعيف لانقطاعه، قتادة لم يسمع من أبى الأحوص، ومحمد بن أبى عدي سمع من سعيد بعد اختلاطه