(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عقبة بن حريث ، سمعت ابن عمر ، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الشهر تسع وعشرون"، وطبق شعبة يديه ثلاث مرات، وكسر الإبهام في الثالثة، قال عقبة: واحسبه قال:" والشهر ثلاثون"، وطبق كفيه ثلاث مرات.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ حُرَيْثٍ ، سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ"، وَطَبَّقَ شُعْبَةُ يَدَيْهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، وَكَسَرَ الْإِبْهَامَ فِي الثَّالِثَةِ، قَالَ عُقْبَةُ: وَأَحْسِبُهُ قَالَ:" وَالشَّهْرُ ثَلَاثُونَ"، وَطَبَّقَ كَفَّيْهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بعض اوقات مہینہ اتنا، اتنا اور اتنا ہوتا ہے، تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگوٹھا بند کر لیا اور بعض اوقات اتنا اتنا اور اتنا ہوتا ہے یعنی پورے ٣٠ کا۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عقبة بن حريث ، سمعت ابن عمر ، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" التمسوها في العشر الاواخر، يعني ليلة القدر، فإن ضعف احدكم او عجز، فلا يغلبن على السبع البواقي".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ حُرَيْثٍ ، سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ، يَعْنِي لَيْلَةَ الْقَدْرِ، فَإِنْ ضَعُفَ أَحَدُكُمْ أَوْ عَجَزَ، فَلَا يُغْلَبَنَّ عَلَى السَّبْعِ الْبَوَاقِي".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شب قدر کو آخری عشرے میں تلاش کیا کرو اگر اس سے عاجز آ جاؤ یا کمزور ہو جاؤ تو آخری سات راتوں پر مغلوب نہ ہونا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن ثابت ، سالت ابن عمر عن نبيذ الجر" اهل نهى عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: زعموا ذلك، فقلت: النبي صلى الله عليه وسلم نهى؟ فقال: قد زعموا ذلك، فقلت: انت سمعته منه؟ فقال: قد زعموا ذلك"، فصرفه الله عني، وكان إذا قيل لاحدهم انت سمعته؟ غضب، وهم يخاصمه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ ثَابِتٍ ، سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ عَنْ نَبِيذِ الْجَرِّ" أَهَلْ نَهَى عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: زَعَمُوا ذَلِكَ، فَقُلْتُ: النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى؟ فَقَالَ: قَدْ زَعَمُوا ذَلِكَ، فَقُلْتُ: أَنْتَ سَمِعْتَهُ مِنْهُ؟ فَقَالَ: قَدْ زَعَمُوا ذَلِكَ"، فَصَرَفَهُ اللَّهُ عَنِّي، وَكَانَ إِذَا قِيلَ لِأَحَدٍهم أَنْتَ سَمِعْتَهُ؟ غَضِبَ، وَهَمَّ يُخَاصِمُهُ.
ثابت بنانی رحمہ اللہ کہتے کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ کیا مٹکے کی نبیذ سے ممانعت کی گئی ہے؟ انہوں نے فرمایا: ”ان کا یہی کہنا ہے میں نے پوچھا کن کا کہنا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انہوں نے فرمایا: ”ان کا یہی کہنا ہے میں نے دوبارہ یہی سوال پوچھا اور انہوں نے یہی جواب دیا، بس اللہ نے مجھے اس دن ان سے بچا لیا کیونکہ جب ان سے کوئی شخص یہ پوچھتا کہ واقعی آپ نے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے تو وہ غصے میں آ جاتے تھے اور اس شخص کی طرف متوجہ ہو جاتے تھے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص کسی ایسے درخت کو فروخت کرے جس میں کھجوروں کی پیوندکاری کی گئی ہو تو اس کا پھل بائع (بچنے والا) کی ملیکت میں ہو گا الاّ یہ کہ مشتری (خریدنے والا) خریدتے وقت اس کی بھی شرط لگا دے (کہ میں یہ درخت پھل سمیت خرید رہا ہوں)۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص جمعہ کے لئے آئے تو اسے چاہئے کہ غسل کر کے آئے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن انس بن سيرين ، انه سمع ابن عمر ، قال: طلقت امراتي وهي حائض، فاتى عمر النبي صلى الله عليه وسلم، فاخبره، فقال:" مره فليراجعها، ثم إذا طهرت فليطلقها"، قلت لابن عمر: احسب تلك التطليقة؟ قال: فمه؟!.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ سِيرِينَ ، أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عُمَرَ ، قَالَ: طَلَّقْتُ امْرَأَتِي وَهِيَ حَائِضٌ، فَأَتَى عُمَرُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ:" مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا، ثُمَّ إِذَا طَهُرَتْ فَلْيُطَلِّقْهَا"، قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ: أَحَسِبَ تِلْكَ التَّطْلِيقَةَ؟ قَالَ: فَمَهْ؟!.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیوی کو ”ایام“ کی حالت میں طلاق دے دی، سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکر ہ کیا تو انہوں نے فرمایا: ”اسے کہو کہ اپنی بیوی سے رجوع کر لے، جب وہ ”پاک“ ہو جائے تو ان ایام طہارت میں اسے طلاق دے دے۔ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کیا اس طلاق کو شمار کیا تھا انہوں نے فرمایا: تو اور کیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن انس بن سيرين ، قال: سالت ابن عمر: ما اقرا في الركعتين قبل الصبح؟ فقال ابن عمر : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي بالليل مثنى مثنى، ويوتر بركعة من آخر الليل، قال انس: قلت: فإنما اسالك ما اقرا في الركعتين قبل الصبح؟! فقال: به، به، إنك لضخم! إنما احدث او قال: إنما اقتص لك الحديث، كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" يصلي بالليل ركعتين ركعتين، ثم يوتر بركعة من آخر الليل، ثم يقوم كان الاذان او الإقامة في اذنيه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ سِيرِينَ ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ: مَا أَقْرَأُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ الصُّبْحِ؟ فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِاللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى، وَيُوتِرُ بِرَكْعَةٍ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ، قَالَ أَنَسٌ: قُلْتُ: فَإِنَّمَا أَسْأَلُكَ مَا أَقْرَأُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ الصُّبْحِ؟! فَقَالَ: بَهْ، بَهْ، إِنَّكَ لَضَخْمٌ! إِنَّمَا أُحَدِّثُ أَوْ قَالَ: إِنَّمَا أَقْتَصُّ لَكَ الْحَدِيثَ، كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يُصَلِّي بِاللَّيْلِ رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ يُوتِرُ بِرَكْعَةٍ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ، ثُمَّ يَقُومُ كَأَنَّ الْأَذَانَ أَوْ الْإِقَامَةَ فِي أُذُنَيْهِ".
انس بن سیرین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک مرتبہ پوچھا کہ کیا میں فجر کی سنتوں میں کون سی سورت پڑھا کروں انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کی نماز دو دو رکعت کر کے پڑھتے تھے، میں نے عرض کیا کہ میں آپ سے فجر کی سنتوں کے بارے میں پوچھ رہا ہوں انہوں نے فرمایا: تم بڑی موٹی عقل کے آدمی ہو دیکھ نہیں رہے کہ میں ابھی بات کا آغاز کر رہا ہوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کی نماز دو دو رکعت کر کے پڑھتے تھے اور جب طلوع صبح صادق کا اندیشہ ہوتا تو ایک رکعت ملا کر وتر پڑھ لیتے پھر سر رکھ کر لیٹ جاتے پھر اٹھ کر فجر کی سنتیں اس وقت پڑھتے جب اذان کی آواز کانوں میں آرہی ہوتی تھی۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، سمعت عبد ربه بن سعيد يحدث، عن نافع ، عن ابن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" ايما رجل باع نخلا قد ابرت فثمرتها للاول، وايما رجل باع مملوكا وله مال، فماله لربه الاول، إلا ان يشترط المبتاع"، قال شعبة: فحدثته بحديث ايوب، عن نافع، انه حدث بالنخل عن النبي صلى الله عليه وسلم، والمملوك عن عمر، قال عبد ربه: لا اعلمهما جميعا إلا عن النبي صلى الله عليه وسلم، ثم قال مرة اخرى: فحدث عن النبي صلى الله عليه وسلم، ولم يشك.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، سَمِعْتُ عَبْدَ رَبِّهِ بْنَ سَعِيدٍ يُحَدِّثُ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" أَيُّمَا رَجُلٍ بَاعَ نَخْلًا قَدْ أُبِّرَتْ فَثَمَرَتُهَا لِلْأَوَّلِ، وَأَيُّمَا رَجُلٍ بَاعَ مَمْلُوكًا وَلَهُ مَالٌ، فَمَالُهُ لِرَبِّهِ الْأَوَّلِ، إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ"، قَالَ شُعْبَةُ: فَحَدَّثْتُهُ بِحَدِيثِ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّهُ حَدَّثَ بِالنَّخْلِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالْمَمْلُوكِ عَنْ عُمَرَ، قَالَ عَبْدُ رَبِّهِ: لَا أَعْلَمُهُمَا جَمِيعًا إِلَّا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ مَرَّةً أُخْرَى: فَحَدَّثَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَشُكَّ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص کسی ایسے درخت کو فروخت کرے جس میں کھجوروں کی پیوند کاری کی گئی ہو تو اس کا پھل بائع (بچنے والا) کی ملیکت میں ہو گا الاّ یہ کہ مشتری (خریدنے والا) خریدتے وقت اس کی بھی شرط لگا دے (کہ میں یہ درخت پھل سمیت خرید رہا ہوں) اور جو شخص کسی مالدار غلام کو بیچے تو اس کا مالک اس کے پہلے آقا کا ہو گا الاّ یہ کہ مشتری (خریدنے والا) اس کی شرط لگا دے۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح ، وهذا الإسناد على شرط الشيخين ، إلا أنه وهم عبدربه من سعيد في رفع القصتين عن نافع : قصة النخل وقصة العبد ...... والمحفوظ أن نافعارفع قصة النخل ووقف قصة العبد .
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، سمعت صدقة بن يسار ، سمعت ابن عمر يحدث، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم انه" وقت لاهل المدينة ذا الحليفة، ولاهل الشام الجحفة، ولاهل نجد قرنا، ولاهل العراق ذات عرق، ولاهل اليمن يلملم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، سَمِعْتُ صَدَقَةَ بْنَ يَسَارٍ ، سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ يُحَدِّثُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ" وَقَّتَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ ذَا الْحُلَيْفَةِ، وَلِأَهْلِ الشَّأْمِ الْجُحْفَةَ، وَلِأَهْلِ نَجْدٍ قَرْنًا، وَلِأَهْلِ الْعِرَاقِ ذَاتَ عِرْقٍ، وَلِأَهْلِ الْيَمَنِ يَلَمْلَمَ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مدینہ کے لئے ذوالحلیفہ، اہل شام کے لئے جحفہ، اہل یمن کے لئے یلملم اور اہل نجد کے لئے قرن اور اہل عراق کے لئے ذات عرق کو میقات فرمایا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح دون ذكر ميقات أهل العراق ، فشاذ .
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا حسين المعلم ، عن عمرو بن شعيب ، عن طاوس ، عن ابن عمر ، وابن عباس ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال:" لا يحل لرجل ان يعطي العطية، ثم يرجع فيها، إلا الوالد فيما يعطي ولده، ومثل الذي يعطي العطية ثم يرجع فيها كمثل الكلب، اكل حتى إذا شبع قاء ثم عاد فيه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ طَاوُسٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، وَابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:" لَا يَحِلُّ لِرَجُلٍ أَنْ يُعْطِيَ الْعَطِيَّةَ، ثُمَّ يَرْجِعَ فِيهَا، إِلَّا الْوَالِدَ فِيمَا يُعْطِي وَلَدَهُ، وَمَثَلُ الَّذِي يُعْطِي الْعَطِيَّةَ ثُمَّ يَرْجِعُ فِيهَا كَمَثَلِ الْكَلْبِ، أَكَلَ حَتَّى إِذَا شَبِعَ قَاءَ ثُمَّ عَادَ فِيهِ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کسی شخص کے لئے حلال نہیں ہے کہ وہ کسی کو کوئی ہدیہ پیش کرے اور اس کے بعد اسے واپس مانگ لے البتہ باپ اپنے بیٹے کو کچھ دے کر اگر واپس لیتا ہے تو وہ مستثنی ہے جو شخص کسی کو کوئی ہدیہ دے اور پھر واپس مانگ لے اس کی مثال اس کتے کی سی ہے جو کوئی چیز کھائے جب اچھی طرح سیراب ہو جائے تو اسے قے کر دے اور پھر اسی قے کو چاٹنا شروع کر دے۔“